حضرت مصلح موعود ؓ

استعانت بغیر عبودیت کے حاصل نہیں ہوسکتی (قسط نمبر۱)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۴؍ اگست ۱۹۳۶ء بمقام دھرم سالہ)

اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر فہم قرآن سے نوازا تھا۔چنانچہ ایک مرتبہ آپؓ کو ایک فرشتے نےسورۃ الفاتحہ کی تفسیر سکھائی۔ مختلف مواقع پر حضورؓ اپنےخطبات اور خطابات میں اس سورت کے بصیرت افروز تفسیری نکات بیان فرماتے رہے۔ خطبہ جمعہ ۱۴؍اگست ۱۹۳۶ء میں آپؓ نے اس پہلوپرروشنی ڈالی ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُکو اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ سے پہلے کیوں رکھا گیا ہےاوراس سلسلے میںحضرت مسیح موعودؑ اور دیگر بزرگان کے بعض واقعات بھی بیان فرمائے۔قارئین کے استفادے کےلیے یہ خطبہ جمعہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

کہنے کو تو سب لوگ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا بندہ کہتے ہیں اور خواہ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر اس بات میں جھجک محسوس نہیں کرتا کہ وہ خداتعالیٰ کا غلام ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ واقعہ میں اس کے اندر عبودیت موجود بھی ہے یا نہیں۔

منہ سے غلامی کا اقرار کرلینا اور بات ہے اور اپنے عمل سے خداتعالیٰ کے غلام ہونے کا ثبوت پیش کرنا بالکل اور بات ہے۔

بساا وقات ایک آدمی اپنے منہ سے تو ایک بات کا اقرار کرلیتاہے لیکن جب امتحان اور آزمائش کا وقت آتا ہے تو فیل ہوجاتا ہے۔

ابو سینا ایک شخص تھے جن کے خیالات بہت اعلیٰ ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ ایسی بات کہی جس کا ان کے تمام شاگردوں پر خاص اثر ہؤا کہ ان کا ایک شاگرد بے تحاشہ کہہ اُٹھا آپ تو نبوت کے اہل ہیں آپ تو وہ کام کرسکتے ہیں جو آنحضرت ﷺ سے بھی نہیں ہوسکتے۔ وہ تھے تو مسلمان لیکن اپنے شاگرد کی اس بات کو سن کر مصلحتاً خاموش ہورہے۔ کچھ عرصہ کے بعد سردی کا موسم آگیا اور اس قدر شدید سردی پڑی کہ تالابوں کاپانی منجمد ہونا شروع ہوگیا۔ اس شدید سردی کی حالت میں انہوں نے ایک تالاب کو دیکھ کراپنے اسی شاگرد کوکہا تم اس تالاب میں تو کُودو۔ یہ حکم سن کر ان کاشاگرد حیرت سے ان کامنہ دیکھنے لگا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ یہ کیسا تکلیف دِہ اور ناممکن العمل حکم دے رہے ہیں اور کہنے لگا آپ مجھ سے یا تومذاق کررہے ہیں یا پھر آپ پاگل ہیں۔ انہوں نے اس شاگرد کو جواب دیا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تُو نے کس برتے پر مجھے کہا تھا کہ آپ تو نبوت کے اہل ہیں حالانکہ میں نے تجھے صرف ایک سرد پانی کے تالاب میں کُودنے کو کہا ہے اور تُو اِس حکم پربھی پورا نہیں اُترسکتا دوسری طرف نبی کریمﷺ کے صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ حضور نے اُن کو طرح طرح کے مصائب میں ڈالا لیکن انہوںنے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اُن کوہمیشہ اس بات کی خواہش رہتی تھی کہ ہم کو ا س سے زیادہ مشکل کاموں کے کرنے کا حکم دیاجائے۔

آجکل کے مسلمانوں کی تو یہ حالت ہے کہ وہ تمام احکام میں ایسی راہیں تلاش کرتے ہیں جن سے وہ ان احکام سے کسی طرح بچ سکیں۔ حتّٰی کہ بعض مسلمانوں نے ’’کِتَابُ الْحِیَل‘‘جیسی کتب بھی لکھ دی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طریق سے ہم شریعت کے احکام سے نجات پاسکتے ہیں۔ گویا یہ لوگ ان احکام سے بچنا اپنافرض سمجھتے تھے اور ان احکام کو اپنے اوپر بطور چٹّی کے خیال کرتے تھے لیکن اس کے برخلاف صحابہ کرامؓ اعمالِ صالحہ میںایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ ایک صحابیؓ کا ذکر ہے کہ انہوں نے ساری رات جاگنا شروع کردیا تھا تاکہ زیادہ ثواب اور رضائے الٰہی حاصل ہو لیکن حضرت نبی کریم ﷺ نے اُس کو منع فرمادیا۔ اسی طرح ایک صحابیؓ نے ہر روز روزہ رکھنا شروع کردیا لیکن حضور نے اُس کوبھی منع فرمادیا۔ ایک صحابیؓ نے ہر روز پورے قرآن مجید کی تلاوت کا التزام کیا تو حضور نے اُس کو بھی منع فرمایا۔ بعض صحابہؓ نے وِصال کے روزے شروع کردیئے تو حضور نے ان سے فرمایا کہ یہ روزے صرف میری ذات کے لئے ہیں تم یہ روزے نہ رکھا کرو۔

ایک دفعہ حضور نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنایا۔ ایک دفعہ مہاجر بھائی، انصاری بھائی سے ملاقات کے لئے گئے کیا دیکھتے ہیں کہ اس انصاری بھائی کی بیوی میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے بیٹھی ہے۔ انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ تیری یہ حالت کیوں ہے؟ کہنے لگی میں کس کو دکھانے کے لئے صاف ستھری ہوکر بیٹھوں۔میرے خاوند کی تو یہ حالت ہے کہ ساری رات عبادت کرتا رہتاہے اور دن روزہ کی حالت میں گزاردیتاہے اور اُ س کو اِس بات کی خبر نہیں کہ میں اُس کے گھر میں بطور بیوی کے رہتی ہوں۔ اتنے میں انصاری بھائی بھی آگئے۔ مہاجر بھائی نے ان کو اِس قدر عبادت سے منع کیا۔ انہوںنے جواب دیا کہ تم عجیب قسم کے بھائی ہو کہ مجھے نیکی سے روکتے ہو اور جب وہ رات کو عبادت کے لئے اُٹھنے لگے تو انہوںنے نہ اُٹھنے دیا اور زبردستی لِٹادیا اور جب دن کو روزہ رکھنے لگے تو روزہ بھی نہ رکھنے دیا۔ اس پر انصاری نے آنحضرت ﷺ سے اس امر کی شکایت کی تو حضور نے فرمایا کہ تمہارے مہاجر بھائی کا یہ فعل بالکل درست ہے اور فرمایا لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِجَارِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم (مفہوماً)یعنی ہر وقت عبادت درست نہیں کیونکہ تجھ پر تیرے اپنے نفس، بیوی او رہمسایہ کے بھی حقوق ہیں۔ گویا صحابہؓ میں ہمیشہ اس بات کا بھی مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ وہ عبادت میں کسی سے کم نہ رہیں لیکن آج کل کے مسلمان ہر وقت ایسی راہوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں جن سے وہ عبودیت کے پنجے سے نجات پاسکیں اور ان کا اپنے منہ سے یہ کہنا کہ ہم خداتعالیٰ کے عبد ہیں اس مثال کے مطابق ہے کہ ’’سَوگزواروں ایک گز نہ پھاڑوں‘‘یعنی منہ سے تو سَوگز وارنے کو تیار ہیں لیکن اگر ان کو فی الواقعہ پھاڑنے کے لئے کہا جائے تو انکار کردیں گے۔ یوں تو عبودیت کے دعویدار ہیں لیکن ان میں کِبر، تصنع، ریاء، نمائش سب قسم کے عیوب اور نقائص پائے جاتے ہیں اور زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنے عیوب کو عیوب نہیں سمجھتے اور ان کی مثال اُس بیمار کی طرح ہے جو اپنی بیماری کا احساس نہیں کرتا۔ ایسے بیمار کا علاج بھی مشکل سے ہی ہوسکتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کو سمجھانے لگے تو اُلٹا اس بات کو بُرا مانتے ہیں۔

قرآن مجید میں یہ ایک ممتاز خوبی ہے

کہ جب کبھی کوئی حکم بیان کرتا ہے تو معاً اس کے ساتھ ہی اس حکم کے فوائد اور اغراض بھی بیان کرجاتا ہے اور یہ خوبی کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی کیونکہ جب وہ کوئی حکم دیتی ہیں تو اس حکم کے نتائج، فوائد اور اس کے حصول کے طریق نہیں بتاتیں۔ لیکن قرآن مجیدان تمام پہلوئوں کومدنظر رکھتا ہے اسی لئے جب اس نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ فرمایا ساتھ ہی اس کا نتیجہ اور فائدہ بھی اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ:۵)کے الفاظ میں فرمادیا۔ گویا اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے لئے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ بطور دلیل کے ہے۔ نیز بطور معیار کے بھی یعنی جو شخص عبودیت کا مدعی ہوہم اس کو تب ہی سچا سمجھیں گے جبکہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا اعلیٰ مقام اس کو حاصل ہو۔ پس اِیَّاکَ نَعْبُدُ بطور دلیل کے ہے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکے لئے اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ بطور دلیل کے ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے لئے۔ یعنی

عبودیت کا دعویٰ بغیر استعانت کے بالکل غلط ہے او راسی طرح استعانت بغیر عبودیت کے ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔

جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں تو اُس پر فرض ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی اتکاّل کرے اور اِدھر اُدھر اپنی نظر نہ اُٹھائے۔ کیا تم نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہو کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں اور پھر اور لوگوں کے گھروں سے کھانا اور کپڑا مانگتا پھرتا ہو۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ وہ درحقیقت اپنے آپ کو اُس شخص کا بیٹا نہیں سمجھتا بلکہ یہ صرف اس کے منہ کی بات ہے۔ اسی طرح جو شخص خداتعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگتا ہے تو درحقیقت وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے دعویٰ میں سچا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص عبودیت کے دعویٰ کے باوجود اور لوگوں کا دستِ نگر ہے تو یقیناً اُس کاایمان کمزور ہے ورنہ اگر اس کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا تو خداتعالیٰ کے مل جانے کے بعد اس کوکسی اور کی حاجت ہی باقی نہ رہتی۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کا ہورہتا ہے توپھر اس کو اس بات کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ لوگ اس کی مدد کریں بلکہ خداتعالیٰ خود اس کی مدد کرتاہے اور یہ جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آتا ہے کہ غریبوں اور مساکین کی امداد کرو یہ حکم تو ادنیٰ ایمان والے لوگوں کے لئے فرمایا گیا ہے نہ کہ کامل ایمان والے لوگوں کے لئے۔ اس حکم سے یہ تو مراد نہیں کہ اے لوگو! تم نبی کریم ﷺ کی یا نوح علیہ السلام کی یا ابراہیم علیہ السلام کی مدد کرو۔ کیونکہ

انبیاء کی نصرت کا دارومدار لوگوںپرنہیں ہوتا بلکہ خداتعالیٰ خود ان کی پشت پر ہوتاہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوالہام ہؤا یَنْصُرُکُ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآء (تذکرہ صفحہ ۵۰ ایڈیشن چہارم) یعنی یہ سوال نہیں کہ کوئی تیری مدد کرتا ہے یا نہیں بلکہ ہم خود پکڑ پکڑ کر لوگوں سے تیری مدد کروائیں گے۔ پس رحم اور امداد کا سوال تو ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہے نہ کہ انبیاء او رکامل مومنوں کے لئے۔کیونکہ انبیاء اور کامل مومن تو سائل اور محروم کے ماتحت نہیں آتے اور مذکورہ حکم اُن دو کے لئے ہی ہے۔ پس حقیقت یہی ہے کہ یہ حکم یا تو کافروں کے لئے ہے یا پھر ادنیٰ مومنوں او رمحروم لوگوں کے لئے۔ کامل مؤمنوں کی فکر تو خداتعالیٰ خود کرتا ہے۔ ہاں جن لوگوں کا ایمان ہنوز کمال کے درجہ تک نہیں پہنچا ہوتا تو جس طرح غبارہ ہچکولے کھایا کرتا ہے اسی طرح وہ بھی ہچکولے کھاتے رہتے ہیں۔

ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ شہر سے دور کسی مقام پر عبادت کیا کرتے تھے اور ان کا رزق وہیں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچ جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ان کو فاقہ ہؤا اور وہ اُس جگہ کو چھوڑ کر شہر کو چل دیئے اور ایک دوست کے ہاں سے کھانا کھایا اور کچھ کھانا لے کر واپس اسی جگہ کی طرف آنے لگے تو ان کے دوست کا ُّکتا بھی اُن کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ انہوں نے جب کُتے کو پیچھے آتے دیکھا تو اس کو بھوکا سمجھ کرایک روٹی ڈال دی۔ تھوڑی دور جاکر پھر دیکھا کہ ُّکتا ابھی پیچھے ہی چلا آرہاہے تو دوسری روٹی ڈال دی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پھر کُتّا پیچھے ہی چلا آتا نظر آیا تو نہایت غصہ کے ساتھ تیسری روٹی اُس کی طرف پھینک کر کہا کہ تُو بڑابے حیا ہے کہ میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ ان کے اس کہنے پر معاً اُن کوکشف ہؤا اور کُتّا انسان کی شکل ہوکر ان کو یہ کہتا ہؤا نظر آیا کہ بے حیا میں ہوں یا تُو ہے؟ مجھے اس گھر میں کئی دنوں سے فاقے ہورہے ہیں مگر میں نے وفاداری کی وجہ سے اس گھر کو چھوڑنا گوارا نہ کیا تجھے صرف ایک ہی فاقہ گزرا تھا کہ تُونے خداتعالیٰ کا دروازہ چھوڑ دیا۔ پس کُتّے نے انسانی شکل میں آکر اُن کو یہ بتایا کہ مومن کو اللہ تعالیٰ سے کسی صورت میں بھی مایوس نہ ہونا چاہئے اور ہر وقت اُس کے دروازہ پر ہی اپنی نظر کو لگائے رکھنا چاہئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button