خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ ۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میںقرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان

٭… قرآن کریم عمیق حکمتوں سے پُر ہے ۔ ہر ایک تعلیم میں حقیقی نیکی سکھائی گئی ہے ۔سچے اور غیر متغیر خدا کو دیکھنے کا چراغ قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے

٭…جو شخص سچے طور پر خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کریم کی تعلیم پر کاربند ہو جائےتو اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا

٭… اگر مسلمان زمانے کے امام کو مان لیں اور قرآن کریم کی تعلیم پرعمل کریں تو غیر مسلموں کو کبھی بھی قرآن کریم کی توہین کی جرأت نہ ہو

٭… اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسی مثالیں ہیں کہ غیر مذہب بلکہ لامذہب اور خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی خدا کےوجود کا یقین دلایا گیا

٭… قرآن کریم معارف اور حقائق کا ایک دریااور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے ۔ممکن نہیں کہ کوئی شخص بجز قرآن کریم کے خدا تعالیٰ پر یقین لاسکے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء بمطابق ۱۰؍تبلیغ ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

گذشتہ خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ آج اس سلسلہ میں مزید کچھ پیش کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پرملکہ کو اسلام کی تبلیغ کے لیے لکھی گئی اپنی تصنیف تحفہ قیصریہ میں قرآن کریم کے فضائل اور اہمیت کے بارے میں فرمایا کہ قرآن کریم عمیق حکمتوں سے پُر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی سکھائی گئی ہے۔بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کو دیکھنے کا چراغ قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگروہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی دوبارہ قائم ہوگئی۔

حضور انور نے فرمایا کہ کون تھا اُس زمانے میں جس نے اتنی جرأت کے ساتھ قیصرہ ہند کو یہ پیغام بھیجا اور اسلام کی تبلیغ کی ہو۔ آج یہی لوگ جن میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اسلام اور قرآن کریم کی عظمت بیان کرتے۔ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ قرآن کریم کی توہین کررہی ہےجبکہ غیر مسلم جوکہ قرآن کریم کی عظمت کا ردّ تو کر نہیں کرسکتے بلکہ ان کی حرکتیں دیکھ کر اسلام کی مخالفت میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ اپنے دل کی تسکین کے لیے قرآن کریم کے نسخوں کو جلا کراپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔جیسے کہ سویڈن اور سکینڈے نیوین ممالک میں اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔اگر مسلمان زمانے کے امام کو مان لیں اور قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پرعمل کریں تو غیر مسلموں کو کبھی بھی اس طرح قرآن کریم کی توہین کی جرأت نہ ہو۔اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے۔

قرآن کریم ہی اب ہدایت کا ذریعہ ہے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہےکہ جو شخص سچے طور پرخدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کریم کی تعلیم پر کاربند ہوجائے تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔وہ خدا جو دنیا کی نگاہوں سے ہزاروں پردوں میں ہے اُس کی شناخت کے لیے بجز قرآن کی تعلیم کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس میں ایک برکت اور قوت جاذبہ ہے جو خدا کےطالب کو دم بدم خدا کی طرف کھینچتی ہے اور روشنی اور سکینت اور اطمینان بخشتی ہے۔قرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُرحکمت علم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہیے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ درحقیقت وہ موجود ہے۔اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لا شریک ہےبلکہ سدا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ واقعی طور پر اُس کا مشاہدہ کرلیتا ہے۔

پھر قرآن کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے۔ اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ میں بیان فرمایاکہ جو نتائج اکمل اور اتم ہیں وہ حاصل ہوجائیں گے۔عملی ترقی کے لیے اُن لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا ہے جو انعام یافتہ ہیں۔نبی، صدیق، شہیداور صالحین ہیں اور جن کی مثالیں بھی موجود ہیں۔اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں اورجن کو اللہ تعالیٰ انعامات سے نوازتا ہے۔

ایسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پوری طرح نشو و نما حاصل نہ کرے اُس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں تو وہ مُردہ ہدایت ہے۔ قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے جس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجے کے کمالات حاصل کرلیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیدا ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ اُس کے اعمال شجرہ طیب بنتے ہیں اور اُس کے اعمال پھل پھول لاتے ہیں۔قرآن کریم ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اُس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھےاور بہت سی بد اعتقادیاں اور بد اعمالیاں رائج ہوگئی تھیں۔اس کی جانب اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اشارہ فرماتا ہے کہ بداعمالی میں گرفتار تھے اسی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے۔ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡر۔یعنی تمام لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب بدعقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فسادِ عظیم برپا تھا۔پس اسی لیے خدا تعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کے لیے قرآن کریم جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لیے بھیجی۔خاص کر سورت فاتحہ جو پنجوقت نمازوں کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارے کے طور پر کُل عقائد کا ذکر ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم ایک معجزہ ہے۔ معجزہ ایک ایسی خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اس کے مقابل پر کوئی مثال پیش کرنے سے عاجز آجائے۔قرآن کریم کا معجزہ ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا لیکن عرب کے تمام باشندے اس کی نذیر پیش کرنے سےعاجز آگئے۔پس معجزے کی حقیقت سمجھنے کے لیے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے۔اس کاکلام نہایت فصیح و بلیغ ہے۔یہ ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود تیرہ سو برس گزرنے کے اب تک کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرسکے۔ یہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارت کے طور پر بیان فرماتا ہے۔ غرض اصلی اور بھاری مقصد معجزے سے حق اور باطل میں یا صادق اور کاذب میں ایک امتیاز دکھلانا ہے۔ مذہب کی اصل سچائی خداتعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے۔سچے مذہب کے لیے ضروری ہے کہ اُس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر قطعی اور یقینی دلالت کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جو مذہب خدا شناسی کو چھوڑتا ہے وہ ایک مُردہ مذہب ہے جس سے کسی کو پاک تبدیلی حاصل نہیں ہوسکتی۔ فرمایا کہ پھر اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ اس کتاب میں عقلی باتیں جو لکھی ہیں وہ درحقیقت الہامی ہیں۔ ہستی باری تعالیٰ پر وہ کب دلیل دے سکتی ہیں اور کب کسی طالب حق کا نفس اس بات پر پوری تسلی پاسکتا ہے کہ فقط وہی عقلی باتیں یقینی طور پر آیت خدا نما ہیں اورکب یہ اطمینان ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں کلی طور پر غلطی سے پاک ہیں۔ پس اگر مذہب صرف چند باتوں کو عقل یا فلسفے کی طرف منسوب کرکے اپنی سچائی کی وجہ بیان کرتا ہےاور آسمانی نشانوں اور خارق عادت اُمور کو دکھلانے پر قاصر ہے تو ایسے مذہب کا پیرو فریب خوردہ ہے اور وہ تاریکی میں مرے گا۔ جب تک ایک مذہب اس بات کا ذمہ دار نہ ہو کہ وہ خدا کی ہستی کو یقینی طور پر ثابت کرکے دکھائے تب تک وہ مذہب کچھ چیز نہیں ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جس کو حاصل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ خدا کو نشانوں سے، ذاتی تعلق سے پہچانیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی حقیقت انسان پر کھلتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسی مثالیں ہیں کہ غیر مذہب بلکہ لامذہب اور خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی خدا کےوجود کا یقین دلایا گیا۔ عقلی دلائل دیے گئے اور پھرجب نشان دکھائے گئے اور واقعات بیان کیے گئے تو انہوں نے مذہب کو بھی مانا اور اسلام کو بھی مانا۔ بیلجیم کے ایک دہریہ دوست نے بیعت کی اوربتایا کہ جب میں نے خدا کے وجود کو تسلیم کرلیا تو پھر میرے لیےاور کوئی چارہ نہ تھا کہ میں احمدیت اور حقیقی اسلام کو تسلیم نہ کروں اور یہ راستہ کیونکہ مجھے احمدیت نے دکھایا تھا اس لیے میں احمدی مسلمان ہوں۔ افسوس ہمارے مخالفین یہ معرفت کی باتیں سننا نہیں چاہتے اور ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم نے قران کریم میں تحریف کردی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم نے ہر ایک قصے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور اسلام کے لیے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہےاور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں۔ غرض قرآن کریم معارف اور حقائق کا ایک دریااور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص بجز قرآن کریم کے خداتعالیٰ پر یقین لاسکےاور یہ خاصیت خاص طور پر قرآن شریف میں ہی ہےکہ خدا اور انسان میں حائل پردے دُور ہوجاتے ہیں۔ قران کریم کے دو حصے ہیں۔ایک قصے اور دوسرا احکام۔ کوئی بات قصے کے رنگ میں ہوتی ہے اور بعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس میں تمیز نہیں کرتے وہ لوگ قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں۔

یہ مضمون جاری ہے اور بھی آپؑ کے ارشادات ہیں وقتاً فوقتاً بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قران کریم کی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button