متفرق مضامین

ایک حبشی غلام کے سردار بننے کی داستان

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

ظلم و ستم

ابو سفیان، ابولہب اور اُمیہ بن خلف رئیسِ قریش تھے، مکہ میں ان کا ایک مقام تھا۔ ایک دن اسلام کے معاملہ پر اپنے دیگر ساتھیوںسمیت کعبہ کی دیوار کے سائے میں اکٹھے تھے اُن ساتھیوں میں اُمیہ بن خلف کا ایک غلام بھی شامل تھا۔ اس میٹنگ کا ایجنڈا صرف ایک تھا کہ کیسے عبداللہ کے بیٹے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شروع کردہ اِس نئے دین کو روکا جاسکتا ہے؟ یہ نیا دین ان کے نوجوانوں کو باپ دادوں کے دین سے اُکھاڑ رہا ہے۔ ہر کوئی وہاں محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُس پر اُترنے والے فرشتے اور نئی تعلیم کو ٹھٹھااور تمسخر کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اِتنے میں وہاں سے عمار بن یاسرؓ کا گزر ہوا۔ عمارؓ کوئی غلام تو نہ تھے مگر کوئی مالدار آدمی بھی نہ تھے۔ غریب آدمی تھے، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین قبول کر کے مسلمان ہو چکے تھے۔ اِن سرداروں نے عمارؓ کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ بتاؤ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں کیا سیکھاتا ہے؟ عمار نے جواب دیا:’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، ہمیں اُسی کی عبادت کرنی چاہیے، ہم سب اُس کے بندے اور آپس میں برابر ہیں جس طرح کنگھی کے دندے۔‘‘

یہ سن کر تمام جہاں تمام رؤسا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ابوسفیان نے عماؓر کی کمر پہ زور سے اپنا کوڑا مارا۔ وہاں اُمیہ کے غلام کی ہڈیاں تک سُن ہو گئیں کہ کیا وہ اور اُس کا آقا اُمیہ برابر ہیں۔ وہ اپنی ریشمی قبا سنبھالتا عمارؓ کے پاس گیا اور کہا کہ اے عمار! یہ میرا غلام ہےمیں نے اسے رقم دےکر خریدا ہے کیا یہ اور میں برابر ہیں؟

عمارؓ نے بڑے سکون سے جواب دیا ’’ہاں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سکھاتے ہیں کہ تمام آدمی، تمام قومیں، تمام نسلیں برابر ہیں‘‘۔

اِس جواب نے غلام کی دُنیا بدل دی مگر ابھی اس کی آزمائش ختم نہیں ہوئی تھی۔ اُمیہ نے غصے میں جھاگ اُڑاتے ہوئے اپنا کوڑا اپنے غلام کی طرف پھینکا اور حکم دیا کے عمؓار کے منہ پر کوڑا مارو اور اُسے بتاؤ کہ سردارِ مکہ اور اُس کا غلام برابر نہیں۔ عمارؓ نے بڑے سکون سےاس غلام کو دیکھا اور اپنا منہ اس کی طرف کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اس غلام کے دل پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نقش ثبت ہوگیا، اُمیہ اس کے صرف جسم کا مالک رہ گیا مگر روح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر قربان ہوگئی۔ اس غلام سے کوڑا اُٹھایا نہ گیا۔ عمارؓ جھکے اور اُنہوںنے کوڑا اُٹھا کر اس غلام کو تھمایا اور کہا ’’یہ کوڑا لو اور اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کرو ورنہ یہ تمہیں بہت سخت سزا دیں گے‘‘۔مگر غلام ’بغاوت‘ کرکے دُنیا و مافیہا کے نتائج سے پرے ایمان و محبت کی سرحد میں قدم رکھ چکا تھا جہاں محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خدا اس کا آقا تھا جو واحد تھا اور جس کے ہاں سب برابر تھے۔ غلام نے کوڑا پھینک دیا۔ اُمیہ مارے غصے کے کچھ بول نہ سکا پھر چند لمحوں بعدکہنےلگا اے غلام! میرے گھر میں صرف میرے دیوتاؤں کی جگہ ہے وہاں کوئی اور خدا نہیں آسکتا، ابھی تو دن ڈھل گیا ہے تمہاری ا س گستاخی کی تمہیں کل سزا ملے گی۔ غلام نے سر جھکا دیا، اس کے تمام ڈر خوف ہوا ہو چکے تھے۔

اگلا دن اس غلام کے لیے سخت طلوع ہوا اس کے گلے میں رسی ڈال کر ہاتھ پیر باندھ دیے گئے، مکہ کی تپتی ریت پر اس کو ننگا لٹا دیاگیا، سینے پر چکی کا بھاری پاٹ رکھ کر اُمیہ نے کہا بول لات اور عزیٰ تیرے خدا ہیں اور سب سے بڑے ہیں۔ مگر غلام کی آنکھوںکے سامنے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا شفیق و مہربان چہرہ تھا اور زبان پہ ایک ہی کلمہ ’’اَحد‘‘’’اَحد‘‘۔

ہر آنے والے دن اس غلام کو ماراپیٹا گیا، مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ ظلم و جبر کا یہ سلسلہ تمام دن جاری رہتا اور رات کو اس غلام کی مشکیں کس کے ڈال دیا جاتا، بھوکا پیاسا رکھا جاتا مگر اس کی زبان سے ’’اَحد‘‘ دور نہ ہو سکا۔

یوم آزادی

ایسے ہی ایک دن جب یہ غلام تپتی ریت پر لٹایا ہوا تھا اور اس کا مالک اُمیہ اور ابوسفیان اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو یہ غلام بھوک پیاس کے مارے بیہوش ہوگیا، اس پر موت کی غشی طاری ہو گئی کہ اس نے ایک شیریں آواز سنی جو اس غلام کو خریدنے کا کہہ رہی تھی۔ابوسفیان نے کہا اس غلام کو ابھی بیچا نہیں جا سکتا مگر اُمیہ اپنے غلام کی حالت دیکھ کر جان چکا تھا کہ اس کی موت قریب ہے۔ اس نے کہاسو دینار پر بیچوں گا، اتنے میں اس غلام نے آنکھیں کھولیں تو اُمیہ نے کہا نہیں یہ زندہ ہے۔ اب میں اس کو دوسو دینار میں بیچوں گا۔ اس شیریں آواز کے مالک نے اُمیہ کو دوسو دینار دیے اور اس غلام کو خرید لیا۔ اس مہربان کے ساتھی نے غلام کے سینے سے چکی اتاری اوررسیاں کھولیں اس کو سہارا دےکر کھڑا کیا۔ اُمیہ نے قہقہ لگایا اور کہا کہ ابوبکرؓتم نے گھاٹے کا سودہ کیا میں تو اسے سو دینار میں بھی بیچ دیتا تب غلام کو معلوم ہوا کہ اس کے خریدار کا نام ابوبکرؓ ہے۔ اور اس کا ساتھی جو اسے سہارا دے رہا تھا اس کا نام زیدؓ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ بولا بیٹا ہے۔ ابوبکرؓ نے اُمیہ کو جواب دیا اے امیہ! تُم نے اصل میں اس غلام کی صحیح قیمت نہیں لگائی میں تو اس کے ایک ہزار دینار بھی دے دیتا۔ پھر وہ اس غلام کو سہارا دےکر اپنے گھر لے گئے جہاں پانچ دن تک یہ غلام بیہوش رہا۔ چھٹے دن جب ہوش آئی تو ابوبکرؓ نے اپنے ہاتھوں سے بکری کا دودھ نکالا اور غلام کو پلایا اور کہا اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک تمہارےسرہانے تمہارے لیے دعائیں کی ہیں تب جاکر تمہارابخار اور بیہوشی ٹوٹی ہے۔

پھر اس غلام کو ابوبکرؓ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لےگئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کا گرم جوشی سے استقبال کیااور مصافحہ اور معانقہ کیا۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کر اس غلام نے کلمہ شہادت پڑھا اور باضابطہ ایمان لےآئے۔ (ماخوذ از سوانح سیدنا بلال مصنف حسن محمد خان عارف ایم اے)

نام ونسب

اس غلام کا نام بلالؓ بن رباح تھا۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلالؓ کو ننگا لٹا دیا جاتا تھا۔ تم دیکھو ننگے پاؤں میں مئی اور جون میں نہیں چل سکتے۔ اس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا۔ پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نوجوان اس کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہ کہوخدا کے سوا اَور معبود ہیں۔ کہو محمد رسول اللہ جھوٹا ہے اور بلالؓ آگے سے اپنی حبشی زبان میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے تھے اَسْھَدُاَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کہ وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو میں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھوٹاکس طرح کہہ دوں؟ اس پر وہ اَور مارنا شروع کر دیتے تھے۔ گرمیوں کے مہینوں کے موسم میں، ان مہینوں میں جب گرمیاں ہوتی ہیں اس موسم میں اس کے ساتھ یہی حال ہوتا تھا۔ اسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ ان کے پیروں میں رسّی ڈال کر انہیں مکہ کی پتھروںوالی گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔ ان کا چمڑازخمی ہو جاتا تھا یعنی کھال زخمی ہو جاتی تھی۔ وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ کہو خدا کے سوا اَور معبود ہیں تو وہ کہتے اَسْھَدُاَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ (ماخوذ از سیر روحانی، انوار العلوم جلد 24 صفحہ 268 تا 273)

شانِ بلالؓ

اللہ تعالیٰ نے بلالؓ کو ملنے والی تکالیف کے عوض بہت بلند شان عطا کی، آپ کو مؤذن رسولؐ کا خطاب ملا۔ حضرت بلالؓ کو سب سےپہلا مؤذن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ان کے لیے سفر و حضر میں مؤذن رہے اور آپ اسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اذان دی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 416 ’’بلال بن رباح‘‘دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2016ء)فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دینے کا شرف ملااور وہی مکہ جس کی گلیوں میں بلال ؓکو مارا پیٹا جاتا تھا جب فتح ہوا توانہی گلیوں میں بلالؓ کی آواز گونج رہی تھی کہ جو میرے جھنڈے تلے آئے گا وہ امان دیا جائے گا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت عمر و عثما ن و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے جید اصحاب موجود تھے مگر یہ شرف حضرت سیّدنا بلالؓ کو حاصل ہوا۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلالؓ کیا ہی اچھا انسان ہے۔ وہ تمام مؤذنوں کا سردار ہے۔ اس کی پیروی کرنے والےصرف مؤذن ہی ہوں گے اور قیامت کے دن سب سے لمبی گردنوں والے مؤذن ہی ہوں گے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر بلال بن رباح، حدیث: 5244جلد 03 صفحہ 322، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) ایک صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو بلایا اور پوچھا۔ اے بلالؓ!کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں مجھ سے آگے رہتےہو۔ جب کل شام مَیں جنت میں داخل ہوا تو مَیں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ مَیںجب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نفل نماز پڑھتا ہوں اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو مَیں وضو کر لیتا ہوں اور مَیں خیال کرتاہوں کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر دو رکعت ادا کرنا واجب ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہی وجہ ہے۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب)ایک اور موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کی مثال تو شہد کی مکھی جیسی ہے جو میٹھے پھلوں اور کڑوی بوٹیوں سے بھی رَس چوستی ہے مگر جب شہد بنتا ہے تو سارے کا سارا شیریں ہو جاتا ہے۔ سب میٹھا ہو جاتا ہے۔ (مجمع الزوائد کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذن جلد 09 صفحہ 364حدیث 15639، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت تین لوگوں سے ملنے کی بہت مشتاق ہے۔ علیؓ، عمارؓ اور بلالؓ۔ (سیراعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 355، ’’بلال بن رباح‘‘مؤسسہ الرسالۃ 2014ء)

ہمارے آقا سیّدنا بلالؓ

آپؓ کو عشقِ رسولﷺ کی وجہ سے ایسا مقام ملا کہ خلیفۂ وقت عمرؓ آپ کو ’’سیدنا بلال‘‘ کہہ کر پکارتے۔ آپ کے آنے پر اپنی مسند پر بٹھاتے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مجھے جنت کی طرف رات کو لے جایا گیا تو مَیں نے قدموں کی چاپ سنی۔ مَیں نے کہا اے جبرئیلؑ ! یہ قدموں کی چاپ کیسی ہے؟ جبرئیل نے کہا یہ بلالؓ ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے کاش! مَیں بلالؓ کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا۔ اے کاش! بلالؓ کا باپ میرا باپ ہوتا اور مَیں بلالؓ کی طرح ہوتا۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد جلد 9صفحہ363کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذنؓ حدیث 15635)

ایک دفعہ حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کر رہے تھے۔ آپ نے حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کرتے ہوئے حضرت بلالؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ بلالؓ جو ہیں ہمارے سردار ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 10 صفحہ 363، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

رحلتِ رسول ﷺ کے بعد اذانِ بلال

حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے فرمایا: ’’ما هذِهِ الجفوةُ يا بلالُ أما آنَ لَكَ أن تزورَني یا بلال؟‘‘ بلال یہ کیا بے وفائی ہے؟ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کے لیے (مدینہ) آوٴ“ بلال گھبراہٹ کے عالم میں نیند سے بیدار ہوئے، سواری پر سوار ہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچے اورقبر مبارک پر حاضری دی، وہاں روتے رہے، اپنے چہرے کو قبر مبارک پر ملتے رہے۔ اتنے میں حسن وحسین آگئے، حضرت بلال نےدونوں کو گلے لگالیا پیار کیا، نواسوں نے فرمائش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو اذان دیا کرتے تھے ہم وہی اذان سننا چاہتے ہیں، اوپر چڑھیئے اور اذان دیجئے، بلال رضی اللہ عنہ اس جگہ کھڑے ہوگئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھڑےہوکر اذان دیا کرتے تھے، اذان شروع کی، ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘کہا تو سارا مدینہ حرکت میں آگیا، ’’اشہد ان لا إلٰہ إلا اللّٰہ ‘‘کہا تو یہ حرکت شدید ہوگئی۔ ’’اشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ‘‘کہا تو عورتیں بھی باہر نکل آئیں اور لوگ سوالیہ انداز میں کہنے لگے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دوبارہ) مبعوث کردیے گئے؟ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جتنا اس دن مدینہ کی عورتیں اور مرد روئے اتنا رونا کسی اور دن نہیں دیکھا گیا‘‘۔ (آثار السنن ۵۴۷، حدیث ۱۱۱۳، اسد الغابہ: ۲۰۸/۱)

وصالِ بلالؓ

رسول کریم کی رحلت کے بعد حضرت بلالؓ دمشق چلے گئے تھے۔ ایک دن وہاں لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بلالؓ اذان دیا کرتے تھے ہم چاہتے ہیں کہ بلالؓ پھر اذان دیں۔ انہوں نے بلالؓ سے کہا۔ حضرت بلالؓ نے انکارکر دیا کہ نہیں مَیں اب اذان نہیں دے سکتا۔ بلالؓ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مَیں اذان نہیں دوں گا کیونکہ جب بھی میں اذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک میرے سامنے آ جاتا ہے، میری جذباتی کیفیت ہو جاتی ہے اس لیے میں اذان نہیں دے سکتا۔ میری برداشت سے یہ بات باہر ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ بھی ان دنوں دمشق میں آئے ہوئے تھےاتفاق سے ان کا بھی دورہ تھا۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آپؓ بلالؓ سے کہیے کہ اذان دے۔ ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ ہم بلالؓ کی اذان سنیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زمانہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہمارے تصورات میں حضرت بلالؓ کی اذانیں آتی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت میں بھی ایک دفعہ بلالؓ کی اذان سنیں اور وہ زمانہ ہمارے سامنے ذرا اچھی طرح گھوم جائے۔ ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیں۔ ایسے لوگ بھی وہاں موجود تھے۔ ان کے دل خواہش رکھتے ہیں کہ اس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے اور آپؐ کو پسند بھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے بلالؓ کو بلایا اور فرمایا: لوگوں کی خواہش ہےکہ آپؓ اذان دیں۔ آپؓ نے فرمایا آپؓ خلیفۂ وقت ہیں آپ کی خواہش ہے تو میں اذان دے دیتا ہوں لیکن مَیں یہ بتا دوں کہ میرا دل برداشت نہیں کر سکتا۔ حضرت بلالؓ کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے اسی رنگ میں اذان دینے لگے جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیا کرتے تھے۔ آپ کے صحابہ نےجو عرب کےباشندے تھے یہ اذان سنی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو یاد کر کے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ حضرت بلالؓ اذان دیتےچلے جاتے ہیں اور سننے والوں کے دلوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو یاد کر کے رقت طاری رہی لیکن حضرت بلالؓ جو حبشی تھے، جن سے عربوں نے خدمتیں لیں، جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا خود ان کے دل پر کیا اثر ہوا! یہ تو اثر ہوا ناں ان عربوں کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے تھے، ان کو زمانہ یاد آگیا۔ جو اس زمانے کے عرب نہیں تھے ان کو بھی وہ باتیں یاد آ گئیں، سب پررقت طاری ہو گئی لیکن حضرت بلالؓ تو جو عرب بھی نہیں تھے غلام بھی تھے ان کو اس اذان کا کیا اثر ہوا؟ کہتے ہیں کہ حضرت بلالؓ نےجب اذان ختم کی تو بیہوش ہو گئےاور چند منٹ بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔(ماخوذ از خطبات محمود جلد 30 صفحہ 263تا 267خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اگست 1949ء)

اے بلالؓ میرے آقا بلالؓ سیدنا بلالؓ میں آپؓ پہ قربان میرا حسب نسب آپؓ کے قدموں کی خاک پہ قربان۔اللّٰھم صلِّ علی محمد و اصحابِ محمد وبارک وسلم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button