حضرت مصلح موعود ؓ

استعانت بغیر عبودیت کے حاصل نہیں ہو سکتی (قسط چہار م۔آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۴؍ اگست ۱۹۳۶ء بمقا م دھرم سالہ)

(گزشتہ سے پیوستہ)دیکھ لو کہ اکیلے سیّد عبداللطیف کی شہادت کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ کابل میں تباہ وبرباد کردیئے گئے اور اس تباہی کی سیّد صاحب مرحوم نے قبل از وقت پیشگوئی بھی فرمادی تھی اِن الفاظ میں کہ میری موت کے چھ دن بعد جمعرات کے روز اِس شہر پر تباہی آجائے گی۔

جب انسان عبودیت کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہاتھ ڈالنا پسند بھی نہیں کرتا

بلکہ اس کی نظر ہمیشہ بلندی کی طرف اُٹھتی ہے اس لئے کہ اس کی امیدگاہ وہ ذات ہوتی ہے جوزمین و آسمان کامالک ہے۔

حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ جب ابھی میری عمر کوئی پندرہ سال کی تھی میں لکھنؤ میں طب پڑھنے کی غرض سے گیا چنانچہ وہاں کے ایک مشہور طبیب کے پاس پہنچا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ میری سادہ حالت دیکھ کر اُس طبیب کے ساتھی کہنے لگے کہ یہ لڑکا کہاں سے آگیا ہے؟ اور بعض مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہنسنے بھی لگ گئے اورکہنے لگے اس کو یہ آداب کس نے سکھائے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ آداب مجھے اُس اُمّی نبی نے سکھائے ہیں جس نے ساری دنیا کو آداب سکھائے۔ اِس جواب میں میرا اشارہ اس طرف بھی تھا کہ انہوں نے باوجود مسلمان ہونے کے میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ چنانچہ میری اس بات کا حکیم صاحب پر بہت اثر ہؤا اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ آپ سے طب پڑھنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ میں تو ایک عرصہ سے طب پڑھانا ترک کرچکا ہوں۔ میں آپ کو ایک اور مشہور طبیب کی شاگردی میں داخل کردیتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اگر کسی اور طبیب سے ہی پڑھنا ہے تو پھر آپ کی سفارش کی ضرورت ہی کیا ہے میں خود ہی اس کے پاس جاسکتا ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا بتائیں آپ کس قدر طب پڑھنی چاہتے ہیں۔ مجھے اُس عمر میں طبّ وغیرہ کا تو قطعاً کچھ علم ہی نہ تھا۔ ہاں افلاطون کے بارہ میں سن رکھا تھا کہ وہ بہت چوٹی کے حکیم ہوگزرے ہیں چنانچہ میں نے جواب دیا کہ افلاطون کے برابر طب پڑھنی چاہتا ہوں۔ میں نے افلاطون کا نام لیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ اگر آپ کا منشاء افلاطون کے برابر طب پڑھنے کا ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لیں گے۔

حضرت خلیفہ اوّل کی نگاہ بچپن میں بھی افلاطون تک ہی گئی اور کسی چھوٹے طبیب کی طرف ان کا ذہن منتقل ہی نہیں ہؤا۔

کامل مؤمن کی بھی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی اشیاء پر نہیں گر پڑتا بلکہ خداتعالیٰ کی شان کے مطابق اس سے امید رکھتا ہے اور اگر ہم خداتعالیٰ سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگ کر ہی صبر کر بیٹھیں تو یہ خداتعالیٰ کی کسرِ شان ہے گویا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی چیزیں نہیں دے سکتا۔ خداتعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ ہم کو جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ (آل عمران:۱۳۴)کی امید دلاتاہے۔ اگر کہیں سے ہم کو کروڑ روپیہ مل رہاہو تو ہم کیوں پانچ روپوں پر راضی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مؤمن کو لالچ ہوتا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت ہے اس کو لالچ نہیںکہا جاسکتا۔ مؤمن کاحوصلہ بہت بلند ہوتا ہے۔

حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ میرے پاس ایک غریب عورت آئی مجھے خیال ہوا کہ اس کی کچھ امداد کردوں۔ میں نے اس سے کہا کہ مائی! تجھے کچھ ضررت ہو تو بتلائو تاکہ امداد کی جائے۔ کہنے لگی کہ مجھے کچھ ضرورت نہیں۔ خداتعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کی تفصیل یوں بیان کی کہ میرا ایک لڑکا بھی ہے اور ہم دونوں کے پاس ایک بڑا قرآن مجید ہے۔ جس کو ہم دونوں باری باری پڑھ لیتے ہیں۔ ایک کافی بڑا لحاف ہے اس میں ہم دونوں رات کو اکٹھے سورہتے ہیں۔ جب مجھ کو زیادہ سردی محسوس ہوتی ہے تو مَیں لحاف کو اپنے اوپر اچھی طرح سے لپیٹ لیتی ہوں اور جب میرے لڑکے کو سردی محسوس ہوتی ہے تووہ لحاف کو اپنے اوپر ڈال لیتا ہے۔ ایک مکان ہے اس میں ہم آرام سے گزارہ کرلیتے ہیں۔ اُس عورت کے نزدیک یہی اشیاء سب کچھ کے قائمقام تھیں، اُس کا حوصلہ بلندتھا۔

مؤمن کی شان ہی یہی ہے کہ جس طرح وہ کروڑوں سے نہیں گھبراتا اسی طرح دس روپے سے بھی نہیں گھبراتا۔

پس اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا درجہ حاصل کرلینے کے بعد مؤمن دنیا کی کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی پشت پر ایک قادرِ مطلق ہستی ہے۔ دنیا میں دیکھ لو کہ انگریز کیونکر ایک طاقتور حکومت ہے اس لئے اس کا ایک سپاہی بھی اکڑ اکڑکرچلتا ہے اور لوگ اس سپاہی سے ڈرتے بھی ہیں۔ حقیقت میں وہ اس معمولی سپاہی سے نہیں ڈررہے ہوتے بلکہ اُس سپاہی کی پُشت پر جو زبردست طاقت ہے اُس سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔ تو جب ایک معمولی سی دنیاوی حکومت کا سپاہی کسی سے نہیں ڈرتاتو کیا خداتعالیٰ کاسپاہی اور اس کا نوکر کسی سے ڈرسکتا ہے۔

اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا جواب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ دیتا ہے کہ إِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرْیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ:۱۸۷)یعنی جب کوئی شخص یہ سوال کرے کہ خدا کہاں ہے؟ تو تم اس کو کہہ دو کہ خدا تمہارے بالکل قریب ہے۔ تم بولو وہ آیا۔ گویا

دَعْوَۃَ الدَّاعِ ایک سیٹی ہے جو مؤمن کودی جاتی ہے جس طرح ایک سپاہی سیٹی بجاتا ہے اور اُس کی سیٹی کی آواز کے سنتے ہی اُس کے افسر اُس کی مدد کے لیے آن موجود ہوتے ہیں اسی طرح جب مومن دَعْوَۃَ الدَّاعِ کی سیٹی بجاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لیے بلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً اُ س سیٹی کی آواز سن کر اُس کے پاس آکر کہتا ہے کہ ہاں بتلائو کیا کہتے ہو؟ میں تمہاری مدد کے لیے آگیا ہوں۔

پس بدبخت اور نالائق ہے وہ شخص جو اِس سیٹی کے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی کسی سے ڈرتا ہے۔

قصوں کی کتابوں میں ایسی کہانیاں لکھی ہوتی ہیں کہ فلاں دیو فلاں شخص کو جاتا ہؤا بال دے گیا اور کہہ دیا کہ اگر تم کو میری مدد کی ضرورت ہو تو اِس بال کو آگ دکھادینا مَیں فوراً تمہارے پاس تمہاری مدد کے لیے آن پہنچوںگا۔ یہ تو فرضی کہانیاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں ہم کو اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کا بال دیاہؤا ہے جس کے ذریعہ سے

ہم اپنے پروردگار کو جس وقت چاہیں نہایت آسانی سے اپنی مدد کے لیے بُلاسکتے ہیں

اور اِس بال کے مل جانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنے دل میں خوف رکھتا ہے تو وہ ازلی شقی اورپاگل ہے اور اللہ تعالیٰ کو پکارنا بعض اوقات اس طور پر بھی ہوتا ہے کہ ہم اس کی راہ میں مارے جائیں یا اور قسم کے مصائب ہم پر ٹوٹیں۔ تو جب ہم اُس کی راہ میں مارے جائیں گے تو یہی ہماری طرف سے خداتعالیٰ کو پکارنا ہوگا اور خداتعالیٰ فوراً ہماری مدد کو آئے گا۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ خوف کے ذریعہ سے ہی انسان سے اپنے آپ کو آواز دِلواتا ہے لیکن اس آواز کے آتے ہی اس انسان کے پاس جانے میںدیرنہیں کرتا اور آتے ہی دنیا کانقشہ بدل دیتاہے، حکومتوں کو تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح مؤمن کو ترقی دیتا ہے۔ کیا اگلے زمانہ میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو ان کی تجارت نوکریاں بڑھادینے سے ترقی دیا کرتا تھا؟ نہیں بلکہ ان سے مالی و جانی قربانیاں لے کر اور ان کو شدید امتحانوں میں ڈال کر ترقی دیا کرتا تھا۔ ہاں جب مؤمن اس امتحان میں پاس ہوجاتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت اُس کی مدد کے لیے جوش میں آتی اور دنیا کو بتا دیتی ہے کہ جس شخص میں کامل عبودیت پیدا ہوجائے اُس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعانت حاصل ہوتی ہے اور اُس ایک شخص کے بدلہ میں خداتعالیٰ دنیا کو زیروزبر کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button