متفرق مضامین

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولوالعزمی

اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے تحت اُمت محمدیہ کے دَورِ آخرین میں نبی کریم ﷺ کے دین کی اکناف ِ عالم میں ترویج و اشاعت کے لیے آپؐ کے روحانی فرزندِ جلیل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مہدی معہود اور مسیح موعود کا منصب عطا فرماکر مبعوث فرمایا ہے۔ آپؑ نے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک جماعت کی بنیاد رکھی تاکہ ایسے لوگوں کا گروہ تیار کیا جاسکے جو قال اللہ اور قال الرسول پر عمل کرنے والے ہوں اور آپ کے پیغام کودنیا بھر میں پھیلانے کےلیے آپ کا ساتھ دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدیم سنت کے تحت اپنی قدرت نمائی کے نشان کے طورپر آپ کو بے شمار پیشگوئیوں سے نوازا تاکہ اس ذریعہ سے آپ کی صداقت ظاہر ہو۔ ان پیشگوئیوں میں سے ایک عظیم الشان پیشگوئی ایک ایسے بیٹے کی ولادت کے طور پر دی گئی جسے مصلح موعود کے خلعت سے نوازا جانا تھا۔

اُولُوا الۡعَزۡمِ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی: صاحبِ عزم۔ بڑے اِرادے کا شخص۔ بلند ارادے رکھنے والا، فراخ حوصلہ شخص۔عالی ہمت۔ عالی حوصلہ۔ ثابت قدم۔ مستقل مزاج۔ صابراورمُتحمل بیان ہوئے ہیں ۔اولوالعزمی جماعت مومنین کی خاص صفت ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات میں کیا گیا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ۔ (اٰلِ عمران:۱۸۷) اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقیناً یہ ایک بڑا باہمت کام ہے۔قرآن کریم کے ایک اور مقام پر حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت کا ذکر ہے جس میں فرمایا: یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَانۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَاصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ (لقمان:۱۸) اے میرے پیارے بیٹے! نماز کو قائم کر اور اچھی باتوں کا حکم دے اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کر اور اُس (مصیبت) پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔ یقیناً یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے۔قرآن کریم میں صبر کرنے والوں اور معاف کرنے والوں کے بارےمیں فرمایا ہے کہ اُن کا ایسا کرنا اُولوالعزم باتوں میں سے ہے۔وَلَمَنۡ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ(الشوریٰ:۴۴) اورجو صبر کرے اور بخش دے تو یقیناً یہ اُولوالعزم باتوں میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے کہ وَشَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ۔(اٰلِ عمران:۱۶۰) اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر۔ پس جب تُو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکل کر۔یقیناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔نیز نبی کریم ﷺ کو کفارسے پہنچنے والی ایذاؤں اور تکلیفوں پر صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ (الاحقاف:۳۶) پس صبر کر جیسے اُولوالعزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے بارہ میں جلد بازی سے کام نہ لیاکہ۔ گویا اولوالعزمی جماعت مومنین اور خاص طورپر نبیوں کی بنیادی صفت ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ تمام مشکلات کا بڑی بہادری،جوانمردی اور بلند ہمتی سے مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرنے کے لیے عزم صمیم اور مضبوط ارادے سے قدم آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ اس یقین محکم پر قائم ہوتے ہیں کہ جس مقصد کےلیے انہیں مقرر کیا گیا ہے وہ ایک مفید اور بابرکت مقصد ہےجس کی ادائیگی میں خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی پنہاں ہے۔ پس اولوالعزمی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش آنی والی مشکلات، کٹھن مراحل، تکلیفوں اور خطرات کے وقت گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر سے کام لے اورجوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کام میں لگا رہے۔

پسر موعود کے بارےمیں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ وہ ’’اولوالعزم‘‘ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائی عمر سے ہی آپؓ کے اندر اولوالعزمی کی صفت ودیعت فرماکر آپ کے دل میں اشاعت و خدمت دین کا ایسا جذبہ پیدا کردیا جو تادم آخر ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح موجزن رہا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس پیشگوئی کے ضمن میں فرماتے ہیں :’’ یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو کسی شخص کی ذات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی اسلام کی نشأۃِ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس پیشگوئی کی اصل تو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍مارچ ۲۰۱۱ء صفحہ ۵) حضرت صاحبزادہ صاحب ؓکی صحت بچپن ہی سے خراب رہتی تھی۔ آپ کے بچپن کی تعلیمی کمزوری اور آپ کی صحت کے بارےمیں اپنے بیگانے سبھی جانتے تھے۔ صحت کی کمزوری کا یہ اثر عمر بھر برقرار رہا۔ایک انسان جو مستقل بیمار رہے اور اُسے اپنی زندگی میں بے شمارمسائل کے ساتھ ان گنت دشمنوں کا سامنا کرنا پڑے،ایک نہ ایک دن اُس کے ارادے پست ہوجاتے ہیں اوربالآخر وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے۔آپ کو زندگی بھر جن تلاطم خیز طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا اُس کی ہلکی سی جھلک ہندوستان کے نامور صوفی خواجہ حسن نظامی دہلوی (۱۸۷۸۔۱۹۵۵ء) کی اس مختصر سی تحریر سے بخوبی نظر آسکتی ہے :’’ اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں ۔ انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کرکے اپنی مغلئ جوانمردی کو ثابت کردیا۔ اور یہ بھی کہ مغل ذات کارفرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے۔ سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں ۔ اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں ۔ یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں۔‘‘ (اخبار ’’ عادل‘‘ دہلی ۲۴؍اپریل ۱۹۳۳ءبحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۲۸۸۔نظارت اشاعت قادیان ۲۰۰۷ء)

مندرج بالا تحریر سے بخوبی عیاں ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خدمت و اشاعت اسلام کے لیے جو غیر معمولی کارنامے انجام دیےہیں غیروں کو بھی اُن پر داد دیےبغیر چارہ نہیں ۔ خواجہ صاحب نے اس تحریر میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سے واضح ہے کہ وہ بھی آپ کی جوانمردی اور اولوالعزمی کے قائل تھے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی اولوالعزمی کا پہلا مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر احباب جماعت میں ایک گھبراہٹ کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور وہ سوچتے تھے کہ اب جماعت کا کیا بنے گا۔ اس گھبراہٹ اورانتہائی صدمہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اُنیس سالہ نوجوان کے دل میں خاص جوش اور ایساعزم صمیم پیدا کردیا جو تائیدو نصرت الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ آپؑ کی وفات کے معاً بعد کچھ لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہوگا۔ انسان انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا موجود تھا یہ تو اَب فوت ہوگیا اب سلسلہ کا کیا بنے گا۔ جب میں نے اس شخص کو گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر پھرتے دیکھا۔ اسی طرح بعض اَور لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیئے اور میں نے ان کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہوگا؟ تو مجھے یاد ہے گو میں اُس وقت انیس سال کا تھا مگر میں نے اُسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہوکر کہا کہ اے خدا ! میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ تُونے نازل فرمایا ہے میں اُس کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلاؤں گا…میرے جسم کا ہر ذرہ اس عہد میں شریک تھا اور اُس وقت میں یقین کرتا تھا کہ دنیا اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ مل کر بھی میرے اس عہد اور اس ارادہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍فروری۱۹۴۴ءمطبوعہ خطبات محمود جلد ۲۵ صفحہ ۱۳۴)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کی بےشمار مثالیں تاریخ احمدیت کا روشن باب ہیں ۔ آپؓ نے اپنے باون سالہ دَور خلافت میں ایسے لاتعداد کارنامے سرانجام دیئےجنہیں پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔اگر آپ کے علمی کارناموں پرہی نگاہ ڈال لی جائے تو ہر صاحب ِشعور انسان جان سکتا ہے کہ اس قدر عظیم الشان علمی کارنامے جن میں حد درجہ یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے کوئی باعزم،صاحبِ استقامت اور اولوالعزم انسان ہی انجام دے سکتا ہے۔مستقل بیماری، نقاہت اور کمزوری،آنکھوں کی تکلیف،جماعتی کاموں کا بوجھ اوراندرونی وبیرونی دشمنوں سے برسرپیکار ایک شخص ایسے ایسے علمی و دینی مسائل حل کردیتا ہے جو چودہ سوسال سے لا یَنْحَل مسائل میں شمار ہوتے تھے۔ پس آپؓ کی تحریرات، خطبات وخطابات، منظومات،ملفوظات،تفسیر ودروسِ قرآن کریم آپ کی اولوالعزمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک مرتبہ حضور رضی اللہ عنہ کے علمی کارناموں کی مختصر جھلک دکھاتے ہوئے فرمایا:’’ آپ کے جو کام ہیں ان کی ایک جھلک جو ہے میں آپ کو بتا دیتا ہوں …اس وقت انوارالعلوم کی(26)جلدیں شائع ہوچکی ہیں ان چھبیس جلدوں میں کل چھ سو ستّر(670)کتب لیکچر ز اور تقاریر آچکی ہیں ۔ خطبات محمود کی اس وقت تک کل (39)جلدیں شائع ہوچکی ہیں جن میں 1959ء تک کے خطبات شائع ہوگئے ہیں ۔ ان جلدوں میں (2367)خطبات شامل ہیں ۔ تفسیر صغیر دس سو اکہتر(1071)صفحات پر مشتمل ہے۔ تفسیر کبیر دس(10)جلدوں پر محیط ہے اس میں قرآن کریم کی (59)سورتوں کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ تفسیر کبیر کی دس جلدوں کے صفحات کی تعداد پانچ ہزار نو سو سات(5907)ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے درس القرآن جو کہ غیر مطبوعہ تفسیر تھے وہ ریسرچ سیل نے کمپوز کرنے کے بعد فضل عمر فاؤنڈیشن کے سپرد کردیئے ہیں ۔ اس کے (3094)صفحات ہیں ۔ اس کے بعد اب ریسرچ سیل کو میں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعود کی تحریرات اور فرمودات سے تفسیر قرآن اکٹھی کی جائے جس پر کام شروع کیا گیا ہے اور اب تک نو ہزار(9000)صفحات پر مشتمل تفسیر لی جاچکی ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے۔ ‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍مارچ ۲۰۲۰ءصفحہ ۸تا۹) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے صرف دینی معاملات میں ہی دنیا کی راہنمائی نہیں فرمائی بلکہ معاشی، اقتصادی اور سیاسی میدان میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’ آپ کے علمی کارنامے ایسے ہیں جو دنیا کو نیا انداز دینے والے ہیں جس کا دنیا نے اقرار کیا…معاشی، اقتصادی، سیاسی، دینی، روحانی سب پہلوؤں پر آپ نے بھی قلم اٹھایا ہے یا تقریر کے لیے کھڑے ہوئے ہیں ،یا مشوروں سے امتِ محمدیہ یا دنیا کی راہنمائی فرمائی تو کوئی بھی آپ کے تبحر ِعلمی اور فراست اور ذہانت اور روحانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ مصلح موعود ؓ تھے، دنیا کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا، جس میں روحانی، اخلاقی اور ہر طرح کی اصلاح شامل تھی۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍مارچ ۲۰۲۰ءصفحہ ۹)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ذاتِ بابرکات سے جہاں دنیا ہر قسم کے علوم وفنون سے مستفید ہوئی ہے وہیں آپ نے قرآن کریم میں پنہاں بے شمار علوم کے خزانے نکال کر دنیا کے سامنے پیش فرمائے ہیں ۔ قرآن کریم کا معیاری ترجمہ اور اُس کے تفسیری نکات کا بیان انتہائی توجہ طلب اور کٹھن کام ہے۔تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر لکھتے وقت آپ پر ایک ہی دھن سوارتھی کہ کسی طرح یہ اہم کام جلد از جلد مکمل ہوجائے۔ دن رات اسی کام میں مگن رہتے۔ کھانے پینے اور آرام کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرتے۔ ۱۳؍دسمبر ۱۹۴۰ء کے خطبہ جمعہ میں تفسیر کبیر کے کچھ حصوں کے ترجمہ اور تفسیر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کے کام کا بہت بڑا بوجھ ان دنوں ہے…آج کل اکثر ایام میں رات کے تین چار بلکہ پانچ بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں ۔اس لیے اس قسم کی جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر بوجھ طبیعت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘(خطبات محمود جلد ۲۱صفحہ ۴۷۱)نیز فرمایا:’’اس کام کی وجہ سے دوماہ سے انتہائی بوجھ مجھ پر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ کام کرنے والوں پر پڑا ہے۔ یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے بڑھا ہوا ہے اور زیادہ دیر تک برداشت کرنا مشکل ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور تصرف نہ ہو۔ ‘‘ (خطبات محمود جلد ۲۱صفحہ ۴۷۴) جن دنوں تفسیر صغیر پر کام جاری تھا اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدہ مریم صدیقہ ؒ (چھوٹی آپا) حرم محترم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتی ہیں کہ ’’جن دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہوجائے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہوگئی اور لکھتے چلے گئے تفسیر صغیر لکھی ہی آپ نے بیماری کے حملہ کے بعد یعنی ۱۹۵۴ء میں طبیعت کافی کمزور ہوچکی تھی۔ گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہوچکی تھی مگر پھر بھی کمزوری باقی تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں ۔فکر نہ کریں ۔ زیادہ محنت نہ کریں لیکن آپ کو ایک دھن تھی کہ قرآن کے ترجمہ کا کام ختم ہوجائے۔ بعض دن صبح سے شام ہوجاتی اور لکھواتے رہتے۔ کبھی مجھ سے املاء کرواتے۔ مجھے گھر کاکام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہے۔ آخری سورتیں لکھوارہے تھے غالباً انتیسواں سیپارہ تھا یا آخری شروع ہوچکا تھا(ہم لوگ نخلہ میں تھے وہیں تفسیر صغیر مکمل ہوئی تھی ) کہ مجھے بہت تیز بخار ہوگیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دن سے مجھے ہی ترجمہ لکھواتے رہے ہیں ۔ میرے ہاتھوں ہی یہ مقدس کام ختم ہو۔ میں بخار سے مجبور تھی۔ ان سے کہا کہ میں نے دوائی کھالی ہے آج یا کل بخار اتر جائے گا۔ دو دن آپ بھی آرام کرلیں آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا میں ثواب حاصل کرسکوں ۔ نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔ تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں مجھے موت آجائے تو ؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیرصغیر کا کام ختم ہوگیا۔ بے شک تفسیر کبیر مکمل قرآن کی نہیں لکھی گئی مگر جو علوم کا خزانہ ان جلدوں میں آپ چھوڑ گئے ہیں ، وہ اتنا زیادہ ہے کہ ہماری جماعت کے احباب ان کو پڑھیں ان سے فائدہ اٹھائیں تو بڑے سے بڑا عالم ان کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے۔ ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۱؍فروری ۲۰۰۴ءصفحہ ۳)مشہور مفسرِ قرآن علامہ عبدالماجد دریاآبادی مدیر صدقِ جدید نے حضور رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ کی خدمت قرآن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ قرآن اور علومِ قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نےسرگرمی، اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ، اُن کا اللہ انہیں صلہ دے۔ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق ومعارف کی جو تشریح وتبیین وترجمانی وہ کرگئے ہیں اس کا بھی ایک بلند وممتاز مرتبہ ہے۔‘‘ (صدق جدید لکھنؤ ۱۸؍نومبر ۱۹۶۵ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلد سوم صفحہ ۱۶۸)

کسی بھی جماعت کے نظام کو مستحکم کرنے اور اُسے منظم طور پر چلانے کے لیے بہترین ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جماعت کے نظام کو مستحکم کرنے اور اسے منظم کرنے کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے اُن کی فہرست بہت لمبی ہے۔ جماعتی تنظیم کا کام آپ کے باون سالہ دور خلافت میں جاری رہا۔ آپ نے جماعت کے انتظامی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے ۱۹۱۹ءمیں صدر انجمن احمدیہ میں نظارتوں کا نظام متعارف کروایا۔ جماعت کے مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف ذیلی تنظیموں کا قیام، انہیں اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک اور فعال بنانا، ان کی مستقل نگرانی اورراہنمائی کرتے چلے جانا ایک عظیم کارنامہ اور اولوالعزمی کی اعلیٰ مثال ہے۔ آپ نے ۱۹۲۲ءمیں احمدی مستورات کے لیے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم فرمائی اور ۱۹۲۸ءمیں ناصرات الاحمدیہ قائم کی۔ ۱۹۳۸ءمیں احمدی نوجوانوں کے لیے خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا جبکہ ۱۹۴۰ءمیں احمدی بچوں کے لیے اطفال الاحمدیہ قائم فرمائی۔ اسی سال بڑے عمر کے احمدی احباب کے لیے انصاراللہ کے نام سے ایک تنظیم جاری فرمائی۔۱۹۲۲ءمیں آپؓ نے جماعت میں شوریٰ کا باقاعدہ نظام جاری فرماکر جماعت میں ایک اور سنگ میل کا اضافہ فرمایا۔ ۱۹۱۷ءمیں وقف زندگی کی باقاعدہ تحریک جاری فرمائی تاکہ اکناف عالم میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مبلغین کو بھجوایا جاسکے۔ ۱۹۲۸ء میں جامعہ احمدیہ جاری فرمایا تاکہ اس میں مربیان و مبلغین تیار ہوکر جماعت کی تربیتی و تبلیغی سرگرمیوں میں وسعت پیدا کی جاسکے۔۱۹۱۹ءمیں آپ نے دارالقضاءکا نظام جاری فرمایا۔ آپ ؓنے اپنی خداداد فہم وفراست کی بدولت جماعت کا ایسا منظم ڈھانچہ تیار کیا جس کے ذریعہ جماعت کی ترقی کی رفتار نہ صرف کئی گنا بڑھ گئی بلکہ اندرونی طور پر بھی جماعت میں مضبوطی پیدا ہوئی اور انتظامی وتربیتی امور میں بے حد بہتری آگئی۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا تحریرفرماتی ہیں کہ’’آپ خلیفہ ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو بشارت پسر موعود کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملی تھی اس کا لفظ بلفظ پورا ہوتے ایک عالم نے دیکھ لیا۔ آپ کے ہاتھوں سے عظیم الشان کام سر انجام پائے۔ جو عہد آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد مبارک کے سامنے کیا تھا وہ ایسا نبھایا کہ جیسا نبھانے کا حق ہے۔ قدم قدم پر نصرت الٰہی اپنی پوری شان سے شامل حال ہوکر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ آپ کی تفسیریں ، درس قرآن وتحریریں اور تقریریں ، آپ کے خطبات ایک بیش بہا اور بہت بڑا ذخیرہ ہیں ۔ اس پر آپ کی قوت عمل، قوت فیصلہ، عزم راسخ، جماعت کی ہر موقع پر رہنمائی، دنیاکے ہر گوشہ میں احمدیت کے اسلامی مشن کے قیام، غرض ہر بات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وجود میں خدا تعالیٰ نے خاص روح پھونک دی تھی۔ اور اس کا خاص فضل اور رحم آپ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے۔ آپ کے کارناموں سے دشمن بھی منکر نہیں ہوسکتا۔ ایک کمزور صحت کا ’’لڑکا‘‘ جس کو خدائے قادرومقتدر نے میدان میں اتارا بڑے بڑوں سے بازی لے گیا۔ جو کام عالم اسلام علم، دولت اور زبانی دعویٰ کے باوجود مل کر نہ کرسکا تھا وہ اس نے کر دکھایا۔ حاسد اور معاند بھی محض لغو باتیں بنانے کے سوا اور کچھ نہ کرسکتے اور ہر قوم کے افراد، کم سمجھ نادان بھی اور عقل وشعور رکھتے ہوئے بھی، ایمان نہ لانے والے تک سبھی ایک بار انگشت بدنداں ضرور رہ گئے۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۴ پیش لفظ۔شائع کردہ نظارت اشاعت قادیان۔ایڈیشن ۲۰۰۷ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کی خاص شان ایک بار اس وقت ظاہر ہوئی جب ۱۹۳۴ء میں احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کردی اور یہ دعویٰ کیا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجاکر دنیا سے جماعت کا نام ونشان مٹادیں گے۔ اس انتہائی نازک وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خدا داد فراست اور مضبوط عزم وہمت سے نہ صرف احرار کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا بلکہ تحریک جدید کے نام سے ایک ہمہ گیر انقلابی تحریک کا آغاز فرماکر جماعت کی ترقی کی رفتار کو کئی گنا بڑھا دیا۔ یہ وہی مبارک تحریک ہے جس کے شیریں ثمرات سے کل عالم فائدہ اٹھارہا ہے اور دنیا کے اکثر ممالک میں اس بابرکت تحریک کے فیوض وبرکت ظاہر ہو رہے ہیں ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بابرکات دورِ خلافت میں بہت سے نازک مراحل آئے لیکن عشاقِ احمدیت کا یہ کارواں اپنے صاحب شکوہ اور اولوالعزم امام کی قیادت میں ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔

شدھی کی تحریک میں اولوالعزمی

اگرچہ ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد محمد بن قاسم فاتح سندھ کے ہاتھوں رکھی گئی تھی مگر اس خطے میں اسلام کا زندگی بخش پیغام مسلمان تاجروں اور سیاحوں کے ذریعے برسوں پہلے پہنچ چکا تھاجبکہ اسلام کی ترویج و اشاعت میں اکابر اولیاء و صوفیاء و صلحائے امت نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بزرگوں کے زبردست روحانی اثرات کی وجہ سے ہندوستان کی کئی بت پرست قومیں راجپوت، جاٹ، میواتی وغیرہ بڑی کثرت سے اسلام میں داخل ہوئیں اور ہر طرف مسلمان ہی مسلمان نظر آنے لگے۔ اگرچہ یہ بہت عظیم الشان کام تھا لیکن جس طرح لوگ جو ق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اُسی طرح اُن کی تعلیم وتربیت کا انتظام نہ ہوسکا۔ بعض قومیں اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوئی تھیں لیکن مناسب تعلیم وتربیت نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان کہلانے کے باوجود ان کا رہن سہن، کھانا پینا، بول چال، پہناوا، برتاؤ اور تمام رسم ورواج ہندوانہ ہی رہے۔ ان کے کئی دور اسی حالت میں گزر گئے اور وہ اپنی اس غیر اسلامی حالت کو اسلامی سمجھ کر اپنی جگہ مطمئن تھے۔ انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر پر پنڈت دیانند سرسوتی کی کوششوں سے سناستی ہندوؤں میں ایک نئے فرقے آریہ کا قیام عمل میں آیا۔ جو غیر مذاہب والوں کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کا بہت جوش رکھتے تھے۔

اس نئے اور جوشیلے ہندوفرقے نے ایک منظم طریق پر یوپی کے متعدد شہروں میں اور ان کے نواحی علاقوں میں بہت احتیاط اور ہوشیاری اور نہایت آہستہ روی کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کردیا۔انہوں نے ان کمزور ایمان مسلمانوں کو باور کرانا شروع کیا کہ ان کے باپ دادوں کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہے اور دوسرے اسلام کو بری سے بری اور بھیانک شکل میں اُن کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا۔ جب انہوں نے اچھی طرح دیکھ بھال کر اطمینان کرلیا کہ یہ دونوں حربے کارگر ثابت ہوئے ہیں انہوں نے اپنے کام کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا منصوبہ بنایا اور مارچ ۱۹۲۳ء کے وسط میں مشہور آریہ سماجی لیڈر شردھارنند نے جو اس تحریک کے پرجوش علمبرداراور بڑے لیڈر تھے۔انہوں نے ہندوؤں سے چندہ کی اپیل کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جارہا ہے اور اب تک قریباً چارہزار تین سو راجپوت ملکانے، گوجر اور جاٹ ہندوہوچکے ہیں ۔ نیز کہا:’’ ایسے لوگ ہندوستان کے ہر حصے میں ملتے ہیں ۔ یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں اور اگر ہندوسماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کا کام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہوگا کہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہوجائے۔ ‘‘ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۴صفحہ ۳۲۹) شردھا نند کے اس اعلان کے بعد آریہ اخبار کیسری میں یہ خبر چھپی کہ مہاراجہ جموں و کشمیر نے ساڑھے چارلاکھ ملکانہ راجپوتوں کو دوبارہ ہندوبنانے کے مسئلہ پر کامل غوروخوض کے بعد پنجاب سناتن دھرمی پنڈتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس مسئلہ پر کشمیری پنڈتوں سے گفت وشنید کریں ۔ (تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۲۹)

ان خبروں کے منظر عام پر آنے سے ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلمانوں میں غم وافسوس کی لہر دوڑ گئی اور ان کے دلوں کو گہرا صدمہ پہنچا۔ دوسری طرف ان اضلاع اور ان کے ماحول میں بسنے والے علماءنے شدھی کی اس تحریک کے مقابلہ اور تدارک کے لیے نہایت مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا اور کمزور ایمان مسلمانوں کو ہندوؤں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ چودھری افضل حق صاحب (مفکر احرار) نے علماء کی غفلت و بے حسی پر اظہار تاسف کرتے ہوئے لکھا :’’آج سے پہلے اسلام کو تبلیغی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان علماء اپنی خدمات کو جا بجا ہر جگہ بیان کرتے تھے حالانکہ ان کی تمام کوششیں مسلمانوں کو کافر بنانے میں صرف ہوتی رہیں … جہاں اسلام کے سب سے بڑے دعویدار موجود تھے۔ ان ہی کے دروازوں پر مسلمان مرتد ہورہے ہیں اور ان کے بنائے کچھ نہیں بنتی۔ جن کے ہندوستان بھر میں کفر کے فتوے کام کرتے تھے ان کا اپنا عمل قریب کے مسلمانوں پر کچھ اثر نہ ڈال سکا تین چار سو برس سے ایک قوم اسلام کے دروازے کے اندر داخل ہوئی مسلمانوں کو متوجہ نہ پاکر آج پھر واپس چلی گئی ایک مسخرہ نے سچ کہا کہ ’’علماء کاکام ہی مسلمانوں کو کافر بناناہے۔‘‘ سو انہوں نے ملکانہ راجپوتوں میں اپنی کامیاب تبلیغ کردی ہے حضرت فرنگی محل، حضرات دیو بند، حضرات دہلوی کی صدسالہ اسلامی تبلیغ کا نتیجہ دیکھو کہ ان ہی اضلاع کے گردونواح میں ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں ۔ ہمارے علماء کے لیے اس میں عبرت ہے ان کے لیے ندامت سے گردن جھکا لینے کا وقت ہے اس فتنہ وارتداد کی تاریخ اغیار کے لیے دلچسپ اور مسلمانوں کے لیے باعث شرم ہے۔ ‘‘(فتنہ ارتداد اور پولیٹکل قلابازیاں مشمولہ رفتار زمانہ لاہور ۷؍جون ۱۹۵۰ء بحوالہ تاریخ جلد ۵صفحہ ۳۲۸)

المختصر شدھی کی خوفناک تحریک نے مسلمانان ہند کو سخت پریشان کردیا اور مسلمان پریس نے ہندو لیڈروں کے عزائم کو دیکھ کر بالاتفاق لکھا کہ ملک کے تمام مسلمان فرقے اس نازک موقع پر متحد ہوکر آریہ سماج کے خطرناک عزائم کے انسداد کے لیے فوری جہدوجہد کریں ورنہ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر کے ایڈیٹر مولوی عبداللہ منہاس صاحب نے ۸؍مارچ ۱۹۲۳ءکی اشاعت میں ’’علمائے اسلام کہاں ہیں ؟‘‘ کے عنوان سے ایک پُرزور مضمون لکھا جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اس نازک موقعہ پر کیوں خاموش ہیں ۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۴ صفحہ ۳۳۰)

اگرچہ مسلمان پریس نے شدھی کے خلاف مارچ ۱۹۲۳ء میں آواز بلند کی تھی مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۱۹۲۳ءکے آغاز میں ہی اس فتنہ کی طرف توجہ فرمائی اور دفتر کو ہدایت جاری فرمائی کہ اس کی اچھی طرح تحقیق کریں ۔ آپؓ کی ہدایت پر مختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کی گئی اور ضروری حالات معلوم کرنے کے بعد فروری ۱۹۲۳ء میں صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز اور ایک اور احمدی کو ملکانہ کے علاقے میں ابتدائی سروے اور معلومات کی فراہمی کے لیے بھجوایا، وفد نے آکر بتایا کہ حالت بہت مخدوش ہے اور فوری تدارک کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ پر حضورؓ نے شدھی کا وسیع پیمانہ پر مقابلہ کرنے کے لیے ایک زبردست سکیم تیار کی اور جیسا کہ شیخ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ کا بیان ہے اس اولوالعزم امام نے یہاں تک تہیہ کرلیا کہ میری کل جماعت کی جایداد تخمیناً دو کروڑ روپیہ ہوگی اگر ضرورت پڑی تو یہ سب املاک و اموال خدا کی راہ میں وقف کرنے سے میں اور میری جماعت دریغ نہ کریں گے۔ (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۳۰)حضورؓ نے ۷؍مارچ۱۹۲۳ء کو اعلان فرمایا کہ جماعت فتنہ ارتداد کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے کی غرض سے ہر قربانی کے لیے تیار ہوجائے۔ اس کے بعد ۹؍مارچ ۱۹۲۳ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ فتنہ ارتداد کے مٹانے کے لیے فی الحال ڈیڑھ سو احمدی سرفروشوں کی ضرورت ہے۔ جو اپنے اور اپنے لواحقین کی معاش کا فکر کرکے میدان عمل میں آجائیں ۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۳۱)حضور ؓنے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا:’’ اس سکیم کے ماتحت کام کرنے والوں کو ہر ایک اپنا کام آپ کرنا ہوگا۔ اگر کھانا آپ پکانا پڑے تو پکائیں گے اگر جنگل میں سونا پڑے گا تو سوئیں گے جو اس محنت اور مشقت کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں وہ آئیں ۔ ان کو اپنی عزت اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گے ایسے لوگوں کی محنت باطل نہیں جائے گی۔ ننگے پیروں چلیں گے، جنگلوں میں سوئیں گے، خدا ان کی اس محنت کو جو اخلاص سے کی جائے گی ضائع نہیں کرے گا۔ اس طرح جنگلوں میں ننگے پیروں پھرنے سے ان کے پاؤں میں جو سختی پیدا ہوجائے گی وہ حشر کے دن جب پل صراط سے گزرنا ہوگا ان کے کام آئے گی مرنے کے بعد ان کو جو مقام ملے گا وہ راحت و آرام کا مقام ہوگا۔ اور یہ وہ مقام ہوگا جہاں رہنے والے نہ بھوکے رہیں گے نہ پیاسے یہ چند دن کی بھوک اور چند دن کی پیاس اس انعام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۳۱تا۳۳۲)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک طرف جماعت کو میدان جہاد میں آنے کی ہدایت کی تو دوسری طرف مسلمانان ہند کو متحدہ کام کرنے کی دعوت دی اور انہیں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جب تک ایک لمبی اور باقاعدہ جنگ نہ کی جائے گی اس وقت تک ان علاقوں میں کامیابی کی امید رکھنا فضو ل ہے۔ اس کام پر روپیہ بھی کثرت سے خرچ ہوگا… ہندو اپنی پرانی کوششوں کے باوجود دس لاکھ روپیہ کا مطالبہ کررہے ہیں مسلمانوں کو نیا کام کرنا ہے ان کے لیے بیس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے اپنی طرف سے پیشکش فرمائی کہ اگر دوسرے لوگ بقیہ رقم مہیا کرلیں تو ہم پچاس ہزار روپیہ یعنی کل رقم کا چالیسواں حصہ اس کام کے لیے جمع کریں گے۔(تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۳۲) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی اس دعوت اور فراخ دلانہ پیشکش پر اخبار ’’ہمدم‘‘ نے لکھا :’’ جماعت احمدیہ کے جوش وایثار کو دیکھتے ہوئے ان کی طرف سے پچاس ہزار بلکہ اس سے زیادہ روپیہ اس غرض یعنی انسداد ارتداد کے لیے فراہم ہوسکنے کا قریب قریب یقین و اعتماد ہے۔ لیکن افسوس ہے دیگر مسلمانوں سے ساڑھے انیس لاکھ تو کجا ایک لاکھ روپیہ بھی حالات موجودہ میں چند ہفتہ کے اندر جمع ہوجانے کی قوی تو کیا معمولی امید بھی ان طریقوں سے نہیں باندھ سکتے۔ ‘‘ (ہمدم ۱۸؍مارچ ۱۹۲۳ءبحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۳۳) اسی طرح اخبار’’مشرق‘‘ نے لکھا:’’جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت کاری ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی۔ ‘‘ (مشرق ۱۵؍مارچ ۱۹۲۳ءبحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۳۳)

اس فتنہ ارتداد کے خاتمہ کے لیے آپ نے بیس قواعد اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمائے۔ اسی طرح آپ نے مبلغین اسلام کے لیے ۵۲نکات پر مشتمل اہم ہدایات تحریرفرمائیں جو اس جہاد میں شامل ہونے والے ہر مجاہد کو مطبوعہ ٹریکٹ کی صورت میں دی جاتی تھیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ شدھی کے خلاف اپنی سکیم یکم اپریل ۱۹۲۳ءسے جاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر حالات کی نزاکت کے پیش نظر وسط مارچ ۱۹۲۳ءہی سے اس کا آغاز فرمادیا۔ چنانچہ آپؓ کی ہدایت پر صیغہ ’’ انسداد ارتداد ملکانہ ‘‘ کے نام سے ایک نیا دفتر کھولا گیا اور اس کے افسر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور نائب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب ؓتجویز ہوئے۔ اس مرکزی ادارہ کے قیام کے ساتھ آ پ نے حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کوامیرالمجاہدین مقرر فرمایا اور ان کی سرکردگی میں ۱۲؍مارچ ۱۹۲۳ء کو مجاہدین کا پہلا وفد روانہ فرمایا۔ (تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۵۱)

جماعت احمدیہ کی مجاہدانہ سرگرمیاں دیکھ کر بے شمار مسلمان اور ہندو اخباروں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ جماعت احمدیہ کے مجاہدین کے کارنامے فقیدالمثال ہیں ۔ مشہور مسلم اخبار ’’زمیندار ‘‘ نے لکھا :’’ جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کررہے ہیں ۔ جو ایثار اور کمربستگی، نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس وحرکت پڑے ہیں ۔ اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کرکے دکھادی ہے۔ ‘‘(زمیندار۲۴؍جون ۱۹۲۳ءبحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۸۶)

کئی ماہ تک جاری رہنے والی اس تحریک میں احمدی مجاہدین انتہائی نامساعد اور تکلیف دہ حالات میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ تیز اور چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کرتے۔ بعض اوقات کھانا تو الگ رہا ان کو پانی بھی نہ مل سکا۔ کھانے کے وقت یا تو اپنا بچا کھچا باسی کھانا کھاتے یا بھونے ہوئے دانے کھاکر پانی پی لیتے اور اگر سامان میسر آسکتا تو آٹے میں نمک ڈال کر اپنے ہاتھوں روٹی پکا کر کھالیتے۔ رات جہاں جگہ ملتی سوجاتے۔ ایک گاؤں میں کام ختم ہونے پر اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کیا وقت ہے یا دوسرا گاؤں کتنے فاصلے پر ہے فوراً آگے روانہ ہوجاتے انہوں نے بعض اوقات اندھیری راتوں میں ایسے تنگ اور پُر خطر راستوں سے سفر کیا۔ جہاں جنگلی سؤر اور بھیڑیے بکثرت پائے جاتے تھے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۵۵) مجاہدین احمدیت کے ہاتھوں شدھی تحریک کو جس عبرتناک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس کا اقرار ہندوؤں اور سکھوں دونوں کی طرف سے برملا کیا گیا۔ چنانچہ لالہ سنت رام بی اے سیکرٹری جات پات توڑک منڈل لاہور نے بیان دیا:’’ الفاظ بہت کڑے ہیں اور سخت مایوسی سے بھرے ہوئے ہیں مگر یہ سچائی چاہے کڑوی ہو۔ بہت سے بھائی پوچھیں گے ہم اخباروں میں روز شدھی اور اچھوت ادھار کی خبریں پڑھتے ہیں … پھر تم کیسے کہتے ہو کہ شدھی اور اچھوت ادھار کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے جواب میں میری عرض یہ ہے کہ کسی کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں ۔ پرمیشور نے آپ کو آنکھیں دی ہیں کہ اس وقت ہندو سماج میں دوسرے دھرموں سے کتنے لوگ شدھ ہوکر آئے ہیں جن کی شدھی کی خبریں اخباروں میں جلی الفاظ میں چھپتی ہیں ان کی تعداد کم سے کم پانچ سو تو ہوگی مگر ان میں سے مجھے بیس کے نام تو گن دیجئے۔ جو آج بھی ہندو ہوں …ملکانوں کی شدھی پر بڑا فخر کیاجاتا ہے۔ تھی بھی وہ بڑی فخر کی بات مگر جو لوگ سچائی کو جانتے ہیں وہ بڑے متفکر ہیں ۔ ملکانوں کی شدھی کی جو رپورٹ وقتاً فوقتاً اخبارات میں چھپتی رہی ہے اس کے بموجب شدھ ہونے والوں کی گنتی ڈھائی لاکھ سے کم نہیں پہنچی مگر… ان لوگوں میں بہت سے تو اپنی پہلی حالت میں واپس چلے گئے اور باقی بیچ میں لٹکے ہوئے کسی ٹھوکر کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ ‘‘ (تازیانہ (لاہور) ۱۹؍نومبر۱۹۲۸ءصفحہ ۱۰بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۳۸۸)

مختصر یہ کہ امام جماعت احمدیہ نے آریہ سماج کی ارتداد کی تحریک کے مقابل پر ایک جوابی تحریک شروع فرماکر جس بہادری اور جواں ہمتی سے اس کا مقابلہ کیا اس سے نہ صرف بہت سے مسلمان ہندو ہونے سے بچ گئے بلکہ ایسے بے شمار لوگ جو ہندوہوچکے تھے وہ دوبارہ اسلام کی آغوش میں آگئے۔ پس کسی قوم کا حقیقی راہ نما وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے دل میں اپنی قوم کا حقیقی درد ہو اور وہ اُن کے دلوں میں ایسا جذبہ پیدا کردے کہ وہ اُس کی ہر تحریک پر لبیک کہتے ہوئے دیوانہ وار اُس کے پیچھے چل پڑیں اور اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں ۔(شدھی تحریک کی ایمان افروز تفصیل جاننے کے لیے تاریخ احمدیت جلد ۴ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے )حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ جو شخص یہ عہد کرلیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ کام میں نے ہی سر انجام دینا ہے اُس کے رستہ میں ہزاروں مشکلات پیداہوں ، ہزاروں روکیں واقع ہوں اور ہزاروں بند اُس کے رستہ میں حائل ہوں وہ ان سب کو عبور کرتا ہوا اس میدان میں جاپہنچتا ہے جہاں کامیابی اس کے استقبال کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔پس ہماری جماعت کے ہر شخص کو یہ عہد کرلینا چاہئے کہ دین کا کام میں نے ہی کرنا ہے اس عہد کے بعد ان کے اندر بیداری پیداہوجائے گی اور ہر مشکل ان پر آسان ہوتی جائے گی اور ہر عسر ان کے لیے یسر بن جائے گا ان کو بے شک بعض تکالیف اور مصائب اور آلام سے بھی دوچار ہونا پڑے گا مگر وہ اس پر عین راحت محسوس کریں گے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے کہ دین کی تکمیل کے لیے صرف تم ہی میرے مخاطب ہو تمہارے صحابہ اس کا م میں حصہ لیں یا نہ لیں لیکن تم سے بہرحال میں نے کا م لینا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ رات دن اسی کام میں لگے رہتے تھے اور آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل اس بات کے لیے وقف تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کیاجائے اور آپ اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ اصل میں میرا ہی کام ہے کسی اور کا نہیں … پس جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے وہ ہر میدان میں جیت جاتی ہے اور دشمن کبھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ اپنے مقصد کی کامیابی پر یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو کسی قوم کو بامِ رفعت پر پہنچاسکتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہماری جماعت کے لوگوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ جو مقصدِ عالی ان کے سامنے ہے اسے ہمارے سوا کسی اور نے نہیں کرنا اور یہ کام چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اس لیے کس قدر زیادہ قربانیاں ہمیں اس کے لیے کیوں نہ کرنی پڑیں ہم ان سے دریغ نہیں کریں گے۔ ‘‘ (قومی ترقی کے دو اہم اصول، انوارالعلوم جلد ۱۹صفحہ ۷۶،۷۵)

اللہ تعالیٰ کے مرسل کے ذریعہ جو جماعت قائم کی گئی ہےاُس کے مقاصد بہت بلند اور عالی ہیں ۔اس لیے اس جماعت میں داخل ہونے والوں میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ دین کی خدمت کے لیے اپنے اندر خاص جوش اور جذبہ پیدا کرے اور وہ سمجھ لے کہ دین کا کام میرے سوا کسی اور نےنہیں کرنا۔ جب وہ اپنے ارادوں کو بلند کرلے گا تو پھر وہ اس کی انجام دہی کے لیے اپنی ساری قوتیں صرف کردے گا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایاہے : یَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ (مِشکٰوۃُ الْمَصَابِیْحْ کِتَابُ الْاِیْمَانِ بَابُ الْاِعْتِصَامِ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ)جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتاہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت اُن لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو ایک ہاتھ کے نیچے جمع ہوں اور ایک واجب الاطاعت امام کے پیچھے پیچھے چلنے والے ہوں ۔ پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنی تمام طاقتوں اور استعدادوں کو خلیفہ وقت کی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال کریں اور خلیفہ وقت ہمیں جس وقت اور جس کام کے لیے بلائیں اُس پر لبیک کہتے ہوئے دیوانہ وار اُس کی انجام دہی میں مصروف ہوجائیں ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button