یادِ رفتگاں

میری والدہ اقبال بانو صاحبہ

(’ابن زکریا‘)

ماں اور اولاد کا رشتہ محبت قدرتی اور فطری رشتہ ہے جوکسی حال میں قطع نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کی تکلیف دوسرے کو بے قرار اور بے چین کردیتی ہے۔ خصوصاً ماں کی محبت تو بطور ضرب المثل مشہور ہے۔ والدین کا وجود ایک نعمت عظمیٰ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اور شرک سے منع کیا ہے اس کے ساتھ ہی وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا کی وصیت فرمائی ہےکہ میرے بندوں کو اپنے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد وہی ہیں جو ان کے اس دنیا میں ظہور کا موجب ہوتے ہیں اور بحیثیت والدین ان کا بھی کوئی شریک نہیں ہوتا۔ اس لیے جب ان میں سے کوئی ایک خدا کو پیارا ہو جاتا ہے تو اس سے ان کی اولاد کو طبعی طور پر سخت صدمہ ہوتا ہے۔

مؤرخہ 28؍دسمبر 2019ء کو خاکسار کی والدہ محترمہ مکرمہ اقبال بانو صاحبہ بعمر تقریباً 54 سال اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحومہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ مورخہ 29؍دسمبر 2019ء کو مسجد مبارک ربوہ میں نماز ظہر کے بعد مکرم و محترم ناظرصاحب اعلیٰ و امیر مقامی نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں ان کی تدفین ہوئی۔

اس وقت خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں مرحومہ کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کی عاجزانہ درخواست کی جسے حضور انور نے ازراہ شفقت قبول فرمایا اور مورخہ 18؍جنوری 2020ءکو نماز ظہر سے قبل مسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے، کے باہر تشریف لا کرنماز جنازہ غائب پڑھائی۔

خاکسار یکم جولائی 2017ء کو جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سےخدمت دین کی توفیق پارہا ہے۔ خاکسار کے والدین ضلع جھنگ میں رہائش پذیر ہیں۔ جس دن والدہ محترمہ کی وفات ہوئی خاکسار والدین سے ملنے ان کے پاس ہی گیا ہوا تھا۔ اُس روز خاکسار کی واپسی تھی لیکن والدہ محترمہ نے خاکسار سے کہا کہ کل چلے جانا آج تمہارے کپڑے دھو دیتی ہوں۔ کپڑے دھونے کےلیے انہوں نے ابھی واشنگ مشین میں کچھ پانی ہی ڈالا تھا کہ اچانک سینہ اور بائیں بازو میں تکلیف ہونے لگی۔ فوراً چیک اَپ کروایا گیا۔ چیک اَپ کے دوران ایک انجکشن لگا اور ہومیو پیتھک دوا کھلانے کےلیے دی گئی۔ کچھ دیر درد رکا لیکن پھر درد مزید بڑھ گیا۔ ہسپتال لے جانے کےلیے گاڑی کا انتظام کیا گیا لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مرحومہ نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا اور مالک کل کائنات کے حضور حاضر ہوگئیں۔

مرحومہ خلافت کی انتہائی جاںنثار اور فدائی تھیں اور خلیفہ وقت کے ساتھ انتہائی اخلاص و وفا کاتعلق تھا۔اکثر خاکسار کو حضور انور کی خدمت اقدس میں دعا کےلیے لکھنے کا کہتی رہتیں۔ وفات سے چند لمحے قبل بھی جب درد بڑھا تو انہوں نے خاکسار سے کہا کہ حضور انور کی خدمت اقدس میں دعا کے لیے لکھ دو، اب صرف خلیفہ وقت کی دعا ہی بچاسکتی ہے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ابھی خاکسار حضور انور کی خدمت میں خط لکھنے کی تیاری میں تھا کہ انہیں جان لیوا ہارٹ اٹیک آگیا اور وہ اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔

مرحومہ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ رات کو گھر کے کام کاج میں جتنی مرضی دیر ہوجاتی نمازیں ادا کیے بغیر نہ سوتیں۔ نماز فجر پر ہمیں بھی جگاتیں اور خود بھی باقاعدگی سے نماز پڑھتیں۔ اگر کبھی ہم نماز فجر بروقت ادا نہ کرتے یا مسجد جانے کی بجائے گھر میں ہی ادا کرلیتے تو سارا دن ناراض رہتیں اور سارا دن اس غلطی پر سمجھاتی رہتیں۔ ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھنے کی کوشش کرتیں۔ باوجوداس کے کہ اب صحت اس طرح اجازت نہ دیتی تھی اپنی زندگی کے آخری سال بھی رمضان کے روزے رکھے۔ اسی طرح ہر سال ماہ رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت کے دو سے تین ادوار مکمل کرنے کی کوشش کرتیں اور ہمیں بھی اس کی تاکید کرتیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کرتی تھیں۔ جامعہ احمدیہ کی تعلیم کے دوران خاکسار اور خاکسار کے چھوٹے بھائی کے جب امتحانات ہوتے تو ہم اپنی ڈیٹ شیٹ محترمہ والدہ صاحبہ کو فون کے ذریعہ لکھوادیتے۔ جس دن پیپر ہوتا اس روز پیپر کے آغاز سے اختتام تک گھر میں بیٹھ کر تلاوت کرتی رہتیں۔

انہیں مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ فارغ اوقات میں کوئی نہ کوئی جماعتی کتاب پڑھتی رہتیں اور پھر اس پرخود عمل کرنے کی کوشش کرتیں اور ہمیں بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتیں۔ جب رسالہ مصباح شائع ہوا کرتا تھا تو باقاعدگی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا کرتی تھیں۔

آپ کو اکثر سچی خوابیں آیا کرتی تھیں۔ خاکسار کے ایک خالہ زاد جب جامعہ میں داخلہ کے لیے آئے تو والدہ صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خواب میں زیارت کی، جس پر انہیں یقین تھا کہ موصوف کا جامعہ احمدیہ میں داخلہ ہوجائے گا۔ اسی طرح خاکسار اور خاکسار کا چھوٹا بھائی بھی جب جامعہ احمدیہ میں داخلہ کےلیے آئے تو اس وقت بھی انہیں خوابیں آئیں جن میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت کی اور دیکھا کہ حضور ہمارے گھر تشریف لائے ہیں اور خاکسار کی والدہ مرحومہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں کچھ پیش کیا ہے جسے حضور انور نے ازراہ شفقت قبول فرمالیا ہے جس پر انہیں یقین ہوگیا کہ ہم بھی جامعہ احمدیہ میں داخل ہوجائیں گے۔

ہم تین بہن بھائی ہیں۔ خاکسار کے والدین نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تحریک وقف نو پر لبیک کہتے ہوئے اپنے دونوں بیٹوں کو وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل کیا اور پھر ان کی ایسی تربیت کی کوشش کی کہ وہ بڑے ہوکر سلسلہ کے مفید وجود بن سکیں۔ خاکسار کے والد محترم چونکہ تلاش روزگار میں بیرون ملک ہوتے تھے اس لیےان کی غیر موجودگی میں والدہ محترمہ نے ہماری تربیت کے حوالہ سے خاص کوشش کی اور مسلسل دعا بھی کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار اور خاکسار کا چھوٹا بھائی مربی سلسلہ بن گئے ہیں۔

آپ نےہمیشہ ہمیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور ہر حال میں جماعت احمدیہ کی خدمت بجا لانے کی تلقین کی۔ یہ دعا کرتی رہتیں کہ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو خلیفہ وقت کے حقیقی سلطان نصیر بنائے اور خلیفہ وقت کے دست و بازو بنائے۔(آمین) اور اکثر اس بات کا اظہار کرتیں کہ میری بڑی خواہش ہے کہ ایسے دن جلد آئیں کہ حضور انور جب چلتے ہیں تو ان کے اردگرد جیسے دیگر احباب ہوتے ہیں آپ دونوں بھی حضور انور کے دائیں بائیں ایسے ہی چلیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں۔

خاکسار جب جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو انہیں ہفتہ میں ایک دفعہ فون کیا کرتا تھا اور جب خاکسار جامعہ سے پاس ہوگیا توان کی خواہش ہوتی تھی کہ میں انہیں روزانہ فون کروں، خاکسار نے عذر کیا کہ اس سے کام کا ہرج ہوتا ہے تو انہوں نے کبھی دوبارہ مجھے ایسا نہیں کہا بلکہ نصیحت کی کہ کام کو اوّلیت دو، جب فارغ ہوا کرو تو کال کرلیا کرو۔ بعض دفعہ ہفتہ یا ڈیڑھ ہفتہ گزرجاتا کہ ان سے تفصیلی بات نہ ہوسکتی اور میں انہیں میسج کردیتا کہ آج کل یہ مصروفیت ہے تو وہ بجائے اس کے کہ کہیں کہ تھوڑا وقت نکال کر بات کرلو وہ بڑی خوش ہوتیں کہ خاکسار زیادہ سے زیادہ دینی کام کررہا ہے۔ تمام والدین کی طرح ان کی بھی یہ خواہش ہوتی تھی کہ خاکسار ہر ماہ ان سے ملنے جائے کیونکہ ہمارے ایک عزیز ہر ماہ گھر جاتے تھے، لیکن خاکسار کبھی دو یا کبھی تین ماہ بعد جاتا لیکن انہو ں نے کبھی شکوہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ جماعتی خدمت کو فوقیت دینے کی نصیحت کی۔

مرحومہ انتہائی دعاگو خاتون تھیں اور انہیں اللہ تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو اپنے مولیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتیں اور اپنی اس مشکل اور پریشانی کو رب العالمین کے حضور پیش کرکے اس پریشانی سے نجات طلب کرتیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ پریشانی دور ہوجاتی۔

آخر پر احباب جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے، اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے، ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا سلوک فرمائے، ان کی نیک خواہشات اور دعائیں ہمارے حق میں قبول فرمائے، ہمیں ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے والد محترم کو صحت و تندرستی والی فعال لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button