متفرق مضامین

مسئلہ ظل وبروز کی حقیقت (قسط2)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

قرآن وحدیث میں ظل وبروز کا تذکرہ

حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور بزرگان سلف وخلف کے اقوال کو بھی اگر غور سے دیکھا جائے تووہ گزشتہ لوگوں کے ہم صفات ، مثیل اور بروز،کی آمد کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔اگرچہ لفظاً ’’بروز‘‘ کا لفظ قرآن کریم میں نہیں ہے البتہ بروز کا مضمون بہت زیادہ بیان ہوا ہے جیسے توحید کا لفظ نہیں ہے لیکن مضمون جگہ جگہ بیان ہوا ہے۔اس لیے لازم نہیں کہ قرآن ہر مضمون کا نام لے کر اس کا تذکرہ کرے۔ جیسےقرآن مجید نے دہریت کا نام لیے بغیر دہریت کی تردید کی،اسی طرح قرآن کریم نے دنیا کے ہر مذہب کے غلط عقائد کی ترید کی ہے،لیکن ہر مذہب کا نام نہیں لیا۔

پس جب بروز کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے قرآن مجید کے علوم کے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں تو،مثلاًسورۃت فاتحہ میں ہی دیکھئے اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ مومن یہ دعا کیا کریں کہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ (الفاتحة7،6):ترجمہ:ہمىں سىدھے راستہ پر چلا، ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تُو نے انعام کىا جن پر غضب نہىں کىا گىا اور جو گمراہ نہىں ہوئے۔اس سے واضح ہے کہ ہر مومن ان لوگوں کی صفات اور عادات و اطوار کو اپنانے کی دعاکرے جو انعام یافتہ لوگ اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان لوگوں کے خصائل اور اطوار اور طرق سے بچنے کی دعا مانگے جن سے اللہ ناراض ہوا۔اب اگر تو یہ دعا قبول ہونے کے لیے سکھلائی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے،امت محمدیہ میں سے اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں کے مثیل ان کے بروز، ان کے ہم صفات لوگ پید ا کرتا چلا جائے گا۔یعنی نیک لوگوں کے مثیل اور ہم صفات اَور بروزوں کے آنے کا بھی ذکر ہے اوربد لوگوں کے مثیل اور بروزوں کے آنے کابھی ذکر ہے۔ کیونکہ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین میں ان لوگوں کے راستے سے بچنے کی دعا سکھلائی گئی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور جو لوگ انعام یافتہ ہونے کے بعد اس راستہ کو ترک کر بیٹھے اور بھول گئے۔آنحضرت ﷺ نے خود اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مغضوب علیہم سے مراد وہ یہود ہیں جن پر غضب الٰہی نازل ہوا اور الضالین سے مرادوہ عیسائی ہیں جنہوں نے صحیح راستہ کو ترک کر دیا۔(بخاری،كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ۔بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ۔ حدیث نمبر 7320)

جیسا کہ ابتدامیں تحریر کیا گیا ہے کہ ظل اور بروز کا مطلب ہے روحانی اور صفاتی طور پر کسی کے وجود کے ساتھ مشابہت پیدا ہونا جیسے آئینہ میں آئینہ دیکھنے والے کے وجود کے ساتھ آئینہ میں پیدا ہونے والی تصویراس کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے صاف شفاف پانی کے سامنے کھڑے ہوں اس کے اندر بھی انسان کی تصویر پیدا ہوتی ہےپس اس تصویر کو اس کا ظل اور بروز کہتے ہیں۔

عملاًہر چیز کا ظل یا بروز ہوسکتا ہے سوائے ذات باری تعالیٰ کے۔

(1)مثیل اور عقیدۂ توحید

جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا کہ اگرچہ ’’توحید‘‘ کا لفظ قرآن کریم میں نہیں ہے البتہ’’توحید‘‘ کا مضمون بہت زیادہ اور جگہ جگہ بیان ہوا ہے۔اس لیے لازم نہیں کہ قرآن ہر مضمون کا نام لے کر اس کا تذکرہ کرے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ(الشورٰى: 12):یعنی اس(خدا) جىسا کوئى نہىںیہ آیت واضح طور پر اعلان کرتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے کہ جس کا کوئی مکمل مثیل نہیں۔جیسا کہ سورۃ اخلاص میں بھی فرمایا ہے کہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ (الإِخلَاص:2) یہاں ’’وَاحِد‘‘نہیں فرمایا،بلکہ ’’أَحَدٌ‘‘کہا ہے یعنی ایک نہیں جس کے بعد دو ہوسکتے ہیں بلکہ اکیلا اور تنہا۔اسی طرح خدا تعالیٰ کا کوئی حقیقی مثیل نہیں۔پس اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد ہستی ہے کہ جس کا کوئی حقیقی اور مکمل مثیل نہیں ہوسکتا۔اور اگر یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرح انسانوں کا بھی کوئی مثیل نہیں ہوسکتا تو یہ عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔لہٰذا یہ توحید باری تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔

البتہ فنا فی اللہ کا مضمون قرآن و حدیث میں موجود ہے۔نیز اللہ تعالیٰ کا خود حکم ہے کہصِبْغَةَ اللّٰهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً (البقرة 139) اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ مىں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے۔اور یہ مضمون بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے آپ کے آقا حضرت محمدمصطفیٰﷺ جب خدا کی ذات میں فنا ہوکر فنا فی اللہ کے مقام پر پہنچے تو مخاطب بجائے خدا کے بندوں کے کہنے کے،اے میرے بندوں سے کیا جاسکتا ہے۔ قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ(الزمر :54) تُو کہہ دے کہ اے مىرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زىادتى کى ہے اللہ کى رحمت سے ماىوس نہ ہو ىقىناً اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے ىقىناً وہى بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہےاسی طرح میدان بدر میں رسول اللہﷺ کی کنکریوں کی مٹھی کفار مکہ پر پھینکنے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورت انفال آیت 18میں فرمایا: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّٰهَ رَمَى(الأَنْفال:18)یعنی کہ اے نبیؐ! جب تم نے وہ کنکر پھینکے تو تُو نے نہیں بلکہ اللہ نےوہ کنکر پھینکے۔یعنی اس خدائی قدرت کی تاثیر سے کفار کا ایک ہزار کا لشکر جرارپسپا ہوگیا۔

اسی طرح رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنےوالوں کا ذکر کرتے ہوئے سورت فتح آیت11میں فرمایا کہ بوقت بیعت رضوان صحابہؓ نے بظاہر آنحضرتﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی مگر یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ(الفتح :11) یعنی ان کے اوپر خدا تعالیٰ کا ہاتھ تھا۔گویا آنحضرت ﷺ کے ہاتھ کو خدا کا ہاتھ قرار دیا۔

اسی طرح حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات میں فنا ہونے کے لحاظ سے اپنے لیےظلّ (یعنی اپنے آقا کا سایہ) یا بروز( یعنی اپنے آقا کی صفات سے رنگین )کے الفاظ انہی معنی میں استعمال کرتےہیں۔پس کسی کےبروز یا ظلّ ہونے سے اس کے ہم مرتبہ ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اصل بات یہی ہے کہ یہ سب محبت و عشق کی باتیں ہیں۔اور یہی بانئی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدؑ فرماتے ہیں کہ آپ اپنے آقا کی ذات میں ایسے فنا ہوئے کہ فرمایا

من تو شدم تو من شدی

من تن شدم تو جاں شدی

(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد18صفحہ214)یعنی مَیں تُو اور تُو مَیں ہوگیا۔میں جسم اور تو جان ہوگیا۔

(2)انبیائے کرام کا ایک دوسرے کا میثل ہونا

حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام مثیل آدم علیہ السلام ہیں:قرآن کریم نے عمومی مضمون کے علاوہ نام لے کر حضرت آدم ؑ و حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰ ؑو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو ایک دوسرے کا مثیل قرار دیا ہے۔مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ آدَمَ (آل عمران :60) ىقىناً عىسىٰ کى مثال اللہ کے نزدىک آدم کى مثال کى سى ہے۔

حضرت رسول اللہ ﷺ مثیل موسیٰ علیہ السلام اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل قرار دیا ہے۔جیساکہ فرمایا:اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا۔(المزمل :16)ىقىناً ہم نے تمہارى طرف اىک رسول بھىجا ہے جو تم پر نگران ہے جىسا کہ ہم نے فرعون کى طرف بھى اىک رسول بھىجاتھا۔اب اس آیت کریمہ میں حضرت رسول اللہ ﷺ کو موسیٰ علیہ السلام کا مثیل اور بروز، ہم صفات قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ کما کالفظ مثیل، بروز اور ظل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس آیت کریمہ میں ہے کہوَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی مِثۡلِہٖ فَاٰمَنَ وَاسۡتَکۡبَرۡتُمۡ:(الأَحقاف: 11) ترجمہ:حالانکہ بنى اسرائىل مىں سے بھى اىک گواہى دىنے والے نے اپنے مثىل کے حق مىں گواہى دى تھى پس وہ تو اىمان لے آىا اور تم نے استکبار کىا۔

اسی بات کو حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنی حدیث میں بھی بیان فرمایا ہے کہ قَالَ: ’’أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ،مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي‘‘(بخاری،کتاب المغازی، بَابُ غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهِيَ غَزْوَةُ العُسْرَةِ) یعنی فرمایا کہ اے علی کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مجھ سےو ہی تعلق ہو جو ہارون کا موسی کے ساتھ تھا،سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔مختصر یہ کہ ان آیات و احادیث میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مثیل، اپنے بروز، اپنے ظل اور اپنے ہم صفات وجود کے آنے کی پیشگوئی بائبل میں کی ہوئی ہے جو کہ آج تک کتاب استثناء باب 18آیت15 اور 18میں درج ہے:’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اسی طرف کان دھریو‘‘آیت نمبر 18یہ ہے کہ ’’میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا۔‘‘

(3) مومنین کو مثیل حواریان مسیح علیہ السلام بننے کی ہدایت

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَکَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ (الصف :15)اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو ! اللہ کے اَنصار بن جاؤ جىسا کہ عىسٰى بن مرىم نے حوارىوں سے کہا تھا (کہ) کون ہىں جو اللہ کى طرف راہ نمائى کرنے مىں مىرے انصار ہوں حوارىوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہىں پس بنى اسرائىل مىں سے اىک گروہ اىمان لے آىا اور اىک گروہ نے انکار کردىا پس ہم نے اُن لوگوں کى جو اىمان لائے اُن کے دشمنوں کے خلاف مدد کى تو وہ غالب آگئے۔

(4) مومنین میں بعض فرعون کی بیوی اور بعض حضرت مریم کے مثیل

وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَنَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ۔وَمَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَصَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ۔(التحريم:13،12) اوراللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو اىمان لائے فرعون کى بىوى کى مثال دى ہے جب اس نے کہا اے مىرے ربّ! مىرے لیے اپنے حضور جنت مىں اىک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔ اور عمران کى بىٹى مرىم کى (مثال دى ہے) جس نے اپنى عصمت کو اچھى طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس (بچے) مىں اپنى روح مىں سے کچھ پھونکا اور اس (کى ماں) نے اپنے ربّ کے کلمات کى تصدىق کى اور اس کى کتابوں کى بھى اور وہ فرمانبرداروں مىں سے تھى۔

(5) کفار کی مثالیں حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیویوں کی مانند ہے

کفار کو حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا مثیل قرار دیاگیا ہے،جیسا کہ فرمایاضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّامۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّقِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ(التحريم:11) اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کىا نوح کى بىوى اور لوط کى بىوى کى مثال بىان کى ہے وہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کے ماتحت تھىں پس ان دونوں نے ان سے خىانت کى تو وہ اُن کو اللہ کى پکڑ سے ذرا بھى بچا نہ سکے اور کہا گىا کہ تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ آگ مىں داخل ہو جاؤ۔

(6) مخالفین ِانبیاء سارے ایک دوسرے کے مثیل و مشابہ ہیں

قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جیسے اچھے لوگوں کے مثیل بھی دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں،جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوا کہ سورۃالتحریم میں مومنین کو بطور مثال فرعون کی بیوی اور حضرت مریم علیہا السلام کا مثیل قرار دیا گیا ہے۔بالکل اسی طرح برے لوگوں کے مثیل بھی دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں،یعنی انبیاء کے مخالفین اور منکرین کسی بھی زمانہ میں ہوں ان کی فطرت ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔اور وہ ایک ہی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔مثلاً فرمایا کہ وَقَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡلَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ۔(البقرة 119) اور وہ لوگ جو کچھ علم نہىں رکھتے کہتے ہىں کہ آخر اللہ ہم سے کىوں کلام نہىں کرتا ىا ہمارے پاس بھى کوئى نشان کىوں نہىں آتا اسى طرح ان لوگوں نے بھى جو ان سے پہلے تھے ان کے قول کے مشابہ بات کى تھى ان کے دل آپس مىں مشابہ ہو گئے ہىں ہم آىات کو ىقىن لانے والى قوم کے لیے خوب کھول کر بىان کر چکے ہىں۔

(7) منافقین کی مثال بطور ظل وبروز

بقول قرآن اچھے لوگوں کے مثیل بھی دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور برے لوگوں کے مثیل بھی دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں قرآن کریم کی ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَاِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔ (البقرة: 15) اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہىں جو اىمان لائے تو کہتے ہىں ہم بھى اىمان لے آئے اور جب اپنے شىطانوں کى طرف الگ ہو جاتے ہىں تو کہتے ہىں ىقىناً ہم تمہارے ساتھ ہىں ہم تو (ان سے) صرف تمسخر کر رہے تھے۔

یعنی جب منافقین شیاطین یعنی اپنے سرداروں کے پاس جاتےاور انہیں کہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو مسلمانوں سے ذرا ٹھٹھہ اور استہزاء کر رہے تھے۔ اب بجائے یہ کہنے کےکہ منافقین اپنے شریر سرداروں کے پاس جاتے ہیں۔ کہا گیا کہ منافقین اپنے شیاطین کے پاس جاتےہیں تو یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ان کے سردار جو تھے وہ اُس وقت انسان نہیں رہے تھے اور ان سرداروں کی جنس ہی تبدیل کر کے وہ شیطان کی جنس میں داخل ہوگئے تھے۔پس مراد یہ ہے کہ وہ صفاتی طور پر شیطان کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے تو صفاتی طور پر شیطان کے ساتھ مشابہت رکھنے کی بنا پہ اللہ تعالیٰ انہیں شیاطین بیان فرماتا ہے

(8)حضرت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کے یہود کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کےو قت کے یہود کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔اگرہم قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ کا ہی مطالعہ کریں تو ہم اس میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺکے زمانہ کے یہود کو، یعنی نزول قرآن کے زمانے کے بنی اسرائیل کو بروزی طور پر، تمثیلی طور پر موسیٰ کے زمانے کے یہود و بنی اسرائیل قرار دے کر مخاطب فرمایا ہے۔ ورنہ جو امور اس زمانہ کے یہود کو مخاطب کر کے بیان کیے جارہے ہیں وہ تو ان لوگوں کے آباء واجداد کے متعلق ہیں جو کہ فوت ہو چکے تھے۔ مگر چونکہ ان پچھلوں کے اعمال شنیعہ،ان کے پہلوں کے اعمال شنیعہ سے مماثلت رکھتے تھے اور یہ لوگ اپنے آباء و اجداد کے ہی نقش قدم پر تھے اس لئے ان کو بروزی طور پر وہی قرار دیاگیا۔مثلاًاللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَاَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَاِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ (البقرۃ:41) ترجمہ:اے بنى اسرائىل! اس نعمت کو ىاد کرو جو مىں نے تم پر کى اور مىرے عہد کو پورا کرو، مىں بھى تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور بس مجھ ہى سے ڈرو۔

اب ظاہر ہے کہ زمانہ نبویﷺ کے یہودتو ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ (البقرة: 62) اور ان پر ذلت اور مسکىنى کى مار ڈالى گئى کا مصداق تھے۔ ان پر تو کوئی انعام بھی نہیں ہوا تھا اور نہ ان سے یہ عہد ہوا تھا۔ پس آنحضرت ﷺکے زمانہ کے یہود کو بروزی طور پر موسیٰ کے زمانے کے یہود قرار دے کر قرآن انہیں مخاطب فرما رہا ہے۔پھر فرمایا:وَاِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَیَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَفِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ (البقرۃ :50) اور (ىاد کرو) جب ہم نے تمہىں فرعون کى قوم سے نجات بخشى جو تمہىں بہت سخت عذاب دىتے تھے وہ تمہارے بىٹوں کو تو قتل کر دىتے تھے اور تمہارى عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس مىں تمہارے لئے تمہارے ربّ کى طرف سے بہت بڑى آزمائش تھى۔

ظاہر ہے کہ نزول قرآن کے زمانے کے مخاطبین یہود کو کس آل فرعون سے واسطہ پڑا تھا؟پھر فرمایا:وَاِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَاَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ۔ (البقرۃ :51) ترجمہ:اور جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو پھاڑ دىا اور تمہىں نجات دى جب کہ ہم نے فرعون کى قوم کو غرق کر دىا اور تم دىکھ رہے تھے۔آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کب یہود کے لیے سمندر پھاڑا گیاہے؟ کب ان کو نجات دی گئی؟کیونکہ یہاں یہ بھی تو نہیں فرمایا کہ وہ زندہ ہو کر پھر آ گئے۔ تو کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ اس طرز بیان میں اس قسم کی آیات میں یہ مضمون بیان فرما نا چاہتا ہے کہ جو آج سے دو ہزار سال پہلے یہ یہودی تھے جنہوں نے یہ باتیں کہی تھی۔جن کے سامنے واقع ہوئے تھے۔ اے محمد مصطفیٰﷺ کے زمانے کے یہودیوں تم صفاتی طور پر ان کے مثیل بن چکے ہو۔ تمہارے اندر ان کا کردار داخل ہوچکا ہے۔چنانچہ قرآن کریم ایک اور جگہ پہ فرماتا ہےتَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ (البقرة :119) اس زمانے کے یہودیوں کے دل اور اُس زمانے کے یہودیوں کے دل صفاتی لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل گئے۔ تو یہ وہ مضمون ہے جسے صوفیاء ظل اور بروز کے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔الغرض اس قسم کی بے شمار مثالیں قرآن مجید میں بیان ہیں۔ ان سے واضح ہوا کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ کے یہود کو پہلے زمانہ کے یہود کی اولاد اور ان پر مثیل او ربروز قرار دے کرمخاطب کے صیغہ سے مخاطب فرمایا گیا ہے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظل و بروز کی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اللّٰہ جلَّ شَانُہ، سورۂ بقرمیں فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل ہماری اس نعمت کو یادکرو کہ ہم نے آل فرعون سے تمہیں چھڑایا تھا جب وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو رکھ لیتے تھے اور وہ زمانہ یاد کرو جب دریا نے تمہیں راہ دیا تھا اور فرعون اس کے لشکر کے سمیت غرق کیا گیا تھا اور وہ زمانہ یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا تھا کہ ہم بغیر دیکھے خداپر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں بدلی کا سایہ دیا اور تمہارے لئے منّ وسلویٰ اتارا اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طُور تمہارے سر کے اوپر ہم نے رکھا تھا پھر تم نے سرکشی اختیار کی۔اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ تم نے خون نہ کرنا اور اپنے عزیزوں کو اُن کے گھروں سے نہ نکالنا اور تم نے اقرار کر لیا تھا کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں گے لیکن تم پھر بھی ناحق کا خون کرتے اور اپنے عزیزوں کو ان کے گھروں سے نکالتے رہے۔ تمہاری یہی عادت رہی کہ جب کوئی نبی تمہاری طرف بھیجا گیا تو بعض کو تم نے جھٹلا یا اور بعض کے درپے قتل ہوئے یا قتل ہی کردیا۔

اب فرمائیے کہ اگر یہ کلمات بطور استعارہ نہیں ہیں اور ان تمام آیات کو ظاہر پر حمل کرنا چاہیئے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ جو لوگ درحقیقت ان آیات کے مخاطب ہیں جن کو آل فرعون سے نجات د ی گئی تھی اور جن کودریا نے راہ دیا تھا اورجن پر من وسلویٰ اتارے گئے تھے وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک زندہ ہی تھے یا مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر آگئے تھے۔ کیا آپ لوگ جب مسجدوں میں بیٹھ کر قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے ہیں تو ان آیات کے معنے یہ سمجھایاکرتے ہیں کہ اِن آیات کے مخاطبین ہی آنحضرت ﷺ کے عہد رسالت تک بقید حیات تھے یا قبروں سے زندہ ہو کر پھر دنیا میں آگئے تھے۔ اگر کوئی طالب علم آپ سے سوال کرے کہ اِن آیات کے ظاہر مفہوم سے تو یہی معنے نکلتے ہیں کہ مخاطب وہی لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ اوردوسرے نبیوں کے وقت میں موجود تھے کیا اب یہ اعتقاد رکھاجائے کہ وہ سب آنحضرت ﷺکے وقت میں زندہ تھے یا زندہ ہوکر پھر دنیا میں آگئے تھے۔ تو کیا آپ کا یہی جواب نہیں کہ بھائی وہ تو سب فوت ہوگئے اور اب مجازی طورپر مخاطب اُن کی نسل ہی ہے جو اُن کے کاموں پر راضی ہے گویا انہیں کا وجود ہے یایوں کہو کہ گویا وہی ہیں۔ تواب سمجھ لو کہ یہی مثال ابن مریم کے نزول کی ہے۔سُنّت اللہ اسی طرح پر ہے کہ مراتب وجود دَوری ہیں اور بعض کے ارواح بعض کی صورت مثالی لے کر اس عالم میں آتے ہیں اور روحانیت ان کی بکلّی ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہے۔ آیت تشابھت قلوبھم کو غور سے پڑھو۔(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد3صفحہ 446-447)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button