متفرق مضامین

گھانا میں بیتے دِنوں کی چندیادیں

(قریشی داؤد احمد۔ مربی سلسلہ یوکے)

خاکسار 25؍ دسمبر 1991ء کو ربوہ سے روانہ ہوا۔ کراچی میں ایک روز قیام کے بعد 29 ؍دسمبر 1991ء کو گھانا پہنچا۔ کچھ روز اکرا مشن ہاؤس میں قیام کے بعد اپنے سنٹر وا، اپر ویسٹ ریجن چلا گیا، اپر ویسٹ ریجن میں’’وا ‘‘(Wa)کے علاوہ گیارہ اَور جماعتیں تھیں:1۔Kalio۔2۔Jarapa۔3۔ Nanalum۔4۔Fealmo۔5۔Hamle۔6۔ Tumu۔7۔Welembly۔8۔ Nablo۔9۔Lambusie۔10۔Gorpici۔11۔Kalbaگرپسی اور کلبہ کے علاوہ باقی تمام جماعتیں ایک دائرہ کی شکل میں تھیں چنانچہ دورہ پر جاتےہوئے ہم وا سے Kalio پھر Jarapa پھر Fealmo, Nanalumاور LambusieاورHamleسے ہوتے ہوئے Tumu, Welembly اور بعض اوقات Nablo جایا کرتے تھے۔ نبلو گاؤں جانے کے لیے بڑے مشکل راستہ سے گزرنا پڑتا تھا اور باقاعدہ کوئی سڑک نہیں تھی بلکہ بہت اونچے گھاس والے کچے اور کیچڑ والے راستہ سے بڑی گاڑی پر جانا پڑتا تھا وہاں پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کےنظارے نظر آتے ہیں کہ اتنے پسماندہ علاقوں میں بھی آپ علیہ السلام کا پیغام پہنچا ہوا ہے۔ بعض اوقات وقت کی مناسبت سے تھوڑا سا لمبا راستہ لے کر ہم Welembly سے Gorpici کی طرف سے ہو کر وا آیا کرتے تھے۔ یہ تقریباً ایک ہفتہ یادس دن کا دورہ ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ ہر جماعت میں رات قیام کر کے احباب سے ملنا ہوتا تھا۔ اور بعض اوقات سیدھے پہلے Tumu چلے جاتے تھے۔ اور Welembly اور Nabloکے دورہ میں رات ٹھہر کر Tumu آ جاتے اور اگلے روز وہاں سے Hamle کی طرف سے ہو کر واپس آ جاتے۔ ایک دورہ کے دوران ہم ٹومو سے ہملے جا رہے تھے راستے میں ایک گاؤں آتا تھا جس کا نام ’’بولو‘‘ہے۔ گھانا کے سابق صدر ڈاکٹر ہلالی مان اس گاؤں کے رہنے والے تھے۔اس گاؤں سے گذرتے ہوئے مشن کے ڈرائیور مکرم عبداللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ سابق صدرڈاکٹر ہلالی مان صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، چنانچہ ہم نے گاڑی واپس کی۔

وہ اس وقت صبح صبح چند بزرگوں کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے بڑی سادگی سے بیٹھے تھے، ہم نے اُنہیں سلام کیا اور خاکسار نے اپنا تعارف کروایا کہ میں احمدیہ مسلم جماعت کا مبلغ ہوں اور ہم اپنی جماعتوں کے احباب سے ملاقات کے لیے اس علاقہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ خاکسار نے بتایا کہ مجھے ڈرائیور نے یہ بتایا کہ آپ تشریف رکھتے ہیں تو خاکسار نے مناسب سمجھا کہ آپ کو سلام کریں، جس پر انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اورشکریہ ادا کیا۔ چند منٹوں کی ملاقات کے بعد ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

نبلو (Nablo) گاؤں کے ذکر سے یاد آیا کہ ایک تبلیغی پروگرام کے سلسلہ میں ہم نبلو گئے وہاں ہماری چھوٹی سی جماعت تھی۔ خاکسار نے وہاں ایک احمدی بزرگ سے پوچھا کہ یہاں احمدیت کا پیغام کب اور کیسے پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ میرے والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ ہمارے بڑے بزرگ مسلمان تھے اور انہوں نے سن رکھا تھا کہ امام مہدی کے ظاہر ہونے کا زمانہ قریب ہے چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں نےگھوڑے پال رکھے تھے کہ جب بھی ہمیں علم ہوا کہ امام مہدی ظاہر ہو گیا ہے ہم ان گھوڑوں پر سوار ہو کر اس کی زیارت کے لیے جائیں گے۔ بہر حال ان کی زندگیوں میں تو وہ موقع نہ آیا لیکن جب امام صالح صاحب آف وا ( والد محترم مولانا محمد بن صالح امیر ومشنری انچارج گھانا)کے ذریعہ شمالی علاقوں میں احمدیت کا تعارف ہوا تو ہمارے والدین بھی احمدی ہو گئے۔

وا میں مقامی روایات کے مطابق یہ طریق تھا کہ حکومتی سطح پر ہونے والی تقریبات میں ’’وا کے چیف امام صاحب‘‘تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتےتھے اور حکومتی تقریبات میں انہیں ہی اسٹیج پر کرسی ملتی تھی۔ گو جماعت کے مبلغ کو بھی دعوت نامہ ملتا تھا، لیکن وہ عام لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھتا تھا۔ ان ایام میں وا میں ریجنل منسٹر (وزیر اعلیٰ) مسٹر ایڈورڈ صالح صاحب تھے، جو مذہباً عیسائی تھے لیکن جماعت کے سکول (کماسی ہائی سکول) سے فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے جماعت کی بہت عزت کرتے تھے۔ خاکسار نے اُن سے ملاقات کی اور کہا کہ جماعت احمدیہ ایک عالمگیر جماعت ہے، اس لحاظ سے اس کے مبلغ کو حکومتی تقریبات میں اسٹیج پر جگہ ملنی چاہیے، چنانچہ انہوں نےاپنے پروٹوکول آفیسر کو کہہ دیا کہ آئندہ سے چیف امام صاحب کے ساتھ احمدی مبلغ کو بھی اسٹیج پر بٹھایا جائے۔ چنانچہ اس کے بعد گورنمنٹ کی ہر تقریب میں بطور مبلغ جماعت احمدیہ خاکسار کو بھی چیف امام صاحب کے ساتھ کرسی ملنے لگی، جس پر چیف امام صاحب نے خوشی کا اظہار کیا۔ موصوف خاموش طبع اور بہت اچھے انسان تھے۔ جماعت کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔

وا میں سپریم کورٹ رجسٹری کے رجسٹرار ایک احمدی دوست تھے، اِسی دوران ایک موقع پر گھانا کے چیف جسٹس ’’وا‘‘رجسٹری تشریف لائے اور اُن کے اعزاز میں ایک پروگرام ہوا۔ اس موقع پر خاکسار کو بھی اسٹیج پر بٹھایا گیا اور احمدی مبلغ کے طور پر متعارف کروایا گیا۔

کچھ عرصہ کے بعد گھانا کے صدر مملکت نے انتخابات کروائے اور دوبارہ اُن کی پارٹی PNDC بر سراقتدار آ گئی تو مکرم ایڈورڈ صالح صاحب مرحوم کو مرکز میں وزیرِ ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن بنا دیا گیا اور اُن کی جگہ ایک دوست MR Yeley Cherey ریجنل منسٹر بنائے گئے۔

مقامی رواج کے مطابق نئے ریجنل منسٹر صاحب کو مقامی انتظامیہ کے علاوہ پیراماؤنٹ چیف وا، وا بشپ اور وا چیف امام سے اُن کی رہائش گاہوں پر جا کر متعارف کروایا جاتا تھا، چنانچہ جب مکرم ایڈورڈ صالح صاحب مرحوم واپس اکرا جانے لگے تو ایک دن اُن کے پرسنل سیکرٹری نے خاکسار کو بھی فون کر کے کہا کہ کل پرانے ریجنل منسٹر صاحب نئے ریجنل منسٹر صاحب کے ساتھ وا کے چیف امام کو سلام کرنے آ رہے ہیں، (وا کے چیف امام صاحب، احمدیہ مشن ہاؤس کے ہمسایہ میں ہی رہتے تھے) اس کے بعد وہ آپ کو سلام کرنے اور نئے ریجنل منسٹر کو متعارف کروانے احمدیہ مشن ہاؤس بھی آنا چاہتے ہیں۔

اُن ایام میں وا میں مقیم احمدی سیاسی لحاظ سے تقسیم تھے، اور دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں PNDC اور NPP پارٹی کے ریجنل چیئرمین بھی احمدی تھے اور سیاسی لحاظ سے آپس میں کافی اختلافات رکھتے تھے۔ خاکسار نے فوری طور پر اپوزیشن پارٹی NPP کے چیئرمین مکرم عبداللہ اسحاق صاحب (مرحوم)سے رابطہ کیا اور ہمارے ریجنل صدر ملک اسحاق صاحب جو کہ PNDC کے چیئرمین تھے سےبھی رابطہ کر کے کہا کہ آپ لوگوں کے اختلافات اپنی جگہ لیکن کل آپ تمام دوستوں نے مشن ہاؤس آنا ہے تاکہ ہم پرانے اور نئے ریجنل منسٹر سے مل سکیں۔ اور اُن کو پتا چلے کہ جماعتی لحاظ سے ہم میں کوئی اختلاف نہیں۔ الحمدللہ کہ یہ پروگرام بہت اچھا رہا، دونوں منسٹرز کی مشروبات اور دیگر لوازمات سے تواضع کی گئی اور مہمانان کی خدمت میں قرآنِ کریم مع انگریزی ترجمہ کی کاپیاں پیش کی گئیں۔ جس پر اُن دونوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا، خصوصاً اپنے سیاسی مخالفین سے وہاں ملاقات کر کے جماعت کی بہت تعریف کی۔

اپر ویسٹ ریجن میں جماعت کے کچھ سکول اور ایک ٹیچر ٹریننگ کالج ’’نصرت جہاں ٹیچر ٹریننگ کالج ‘‘ تو تھا لیکن ہائی سکول نہیں تھا۔ جماعت کے پاس ایک پرائمری سکول کے ساتھ ہائی سکول کے لیے وسیع احاطہ موجود تھا۔ چنانچہ خاکسار نے دوستوں کو تحریک کی اور ہم نے وہاں بلاکس تیار کروانے شروع کیے، نیز بنیادیں بھی وقارِ عمل کے ذریعہ کھودی جانے لگیں۔ ایک روز جمعہ کے بعد ریجنل قائد مکرم قادر صاحب تشریف لائے اور کہنے لگے کہ خدام کی خواہش ہے کہ کل ہم ہائی سکول کا سنگِ بنیاد رکھیں اور ریجنل منسٹر یلے چرے (Yeley Cherey)صاحب کو اس کام کے لیے مدعو کیا جائے۔

خاکسار نے اُنہیں کہا کہ اب تو دفتر بند ہونے کا وقت ہے، اور ریجنل منسٹر کو مدعو کرنا ہے، لیکن پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں۔ اس سے کچھ ماہ قبل خاکسار نے ریجنل منسٹر صاحب سے ملاقات کی تھی اور مشن ہاؤس تشریف لانے پرشکریہ ادا کیا تھا۔ اُس وقت اُنہوں نے خاکسار کو کہا تھا کہ آپ جب بھی مجھ سے ملنا چاہیں آپ کو وقت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ یہاں آ کر میرےپرنسپل سیکرٹری کو کہہ دیا کریں تو وہ آپ کو مجھ سے ملوا دیا کرے گا۔ اُن کی اس آفر سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خاکسار فوراً ریجنل منسٹر صاحب کے دفتر گیا، خوش قسمتی سے وہ دفتر میں ہی تھے۔ اُن سے ملاقات کی اور مدعا بیان کیا نیز درخواست کی کہ اگر GBC کے ریجنل کیمرا مین اور نمائندہ ( جو کہ بہت اچھے انسان تھے اور جماعت کی بڑی قدر کرتے تھے) بھی تشریف لے آئیں تو خوب ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ میں خود تو آ جاؤں گا اور کچھ محکموں کے سیکرٹریز کو بھی کہہ دیتا ہوں لیکن GBC کے نمائندے کا وعدہ نہیں کرتا، تاہم انہیں پیغام بھیج دیتا ہوں۔ یہ بات ہمارے لیے بہت خوش کن اور حوصلہ افزا تھی۔

چنانچہ اگلے روز مقررہ وقت پر سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے ریجنل منسٹر صاحب کے ساتھ، ڈِپٹی کمشنر (جو کہ احمدی تھے) مسٹر Naa Brema، ریجنل ڈائریکٹر تعلیم، ریجنل ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر کے علاوہ کئی اور حکومتی شخصیات اور GBC کے نمائندہ اور کیمرا مین بھی تشریف لائے۔ ہمارے انتظامات کا یہ حال تھا کہ ہمارے پاس وہاں ریجنل منسٹر کو بٹھانے کے لیے کرسی تک نہیں تھی۔ چنانچہ وہ ایک بینچ پر ہی بیٹھ گئے اور سنگِ بنیاد رکھا۔

خاکسار کو آج تک یاد ہے کہ ڈائریکٹر ایجوکیشن جو کہ ایک خاتون تھیں اور مذہباً عیسائی تھیں، انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’چند روز قبل میں ایک تقریب میں شامل تھی جو کہ رومن کیتھولک کے سیکنڈری سکول کے افتتاح کی تقریب تھی، لیکن جتنی خوشی مجھے رومن کیتھولک سکول کی تقریب کے موقع پر ہوئی تھی اُس سے کہیں زیادہ خوشی مجھے آج احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول کی سنگِ بنیاد کی تقریب کے موقع پر ہو رہی ہے۔ دیگر احمدیہ سکولوں کی طرح گو کہ نصرت جہاں ٹیچرٹریننگ کالج کے اساتذہ کو تنخواہیں گورنمنٹ ادا کرتی تھی تاہم وہاں پرنسپل ہمیشہ احمدی ٹیچر کو ہی لگایاجاتا تھا۔ جب خاکسار وا گیا تو اس وقت ایک مخلص احمدی بزرگ مکرم سعید مومن صاحب وہاں بطور پرنسپل متعین تھے۔ گو کہ پرنسپل کچھ طلبہ کو داخلہ دینے کا صوابدیدی اختیار رکھتا تھا تاہم وہ اپنا اختیار کم ہی استعمال کرتے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مکرم زکریا صاحب پرنسپل بنے۔ انہیں دنوں کماسی سے ایک طالب علم مکرم شفیق صاحب موجودہ صدرجماعت Peckham یوکے، وا مشن ہاؤس آئے اور خاکسارکو بتایا کہ میں نے اپنے علاقہ میں ٹیچر ٹریننگ کالج میں داخلہ کی کافی کوشش کی ہے لیکن نمبر کم ہونے کی وجہ سے کہیں داخلہ نہیں ملا۔ چنانچہ کسی دوست نے مجھے کہا ہے کہ آپ وا میں نصرت جہاں ٹیچر ٹریننگ کالج میں کوشش کریں۔ چنانچہ خاکسار انہیں ساتھ لے کر نصرت جہاں کالج گیا اور پرنسپل صاحب سے داخلہ کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نمبر تھوڑے ہیں لیکن میں اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے داخلہ دے دیتا ہوں۔ چنانچہ مکرم شفیق صاحب نے خوب محنت کی اور بعدمیں ایک ملاقات میں بتایا کہ وہ نصرت جہاں سے کامیابی سے فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ آج بھی یوکے میں کسی جگہ ملاقات ہو تو بڑے خلوص سےملتے ہیں اور اپنے دوستوں سے نصرت جہاں ٹیچر ٹریننگ کالج میں داخلہ والے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔

گھانا میں احمدیہ سکولوں میں احمدی طلبہ کی ایک تنظیم، AMSAG ’’احمدیہ مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن گھانا ‘‘ تھی۔ اپر ویسٹ ریجن میں یہ تنظیم کافی فعال تھی اور اس کے نگران ہمارے ایک سکول ٹیچر مکرم سہانون مختار صاحب مرحوم تھے۔ یہ دوست بعد میں صدر اکوفوا کے دور میں اپر ویسٹ کے ریجنل منسٹر اور بعد میں برکینا فاسو میں گھانا کے سفیر بھی رہے۔

اِن کے وقت میں اپر ویسٹ ریجن میں اس تنظیم کے پروگرام مختلف سیکنڈری سکولوں میں کثرت سے منعقد ہوا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے طلبہ میں بہت بیداری تھی اور یہ چیز اُن کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنے میں بڑی معاون ثابت ہوتی تھی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس دور میں وا اپر ویسٹ ریجن میں جماعت کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ایک موقع پر انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے لیے مجلس انصار اللہ نے ایک بس کرایہ پر لی تاکہ وہ کماسی میں منعقد ہونے والے اجتماع میں شامل ہو سکیں۔ اُس دور میں وا سے بمبوئے تک سڑک بالکل کچی اور انتہائی خراب حالت میں ہوا کرتی تھی، بد قسمتی سے آدھے راستے میں وا اور بمبوئے کے درمیان اُن کی بس خراب ہو گئی۔ چنانچہ ریجنل ناظم مکرم الحاج ماہاما سینو صاحب نے کہیں قریب سے آرمی بیس میں جا کر خاکسار کو فون کیا کہ ہماری بس خراب ہو گئی ہے، نیز یہ کہ ہمارے لیے دوسری گاڑی کے انتظام کی کوشش کریں۔ اُن ایام میں گھانا میں ایک یونین GPRTU یعنی ’’گھانا پرائیویٹ روڈ ٹرانسپورٹ یونین‘‘ قائم تھی۔ اِس یونین کے چیئرمین ہمارے ایک احمدی بھائی الحاج محمد ادریسو مرحوم کے چھوٹے بھائی محمد یوسف المعروف بہ Bleky ہوا کرتے تھے۔ سیکرٹری بھی ایک احمدی دوست ہی تھے جبکہ وائس چیئرمین ایک غیر احمدی مسلمان بھائی تھے۔ اتفاق سے ہمارے دونوں احمدی بھائی اُس دن وا میں موجود نہیں تھے۔ چنانچہ خاکسار بسوں کے اڈے پر گیا اور اُن غیر احمدی دوست سے مل کر صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اُس روٹ کا لائسنس رکھنے والی تمام بسیں تو جا چکی ہیں، لیکن میں کوشش کرتا ہوں، آپ مشن ہاؤس چلے جائیں میں آپ کو فون کروں گا۔ چنانچہ چند گھنٹوں کے بعد اُن کا فون آیا اور معذرت کے انداز میں کہا کہ مجھے فون کرنے میں اِس لیے دیر ہو گئی ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ کو ایسے ہی تسلی دے دوں، اب گاڑی میں ڈیزل وغیرہ ڈلوا کر ڈرائیور رخصت ہو گیا ہے تو میں آپ کو بتانے کے لیے فون کر رہا ہوں کہ گاڑی چلی گئی ہے۔

اِس احمدی دوست یوسف ادریس کے ذکر پر یاد آیا کہ خاکسار اکثر اُن سے ملنے لاری اڈے پر جایا کرتا تھا۔ GPRTU کی ایک فورس بھی تھی جو بسوں کی نگرانی وغیرہ بھی کیا کرتی تھی۔ چیرمین اور وائس چیئرمین کے ساتھ بھی کچھ فورس کے لوگ ہوتے تھے۔ اِن احمدی دوست یوسف ادریس صاحب سے ملنے کے بعد جب خاکسار اُن کے دفتر سے باہر آتا تو وہ خود بھی مجھے گاڑی تک چھوڑنے آتے، اُن کی فورس کے پانچ چھ باوردی سپاہی بھی ساتھ ہوتے اور جونہی ہم گاڑی کے قریب پہنچتے وہ گاڑی کے چاروں دروازے کھول دیتے۔

جماعت کی طرف سے گھانا کے مختلف مشن ہاؤسز میں تبلیغ کے لیے چھوٹے سکوٹر مہیا کیے گئے تھے۔ ایک دن وا مشن کے ڈرائیور جو کہ وا کے ایک محلہ میں ہی رہتے تھے ایک سکوٹر لے کر کہیں چلے گئے۔ بد قسمتی سے بارش کی وجہ سے وہ سکوٹر کو کنٹرول نہ کر سکے اور ایک گلی میں سے گزرتے ہوئے سکوٹر سے ٹکرا کر ایک راہ گیر خاتون زخمی ہو گئی۔ کسی نے پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی۔ ہمارے ڈرائیور صاحب تو کہیں روپوش ہو گئے لیکن سکوٹر پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ ڈرائیور نے مجھے نہ بتایا کہ یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ جب بھی میں اُس سے سکوٹر کے بارے میں پوچھتا تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتا۔ کچھ دنوں کے بعد ہمارے اکاؤنٹنٹ مکرم عیسٰی صاحب نے مجھے بتایا کہ کیا ماجرا گزرا ہے اور یہ بھی کہ جماعتی سکوٹر پولیس کی تحویل میں ہے۔ چنانچہ اگلے روز خاکسار پولیس کے ریجنل ہیڈکوارٹر چلا گیا اور پولیس کمانڈر صاحب سے مل کر اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح کے ایک ادنیٰ غلام کی لاج رکھتے ہوئے اس کا دل پھیر دیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اور پھر جماعتی سکوٹر بھی ہمیں واپس کر دیا گیا۔

ایک دن خاکسار اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انگریز دوست تشریف لائے اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں اور افریقہ میں مختلف مذاہب کے بارے میں ایک تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔ چنانچہ خاکسار نے اُنہیں اپنی رہائش گاہ مدعو کیا اور حسبِ استطاعت اُن کی تواضع کی۔ اُنہیں اُن کے سوالات کے مطابق جماعت کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی توفیق ملی۔ فالحمدللہ

جیسا کہ احباب کو علم ہے کہ افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح گھانا میں بھی نصرت جہاں سکیم کے تحت جماعت کے کئی ہسپتال خدمتِ انسانیت میں مصروف ہیں۔ خاکسار کے گھانا میں قیام کے دوران ڈبواسی ویسٹرن ریجن میں جماعت کا ایک نیا ہسپتال بنایا گیا تھا، اُس ہسپتال کے کھولنے میں ہمارے ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب مرحوم نے جو سویڈو میں ہوتے تھے کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک موقع پر خاکسار نے وا سے تقریباً 8 یا 9 میل باہر ایک گاؤں Kalio کے پیرا ماؤنٹ چیف سے بات کی کہ آپ کے علاقے میں اگر جماعت ایک ہسپتال بنائے تو کیا آپ ہمیں زمین دے سکتے ہیں؟ اس گاؤں میں ہماری چھوٹی سی جماعت بھی تھی، اُنہوں نے زمین دینے کی حامی بھر لی چنانچہ خاکسار نے ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب (مرحوم) سے بات کی کہ وہ امیر صاحب گھانا سے بات کریں کہ اِس علاقے میں بھی جماعت کا ہسپتال ہونا چاہیے۔

مکرم عبدالوہاب آدم صاحب مرحوم امیر جماعت گھانا سے اجازت ملنے پر ڈاکٹرعبدالحفیظ صاحب وا تشریف لائے اور اُس پیراماؤنٹ چیف سے ملاقات کی۔ یہ چیف صاحب ضلع انتظامیہ میں آفیسر بھی تھے۔ اُن کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں اُنہوں نے ہمیں Kalio گاؤں کے باہر کچھ زمین دکھائی، نیز ایک تیار شدہ کافی بڑی بلڈنگ دکھائی کہ وقتی طور پر جماعت اس عمارت میں ہسپتال کھول سکتی ہے۔ وہ کافی بڑی بلڈنگ تھی جس کا کرایہ بھی بڑا معقول تھا۔

چنانچہ چیف صاحب سے ملاقات کے بعد ہم نے منسٹری آف ہیلتھ اپر ویسٹ ریجن کے افسران سے ملاقات کی، ڈاکٹر لوچو (Dr Louchu) صاحب سے ملاقات کی جو مذہباً مسیحی تھے۔ موصوف کا وا میں اپنا پرائیویٹ ہسپتال تھا۔ اُنہوں نے بھی ہماری راہنمائی کی کہ کس طرح ہمیں اِس ریجن میں ہسپتال کھولنے کی اجازت مل سکتی ہے۔

الحمدللہ، ڈاکٹر عبد الحفیظ صاحب مرحوم کی ذاتی کوششوں کے بعد وہ عمارت کرایہ پر لے کر جماعت کو وہاں ہسپتال کھولنے کی توفیق ملی۔ گو کہ اُس وقت خاکسار کا تبادلہ وا سے ٹیما گریٹر اکرا ریجن میں ہو چُکا تھا، البتہ ہسپتال کی افتتاحی تقریبات میں شمولیت کا موقع ملا۔ پاکستان سے تشریف لانے والے ایک ڈاکٹر مکرم محمد نصراللہ صاحب وہاں پہلے ڈاکٹر مقرر ہوئے تھے۔

گھانا کے شمالی علاقہ جات میں لوگ اکثر گائے پالتے ہیں، چنانچہ بہت سے احمدیوں کے بھی گائیوں کے کرال ہوا کرتے تھے، اور ہر سال وہ زکوٰۃ کے طور پر شرح کے مطابق گائیاں دیا کرتے تھے۔ اِسی طرح وا سے تقریباً 15 یا 20 کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک گاؤں گرپسی (Gropici) تھا۔ اس گاؤں میں ہماری بڑی جماعت تھی، وہاں ایک احاطہ میں جو کہ لکڑیوں کا بنایا گیا تھا جماعت کی ڈیڑھ سو سے زائد گائیاں ہوتی تھیں اور ہمارے ایک معلّم مکرم سالفو صاحب اُس کے نگران تھے۔ وہ کِرال کی نگرانی کے علاوہ ہر سال اپر ویسٹ ریجن کے مختلف علاقوں میں موجود احمدیوں سے زکوٰۃ کی گائیاں بھی لایا کرتے تھے۔ کِرال کی نگرانی اور گائیوں کو باہر چرانے کے لیے جماعت نے کچھ لوگ رکھے ہوئے تھے جنہیں ’’فلانی‘‘کہتے تھے۔ یہ لوگ شمالی گھانا یا عموماً بورکینا فاسو اور مالی وغیرہ کے علاقوں سے آتے تھے۔ اِن کا زیادہ تر گزارا گائیوں کا دودھ وغیرہ بیچ کر ہوتا تھا۔ یہ لوگ کچھ عرصہ ایک علاقہ میں قیام کرنے کےبعد دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔

اُس پسماندہ علاقہ میں سفر وغیرہ کی سہولتیں کیسی تھیں، اس کا اندازہ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بعض اوقات گرپسی جماعت سے کوئی پیغام وا مشن ہاؤس بھیجا جاتا تو وہ اگلے دن ملتا یا اس قدر تاخیر سے ملتا کہ اُس وقت تک وہ کام یا ضرورت پوری ہو چکی ہوتی۔ایک روز نماز مغرب کے بعد معلم سالفو صاحب مشن ہاؤس تشریف لائے اور خاکسار کو بتایا کہ مجھے ابھی ابھی گرپسی سے پیغام ملا ہے کہ زکوٰۃ کی ایک گائے کہیں گُم ہو گئی ہے۔ اُس وقت مشن کا ڈرائیور بھی گھر جا چکا تھا اور رات بھی گہری ہو رہی تھی۔ خاکسار نے معلم صاحب سے کہا کہ چلیں ہم گرپسی چل کر پتا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں موٹر پر گُرپسی کے لیے روانہ ہو گئے۔ چونکہ راستے میں سڑک کچی، خستہ حال اور ناہموار تھی اس لیے موٹر سڑک کے اُس جانب چلانا تمام ڈرائیورز کا شیوہ تھا جس طرف وہ ہموار ہو، قطع نظر اس کے کہ قواعد و ضوابط کے لحاظ سے وہ درست سائیڈ ہو یا غلط۔ چنانچہ خاکسار بھی سڑک کے ہموار حصے پر جو کہ سامنے سے آنے والی ٹریفک کے لیے مخصوص تھی گاڑی چلاتا جا رہا تھا۔ گرپسی سے تقریباً پانچ، چھ میل پہلے خاکسار کو اچانک ایک ٹرک بڑی تیزی سے ہماری طرف بڑھتا دکھائی دیا۔ اس نے نہ تو کوئی لائیٹ جلا رکھی تھی اور نہ ہی اُس پر کوئی ایسا ریفلیکٹر تھا کہ ہماری ہیڈلائیٹ سے چمک کر ہمیں اپنی موجودگی سے آگاہ کرسکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جبکہ اُس کا ہماری موٹر سے فاصلہ کوئی پندرہ بیس گز رہ گیا تو خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے خاکسار نے اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے پوری طاقت سے گاڑی کو دائیں جانب یعنی اپنے ٹریک کی طرف موڑدیا۔ ابھی بمشکل موٹر ٹریک پر سیدھی ہوئی ہو گی کہ وہ ٹرک ہمارے پاس سے گزر گیا۔ بعد میں خاکسار کو معلم سالفو صاحب نے بتایا کہ وہ ٹرک لکڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے خاص فضل سے ہمیں بہت بڑے حادثہ سے محفوظ رکھا۔ بہرحال ہم گرپسی پہنچے اور کرال میں جا کر ’’فلانی‘‘ حضرات سے ملے اور اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ گائے جنگل سے خود ہی کِرال میں آ گئی تھی، الحمد للہ علیٰ ذالك۔

اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت کا ایک اور واقعہ عرض ہے کہ خاکسار کا تبادلہ وا سے ٹیما گریٹر اکرا ریجن میں ہو گیا۔ اگلے سال ہم وا میں منعقد ہونے والی اپر ویسٹ ریجنل کانفرنس میں شرکت کے لیے وا گئے۔ اِس موقع پر Kalio ہسپتال کا اِفتتاح بھی ہوا تھا۔ خاکسار کے ساتھ اہلیہ صاحبہ کے علاوہ مکرم نصیراحمد شاہد صاحب، حال مبلغ فرانس، اُن کی اہلیہ صاحبہ اور بیٹا عزیزم منصور احمد (مُربی سلسلہ فرانس) جو کہ اُس وقت ابھی چند سال کا تھا، بھی وا گئے تھے۔ تمام تقریبات کے بعد ہم نے صبح اکرا واپسی کا سفر شروع کیا تو تقریباً دس یا پندرہ میل کا سفر طے کرنے کے بعد خاکسار نے محسوس کیا کہ ہماری گاڑی کا پیٹرول تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ جب گاڑی کھڑی کر کے دیکھا تو غالباً کسی پتھر وغیرہ کے لگنے کے باعث پیٹرول ٹینک میں سوراخ ہو چکا تھا۔ چونکہ ابھی پکی سڑک شروع ہونے میں فاصلہ بہت لمبا تھا اور یہ بھی خطرہ تھا کہ پیٹرول ٹینک کو دوبارہ پتھر لگنے کی وجہ سے پیٹرول کہیں آگ نہ پکڑ لے، چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ واپس وا جا کر ٹینک کی مرمت کروا کر دوبارہ سفر شروع کریں گے، اس لیے گاڑی واپس موڑ کر ہم نے وا کی طرف سفر شروع کر دیا۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ فاصلہ ہی طے کرنے کے بعد معلوم نہیں کیسے گاڑی ایسی ڈگمگائی کہ سڑک کے ساتھ گہری زمین میں کئی قلابازیاں کھاتی ہوئی جھاڑیوں کے ساتھ لگ کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔ گاڑی کی دونوں سکرینیں ٹوٹ چکی تھیں۔ چھت کو بھی نقصان پہنچا لیکن الحمدللہ کہ ہم سب اپنی اپنی سیٹوں پر موجود تھے اور محفوظ۔ گاڑی سے باہر نکل کر حالات کا جائزہ لیا گیا۔ خاکسار گاڑی کو دوبارہ سٹارٹ کر کے سڑک پر لے آیا۔ اِس دوران وا کے ایک احمدی گھانین دوست جو اکرا جا رہے تھے، ہمیں دیکھ کر رُک گئے۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ آپ سب میری گاڑی میں آ جائیں اور اپنے ڈرائیور سے کہا کہ وہ میری گاڑی کو وا مشن ہاؤس پہنچا دے، چنانچہ وا مشن ہاؤس پہنچ کر ہم نے مکرم طاہر محمود چودھری صاحب (حال امیر و مشنری انچارج تنزانیہ)، اور ریجنل صدر مکرم ملک اسحاق صاحب کو حالات سے آگاہ کیا۔ مکرم ملک اسحاق صاحب نے ہمارے لیے اپنی گاڑی کا انتظام کیا اور اپنے ڈرائیور کے ساتھ ہمیں ٹیما بھجوا دیا اور کہا کہ آپ کی گاڑی بعد میں بھجوا دیں گے۔

الٰہی حفاظت کے یہ دو واقعات جب بھی یاد آتے ہیں تو دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔

جیسا کہ مضمون میں خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ اپر ویسٹ ریجن کے سابق ریجنل منسٹر مکرم ایڈورڈ صالح صاحب(مرحوم) منسٹر فار ٹرانسپورٹ اور کمیونی کیشن بن کر اکرا آگئے تھے۔ ایک دن خاکسار اکرا میں کسی کام کے سلسلہ میں اُس علاقہ میں گیا جہاں منسٹرز تھے، وہاں وا کے ایک دوست مکرم محی الدین صاحب (مرحوم) سے مُلاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ وہ سامنے مکرم ایڈورڈ صالح صاحب کا دفتر ہے، چلیں دیکھتے ہیں شاید اُن سے ملاقات ہو جائے۔ چنانچہ ہم اُن کے دفتر چلے گئے اور اُن کی سیکرٹری سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور بتایا کِے ہم احمدیہ مسلم مشن سے ہیں نیزخاکسار نے اپنا نام بھی بتایا۔ اُس نے ہمیں بتایا کہ منسٹر صاحب ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں ہیں اور معلوم نہیں کہ اُن کی میٹنگ کتنی دیر تک چلے گی۔ ہم نے اُسے کہا کہ منسٹر صاحب کو بتا دینا کہ ہم بس سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ چنانچہ ابھی ہم واپس سیڑھیاں اُتر رہے تھے کہ وہ سیکرٹری بھاگتی ہوئی آئی اور کہا کہ منسٹر صاحب آپ سے ملنے کے لیے آ رہے ہیں، ہم جلدی سے واپس گئے تو مکرم ایڈورڈ صالح صاحب مرحوم اپنے دفتر کے دروازے کے باہر کھڑے تھے، وہ بڑے پُرتپاک انداز سے ہمیں ملے اور بتایا کہ میری سیکرٹری نے مجھے آپ کے آنے کی اطلاع دی تھی، چنانچہ میں نے میٹنگ روک دی اور مناسب سمجھا کہ آپ سے مل لوں۔ بہر حال ہم اُنہیں سلام کر کے واپس آ گئے۔ یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور جماعت کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر خاص و عام کے دل میں اپنی جماعت کا احترام پیدا فرمایا۔

ٹیما مشن میں قیام کے دوران ایک روز مجھے منسٹری آف ٹرانسپورٹ کی طرف سے خط ملا کہ گھانا کے پریذیڈنٹ جناب جیری جان رولنگز (Jerry John Rawlings) (مرحوم) ٹیما ہاربر کے ایک وِنگ کا افتتاح کریں گے نیز خاکسار کو اس تقریب کے آغاز میں دُعا کروانے کا فریضہ سونپا گیا۔ خاکسار مقررہ روز وقت سے پہلے ایک احمدی دوست مکرم ابوبکر صاحب آف ٹیما کے ہم راہ مقامِ پروگرام پر پہنچ گیا۔ پروگرام شروع ہونے سے تھوڑا وقت پہلے غیر احمدی مسلمانوں کا ایک امام اپنے کچھ ساتھیوں سمیت وہاں پہنچ گیا اور انتظامیہ سے کہنے لگا کہ ہم مسلمانوں کے نمائندہ ہیں، اِس لیے دعا ہمارے امام صاحب کروائیں گے۔ انتظامیہ کے آفیسر نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اَب تو صدرِ مملکت بھی تشریف لا چکے ہیں اور ہم نے احمدیہ جماعت کے مشنری کو دعا کروانے کا کہا ہوا ہے اس لیے آپ مداخلت نہ کریں لیکن وہ اپنی ضِد پر قائم رہے۔

چنانچہ صدرِ مملکت کی موجودگی میں انتظامیہ کا آفیسر سٹیج پر گیا اور مکرم ایڈورڈ صالح صاحب کو صورتِ حال سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے کہا کہ اُن کو بتا دو کہ دعا احمدی مبلغ ہی کروائے گا، بہتر ہے آپ خاموش ہو جائیں اور ضد نہ کریں۔ چنانچہ خاکسار نے صدرِ مملکت جناب جیری جان رولنگز کی موجودگی میں پروگرام کے آغاز میں دعا کروائی۔ الحمدللہ علیٰ ذالك۔

ٹیما میں قیام کے دوران ایک روز یہ اطلاع ملی کہ وا کے ایک احمدی بزرگ رئیس الحسن صاحب بقضائے الٰہی وفات پاگئے ہیں اور مکرم مہاما ادریسو (Mahama Iddrisu) صاحب، وزیرِ دفاع نے ملٹری کے جہاز کا انتظام کیا ہے تاکہ نمازِ جنازہ میں شامل ہوا جا سکے۔

وا میں قیام کے دوران مکرم بزرگوار رئیس الحسن صاحب بڑی شفقت فرمایا کرتے اور اپنے تجربہ کی بنا پر نصائح اور راہنمائی بھی کرتے تھے۔ خاکسار نے مکرم امیر صاحب گھانا سے نمازِ جنازہ میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر کیا، انہوں نے اَز راہِ شفقت اجازت دے دی چنانچہ وا سے تعلق رکھنے والے کافی احمدی ملٹری ایئربیس اکرا میں جمع ہوئے اور اُس جہاز کے ذریعہ وا گئے۔

مکرم مہاما ادریسو صاحب کا تعلق چونکہ وا سے تھا اس لیے ان کا وہاں کچھ روز قیام کرنے کا ارادہ تھا۔ لیکن جہاز کو واپس جانا تھا۔ چنانچہ جنازہ اور تدفین وغیرہ سے فارغ ہو کرہم واپسی کے لیے وا ’ایئرپورٹ‘ پہنچے جو محض ایک کچی سڑک سے زیادہ اَور کچھ نہ تھا۔ واپسی کے سفر میں کُل تین افراد اس جہاز میں سوار تھے جن میں محترم عبدالوہاب صاحب آدم (امیر جماعت گھانا)، گھانا کے پولیس کمانڈر اور خاکسار شامل تھے۔

اس واقعہ کو یاد کر کے کئی دفعہ مولانا عبدالوہاب صاحب آدم از راہِ مزاح کہا کرتے تھے کہ اصل میں تو جہاز قریشی صاحب (خاکسار) کے لیے واپس آیا تھا، ہم تو ساتھ ویسے ہی بیٹھ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔

الحمدللہ کہ وا میں قیام کے دوران خاکسار کو سرکاری و نیم سرکاری پروگراموں، نیز دیگر پروگراموں یعنی رومن کیتھولک اور مسلمانوں کے پروگراموں میں شامل ہونے کی توفیق ملتی تھی۔ GBCکی ریجنل خبروں میں وا کی بہت سی خبریں شامل ہوتی تھیں۔ جماعت کی نیک نامی اور GBC کے کیمرا مین سے اچھی شناسائی ہونے کی وجہ سے وہ احمدیہ وفد کو خاص کوریج دیا کرتا تھا۔ یہ بھی تبلیغ کا ایک وسیلہ تھا۔

محترم ڈاکٹر سید تاثیر مجتبیٰ صاحب (مرحوم) جو اُس وقت اسوکورے ہسپتال کے انچارج تھے ازراہِ تفنن کہا کرتے تھے کہ ویسے تو قریشی صاحب سے دُور ہونے کی وجہ سے بہت کم ملاقات ہوتی ہے، لیکن اگر آدھی ملاقات کرنی ہو تو GBC کی خبریں دیکھ لیا کریں۔

گھانا میں قیام کے دوران مقامی احباب، مُقامی اور مرکزی مبلغین، ڈاکٹر صاحبان اور اساتذہ کرام کے علاوہ خصوصاً مکرم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب مرحوم، سابق امیر و مشنری انچارج صاحب اور مکرم مولانا محمد بن صالح، امیر و مشنری انچارج گھانا کے خلوص اور شفقت کے اتنے واقعات ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ایک لمبے مضمون کے متقاضی ہیں، اگر کبھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اُنہیں بھی سینۂ قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کروں گا، اِن شاء اللہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button