حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مالی قربانی

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍ نومبر ۲۰۰۶ء)

دنیا میں دوسرے مسلمان بھی قربا نیاں کرتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ دوسروں کے لئے اپنا مال خرچ کرتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ لوگوں کی ہمدردی اور ان کی مدد کے لئے انہوں نے ادارے بھی کھولے ہوئے ہیں۔ عیسائیوں نے، یہودیوں نے اور دوسرے مذہب والوں نے بڑی بڑی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں جہاں وہ غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور بہت کرتے ہیں۔ لیکن اس سب خدمت اور ہمدردی کے پیچھے وہ جذبہ نہیں ہے کہ خدا کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے یہ سب خدمت کرنی ہے۔ عارضی طور پر متاثر ہو کر کسی چیریٹی میں مدد تو کر دیں گے۔ لیکن یہ جذبہ نہیں کہ اللہ کا حکم ہے اس لئے مدد کرنی ہے یا اللہ کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے خرچ کرنا ہے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنی ہے۔ بعض لوگ دولت بھی ایسے ذرائع سے کماتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں ہے۔ ان کے دولت کمانے کے ذریعے ناجائز ذریعے ہوتے ہیں لیکن اپنی کمپنیوں کے بجٹ میں چیریٹی کے لئے بھی کچھ رقم مختص کر دیتے ہیں تاکہ حکومت کے ٹیکسوں سے چھوٹ مل جائے۔ تو یہ سب قربانیاں جو کی جارہی ہوتی ہیں یا ان کے خیال میں جو قربانیاں کی جا رہی ہوتی ہیں یہ عارضی اور سطحی اور اکثراوقات دنیا دکھاوے کے لئے بھی ہوتی ہیں۔ لیکن ایک احمدی کی جوقربانی ہے اور جو ہونی چاہئے اس کا مقصد جیساکہ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے اور اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی خدمت کرے اور اگر مالی قربانی کر رہا ہے تو وہ بھی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی آمد سے کرے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ یعنی جو کچھ بھی تم اپنے اچھے مال میں سے خرچ کرتے ہو وہ تمہیں فائدہ دے گا، وہ تمہارے فائدہ کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خیر کا لفظ استعمال کرکے ہمیں یہ توجہ دلا دی ہے کہ تم جومالی قربانیاں کرو، ایک تو یہ کہ محنت سے اور جائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال میں سے کرو، یہ نہیں کہ شراب کی دکانوں پر کام کرکے یا سؤر بیچنے والی دکانوں پر کام کرکے یا پھر کوئی ایسا کام کرکے جو غیر قانونی ہو، پیسہ کما کر اس پر چندہ دے دو یا جس طرح ناجائز منافع خور کرتے ہیں کہ ناجائز پیسہ کما کر تھوڑی سی رقم غریبوں پر خرچ کر دی یا حج کر لیا اور سمجھ لیا کہ پیسہ پاک ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے ایسا پیسہ نہیں چاہئے۔ اللہ کی راہ میں جو تم خرچ کرو اس میں خیر ہونی چاہئے۔ وہ جائز ہونا چاہئے اور پھرتم جو یہ جائز پیسہ کما رہے ہو اس پر چندہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق ہی دو، یہ نہیں کہ آمد تو لاکھ روپے ہے اور چندہ دس روپے دے دیا اور سمجھ لیا کہ میں نے قربانی کا حق ادا کر دیا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے رقم کی ضرورت نہیں ہے، میں غنی ہوں۔ اس قربانی کے ذریعے سے میں تمہیں آزما رہا ہوں کیونکہ یہ سب تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے۔ پس یہ جو فرمایافَلاَِ نْفُسِکُم۔ قربانی کرتے ہوئے یہ فقرہ تمہارے ذہن میں رہنا چاہئے اور جب یہ سوچ ہو گی تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھو کہ تم اس حکم پر چل رہے ہو کہ وَمَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِکہ تم اللہ کی رضا جوئی کے سوا کچھ خرچ نہیں کرتے اور جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہے اس کے بارے میں فرمایا یُّوَفَّ اِلَیْکُم وہ بھرپور طریقے سے تمہیں لوٹایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا، تمہاری بھلائی کے لئے تم سے قرض مانگتا ہے تو سات سو گنا کرکے تمہیں واپس لوٹاتا ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سے کچھ چھپایا نہیں جا سکتا، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ پاک مال ہو گا، اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے ہو گا تو بڑھاکر لوٹایا جائے گا۔ ناجائز مال اور دھوکے سے یا غلط طریقے سے کمائے ہوئے مال کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں، وہ اس کو قبول نہیں کرے گا۔یہ اللہ تعالیٰ کا احمدیوں پر بڑا احسان ہے کہ ہر احمدی مالی قربانی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے اور اس کا نیک ذرائع سے ہی کمایا ہوا مال ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ غلط فہمی میں بعض کام کر جاتے ہیں لیکن عموماً نیک مال کی اور قربانی کی قبولیت کی تصدیق بھی فوری ہو جاتی ہے۔میں جانتا ہوں بعض زمیندار ہیں وہ اپنا چندہ عام بھی دیتے ہیں اور پوری شرح سے بلکہ شاید زائد دے دیتے ہیں کیونکہ پہلے بجٹ لکھوا دیتے ہیں، تحریک جدید وغیرہ میں بھی اس امید پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کہ فصل یا باغ کی آمد ہو جائے گی اور بظاہر ایسی آمد والی فصل نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنے وعدے بڑھا کر لکھوا رہے ہوتے ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ احمدی زمیندار کی فصل ساتھ والے ہمسایوں سے بہت اچھی ہوتی ہے، بہت بہتر ہوتی ہے۔ مجھے کئی زمینداروں نے اپنے واقعات سنا ئے ہیں، غیر آ کر پوچھتے ہیں کہ تمہاری فصل بظاہر ہمارے جیسی تھی، کیا وجہ ہے کہ ایسی اچھی نکل آئی ہے تو احمدی زمیندار کا یہی جواب ہوتاہے کہ کیونکہ اس میں اللہ کا حصہ ہے اس لئے بہتر نکل آئی ہے۔ اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جوخرچ کررہے ہیں وہ اپنے وعدے کے مطابق اُسے بہتر کر کے ہمیں لوٹارہا ہے۔ اسی طرح کاروبار میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ جو چندہ دینے والے ہیں ان کے کاروباروں میں بہت برکت ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جو یہ نمونے ہمیں دکھاتا ہے تو یہ دکھا کر اپنے بندوں کے ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے اور اس یقین پر قائم کرتا ہے کہ یہاں جو اس طرح انعامات ہو رہے ہیں تو اگلے جہان کے بارے میں جو انعامات کی نوید سنائی ہے وہ بھی غلط نہیں ہے وہ بھی یقیناً سچی ہے۔

آج پرانے احمدی خاندانوں میں سے بہت سے اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے باپ دادا نے جو قربانیاں دی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اولادوں کو کتنا نوازا ہے بعض بزرگوں کی قربانیاں تو پھلوں سے اس قدر لدی ہوئی ہیں کہ اولادوں کے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہے۔ جن کو اس بات کا پتہ ہے یا ادراک ہے کہ یہ فضل ان قربانیوں کا نتیجہ ہیں وہ پھر اللہ سے سودا کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر مالی قربانی پیش کرتے ہیں۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودے کہ وہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپؐ کی قوت قدسیہ سے جو انقلاب آیا اور صحابہ ؓ نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جان، مال کی جوقربانیاں کیں وہ ہمیں آپؐ کے غلام صادق کی جماعت میں بھی نظر آتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی جب ضرورت پڑی، کسی نے اپنے بیٹے کے کفن کی رقم چندے میں بھیج دی، کسی نے اپنی پس انداز کی ہوئی تمام رقم دینی ضروریات کے لئے چندہ میں دے دی، کسی نے اپنی تمام آمد اللہ تعالیٰ کے مسیح کے قدموں میں لا کر ڈال دی یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کہنا پڑا کہ بس آپ لوگ بہت قربانیاں کر چکے ہیں، کافی ہیں، مزید کی ضرورت نہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد خلفاء کی طرف سے جب بھی کوئی تحریک ہوئی افراد جماعت نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مالی قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔… میں ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریک جدید کا آغاز فرمایا تو اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی مختلف سالوں میں اس تحریک جدید کے بارے میں جماعت کی رہنمائی فرماتے رہے کہ اس کے کیا مقاصد ہیں اور کس طرح ہم ان مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت شروع میں آپ ؓ نے جماعت کے سامنے 19مطالبات رکھے اور پھر بعدمیں مزید بھی رکھے۔ یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو تربیت اور روحانی ترقی اور قربانی کے معیار بڑھانے کے لئے بہت ضروری ہیں اور آج بھی اہم ہیں، جماعتوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button