حضرت مصلح موعود ؓ

بہادر بنو کہ مومن بُزدل نہیں ہوتا اور رحیم بنو کہ مومن ظالم نہیں ہوتا (قسط چہارم۔آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍جولائی۱۹۳۶ء)

جو مصائب آتی ہیں ان کو آنے دو کہ وہ تمہاری ہلاکت کا نہیں بلکہ ترقی کا موجب ہیں۔ اور جب خدا تعالیٰ تمہارے رحم کا امتحان لے تو یہ دیکھو کہ ایسے وقت میں محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ِکیا۔ اُس وقت دشمنوں کے ظلموں پرنظر نہ ڈالو

ایسے عزیز صحابہ کے ناک پائوں اورہاتھ کاٹ کاٹ کرانہیں مارا گیا اور اُن کی روحیں اُس وقت آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ لوگ ہمارے قاتل ہیں مگر باوجود ان سب جذبات کے آنحضرت ﷺ نے کہا تو یہ کہا کہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ۸۹۔مطبع محمد علی صبیح مصر۱۹۳۶ء)جائو آج تم سے کوئی باز پُرس نہیں کی جائے گی۔

پس غور کرو کیاان سے زیادہ تکالیف ہمیں دی جاتی ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ بعض چیزیں جسمانی اذیت سے زیادہ ہوتی ہیں مگر یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی تھیں اور ان میں بھی صحابہ ہمارے شریک ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی ذات پر بھی ایسے حملے کئے جاتے تھے اور ایسی گالیاں دی جاتی تھیں جیسی آج دی جاتی ہیں۔ یہ ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ ہمارے دشمن گالیاںدینے میںزیادہ ہوشیار ہیں اور ان کی فطرت زیادہ گندی ہے اور کفارِ عرب کی شرافت سے یہ لوگ ناآشنا ہیں مگر یہ نہیں کہ اُس زمانہ میں گالیاں وغیرہ بالکل دی ہی نہیں جاتی تھیں۔ اس زمانہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے گھر کی مستورات کے متعلق ویسے ہی گندے اتہام لگائے جاتے تھے جیسے آج لگائے جاتے ہیں اور عرب کے شاعر شعروں میں ان کے ساتھ محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ پس یہ ممکن ہے کہ آج کل کے لوگ اس خباثت میں ان سے زیادہ ہوں مگر جسمانی تکالیف صحابہ کو ہم سے بہت زیادہ تھیں۔ اُس زمانہ میں ساری حکومت اسلام کے مخالف تھی مگر آج ساری نہیں۔ آج گورنمنٹ بحیثیت گورنمنٹ ہمارے مقابل پر نہیں بلکہ بعض حکام ہمارے خیرخواہ بھی ہیں اور بعض اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔

پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہوئے آج وہی رحم نہ دکھائیں جو آنحضرت ﷺ نے دکھایا اور جسے قریب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہر فرمایا۔

میں چھوٹا تھا مگر مجھے مندرجہ ذیل واقعہ اچھی طرح یاد ہے اور اس لئے بھی وہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے متعلق مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت رئویا کے ذریعہ خبردی تھی۔

ایک دن ہم سکول سے واپس آئے تو احمدیوں کے چہروں پر ملال کے آثار تھے۔ گول کمرہ اور دفتر محاسب کے درمیان جہاں مسجد کا دروازہ ہے ہم نے دیکھا کہ ہمارے بعض چچائوں نے وہاں دیوار کھینچ دی ہے اس لئے ہم اندر سے ہوکر گھر پہنچے او ر

معلوم ہؤا کہ یہ دیوار اس لئے کھینچی گئی ہے کہ تا احمدی نماز کےلئے مسجد میں نہ آسکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکم دیا کہ ہاتھ مت اُٹھائو اور مقدمہ کرو۔

آخر مقدمہ کیا گیا جو خارج ہوگیا اور معلوم ہؤا کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود نالش نہ کریں گے کامیابی نہ ہوگی۔ آپ کی عادت تھی کہ مقدمہ وغیرہ میںنہ پڑتے مگر یہ چونکہ جماعت کا معاملہ تھا اور دوستوں کو اس دیوار سے بہت تکلیف تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ اچھا میری طرف سے مقدمہ کیا جائے۔ چنانچہ مقدمہ ہؤا اور دیوار گرائی گئی۔ فیصلہ سے بہت پہلے میںنے رئویا میں دیکھا تھا کہ میں کھڑا ہوںاور وہ دیوار توڑی جارہی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بھی پاس ہی کھڑے ہیں او رپھر ایسا ہی ہؤا۔ جس دن سرکاری آدمی اسے گرانے آئے عصر کے بعد میں مسجد والی سیڑھیوں سے اُترا عصر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ درس دیا کرتے تھے، سخت بارش آئی اور حضرت خلیفہ اوّلؓ بھی شاید بارش کی وجہ سے یا یونہی وہاں آکر کھڑے ہوگئے۔ اس دیوار کی وجہ سے جماعت کو مہینوں یا شاید سالوں تکالیف اٹھانی پڑیں کیونکہ انہیں مسجد تک پہنچنا مشکل تھا۔ پھر مقدمہ پر ہزاروں روپیہ خرچ ہؤا اور عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چچائوں پرڈالا جائے۔ کئی لوگ غصہ سے کہہ رے تھے کہ یہ بہت کم ڈالاگیاہے ان کو تباہ کردینا چاہئے۔ جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے۔ آپ کو عشاء کے قریب رئویا یا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پربہت زیادہ ہے اور اِس کی وجہ سے وہ تکلیف میں ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اِسی وقت آدمی بھیجا جائے جوجاکر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کردیا ہے۔ مجھے اس معافی کی صورت پوری طرح یاد نہیں کہ آیا سب رقم معاف کردی تھی یا بعض حصہ۔ بچپن کا واقعہ ہے اس لئے اس کی ساری تفاصیل یاد نہیں رہیں مگر اتنا یاد ہے کہ فرمایا مجھے رات نیندنہیں آئے گی اِسی وقت کسی کو بھیج دیا جائے جو جاکر کہہ دے کہ یہ رقم یا اس کا بعض حصہ جو بھی صورت تھی تم سے وصول نہ کیاجائے گا۔ تو

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنّت بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مؤمن کا رحم اتنا بڑھا ہؤا ہوتا ہے کہ دوسرا خیال بھی نہیں کرسکتا۔

مارٹن کلارک کی طرف سے آپ پر مقدمہ کیاگیا اور الزام سے بَری کرنے کے بعد مجسٹریٹ نے آپ سے کہا کہ آپ کو ان پادریوں پر جواس مقدمہ کو اٹھانے والے ہیں مقدمہ چلانے کاحق ہے مگر آپ نے فرمایا یہ ہمارا طریق نہیں۔ کرنل ڈگلس جو اُس زمانہ میں کیپٹن تھے ابھی تک زندہ ہیں اور ولایت میں ہمارے دوستوں سے ملتے رہتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کا ذکر کیا کرتے ہیں کہ جب میںنے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ ان پادریوں پر مقدمہ چلاسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا طریق نہیں ہم نے ان کو معاف کردیا۔ تو

مؤمن کے ایک ہاتھ میں رحم اور دوسرے میں بہادری ہوتی ہے اور اُس کا سر قطب مینار کی طرح سب سے اونچا ہوتا ہے۔

جب دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ کون ہے بہادر۔ تو اُسے جواب ملتا ہے کہ مؤمن۔ اور جب وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کون ہے رحیم تو اسے مؤمن کے سِوا کوئی نظرنہیں آتا۔ پس یہ دونوں خصلتیں اپنے اندر بڑھائو اور پھر جو مصائب آتی ہیں ان کو آنے دو کہ وہ تمہاری ہلاکت کا نہیں بلکہ ترقی کا موجب ہیں۔ اور جب خدا تعالیٰ تمہارے رحم کا امتحان لے تو یہ دیکھو کہ ایسے وقت میں محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ِکیا۔ اُس وقت دشمنوں کے ظلموں پرنظر نہ ڈالوپھر

یہ مت سمجھو کہ تمہاری آزادی اور زندگی سے ہی اسلام کی ترقی وابستہ ہے۔ ممکن ہے تمہاری قید یاموت زیادہ مفید ہو۔

اس بات کو خدا پر چھوڑ دو کہ وہ دیکھے کیا مفید اور مناسب ہے اور ایک بہادر اور جری انسان کی طرح ہر انجام سے بے پرواہ ہوکر (سوائے خداکی ناراضگی کے انجام کے) اپنی جانوں اور مالوں کو خدا کے رستہ میں ڈال دو او رجب سب مصائب کو برداشت کرتے ہوئے خداتعالیٰ تمہیں طاقت دے تو یاد رکھو کہ تم اس کی اُمت ہو جس نے مکہ والوں کو بھی معاف کردیا تھا۔

مکہ والوں کے مظالم اور آنحضرت ﷺ کے رحم کی مثال کہیں اور نہ مل سکے گی اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہر امر میں محمد رسول اللہ ﷺ ہی اسوئہ حسنہ ہیں۔ جرأت اوربہادری میں بھی اور عفو اور رحم میں بھی۔پس محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کو دیکھو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو کہ کن حالات میں آپ نے دنیا کا مقابلہ کیا۔

آج جبکہ خدا کے فضل سے ہمارا رعب ساری دنیا پر بیٹھ چکا ہے اورجب لاکھوںلوگ جماعت میںشامل ہیں اور تمام براعظموں میں احمدی موجود ہیں بعض لوگوں کو خیال پید اہوتا ہے کہ بعض باتوں اور فتووں میں ہمیں نرمی کردینی چاہئے۔ پھر غور کرو اُس وقت کتنی دقّت ہوگی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اُس وقت صرف چند آدمی آپ کے ساتھ تھے اور نبوت، کفر و اسلام، نمازوں اورشادیوں کی علیحدگی یہ مسائل پیش کرنے کےلئے کتنے بڑے دل گُردے کی ضرور تھی۔ پس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بروزِ کامل میں رحم اور بہادری کے دونوں نمونے موجود ہیں۔

ہمیں اللہ تعالیٰ نے صرف نقال بنایا ہے موجد نہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہر چیز او رہر دل پر محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر کھینچتے جائیں۔

پس بہادر بنو کہ مؤمن بُزدل نہیں ہوتا اور حیم بنو کہ مؤمن ظالم نہیں ہوتا۔ دنیا کےلئے ان دونوں چیزوں کا جمع ہونا مشکل ہے مگر ہمارے لئے آسان ہے کیونکہ ہمارے لئے بنی بنائی تصویر موجودہے۔ خداتعالیٰ نے ان چیزوں کا خمیرکرکے محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں بھر دیا ہے اور خمیر سے اور خمیر اُٹھالینا کوئی مشکل نہیں۔ آگ جلانا مشکل ہوتا ہے مگرجب جل جائے تو اس سے ہرشخص اپنی شمع روشن کرسکتاہے۔ نور پیدا اکرنا خدا کا کام تھا جو اس نے کردیا اب ہمارا کام صرف یہ ہے کہ آئیں اور اپنی شمعیں اس سے لگالیں۔ پس اس طریق کوسمجھو کہ یہی فلاح کا طریق ہے اورخوب یاد رکھو کہ جو بُزدل ہے وہ خدا کے رستہ سے کاٹا جائے گا۔ جب تک تم ایسے بہادر نہ بن جائو کہ قید، قتل، جلاوطنی سب مظالم کوبرداشت کرنے کےلئے آمادہ ہوجائو اُس وقت تک تم خدا کے محبوب نہیں بن سکتے اور جو خدا کا محبوب نہیں بنتا وہ شیطان کا محبوب ہوتاہے۔

(الفضل ۲؍ اگست ۱۹۳۶ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button