حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مصیبتوں اور تکالیف میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے

جو مصیبتیں یا تکالیف ہیں وہ ذاتی زندگی میں بھی ہیں، جماعتی زندگی میں بھی ہیں، قومی زندگی میں بھی ہیں۔ ہر جگہ یہی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے، ان تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے، صبر اور حوصلہ دکھاتے ہوئے، اس کی پناہ میں آتے ہوئے اس سے اجر مانگا جائے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں بھی کسی بھی قسم کے ابتلا اور مصیبت سے گزرنے والوں کے بارے میں یہی فرماتاہے۔ فرمایا:الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ ۟ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ(البقرۃ: 157-158) ان پر جب بھی کوئی مصیبت آئے تو گھبراتے نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ پس یہ قرآنِ کریم کا بھی حکم ہے۔ …

اللہ تعالیٰ ہمیں …ہمیشہ صبر اور استقامت دکھانے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ خاص طور پر ان جگہوں پر، …جہاں احمدیوں پر بڑی سختیاں کی جا رہی ہیں، ان کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور استقامت عطا فرمائے اور ان کے دشمنوں کی بھی اپنی خاص قدرت دکھاتے ہوئے پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔ ہمارا ہرعمل خدا تعالیٰ کی رضا کو جذب کرنے والا ہو اور ہم اس کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ نومبر ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل۱۰؍دسمبر۲۰۱۰ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button