حضرت مصلح موعود ؓ

پیشگوئی مصلح موعود میں بیان کردہ علامات اور ان کا مصداق (از افاضات سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود رضی اللہ عنہ)

پیشگوئی مصلح موعود میں بیان کردہ باون (۵۲)علامات

٭…اگر اس پیشگوئی کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی یہ یہ علامتیں بیان کی گئی ہیں ۔ پہلی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدرت کا نشان ہوگا۔ دوسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ رحمت کا نشان ہوگا۔ تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قربت کا نشان ہوگا۔ چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فضل کا نشان ہوگا۔ پانچویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ احسان کا نشان ہو گا۔ چھٹی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحبِ شکوہ ہوگا۔ ساتویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحبِ عظمت ہوگا۔ آٹھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ صاحبِ دولت ہوگا۔ نویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مسیحی نفس ہو گا۔ دسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ گیارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃ اللہ ہوگا۔ بارہویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہوگا۔ تیرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت ذہین ہوگا۔ چودھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت فہیم ہوگا۔ پندرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل کا حلیم ہو گا۔ سولہویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علومِ ظاہری سے پُر کیا جائے گا۔ سترھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علومِ باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اٹھارویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ انیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ دوشنبہ کا اس کے ساتھ خاص تعلق ہوگا۔ بیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فرزندِ دلبند ہوگا۔ اکیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ گرامی ارجمند ہوگا۔ بائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الاول ہوگا۔ تیئسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ مَظْہَرُ الْآخِر ہوگا۔ چوبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مَظْہَرُ الْحَق ہوگا۔ پچیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مَظْہَرُ الْعَلَاء ہو گا۔ چھبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ کا مصداق ہوگا۔ ستائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول بہت مبارک ہو گا۔اٹھائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ انتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نور ہو گا۔اور تیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی رضا مندی کے عطر سے ممسوح ہو گا۔ اکتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا اس میں اپنی روح ڈالے گا۔ بتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ تینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ چونتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ پینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ چھتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ سینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ اڑتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دیر سے آنے والا ہو گا۔ انتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دور سے آنے والا ہوگا۔ چالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فخرِ رسل ہو گا۔ اکتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی ظاہری برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ بیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کی باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ تینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ یوسف کی طرح اس کے بڑے بھائی اس کی مخالفت کریں گے۔ چوالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر الدولہ ہوگا۔ پینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شادی خاں ہوگا۔ چھیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عالمِ کباب ہوگا۔ سینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہوگا۔ اڑتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃالعزیز ہوگا۔ انچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے وہ کلمۃ اللہ خان ہوگا۔ پچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ناصر الدین ہو گا۔ اکیاونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فاتح الدین ہوگا اور باونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیرِ ثانی ہوگا۔ ( الموعود۔ انوار العلوم جلد نمبر۱۷صفحہ نمبر۵۶۲تا۵۶۵)

خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری کی

٭…ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگوئیاں بار بار میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ میں ان کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں ۔ مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کرتی ہے۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خود بخود گواہی دے دے گا کہ ان پیشگوئیوں کا مَیں مصداق ہوں اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانے کی گواہی میرے خلاف ہو گی۔ دونوں صورتوں میں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق نہیں تو مَیں یہ کہہ کر کیوں گناہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں ۔ اور اگر میرے ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے، وقت خود بخود ظاہر کر دے گا۔ غرض جیسے الہام الٰہی میں کہا گیا تھا انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں ۔ دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا، اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ اس لئے لمبے عرصے کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے۔ مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ تو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا۔ اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔ اسی طرح یہ الہام ہونا کہ یوسف کی خوشبو مجھے آ رہی ہے بتاتا تھا کہ خداتعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصے کے بعد ظاہر ہو گی۔ میں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خود بخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانے میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لئے میں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ کسی کشف کا، الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی مشیّت کے ماتحت اگر اس امر کو ظاہر کر دیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں ۔ چنانچہ آج میں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کر اس نیّت کے ساتھ دیکھیں کہ میں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے۔ ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لئے میں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہو جائے۔ مگر آج پہلی دفعہ مَیں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے۔ (خطبات محمود جلد۲۵صفحہ۵۹تا۶۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button