متفرق

تربیت اولاد

(ماریہ صابر احمد، جرمنی)

تخلیق بنی نوع آدم کے آغاز سے ہی خداوند کریم نے انسان کی تربیت و ہدایت کا سلسلہ مختلف طریقوں سے جاری رکھا۔ دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث ہوئے جن میں سے بعض کے ساتھ مقدس کتابیں بھی نازل ہوئیں۔ان کتابوں میں سےقرآن کریم ہماری راہنمائی کے لیے آج بھی حرف بہ حرف محفوظ ہے۔

لفظ ’’تربیت‘‘ ذہن میں آتے ہی تربیت اولاد کا تصور دماغ میں جنم لیتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے تربیت اولاد کے حوالے سے بہت ساری نصائح فرمائی ہیں،فرمایا:قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً(آل عمران : 39) اے میرے ربّ! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔

اس مضمون میں تربیت اولاد کے مضمون کو اسلامی نقطہ نظر سے مرحلہ وار سمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ والدین جن کو اللہ تعالیٰ عنقریب اولاد کی نعمت سے نوازنے والا ہے یا نواز چکا ہے، خاص کر وہ لوگ جو ایسے ممالک میں رہائش پذیر ہیں جہاں قادیان یا ربوہ کی طرز کا دینی ماحول میسر نہیں وہ اس سے مستفید ہو کر اپنی اولادوں کی تربیت کر سکیں۔

تربیت اولاد کا پہلا مرحلہ

تربیت اولاد کا پہلا مرحلہ دیندار عورت (بیوی)کا انتخاب ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے فرمایا کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار بنیادیں ہی ہو سکتی ہیں یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یااس کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس کی دینداری کی وجہ سے۔لیکن تو دین دار عورت کو ترجیح دے اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دین دار عورت حاصل ہو۔(حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر 358)کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔

تربیت کا دوسرا مرحلہ

اس مرحلے میں والدین کو کثرت کے ساتھ اپنی آنے والی اولاد کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔نیک اولاد کے لیے دعا سنت انبیاء بھی ہے اور قرآن کریم میں بھی نیک اور صالح اولاد کے لیے دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔(الصٰفٰت:100) اے میرے ربّ! مجھے صالح اولاد عطا فرما۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نیک اولاد کے لیے دعا سکھائی گئی:رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ٭ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ۔(ابراہیم :41) اے میرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا دے اور میری اولاد کو بھی۔اے ہمارے ربّ ہماری دعاؤں کو قبول فرما۔

اس دعا کی اہمیت کا اندازہ ہم یوں بھی کر سکتے ہیں کہ اس دعا کو ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔

تربیت اولاد کا تیسرا مرحلہ

اللہ تعالیٰ جب اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے تو سنتِ نبویؐ پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کی تلقین فرمائی۔

آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے متعلق فرمایا کہ اذان شیطان کو دھتکار دیتی ہے۔(صحیح مسلم)

اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بعض بچوں کو گھٹی ( بعض لوگ اسے گڑھتی بھی کہتے ہیں) دے کر دعا کی تاکہ بچے پر نیک اور اچھا اثر پڑے۔ اسی سنت کے تتبع میں خاندان اور معاشرہ میں نیک صالح شخص سے گھٹی دلوائی جاتی ہے۔(زادالمعاد)

پیدائش کے بعد بچے کے سر کے بالوں کو بھی جلد از جلد اتارنے کا حکم ہے۔اگر لڑکا ہو تو ختنہ بھی کروایا جائے اسی طرح عقیقہ کا بھی ارشاد ہے۔

آج کل بچوں کی پیدائش پر طرح طرح کی رسومات اور پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔جیسے کہ بےبی شاور پارٹی۔ اسی طرح کی پارٹیاں عام ہوتی جا رہی ہیں جبکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلامی روایات اور اقدارکے موافق ہیں۔؟

تربیت کا چوتھا مرحلہ

پہلے3 مراحل میں ابھی تک بچہ ہمیں دیکھ اور سن سکتا ہے جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔اب وہ مرحلہ ہے جب بچہ بولنا سیکھتا ہے۔اب بچہ کو نیک کلمات سکھانا شروع کر دیں جیسا کہ کلمہ، اللہ کا نام، السلام علیکم، جزاک اللہ، ماشاء اللہ جیسے الفاظ۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی جا ئے تو چھوٹی چھوٹی دعائیں سکھائیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہواور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 444-445ایڈیشن1988ء)

یاد رکھیں کہ بچہ نقال ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ اپنے بڑوں کو کرتے دیکھتا ہے وہی دہراتا ہے۔ اگر والدین نیک اور سچ بولنے والے ہوں گے تو بچے میں بھی بچپن سے ہی سچ بولنے کی عادت ہو گی۔ کیونکہ بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے یعنی بچہ فطرتاً نیکی کا قائل ہوتا ہے اسی لیے اچھی اور نیکی والی بات جلد اپنا لیتا ہے۔ بعد میں ماحول اور معاشرے کے بداثرات بچے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں لیکن اگر بچپن سے ہی بچہ اچھائی اور برائی میں تمیز سیکھ لےتو معاشرے کے بد اثرات میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز قائم کرنے کا بھی حکم ہے۔اس عمر میں بچہ سکول بھی جانا شروع ہو جاتا ہے یہاں والدین کی دوہری ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔ والدین کو بچوں کے دوستوں سے بھی واقفیت ہونی چاہیے۔ بچے کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں۔ بچے اور والدین کے درمیان اعتماد کا تعلق قائم ہو کہ بچہ ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کرے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں جہاں جماعت کا منظم نظام ہر وقت ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button