خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۰۳؍فروری ۲۰۲۳ء

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میںقرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان

٭…اس زمانے ميں اللہ تعاليٰ نے آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کو قرآن کريم کي اشاعت اورحفاظت کےليے بھيجا ہے

٭…اس زمانے ميں حضرت مسيح موعودؑ کے ذريعے سے ہي قرآنِ کريم کے معارف کا پتا ملتا ہے

٭…ميرا مذہب يہي ہےکہ قرآن اپني تعليم ميں کامل ہے اور کوئي صداقت اس سے باہر نہيں(حضرت مسیح موعودؑ)

٭…دنيا کو بتانے کي ضرورت ہے ، ہم پر کُفر کے فتوے لگانے والوں کو دکھانے کي ضرورت ہے کہ احمدي صرف پرانے قصّے ہي بيان نہيں کرتے بلکہ آج بھي زندہ کتاب اور زندہ رسول کے ماننے والوں پر اللہ تعاليٰ کے فضلوں کے اترنے پر يقين رکھتے ہيں

٭…ہم خداتعاليٰ کے کلام کو کامل اعجاز مانتے ہيں اور ہمارا يقين اور دعويٰ ہے کہ کوئي دوسري کتاب اس کے مقابل نہيں ہے (حضرت مسیح موعودؑ)

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۰۳؍فروری ۲۰۲۳ء بمطابق ۰۳؍تبلیغ ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۰۳؍فروری ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ، اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

حضرت مسیح موعودؑ قرآنِ کریم کے فیوض بیان کرتےہوئےفرماتے ہیں کہ اس کے فیوض اور برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانے میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسے آنحضرتﷺ کے وقت میں تھا۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ اکثرمسلمانوں نےقرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کےانواروبرکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ مَیں اس وقت اس ثبوت کےلیے بھیجاگیا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنےاپنے وقت پر اپنے بندوں کو اپنی حمایت اور تائید کےلیے بھیجتا رہا ہےکیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا کہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَبےشک ہم نے اس ذکر یعنی قرآن کریم کو نازل کیاہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

پس اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کو قرآن کریم کی اشاعت اورحفاظت کےلیے بھیجا ہے۔ آپؑ کو وہ معارف سکھائے ہیں جولوگوں سےپوشیدہ تھے۔آپؑ قرآن کریم کی حکومت کودنیا میں قائم کرنےکےلیے آئے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے نام نہاد علماء نے آپؑ کے دعوے کی ابتدا ہی سےمخالفت کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے اور کوئی عقل کی بات سننا بھی نہیں چاہتے اور عوام الناس کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں وقتاً فوقتاً ان نام نہاد علماء کو اُبال اٹھتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ سستی شہرت کے متلاشی سیاستدان اور اہل کار بھی مِل جاتے ہیں اور احمدیوں کو مختلف بہانوں سے مخالفت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے تحریف و توہینِ قرآن کے من گھڑت مقدمے احمدیوں پر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بچائے اور جو احمدی انہوں نے ظلم سے پکڑے ہوئے ہیں ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔

اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے سے ہی قرآنِ کریم کے معارف کا پتا ملتا ہے اور یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس کام کو دنیا میں سرانجام دے رہی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ارشادات اور تصانیف میں قرآن کریم کے مقام و مرتبہ کا جو عرفان پیش فرمایا ہے، آج وہ مَیں بیان کروں گا۔

آپؑ قرآن کریم کی کامل اور مکمل تعلیم کےمتعلق ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ میرا مذہب یہی ہےکہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں… لیکن ساتھ اس کے یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائلِ دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کےمجملات کی تفاصیلِ صحیحہ پر حسبِ منشائے الٰہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں بلکہ یہ خاص طور پر ان کاکام ہے جو وحی الٰہی سے بطورِ نبوت یا بطورِ ولایتِ عظمیٰ مدد دیے گئے ہیں۔

اس حوالے سےکہ ہدایت کا اولین ذریعہ قرآن ہے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میرا مذہب یہ ہےکہ تین چیزیں ہیں جو تمہاری ہدایت کےلیے اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہیں۔ سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خداکی توحید اور عظمت اور جلال کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جویہود اور نصاریٰ میں تھے… قرآن میں منع کیا گیا ہےکہ تم بجز خدا کےکسی کی عبادت نہ کرو…سو تم ہوشیار رہواور خداکی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سَو حکموں میں سے ایک چھوٹےسے حکم کو بھی ٹالتا ہےوہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے…مجھے خدا نے مخاطب کرکے فرمایا ہے (الہاماً) اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْاٰن یعنی تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔

فرمایاکہ خدا نے تم پر بہت احسان کیا جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی… پس اس نعمت کی قدر کروجو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتاتو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابلےپر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔

قرآن کریم کے خاتم الکتب ہونے کےمتعلق آپؑ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اور نماز نہیں ہوسکتی۔ جو کچھ آنحضرتﷺ نے فرمایا یا کرکے دکھایا اسے چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس امت کے لیے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے اور یہ دروازہ گویا قرآن کریم کی سچائی اور آنحضرتﷺ کی سچائی پر ہروقت تازہ شہادت ہے۔

فرمایا :اسلام کے مقاصد میں سے تو یہ امر تھا کہ انسان صرف زبان ہی سے وحدہ لاشریک نہ کہے بلکہ درحقیقت سمجھ لے اوربہشت اوردوزخ پر خیالی ایمان نہ ہو بلکہ فی الحقیقت اسی زندگی میں وہ بہشتی کیفیات پر اطلاع پالے اور ان گناہوں سے جن میں وحشی انسان مبتلا ہیں نجات پالے۔یہ عظیم الشان مقصد اسلام کا تھا اور ہے، اور یہ ایسا پاک مطہر مقصد ہے کہ کوئی دوسری قوم اس کی نظیر اپنے مذہب میں پیش نہیں کرسکتی۔

حضورِانورنےفرمایا کہ آج حضرت مسیح موعودؑ کے ماننےوالوں کو یہ معیار حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے ، ہم پر کُفر کے فتوے لگانے والوں کو دکھانے کی ضرورت ہے کہ احمدی صرف پرانے قصّے ہی بیان نہیں کرتے بلکہ آج بھی زندہ کتاب اور زندہ رسول کے ماننے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اترنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ آج بھی بولتا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا جو خاتم المومنین،خاتم العارفین، خاتم النبیین ہے۔ اور اسی طرح پر وہ کتاب اس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے۔

قرآن کریم پر ایمان کس قدر ضروری ہے اس حوالے سےآپؑ فرماتےہیں مَیں قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی پیروی سے ذرّہ ادھر اُدھر ہونا بےایمانی سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو اس کو ذرّہ بھی چھوڑےگا وہ جہنمی ہے۔

قرآن کریم اور قانونِ قدرت کی ہم آہنگی کو بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :پاک اور کامل تعلیم قرآن کریم کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتی ہے۔ قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرینِ مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کےمجرم کو سزا دینے کےلیے فرماتا ہے۔پس درحقیقت قرآن کریم خدا تعالیٰ کےاُس قانونِ قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے ہے۔ یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونےچاہئیں۔ یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا کا فعل نظرآتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کےمطابق تعلیم کرے۔

فرمایا :سچا وہی مذہب ہے جو اس زمانے میں بھی خدا کا سننا اور بولنا دونوں ثابت کرے۔ غرض سچے مذہب میں خداتعالیٰ اپنے مکالمہ اور مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے۔خداشناسی ایک نہایت مشکل کام ہے دنیا کےحکیموں اور فلاسفروں کا کام نہیں ہے جو خدا کا پتا لگاویں۔ کیونکہ زمین و آسمان کو دیکھ کر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ترکیبِ محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہیے۔مگر یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے اور ’ہونا چاہیے‘ اور ’ہے‘ میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ پس اس وجود کا واقعی طور پرپتا دینے والا صرف قرآن کریم ہے۔

آپؑ فرماتےہیں کہ ہرقوم اور ہر مذہب کے سرغنوں کو ہم نے دعوت دی ہے کہ وہ ہمارے مقابلے میں آکر اپنی صداقت کا نشان دکھائیں۔ مگر ایک بھی ایسا نہیں کہ جو اپنے مذہب کی سچائی کا کوئی نمونہ عملی طورپر دکھائے۔ ہم خداتعالیٰ کے کلام کو کامل اعجاز مانتے ہیں اور ہمارا یقین اور دعویٰ ہے کہ کوئی دوسری کتاب اس کے مقابل نہیں ہے۔

حضورِانور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں قرآنِ کریم کی تعلیم کا تورات و انجیل کے بالمقابل کامل اورمنطقی ہونا ثابت کرنےکے بعد فرمایا کہ جرأت اور دلائل کے ساتھ تمام ادیان پر قرآن کریم کی برتری ثابت کرنا آپؑ کا اس وقت تھا جب اس ملک میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ چرچ کا زور تھا۔پھر بھی آپؑ نےقرآن کریم کی برتری کا کھلا چیلنج دیا اور کسی خوف کو بھی قریب نہ آنے دیا۔کیونکہ آپؑ اللہ تعالیٰ کے وہ فرستادے تھے جسے اللہ تعالیٰ نےاس زمانے میں آنحضرتﷺکی غلامی میں بھیجا۔ یہی چیز ہم آپؑ کی تعلیم اور لٹریچر میں دیکھتے ہیں اور یہی وہ تعلیم ہے جسے جماعت احمدیہ آگے پھیلارہی ہے۔جماعت احمدیہ پر الزام لگانے والے یہ کہتے ہیں کہ احمدی قرآن کریم کی تحریف اور توہین کے مرتکب ہورہے ہیں۔

قرآن کریم کی اہمیت اور ضرورت کےمتعلق آپؑ فرماتے ہیں :قرآن شریف کا مدِّنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پربیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے۔

خطبے کے اختتام پرحضورِانور نے فرمایا کہ قرآن کریم کے فضائل ،مقام ومرتبہ اوربرتری کےمتعلق اوربھی کئی حوالے ہیں جو آئندہ کبھی بیان ہوں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button