متفرق مضامین

ارشادات حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ بابت اہمیت ِتعلیم القرآن

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

جلسہ سیرۃ النبی ﷺ، یوم مسیح موعودؑ، یوم خلافت، اور یوم مصلح موعودکوئی رسومات نہیں ہیں بلکہ ان جلسوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان بزرگ شخصیات کی تعلیمات کو سُن کر،سمجھ کر انہیں اپنی زندگیوں میں نافذ کیا جائے،ان کے دیے گئے احکامات و نصائح پر عمل کیا جائے اور ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ یوم مصلح موعود کی نسبت سے اس مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ تعلیم القرآن کی اہمیت کے متعلق حضور ؓکے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جائیں ۔اس مضمون کے تین حصے ہیں ۔

٭…مسلمانوں کے ترکِ قرآن اور اس کے نتیجے میں ان کے زوال پر حضورؓ کے افسوس بھرے کلمات۔

٭…افراد جماعت کو قرآن سیکھنے اور اس پر غوروفکر کی نصائح۔

٭…غیرمسلموں کے اسلام اور قرآن پر حملوں کے دفاع کے لیے اپنےعلم کو بڑھانے کی ضرورت۔

یہود کا طرز عمل مسلمانوں کے لیےعبرت

سورۃ البقرۃ کی آیت 80 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود نے اللہ کی کتاب کو ترک کرکے اپنے ہاتھوں سے نئی نئی باتیں لکھ کر انہیں اللہ کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا۔ اس آیت کی تفسیر میں سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں :’’مسلمانوں کے لئے یہ مضمون بہت ہی عبرت کا موجب ہے۔ آج مسلمانوں کی بھی یہی حالت ہے۔ اکثر مسلمان تو قرآن کریم کے معنی جانتے ہی نہیں اور جو جانتے ہیں وہ صرف محدود علم رکھتے ہیں ۔قرآنی الفاظ کے اندر جو متعدد مضامین پائے جاتے ہیں ان کی طرف نہ توجہ کرتے ہیں نہ توجہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ جو توجہ کرے اسے متأوّل اور کافر قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے قرآن کے خزانے بند ہوگئے۔ اس کا چلتا ہوا پانی اِن لوگوں کے لئے کھڑا ہوکر بدبودار ہوگیا۔ مسلمانوں نے اتنا نہ سوچا کہ جس بات کو قرآن کریم نے یہودیوں کے لئے عیب کے طور پر پیش کیا ہے وہ مسلمانوں کے لئے حُسن کیونکر ہوگیا…کروڑوں مسلمان ہیں جو قرآن کریم کی لفظی تلاوت بھی نہیں کرسکتے اور کروڑوں ہیں جو اس کے لفظ تو پڑھ سکتے ہیں مگر ان کے معنی نہیں جانتے اور ان دونوں گروہوں کے دلوں میں قرآن کریم کے پڑھنے اور اس کے معانی کے جاننے کی خواہش بھی پیدا نہیں ہوتی …میں یہ نہیں کہتا کہ جس کو قرآن کے معنی نہ آئیں اس کو قرآن کریم پڑھنا بھی نہیں چاہئے۔ ایسی تلاوت کم سے کم اسے اس کے مدعا کی یاد تو دلاتی رہتی ہے لیکن اس کے دل میں معنوں کے جاننے کی خواہش تو ہونی چاہئے اور ان کے سیکھنے کے لئے اسے کچھ کوشش تو کرنی چاہئے۔اگر یہ خواہش موجود ہو، اگر اس قسم کی کوشش جاری ہو تو بے شک خدا اور اس کے رسول کے سامنے ایسا آدمی بری قرار دیا جائے گا لیکن جب کوشش مفقود ہو اور خواہش کا وجود ہی نہ ہو تو ایسا آدمی صرف اپنی تمناؤں سے خدا تعالیٰ کو کس طرح خوش کرسکتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 537تا538)

مسلمانوں کی قرآن سے بے توجہی

اپنے ایک خطبہ میں حضورؓ مسلمانوں کی قرآن سے بےتوجہی پر افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’لاکھوں لاکھ ایسے مسلمان ہیں جن کے گھروں میں قرآن مجید ہوگا ہی نہیں ۔ پھر لاکھوں لاکھ ایسے ہیں جنہوں نے اگر گھروں میں قرآن رکھا ہوا ہے تو کبھی اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اور طاق پر پڑے پڑے اس پر گرد جم گیا ہے۔ پھر لاکھوں لاکھ ایسے ہیں کہ اگر قرآن پڑھتے ہیں تو ایسے رنگ میں کہ معنی نہیں جانتے اور اس طوطے سے زیادہ ان کے پڑھنے کی حقیقت نہیں ہوتی جو خود ہی متکلم اور خود ہی مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ’’میاں مٹھو چوری کھانی ہے‘‘۔ وہ قرآن پڑھتے ہیں لیکن پڑھنے میں انہیں کوئی لطف اور مزا نہیں آتا نہ ان کی تسلی ہوتی ہے نہ انہیں قرآن سے محبت پیدا ہوتی ہے بلکہ یونہی ورق الٹتے جاتے ہیں ۔ ان کے دل میں یہ وہم بھی نہیں آتا کہ ہم محبت، شوق اور عمل کرنے کے ارادہ سے قرآن کو پڑھتے ہیں ۔ وہ ایک قصہ یا وظیفہ سمجھ کر پڑھتے ہیں ۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اکتوبر1914ء۔مطبوعہ خطبات محمود جلد4صفحہ185)

حضورؓ مزید فرماتے ہیں کہ مسلمان بھی اپنی کتاب کے متعلق یہود کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ احمدی مسلمانوں میں بھی ایسے افراد ہیں جو قرآن کا ترجمہ نہیں جانتے۔فرمایا:’’اب مسلمانوں کے مذہب کا دارومدار بھی روایات اور خیالات پر آگیا ہے۔ قرآن مجید نے جو اعتراض یہود پر کیا تھا کیا آج مسلمانوں کے گھروں میں وہ بات صادق نہیں آرہی۔ میں نہیں سمجھتا کہ مسلمانوں میں سے ایک فیصدی بھی قرآن پڑھنے والے ہوں گے اور میں نہیں یقین کرتا کہ لاکھ میں سے پانچ بھی ایسے ہوں گے جو قرآن شریف کے معنی جانتے ہوں گے۔ یہاں اتنے آدمی بیٹھے ہیں ان میں سے بھی نصف کے قریب ایسے نکلیں گے جو ترجمہ نہیں جانتے۔ حالانکہ یہاں اس قدر قرآن شریف پڑھایا جاتا ہے کہ دنیا کے صفحہ پر اور کسی جگہ نہیں پڑھایا جاتا۔تو مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ ایسا ہے جو نہیں جانتا کہ قرآن میں کیا لکھا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم مسلمان ہیں ہم جنّت میں جائیں گے۔‘‘ کیا انہوں نے مسلمانوں کے گھر پیدا ہوکر جنت میں جانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے؟ ان کا مذہب محض سنی سنائی باتوں روایتوں اور خیالات پر رہ گیا ہے۔ جو کچھ مولوی انہیں سناتے ہیں وہی مان لیتے ہیں ۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اکتوبر 1914ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 4صفحہ186،185)

قرآن سب دنیا کا مال ہے

حضرت مصلح موعود نے فرمایا:’’نُزِّلَ اِلَیْھِمْ سے اس امر پر بھی زوردیاگیا ہے کہ اس کتاب کاسب دنیا تک پہنچانا ضروری ہے۔کیونکہ اس کا نزول سب دنیا کی طرف ہے اوریہ سب دنیا کامال ہے۔پس ان تک اس کا پہنچانا نہایت اہم فرض ہے۔کاش!مسلمان اس نکتہ کو سمجھتے اورتبلیغ اسلام کے فریضہ کے اداکرنے میں سستی نہ کرتے۔توآج دنیا میں اسلام کے سوا کوئی اورمذہب نظرنہ آتاکیونکہ اس کی پا ک تعلیم کے سامنے کوئی اورتعلیم ٹھہر نہیں سکتی۔‘‘( تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 173)

احباب جماعت کو قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی نصائح

سورۃ الفرقان کی آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کی اس درد بھری فریاد کا ذکر کرتا ہے جو وہ روزِ قیامت کریں گے کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا۔ اس کی تفسیر میں غیراحمدی مسلمانوں کو اس آیت کا مصداق قرار دیتے ہوئے اور احمدی مسلمانوں کو قرآن سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی نصائح کرتے ہوئے سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :’’یہ ایک نہایت مختصر سا فقرہ ہے مگر اس میں ایسا درد بھرا ہوا ہے کہ یہ میرے سامنے کبھی نہیں آیا کہ میرا دل اس کو پڑھ کر کانپ نہ گیا ہو۔اس جگہ قوم کے مصداق رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے آپ کو نہ مانا۔مگر آج کل کے مسلمان بھی اس کے مخاطب ہیں جو رسول کریم ﷺ کے امّتیکہلانے کے باوجود قرآن کریم کو بالکل چھوڑ بیٹھے ہیں …یہ تباہی جو عملی اور اعتقادی لحاظ سے مسلمانوں پر آئی اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا اور اس پر عمل کرنا ترک کر دیا۔اگر وہ قرآن کریم پر عمل کرتے تو جس طرح صحابہ ؓ ساری دنیا پر غالب آگئے تھے۔اسی طرح وہ بھی غالب آجاتے اور کفر اور شیطنت کا نشان تک دنیا سے مٹ جاتا۔میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بھی بار ہا توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم کے درس کا باقاعدہ انتظام کریں لیکن مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک جماعتوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی حالانکہ قرآن کریم اپنے اندر اتنی برکات رکھتا ہے کہ قیامت کے دن رسول کریم ﷺ خداتعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر کہیں گے کہ اے میرے خدا مجھے اپنی قوم کے افراد پر انتہائی افسوس ہے کہ میں نے تیرا محبت بھر ا پیغام اُن تک پہنچایا مگر بجائے اس کے کہ وہ تیرے پیغام کو سُن کر شادی مرگ ہو جاتے۔بجا ئے اس کے کہ وہ اسے سُن کر ممنون ہوتے۔بجائے اس کے کہ اسے سُن کر ان کے جسم کا ہر ذرّہ اور اُن کے دل کی ہر تار کانپنے لگ جاتی۔بجائے اس کے کہ وہ اس مژدۂ جانفرار کو سُن کر عقیدت اور اخلاص سے اپنے سرجھکا دیتے اِتَّخَذُوْ اھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا انہوں نے تیرے پیغام کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور کہا کہ جاؤ ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے۔بیشک اندھی دُنیا خداتعالیٰ کے پیغام کے ساتھ یہی سلوک کرتی چلی آئی ہے مگر وہ دنیا جو یہ جانتی نہیں کہ خداتعالیٰ کیا ہے اور اس کا رسول کتنی بڑی شان رکھتا ہے وہ جو کچھ کرتی ہے اُسے کرنے دو۔مَیں اس مومن سے پوچھتا ہوں جو کہتا ہے کہ خدا ہے جو جانتا ہے کہ خداتعالیٰ کے کلام کی کیا عظمت ہے۔جو سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا بندے کو مخاطب کرنا خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ ایک عظیم الشان انعام ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے کلام کو سُنتا اور پھرا س کا جواب نہیں دیتااور اس پر عمل کرنے کے لیے اس کے دل میں کوئی ولولہ پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ بسم اللہ کی ب سے لے کر و النَّاسکے س تک قرآن کریم کا ایک ایک کلمہ۔اس کا ایک ایک لفظ اور اس کا ایک ایک حرف خداتعالیٰ کی طرف سے بندے کے لئے سلام کا پیغام لے کر آیا ہے اور اپنے اندر اتنی طاقت رکھتا ہے کہ اگر اب بھی مسلمان خداتعالیٰ کے پیغام کے جواب کےلئے تیار ہو جائیں اور اس کی اطاعت کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیں تو یقیناً اُن کی دنیا بدل سکتی ہے۔‘‘( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 485)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر میں درس و تدریس القرآن کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ ہدف حاصل کرلیا کہ ہم میں سے ہر ایک مرد و عورت، چھوٹا بڑا، جوان بوڑھا نہ صرف قرآن ناظرہ جانتا ہے بلکہ اس کا ترجمہ بھی جانتا ہے یا کم از کم سیکھنے کی کوشش کررہا ہے؟ کیا ہمارے والدین بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے اور آمین کروانے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر ترجمہ سکھانے یا اس کا انتظام کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ؟

مندرجہ ذیل دو اقتباسات میں حضورؓ جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں کہ تبلیغ اسلام کا بنیادی ہتھیار قرآن ہے۔ جہاد کرو تو اس کے ذریعہ کرو اور ڈراؤ تو اس کے ذریعہ ڈراؤ۔ ہماری زبانوں اور قلموں سے سوائے قرآن کے اور کچھ نہ نکلے۔ ہماری فتح اور کامیابی قرآن کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہم میں سے اگر اب تک کسی نے قرآن نہیں سیکھا اور وہ اسّی برس کا بھی ہوچکا ہے تب بھی اسے مزید وقت ضائع کیے بغیر قرآن سیکھنا شروع کردینا چاہیے۔

قرآن کے ذریعہ جہاد کرو

فرمایا:’’الٰہی کلام کی مدد سے لوگوں کو دین کی طرف بلاؤ۔جودلائل خود قرآن کریم نے دیئے ہیں انہی کو پیش کرو۔اپنے پاس سے ڈھکونسلے نہ پیش کیاکرو۔آہ!اگر اس گرکو مسلمان سمجھتے تویہودیت اورعیسائیت کو کھا جاتے۔ہماراہتھیار قرآن کریم ہی ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ(الفرقان ع 5)اس قرآن کی تلوار لے کر دنیاسے جہاد کے لئے نکل کھڑاہو۔پرافسو س کہ آج دنیا کی ہرچیز مسلما ن کے ہاتھ میں ہے لیکن اگر نہیں تویہی تلوار،جس کو لے کر نکل کھڑے ہونے کا حکم تھا۔‘‘( تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 273)

قرآن کے ذریعہ ڈراؤ

’’اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو اس لئے نازل فرمایا ہے تاکہ یہ قرآن تمام دنیا کے لئے نذیر ہو۔پس اگر کوئی چیز دنیا کو بیدار کر سکتی ہے اور اگر کوئی کلام دنیا کو ڈرا سکتا ہے۔تو وہ صرف قرآن کریم ہی ہے اور جب قرآن کریم ہی دنیا کو بیدار کر سکتا ہے اور وہی دنیا کی ہدایت کا موجب بن سکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے ہر ایک نے قرآن کریم پڑھا ہے یا کیا اُسے سمجھنے اور پھیلانے کی کوشش کی ہے ؟ اگر ہم نے قرآن کریم نہیں پڑھا اور اُسے سمجھنے اور پھیلانے کی کوشش نہیں کی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسلام کے سپاہی نہیں ۔کیونکہ ہم نے اس ہتھیار کی طرف توجہ نہیں کی جس کے ذریعہ سے یہ دنیا فتح ہو سکتی ہے۔پس قرآن کریم کو نذیر قرار دے کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم قرآن کریم کو بار بار پڑھو اور اُسے سمجھنے اور پھیلانے کی کوشش کرو۔یہاں تک کہ جب تم بولو تو تمہاری زبانوں سے قرآن کریم جاری ہو۔اور جب تم لکھو تو تمہاری قلموں سے قرآن کریم جاری ہو۔اور تمہارے خیالات اور تمہارے جذبات اور تمہاری خواہشات سب کی سب قرآن کریم کے تابع ہوں ۔جب تک تمہاری زبانوں سے قرآن کریم نہیں بولے گا اور جب تک تمہاری قلموں سے قرآن کریم نہیں نکلے گا اس وقت تک دنیا تمہارے ذریعہ سے ہدایت نہیں پا سکتی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 430)

فتح و کامیابی قرآن کے لیے مقدر ہے

’’دوسری بات جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم تمہارے دلوں اور دماغوں پر حاوی ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کریم کے لئے فتح مقدر ہے۔جب تم اپنے وجود کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کردو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی فتح عطا فر مائےگا۔تیسری بات اس میں یہ بتائی گئی ہے کہ جب تک تم محمد رسول اللہ ﷺ کی نقل نہیں کر تے اور آپ کے نقشِ قدم پر نہیں چلتے اور جب تک تم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے محمد ؐ بننے کی کوشش نہیں کرتے اُس وقت تک تم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 431)

مسلمان بنو۔ ہر عمر میں قرآن پڑھو

’’ہماری جماعت کے آدمیوں کو چاہئے کہ خواہ کوئی اسّی برس کا بوڑھا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی قرآن کریم کے پڑھنے اور معنی سیکھنے کی کوشش کرے۔ کون کہتا ہے کہ بڑی عمر میں پڑھا نہیں جاتا۔ جس طرح وہ دنیا کے کاموں میں محنت کرتے اور مشکلات اٹھاتے ہیں اور وقت صرف کرتے ہیں اگر اس کا نصف حصہ بھی قرآن شریف کے سیکھنے میں لگائیں تو سیکھ سکتے ہیں ۔ یہ ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ کم از کم قرآن شریف کا ترجمہ تو پڑھ لے اور انسان اورباخدا انسان بنے نہ کہ میاں مٹھو بنے۔ قرآن شریف کے معنی نہ سمجھنا اور یونہی پڑھنا میاں مٹھو بننا ہے۔ پس تم ترجمہ سیکھو اور معنی اور مطلب سمجھو تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کیا حکم دیتا ہے۔ تم قرآن کو بامعنی پڑھنے کی کوشش کرو۔ یہود کی طرح نہ بنو کیونکہ یہ صفت یہود کی ہے کہ توریت ان کے پاس موجودتھی مگر وہ اس کے معنی نہیں جانتے تھے۔ تم مسلمان بنو اور مسلمان ہوکر قرآن کے معنی سیکھو۔ جب سیکھ جاؤگے تو اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کروگے اور جب عمل کروگے تو خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاؤگے۔ اپنا وقت نکال کر بوڑھے جوان عورتیں بچے قرآن سیکھیں اور جہاں موقع پائیں کوتاہی نہ کریں ۔ احمدی جماعت کو شرم کرنی چاہئے کہ ابھی تک بہت حصہ نے قرآن نہیں سیکھا۔ ہمارے لئے دقتیں بھی ہیں کہ احمدی بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں جن کی تربیت اور پڑھنے کا زمانہ گزرچکا ہوتا ہے مگر صحابہ میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں ہی دوسرے مذاہب کی کتابوں کو پڑھ کر فائدہ اٹھایا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اکتوبر1914ءمطبوعہ خطبات محمودجلد 4صفحہ187)

دشمنانِ اسلام کی مخالفانہ کوششیں اور مسلمانوں کی غفلت

جلسہ سالانہ 1928ء سے شروع ہوکر چھ سال تک جاری رہنے والی عظیم الشان اور پُرمعارف تقاریر میں جو ’’فضائل القرآن‘‘کے نام سے شائع ہوچکی ہیں ، سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے قرآنی فضیلت کی چھبیس26وجوہات بیان فرماتے ہوئے جماعت کو توجہ دلائی کہ غیرمسلموں کے اسلام اور قرآن پر حملوں کے دفاع کے لیے ان وجوہات کا سیکھنا لازمی ہے۔ ان تمام وجوہات کا یہاں بیان کرنا طوالتِ مضمون کا باعث ہوگا۔قارئین سے اس کتاب کے مطالعہ اور استفادہ کی درخواست ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں :’’میں اختصار کے ساتھ صرف اتنا ہی بیان کردیتا ہوں کہ قرآن کریم پر غور کرنے اور اسے دنیا کے سامنےپیش کرنے کے لئے کِن کِن مطالب پر غور کرنا چاہئے اور یہ کہ عیسائی اور دوسرے غیرمسلم اسلام اور قرآن کریم کے خلاف کتنی کوششیں کررہے ہیں اور مسلمان اس کی طرف سے کتنے غافل اور لاپرواہ ہیں ۔‘‘(فضائل القرآن نمبر 1صفحہ3)

اس سلسلۂ تقاریر میں حضورؓنے قرآن مجید کی کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد بیان فرماتے ہوئے بدلائل ثابت کیا کہ الہامی کتب میں سب سے افضل کتاب قرآن مجید ہی ہے۔ حضور ؓنے فرمایا کہ سب سے آخر اور سب سے افضل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے کمال سے یہ ثابت کرے کہ اس کے اندر وہ کچھ ہے جو دوسری کتب میں نہیں ۔ کچھ خوبیاں تو سب میں ہوسکتی ہیں ۔لیکن افضل کتاب وہی کہلائے گی جو سب خوبیوں کی جامع ہو اور تمام وجوہِ کمال میں سب سے بڑھ کر ہو۔ قرآن اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ احمدی مسلمانوں کو قرآن کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت فرماتے ہوئےحضور ؓفرماتے ہیں : ’’دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی افضل اور بےنظیر کتاب پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو حِرزِجان بنانے کی کوشش کرو۔ اس وقت میں قرآن کریم کے جن مطالب کو واضح کرسکا ہوں ان کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسے مطالب پیش نہیں کرسکتی۔ دوستوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اس کتاب کی طرف خاص طور پر توجہ دیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔اگر کسی انسان کے پاس بہتر سے بہتر چیز ہو لیکن وہ استعمال نہ کرے تو اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کنواں موجود ہو لیکن ہم پانی نہ پیئیں تو کس طرح پیاس بجھ سکتی ہے۔ پس یہ اعلیٰ درجہ کی کتاب جو تمہارے پاس موجود ہے یہ اسی صورت میں مفید ہوسکتی ہے جب کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ اور ہر معاملہ میں قرآن کریم کی اقتداء کرو تاکہ قرآنی حسن دنیا پر نمایاں ہو اور انہیں بھی اس پاک کتاب کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر اور کہیں نور اور ہدایت نہیں۔‘‘ (فضائل القرآن نمبر 2صفحہ115,114)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیّدنا حضرت مصلح موعودؓکی ان ہدایات اور نصائح کی روشنی میں قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور اسے پوری دنیا میں پھیلانے، اس کے ذریعہ جہاد کرنے اور اس کے ذریعہ ڈرانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button