حضرت مصلح موعود ؓ

استعانت بغیر عبودیت کے حاصل نہیں ہوسکتی (قسط دوم)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۴؍ اگست ۱۹۳۶ء بمقام دھرم سالہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے مجھے یہ تو قطعاً یقین نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں ہی فرماتے ہوں کہ ہم طبیبوں کی بھی کیا زندگی ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی شخص اپنے نیفے کو کھجلاتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو کچھ فیس دینے لگا ہے۔ یہ انہوں نے عام اطباء کی حالت بیان فرمائی ہے نہ کہ اپنی۔ کیونکہ

کامل مومن کی نظر لوگوں کی طرف نہیں ہوتی اور حضرت خلیفہ اوّل کو ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جب اُن کو روپوں کی ضرورت ہوتی تو فوراً کوئی شخص آتا اور علاج کرواکے بغیر گننے کے کچھ روپے دے جاتا۔

ایک دفعہ حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم، حضرت خلیفہ اوّل کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور حضور کو کچھ روپے دے گیا۔ حضور نے حافظ صاحب مرحوم سے گننے کو فرمایا تو وہ روپے اُسی قدر نکلے جس قدر ایک قرض خواہ کو دینے تھے۔ ایسا معاملہ تو عام مؤمنوں سے بھی ہوجاتا ہے لیکن عام مومنوں میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکی شرط اعلیٰ پیمانہ پر نہیں پائی جاتی بلکہ یہ صرف خاص مومنوں کے لئے ہی ہے۔ پس

جب کامل مومن اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر خداتعالیٰ کا کامل عبد ہوجاتا ہے تو پھر اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہتا ہے یعنی اے خدا! جب میں تیرا ہی بندہ ہوچکا اب میں تیرے دروازے کو چھوڑ کر اور کسی کا دروازہ کیوں کھٹکھٹائوں؟ گویا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ لازمی نتیجہ ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُکا۔

اس مقام پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں

کہ یہاں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پہلے ہونا چاہئے تھا اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ بعد میں کیونکہ بغیر اعانتِ الٰہی کے عبودیت کامقام حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کا یہ کہنا بھی ایک طرح سے درست ہے لیکن

جس مقام کایہاں بیان ہے اس میں عبودیت، استعانت سے قبل ہی درست ہے کیونکہ یہاں گویا پہلے سوال اُٹھایا ہے کہ کون شخص اللہ تعالیٰ کا عبد ہوتا ہے اس کے بعد خود ہی جواب دے دیا کہ جو خداتعالیٰ سے ہی استعانت طلب کرے اور صرف اسی کی طرف اُس کی نظر اُٹھے اور اُسی پر اُس کا کامل بھروسہ ہو۔

حضرت سیّد عبدالقادر جیلانیؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں اُس وقت تک کھانا نہیں کھایا کرتا جب تک مجھے اللہ تعالیٰ نہیں فرمادیتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ہی ذات کی قسم ہے کہ تُو ضرور کھانا کھا اور میں اُس وقت تک کپڑا نہیں پہنتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے نہیں فرمادیتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ہی ذات کی قسم کہ تُو ضرور یہ کپڑا پہن۔ یہ بھی ایک خاص مقام ہے جو اُن کوحاصل تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ حضور میں سادگی اور فقر نظرنہیں آتا۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل ان لوگوں کو یہ جواب دیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام میں سلیمانؑ کے نام سے بھی تو یاد فرمایا ہے اور وہ بادشاہ تھے۔ پس اگر حضور میں حضرت سلیمانؑ کے حالات نہ پائے جائیں توحضور کا یہ الہام غلط ٹھہرے گا۔

حضور کو اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کا رنگ عطا فرمایاتھا۔ حضور میں نبی کریم ﷺ کی سی سادگی بھی تھی اور سلیمانؑ کے حالات بھی حضور میں نظر آتے تھے۔ پس عبودیتِ تامہ کے بعد انسان کو کلی طور پر خداتعالیٰ کی طرف سے استعانت حاصل ہوجاتی ہے اورہر ایک انسان کو یہ درجہ حاصل ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ ہمت نہ ہارے۔ حتّٰی کہ ابوجہل جیسا انسان بھی اِیَّاکَ نَعْبُدُ پر عمل کرکے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا مستحق بن سکتاہے۔ اگر ابوجہل کے لئے یہ امر محال ہوتا تو ا س کا یہ مطلب ہے کہ پھر خداتعالیٰ کو کوئی حق نہیں کہ ابوجہل کو سزا دے کیونکہ خداتعالیٰ نے اس کے اندر اگر یہ ملکہ ہی نہیں رکھا تو اس کو سزا دیناقرینِ انصاف نہیں کیونکہ پھر وہ معذور ہے۔ پس

اس مقام کے حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دے رکھی ہے خواہ وہ کسی مُلک کا ہو، کسی قوم کا ہو، کسی حالت میں زندگی گزاررہا ہو۔ پس کیوں ہر ایک انسان یہ کوشش نہ کرے کہ وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے مرحلے کو طے کرتا ہؤا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی منزل پر جا کر ٹھہرے۔

مجھے ان دوستوں پر تعجب آتا ہے جو دشمنوں کی مخالفت کو دیکھ کر گھبراجاتے ہیں مگر غور کرنا چاہئے کہ اگر دین پرکوئی خطرہ نہ آئے جس میں ہم کودین کی نصرت کاموقع مل سکے تو ہمارے اخلاص کا اظہار کس طرح ہو۔ اسی طرح

اگر ہم پرتکالیف اور مصائب نہ آئیں تولوگوں کو کس طرح علم ہو کہ خداتعالیٰ ہماری اعانت فرماتا ہے

اور ان تکالیف کو دور کرنا اُس کے سامنے کچھ بھی نہیں اور اس طرح گویا خداتعالیٰ بھی اپنا امتحان دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ میرے اندر کس قدر طاقت اور قوت ہے اور وہ اپنی قدرت کا اس طرح پر اظہار کرتاہے کہ پہلے پہل لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے کو بظاہر حالات میں ذلیل کرلیں اور اس کو طرح طرح کی تکالیف کا نشانہ بنالیں۔ اُس کی جان اور مال اور آبرو پر حملے کرلیں۔ اس کے بعد یکدم خداتعالیٰ نمودار ہوتا ہے اوردنیا کو کہتا ہے کہ کون ہے جو میرے اس بندے کو ہاتھ لگاسکے ااور پھر اس کے دشمنوں کوذلیل و خوار کردیتا ہے اُس کو عزت کے مقا م پرپہنچادیتا ہے اور اس طرح دنیا کو بتلادیتا ہے کہ میں کس قدر قادر ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سلطان عبدالحمید شاہ ٹرکی کی ایک بات بہت ہی پسند آتی ہے

اور وہ یہ کہ جب یونان سے جنگ ہونے کو تھی تو اس کے جرنیلوں نے جلسہ کیا اور خوب ردّو قدح کے بعد کہنے لگے کہ ہمارے پاس جنگ کا فلاں فلاں سامان تو کافی موجود ہے لیکن فلاں سامان موجود نہیں ہے اس لئے ہم کو جنگ سے احتراز کرنا چاہئے۔ اس موقع پر سلطان عبدالحمید نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم نے اپنی طرف سے سارے خانے پُر کرلئے اب کوئی خانہ خداتعالیٰ کے لئے بھی تو رہنے دو اور حملہ کردو۔ چنانچہ حملہ کیا گیا اور فتح حاصل ہوئی۔ حضور فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبدالحمید کی یہ بات کہ خداتعالیٰ کے لئے بھی کوئی خانہ رہنے دو مجھے بہت ہی پسند ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ جب ہماری جماعت میں سے کسی دوست پر انفرادی طور پر یا جماعت پر بحیثیت مجموعی مصائب آتے ہیں تو دوست گھبرا اُٹھتے ہیں اور دوست اخلاص کی وجہ سے مجھے آن آن کر مشورے دینے لگتے ہیں کہ فلاں بات یوں کریں، فلاں یوں کریں۔ خصوصاً جس جگہ کے دوست آرام میں ہوں جیسا کہ قادیان کی حالت ہے وہ ناصح مشفق بن کر مجھے نصائح شروع کردیتے ہیں کہ گورنمنٹ سے جنگ پر اُترنا ٹھیک نہیں اور لوگوں کو اپنی مخالفت پر آمادہ نہیں کرنا چاہئے۔

وہ تو دل میں خیال کررہے ہوتے ہیں کہ وہ میری خیرخواہی کررہے ہیں لیکن میں اُن کو اپنے دل میں بُزدل یقین کررہا ہوتا ہوں

کیونکہ جب ہم اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ چکے تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم خداتعالیٰ کا کام کریں اور وہ خراب ہوجائے۔ ہمارے تباہ ہوجانے سے دنیا کو ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ کیا ابوبکرؓ، عثمانؓ اور عمرؓ کی شہادت سے اسلام کوکوئی نقصان ہؤا؟ ہرگز نہیں حالانکہ یہ خلفاء مقتدر صحابہ میں سے تھے۔ پس ہم کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے جھکیں اور اُن سے غیر ضروری نرمی اختیار کریں۔ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے خودبخود ہوجائے گا ۔

ہمارا تو صرف اتنا فرض ہے کہ قربانی سے دریغ نہ کریںآگے خداتعالیٰ کی مرضی ہوگی تو ہم سے کام لے لے گا اورمرضی ہوگی تو ہم سے کام نہ لے گا۔

عبودیتِ تامہ کے ساتھ جبکہ استعانت لازمی طور پر لگی ہوئی ہے تو ہم کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ بُزدل شخص کے دل میں عبودیتِ تامہ اور خوف اور لالچ ایک جا جمع ہوسکیں۔ ہاں خداتعالیٰ سے خوف کرنا اور اس کی کسی چیز کی خواہش رکھنا بُزدلی اور لالچ نہیں کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے تو یہ امید ہوتی ہے اور لالچ تو بندوں سے ہوتا ہے اسی طرح

اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بھی عبادت ہے نہ کہ بُزدلی

جس طرح سنکھیا سے ڈرنا بُزدلی نہیں کیونکہ جس چیز کا نتیجہ یقینی ہو اُس سے ڈرنا بُزدلی نہیں کہلاتا۔ بُزدلی تو اُس چیز سے ڈرنے کو کہتے ہیں جس کانتیجہ یقینی نہ ہو۔ پس انسان کیونکہ ہم کو یقینی طور پر کوئی نقصان نہیںدے سکتے اس لئے اس سے خوف کرنا بُزدلی کہلائے گا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کیونکہ یقینی انسان کو تباہ کردینے والی ہے اس لئے اس سے بچنے والا محتاط کہلائے گا نہ کہ بُزدل۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی امید رکھنا لالچ نہیں کیونکہ لالچ تو اُس چیز کے متعلق کیا جاتا ہے جس کا ملنا شکی ہو۔ لیکن

جس چیز کے متعلق ملنے کایقین ہو اُس کے بارہ میں لالچ کا لفظ نہیں بولا جاتا

مثلاً کسی شخص کو تنخواہ کا ملنا یقینی امر ہے تو یہ لالچ نہیں کہلاسکتا۔ پس خداتعالیٰ کی طرف سے جو چیزیں ہم کو ملتی ہیں کیونکہ وہ یقینی ہوتی ہیں اس لئے ان کی امید لالچ نہیں ہے اور جو شخص اس مقام سے اِدھر اُدھر جاتا ہے وہ اپنے اندر عبودیت نہیں رکھتا یا پھر وہ غلطی خوردہ ہے اور اگرچہ ہم اس کومؤمن کہہ لیں گے لیکن اسے کامل مؤمن نہیں کہہ سکتے۔ اور اپنے کامل مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں کرتا بلکہ حدیث شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ (بخاری کتاب الدعوات باب فَضْلِ ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ )یعنی ان لوگوں کے پاس بیٹھنے والا بھی ضائع نہیں ہوسکتا۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button