حضرت مصلح موعود ؓ

قرآن کریم دنیا کے ہر ذہنی تغیر کے لئے کافی ہے (قسط اول)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۵؍ اکتوبر۱۹۴۳ء بمقا م ڈلہوزی)

حضرت مصلح موعودؓ نے۱۹۴۳ء میں یہ خطبہ ارشاد فرمایاجس میں آپؓ نے سورۂ ابراہیم آیت ۵کی لطیف تشریح بیان فرماتے ہوئے اِس امر پرروشنی ڈالی ہے کہ نبی کے اپنی زبان میں کلام کرنے سے کیا مراد ہے۔نیز اس آیت پر کیے جانے والے اعتراضات کےجواب بھی ارشاد فرمائے۔(ادارہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡؕ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَیَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔(ابراھیم:۵)

یہ مختصر سی آیت قرآن کریم میں ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے اعتراض اور بہت سے غلط خیالات جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں دور ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ۔ کہ ہم نے جب کبھی کوئی رسول بھیجا تو اسی زبان میں کلام کرنے والا بھیجا جو اس کی قوم کی زبان تھی۔ اس کے عام طور پر یہ معنی کئے جاتے ہیں اور وہ صحیح معنے ہیں کہ ہر نبی جو آتا ہے اسی زبان میں اپنی قوم کو تبلیغ کرتا ہے۔ اور اسی زبان میں اس پر الہام نازل ہوتا ہے جو زبان اس کی قوم کی ہوتی ہے۔ یہ معنے بھی اپنے رنگ میں مفید ہیں۔ کیونکہ یہ اصولی مسئلہ ہے کہ نبی کی بعثت کی غرض لوگوں کو سمجھانا اور ان کی اصلاح کرنا ہوتی ہے۔

اگر اس کے اوپر مثلاً ایسا کلام نازل ہو یا وہ کسی ایسی زبان میں بات چیت کرے جسے لوگ سمجھ ہی نہ سکیں تو نبی کی بعثت کی غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے۔

پھر یہ تو ہم مانتے ہیں کہ نبی کی صداقت کی یہ دلیل ہوتی ہے کہ وہ راستباز ہوتا ہے مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک شخص راستباز بھی ہو اور کم عقل یا پاگل بھی ہو۔ اس لئے کوئی مدعیٔ الہام یا مدعیٔ نبوت صرف راستباز ہونے سے خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ اور اس کا پیغام اور کلام جسے وہ خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرے یہ یقین نہیں دلایا جاسکتا کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بیوقوف ہو مگر راستباز ہو۔ یا راستباز ہو مگر پاگل ہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ مدعی جو کلام پیش کرے اور پھر اس کے جو معنی کرے وہ لوگ سمجھ سکیں۔ ورنہ کیا پتہ ہے کہ جو معنی مدعی نے اپنے الہام کے کئے ہیں اگر اصل الفاظ ایسی زبان میں ہوں جو سمجھ میں نہ آئے تو وہ درست ہیں۔ پس چاہے وہ الفاظ پیش کرنے والا راستباز ہی ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ بھولے پن اور بےعلمی سے ایسے معنی کرے جو غلط ہوں۔ احمدی کہلانے والے جو دعویٔ نبوت کرتے ہیں بالعموم وہ راستباز ہوتے ہیں۔ بعض جھوٹے بھی ہیں۔ مگر بالعموم وہ راستباز ہوتے ہیں۔ ہم نے ان کی زندگیوں کو دیکھا ہے کہ وہ سچ بولتے تھے۔ ان کا چال چلن ایسا نہیں تھا کہ جو قابلِ اعتراض سمجھا جاتا۔ اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ فریبی اور جھوٹے تھے۔ اب اگر الہام کے الفاظ کسی ایسی زبان میں خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے جائز ہوتے جسے کوئی نہ سمجھ سکتا تو ایسے لوگ کچھ چٹ چٹ کر کے کہہ دیتے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ان پر نازل ہؤا ہے۔ اور اس کا یہ مفہوم ہے۔ ایسی صورت میں کوئی ایسا معیار نہ ہوتا جس سے معلوم ہو سکتا کہ فی الواقع وہ الفاظ خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں یا نہیں۔ مگر

خدا کی کلام کے الفاظ اسی زبان میں نازل ہوتے ہیں جسے نبی کی قوم سمجھے اور اندازہ لگا سکے

کہ مدعی پر خداتعالیٰ کی طرف سے کلام نازل ہؤا ہے ور نہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مدعی ویسے الفاظ گھڑ لے جو کسی کی سمجھ میں نہ آئیں اور وہ کہہ دے ان کا یہ مطلب ہے۔

حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک شخص محمد بخش تھا۔ ایک دفعہ اس نے سنایا کہ مجھے الہام ہؤا ’’آئی وٹ وٹ۔‘‘وہ تھاتو راستباز مگر اس کے دماغ میں جو خرابی تھی اس نے اسے ایسے بے معنی الفاظ سکھا دیے کہ ان الفاظ سے اندازہ لگا لیا گیا کہ اس کا دماغ خراب ہے۔

پھر قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ نبی اسی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور اسی میں اس پر الہام نازل ہوتا ہے جو اس کی قوم کی زبان ہوتی ہے۔ مذاہب کی صداقت کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے بھی ضروری بات ہے۔ مثلاً آریہ کہتے ہیں کہ وید ایسی زبان میں نازل ہوئے جسے کوئی نہ جانتا تھا یہ آیت اس کا ردّ بتاتی ہے۔ فرمایا وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ۔ ہم کسی رسول کو نہیں بھیجتے مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ اس کے سامنے اپنے دعویٰ کی وضاحت کر سکے اور لوگوں کو خدا کا کلام اور تعلیم سمجھا سکے۔

اس آیت کے معنی مفسرین یہ کرتے ہیں کہ نبی کی زبان ہی وہ زبان نہیں ہوتی جو اس کی قوم کی زبان ہوتی ہے بلکہ اس پر نازل ہونے والے کلام کی بھی وہی زبان ہوتی ہے جو اس کی قوم کی ہو۔ اس لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم نکلے گا کہ جو زبان اس قوم کی ہوتی ہے جس کی طرف کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اسی میں وہ نبی کلام کرتا ہے تاکہ لوگ اندازہ لگا سکیں اس کے سچے اور جھوٹے ہونے کا۔ اور اسی زبان میں اس پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے تاکہ لوگ سمجھ سکیں، اس پر عمل کر سکیں۔ مگر وید کی زبان توایسی زبان تھی جسے لوگ جانتے ہی نہ تھے۔ ایسی صورت میں اس کی خوبصورتی، اس کے باریک اشارات، اس کے وسیع مفہوم اور اس کے بلیغ مطالب کو وہ کس طرح سمجھ سکتے تھے۔ وید کے متعلق ایک شخص کا جس پر کہا جاتا ہے کہ وید نازل ہوئے بیان تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ ایسی صورت میں اسے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ وید الہام ہے۔ وہ خود ہی لوگوں سے کہہ سکتا تھا کہ یوں کرو اور یوں نہ کرو۔

الہام کے معنے تو یہ ہیں کہ دوسرے بھی اسے سمجھ سکیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن اگر وہ ایسی زبان میں نازل ہو کہ نہ اس کے الفاظ کوئی جانتا ہو، نہ اس کے محاورات سے کوئی واقف ہو، نہ اس کے استعارات کا کسی کو پتہ ہو، نہ اس کے محکمات کی واقفیت ہو، نہ اس کی فصاحت کو کوئی جانتا ہو تو ایسی زبان کے الہام سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔

اس آیت کے یہ معنی بھی ٹھیک ہیں کہ نبی اسی زبان میں کلام کرتا اور اسی زبان میں اس پر الہام نازل ہوتا ہے جو اس کی قوم کی زبان ہوتی ہے۔مگر لسان کے معنی عربی میں صرف یہ نہیں کہ جو زبان بولی جاتی ہے بلکہ اَور بھی ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں فلاں کی زبان بڑی اچھی ہے، فلاں کی زبان بہت فصیح ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ زبان زبان میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اور استعمال اور محاورات کے فرق کے لحاظ سے ایک ہی زبان مختلف زبانیں کہلا سکتی ہے۔

پس

دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ جو نبی آتا ہے وہ ایسی زبان میں کلام کرتا ہے جو اس زمانہ کے محاورات کے مطابق ہوتی اور اعلیٰ معیار پر پوری اترتی ہے۔کیونکہ ایسی زبان کا قلوب پر بہت اثر ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات سے بہت فائدہ حاصل کیا ہے۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق پیشگوئی تھی کہ وہ تمثیلوں میں کلام کرے گا۔ ان تمثیلوں کے معنی زبان کے محاورہ کے مطابق کرنے سے کئی باتیں حل ہو گئیں۔ مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے۔ (یوحنا باب ۹ آیت ۳۵تا۳۷)یہ اس وقت اس زبان کا محاورہ تھا جس میں حضرت مسیح علیہ السلام باتیں کرتے تھے کہ مقربِ خدا کو خدا کا بیٹا کہتےتھے۔ اس محاورہ کی رو سے معلوم ہو گیا کہ حضرت مسیح ؑ نے جو اپنے آ پ کو خدا کا بیٹا کہا تو اس کا کیا مطلب تھا۔

پس اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ کا یہ مطلب ہے کہ نبی اپنے ملک کی زبان بولتا ہے اور اس کے محاورات میں کلام کرتا ہے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں ’’شراب‘‘یا ’’محبوب‘‘کا جو ذکر آ جاتا ہے ان الفاظ کے معنی لِسَانِ قَوْمِهٖ کے مطابق کئے جائیں گے نہ کہ شراب سے مراد وہ شراب لی جائے گی جسے پی کر لوگ مدہوش ہو جاتے ہیں بلکہ خداتعالیٰ کی معرفت کی شراب مراد ہے۔ اور نہ محبوب سے مراد کوئی انسان لیا جائے گا بلکہ خداتعالیٰ کی ذات مراد ہے۔ کوئی پاگل ہی ان الفاظ کے یہ معنی لے سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں شراب سے عام شراب مراد ہے اور محبوب سے کوئی انسان مراد ہے۔

غرض نبی اپنے کلام میں اس زمانہ کے محاورے اور استعارات استعمال کرتا ہے اور ایسی زبان میں کلام کرتا ہے جو اعلیٰ معیار پر پوری اترتی ہے۔ہاں

اگر کبھی وہ عام محاورہ کو ترک کرے تو اس کے معنے بھی وہ خود ہی بتا دیتا ہے تاکہ دھوکا نہ لگے۔

مثلاً اس زمانہ میں نبی کے ایک ایسے معنی لئے جاتے تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ردّ کیا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو نئی شریعت لائے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ نبی کے لئے ضروری نہیں کہ نئی شریعت لائے۔ اب آپ کے کلام میں اگر نبوت کا دعویٰ پایا جائے تو نبی کے وہ معنی درست نہیں ہو سکتے جو پہلے لوگ کرتے تھے بلکہ وہی معنی درست ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائے۔ یہ طریق استدلال بالاولیٰ کے طور پر تو استعمال ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ کسی لفظ کے ایسے معنی کئے جائیں جو عام تعلیم، لغت اور محاورہ کے خلاف ہوں۔ ہاں جس لفظ کے متعلق تشریح کر دی جائے اس کے وہ معنی لئے جائیں گے جو اس تشریح کے مطابق ہوں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبی کی یہ تشریح فرما دی ہے کہ ؎

من نیستم رسول و نیاوردہ ام کتاب

یعنی میں ایسا رسول نہیں ہوں جو نئی شریعت لایا ہوں۔ اس تشریح کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ نبی کا لفظ اس زمانہ میں نئی شریعت لانے والے کے متعلق بولا جاتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے نبی نہ تھے اور ساری عمر آپ نے ایسا نبی ہونے سے انکار کیا۔ چونکہ یہ مفہوم اس زمانہ کے محاورہ کے خلاف تھا اس لئے آپ نے اس کی تشریح فرما دی۔ تو نبی جس بات کی اصلاح کریں یا جسے کسی ضرورت کے ماتحت بدلیں اس کی ساتھ ہی تشریح کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کے لفظ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی۔ تو اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ کے اس مفہوم کے ساتھ پرانی الہامی کتابوں کے سمجھنے میں بڑی آسانی پیدا ہو گئی۔ حضرت موسیٰ ؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت عیسیٰؑ اور دوسرے انبیاء کا جو کلام موجود ہے۔ اگر ان کے زمانوں کے شاعروں، مصنفوں اور زبان دانوں کی کتابیں دیکھیں تو بآسانی حل ہو جاتا ہے اور معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کی فلاں بات کا مفہوم کیا ہے۔ پس وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ دوسری کتابوں اور دوسرے مذاہب کے پرکھنے کا ایک بہت اعلیٰ معیار ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button