حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نو انڈونیشیا کی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۱۵؍جنوری۲۰۲۳ء کو انڈونیشیاکی واقفاتِ نَو کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ واقفاتِ نَو نے جکارتہ سے آن لائن شرکت کی۔

پروگرام کا آغازتلاوت قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ سے ہوا جس کے بعدایک حدیث اردو اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ پیش کی گئی۔اس کے بعدحضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات میں سےایک اقتباس زبانی پیش کیا گیا۔

اس پرحضور انورنے اقتباس پیش کرنے والی لڑکی سے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے پورا اقتباس زبانی یاد کیا ہوا ہے جس پر موصوفہ نے اثبات میں جواب دیا۔

حضور انورنے فرمایا کہ ماشاء اللہ۔ آپ کا حافظہ تو بہت اچھا ہے۔

بعدازاںایک ترانہ پیش ہوا جس کے بعدمحترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ نے واقفات نو انڈونیشیا کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جس کے بعدواقفاتِ نَو کی سرگرمیوں پر مشتمل ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔

بعد ازاں واقفاتِ نَو کو حضور انور سے متفرق امور پر سوالات کرنے کا موقع ملا۔

ایک واقفہ نو بچی نے سوال کیا کہ انسان اپنے اندر شیطان کو کس طرح ختم کرسکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ تم ابھی چھوٹی اور معصوم ہو۔شیطان پر قابو پانے کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد اور شیطان سے پناہ مانگنی چاہیے۔اسی لیے قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے پہلے ہم اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم پڑھتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان سے بچاکر رکھے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں پاک کرے، نماز پڑھنے ،قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اچھی باتیں کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔

حضور انور نے اس بچی کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے والدین کی فرمانبرداری کرے، اپنی پڑھائی پر توجہ دے اور اپنے دوستوں سے جھگڑا نہ کرے۔فرمایا کہ اگر کوشش اور دعا کرو گی تو اللہ تعالیٰ مدد کرے گا۔

ایک واقفہ نونے سوال کیا کہ طبی میدا ن میں کام کرتے ہوئے بطور واقفاتِ نَو ہم اسلام احمدیت کا پیغام کیسے پہنچا سکتی ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ مَیں نے متعدد مواقع پر بتایا اور سمجھایا ہے کہ بطور احمدی ہمیں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے لیکن واقفاتِ نَو پر اس ضمن میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔انہیں طبی میدان میں بھی حقیقی اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانا چاہیے۔اگر آپ کے اخلاق اچھے ہوں گے ،اگر آپ کا اپنے مریضوں سے رویہ اچھا ہو گا تو ان کو دکھائی دے گا کہ یہ ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹروں سے مختلف ہے۔ یہ تو بہت خیال رکھنے والی ڈاکٹر ہے، وہ میری بات سنتی ہے اور مریضوں کو بہت توجہ سے دیکھتی ہے۔پھر وہ جاننے کی بھی کوشش کریں گےکہ آپ کون ہیں؟پھرآپ ان کو بتا سکتی ہیں کہ میں احمدی مسلمان ڈاکٹر ہوںاور یہ میری ڈیوٹی اور میرا فرض ہے کہ میں دوسروں سے احترام سے پیش آؤںاور اپنے مریضوں کو احترام اور احتیاط سے دیکھوں۔چنانچہ اس طرح آپ تبلیغ کے نئے راستے کھول رہی ہوں گی۔

پھر آپ اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو بھی بتا سکتی ہیں کہ آپ احمدی مسلمان ہیں۔اگر آپ پنجوقتہ نمازیں ادا کر رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے اپنے مریضوں کےلیے دعا کر رہی ہوں گی تو ان کو نظر آئے گا کہ یہ ایک اچھی مسلمان ہے اور ہمیں اس کے بارے میں مزید جاننا چاہیے۔ اس طرح آپ تبلیغ کے نئے راستے نکال سکتی ہیں۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ اگر کوئی واقفہ نو جماعت سے تعلیمی قرض لیتی ہے اور کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ فوری طور پر جماعت کی خدمت کرتی ہے تو وہ قرض کیسے ادا کر سکتی ہے ؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ آپ جماعت کو بتا سکتی ہیں کہ گو آپ نے اس نیت کے ساتھ جماعت سے قرض لیا تھا کہ آپ قرض واپس کر دیں گی تا ہم اس معمولی وظیفہ اور الاؤنس کے ساتھ جو آپ کو جماعت کی طرف سے دیا جاتا ہے آپ مختصر مدت میں رقم ادا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ رقم بہت زیادہ ہے۔ پھر جماعت قرض کی واپسی کےلیے چھوٹی رقم مقرر کر سکتی ہے اور پھروہ آپ کی آمد یا الاؤنس سے اس کو منہا کر لے گی اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر جماعت چاہے تو وہ قرض کو معاف بھی کرسکتی ہے تاہم یہ جماعت کی مالی صورت حال پر منحصر ہے ورنہ آپ قرض چھوٹی رقم کی صورت میں ماہوار ادا کر سکتی ہیں۔ یوں آپ پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ ہم اپنے مستقبل اور زندگی کے بڑے فیصلوں کی فکروں پر کس طرح قابو پا سکتے ہیں؟مجھے ڈر ہے کہ میرے فیصلے غلط ثابت نہ ہوں۔

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بھی ہم کوئی کام شروع کر رہے ہوں تو ہمیں اللہ سے مدد مانگنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کام کو ہمارے لیے آسان کرے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور راہنمائی مانگا کریں کہ اگر یہ کام آپ کے لیے اچھا ہے تو اسے آپ کے لیے آسان اور سہل بنا دےاور اس بارے میں آپ کا دل مطمئن ہو۔اگر آپ اپنے دل میں اطمینان محسوس کریں گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی رہیں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور اس کام کا انجام برا نہیں ہو گا ۔لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمیں ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر وقت ہماری مدد کرتا رہے ۔ ہمیں تب بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے جب ہم وہ کام کر رہے ہوں۔ آخری دم تک ہمیں اللہ تعالیٰ سے مدد اور راہنمائی مانگتے رہنا چاہیے۔پس یوں اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرتا رہے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا تو اس معاملے کا انجام کبھی برا نہیں ہو سکتا۔

ایک واقفہ نو جنہوں نے حال ہی میں ماہر غذائیت کے طور پر گریجوایشن کی ہے، نے سوال کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک واقفہ نو شادی کے بعد کام کرے؟

ان کے پیشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک اچھا پیشہ ہے۔ یہ انسانیت کے لیے مفید ہے۔ شادی کے بعد آپ اپنے شوہر سے پوچھ سکتی ہیں۔ اگر وہ اس بات سے خوش ہے کہ آپ اپنے کام کو جاری رکھیں تو آپ جاری رکھیں۔اگر وہ کہے کہ نہ کرو تو آپ کو چاہیے کہ آپ نہ کریں لیکن آپ لجنہ اماء اللہ یا کسی اور جماعتی یا فلاحی ادارہ کے لیے رضاکارانہ طور پر خدمت بجالانا جاری رکھ سکتی ہیں۔شادی کے بعد اپنی فیلڈ میں کام جاری رکھنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن آپ کو اپنے شوہر کی رضامندی حاصل کرنی ہو گی۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ جب آپ عائلی زندگی شروع کریں گی اور جب آپ کے بچے ہو جائیں گے تو ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچوں کا خیال رکھے اور یہ کہ وہ ہر لحاظ سےا چھے ماحول میں پرورش پائیں۔پس آپ کا پہلا فرض اپنے گھر بچوں اور خاوند کی دیکھ بھال ہے۔ اس کے بعد اگر آپ کے پاس زائد وقت ہو تو کام بھی کر سکتی ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ آپ اپنے پیشے کا اور ساتھ ہی اپنے بچوں اور گھر کے معاملات کا حق ادا کر سکتی ہیں تو آپ دونوں کام ایک ساتھ کر لیں۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ اگرایک واقفہ نو کے والدین اس کو وقف نو سکیم کو چھوڑنے کا کہیں جبکہ وہ خود ایسا نہ کرنا چاہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ آپ کے والدین نے آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کی زندگی جماعت کی خدمت کے لیے وقف کی تھی۔ بچےکی پیدائش کے بعد والدین جماعت کو بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں بیٹا یا بیٹی ہوئی ہے اور ہم اسے جماعت کو وقف کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔پھر جب آپ پندرہ سال کی ہو جاتی ہیں اور کافی حد تک بالغ اور سمجھدار ہو چکی ہوتی ہیں تب آپ اپنے عہد کی تجدید کرتی ہیں کہ اپنے وقف کو جاری رکھتی ہیں۔پھرجب آپ اپنی پڑھائی مکمل کر لیتی ہیں تب آپ بتاتی ہیں کہ میں اپنا وقف جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ پس جب آپ بلوغت کی عمر کو پہنچتی ہیں اور پندرہ سال کی عمر میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم میں شامل ہو جاتی ہیں تب آپ اپنا فیصلہ خود کر سکتی ہیں خواہ آپ کے والدین کو اچھا لگے یا بُرا، تب آپ پر ہے کہ آپ اپنا وقف جاری رکھنا چاہتی ہیں یا نہیں۔ جب آپ کم عمر تھیں توآپ کے والدین نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا۔اب جبکہ آپ بالغ ہو چکی ہیں توآپ کو اپنا فیصلہ خود کرنا ہو گا۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ واقفین نو اور واقفاتِ نَو کو اپنے عہد کی تجدید پندرہ سال کی عمر میں اور پھر اکیس سال کی عمر میں یا جب وہ اپنی پڑھائی مکمل کر لیں کرنی چاہیے۔ پس اگر آپ اپنا وقف جاری رکھنا چاہتی ہیں تو یہ آپ پر ہے۔ اگر آپ اس عہد کو توڑنا چاہتی ہیں تو وہ بھی آپ پر ہے۔آپ کے والدین یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اسے توڑ دو۔ واقفین نو اور واقفاتِ نَو کو خود یہ فیصلہ کرنا ہو گاکہ آیا وہ اپنے وقف کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا اس عہد کو توڑنا چاہتے ہیں۔

حضور انور نے موصوفہ سے استفسار فرمایا کہ وہ کیا کرتی ہیں؟ اس پر انہوں نےعرض کی کہ وہ رضاکارانہ طور پر رسالہ اسماعیل کے لیے کام کرتی ہیں۔ نیز حضور انور کے دریافت کرنے پر انہوں نے عرض کی کہ یہ واقفین نو کا ایک رسالہ ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ رسالہ اسماعیل تو لڑکوں کے لیے ہے اور آپ لڑکی ہو۔ آپ کو تو مریم رسالے کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ اسماعیل رسالے کے لیے۔ رسالہ اسماعیل لڑکوں کے لیے ہے وہ لڑکوںکو تیار کرنے دیں۔ آپ کو اپنے ایک رسالے کا اجرا کرنا چاہیے جس کا نام مریم ہو۔ مردوں کو کہیں کہ وہ اپنا رسالہ اسماعیل جاری رکھیں اور ہم اس میں ان کی مدد نہیں کریں گی بلکہ ہم واقفاتِ نَو بچیوں کے لیےاپنا ایک ’مریم‘ رسالہ جاری کریں گی ۔

آپ کے مرد سست ہیں۔ وہ اپنا بوجھ آپ کے کندھوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ آپ مردوں کو کہہ دیں کہ وہ اپنا کام خود کریں اور ہم اپنا کام خود کریں گی۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ ان واقفات کے لیے کیا راہنمائی ہے جو جماعتی خدمات پر اپنی پڑھائی کو فوقیت دیتی ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ آپ خواہ وقف نو کی تحریک میں شامل ہوں یا نہ ہوں ایک طالبہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو اپنی پڑھائی کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے۔ پہلے اپنی پڑھائی مکمل کر لیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں اور پھر جماعتی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں۔

ویک اینڈ پرآپ کو چاہیے کہ آپ واقفاتِ نَو کی کلاسز میں یا اجتماعات میں شامل ہوں اور جب آپ تعطیلات پر ہوں تو جماعتی کام یا وقف نو کے کام کے لیے جو بھی کام آپ کی صدر یا انچارج وقف نو سپرد کریں اس کے لیے کچھ وقت نکال لیا کریں لیکن آپ نے کبھی بھی اپنی پڑھائی کا ہرج کرتے ہوئے جماعت کا کام نہیں کرنا۔پہلے اپنی پڑھائی کو ترجیح دیں۔ پہلے اپنی پڑھائی مکمل کریں، اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور پھر آپ واقف نو ہونے کی حیثیت سے جماعت کے لیے زیادہ مفید اثاثہ بنیں گی اور جماعت کی بہترین خدمت کر سکیں گی۔

پانچویں جماعت میں پڑھنے والی ایک گیارہ سالہ لڑکی نے سوال کیا کہ میرے سکول میں احمدی اور غیر احمدی بچے پڑھتے ہیں۔جب بھی احمدیت پر بات ہوتی ہےتو میں اپنے علم کے مطابق ان کو جواب دیتی ہوں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھتی ہوں۔ ان کے احمدیت کے بارے میں زیادہ دلچسپی لینے کے لیےحضور انور مجھےکیا ہدایت فرمائیں گے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اگر تم نمازیں پڑھتی ہو۔ سکول میں نماز کا وقت ہو گیا اورتم نے نماز پڑھی۔ بچیاں لڑتی ہیں، بحث کرتی ہیں، کسی سے لڑائی ہو جائے توبعض دفعہ فضول قسم کی گندی زبان استعمال کرتی ہیں۔ تم وہ نہیں کرتی بلکہ لوگوں کی صلح صفائی کراتی ہو ،لوگوں کو کہتی ہو کہ لڑنا اچھی بات نہیں ہے، ہمیں اچھی باتیں کرنی چاہئیں۔تمہارے اخلاق اچھے ہیں، تمہارا لباس اچھا ہے ،سکول میں تمہارا یونیفارم بھی اچھا ہے۔ سکول میں تمہارا سرڈھکا ہوا ہے۔لوگ تمہیں دیکھیں گے اور سمجھیں گے کہ تم ایک اچھی مسلمان ہو تو تمہاری باتیں سنیں گے۔تم جو کر رہی ہو بڑا اچھا کر رہی ہو۔اسی طرح ساتھ اپنا نمونہ بھی دکھاؤ ، اپنے اسلامی علم کو بھی بڑھاؤ اسلامی تاریخ کے علم کو بھی بڑھاؤ اور جماعتی علم کو بھی بڑھاؤ،اچھی باتیں کرو گی تو یہی تمہارے لیے بہت تبلیغ ہے۔ جب بڑی ہوتی جاؤ گی، زیادہ علم حاصل کروگی تو پھر لوگ تمہاری طرف توجہ کریںگے۔جب توجہ کریں گے تو اس طرح تمہاری تبلیغ بھی ہوتی جائے گی۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ جب ہماری کچھ خوابیں اور مقاصد ہوں تو ہم انہیں پورا کرنے کے لیےبڑی محنت کرتے ہیں لیکن جب ہم اپنی خوابوں کو پورا نہیں بھی کر پاتے تو ہم کیسے اللہ تعالیٰ سے خوش اور اس کے وفادار بنے رہ سکتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اگر آپ کی خوابیں یا مقاصد آپ کی قابلیت کے موافق ہوں پھر آپ کو محنت کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں آپ کی مدد کرے۔

پہلی بات یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے دعا کریں۔ دوسری بات یہ کہ آپ کو محنت کرنی ہو گی۔بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے محنت کرو، جَاھِدُوْا۔ یعنی پہلے محنت کرو اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ میں نے اپنی قابلیت اور استطاعت کے مطابق ہر ممکنہ کوشش کی ہے اب میرے مقاصد کو پانے کے لیے تُو میری مدد فرما اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا، انشاء اللہ۔

ہر شخص میں ہر چیز کی قابلیت نہیں ہوتی۔ ایک سائنسدان کی اپنی پڑھائی کے لیے اَور سوچ ہوتی ہے جبکہ ایک وکیل کی سوچ بالکل اَور ہوتی ہے۔پھر ایک مبلغ اور ایک مؤرخ مختلف سوچیںا ور مختلف نظریات رکھتے ہیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف فطرتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر آپ تاریخ میں اچھی ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتی کہ آپ بہت اچھی کیمسٹ یا سائنسدان بن سکتی ہیں۔ایک اچھا کیمسٹ اور سائنسدان ایک اچھا مؤرخ نہیں بن سکتا۔ اس لیے آپ کو پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے پسندیدہ مضامین کونسے ہیں اور پھر ان پسندیدہ مضامین میں سے آپ کے لیے سب سے بہتر کون سا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا انشاء اللہ۔ کبھی بھی مایوس نہ ہوں۔ محنت کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں پھر آپ کامیاب ہوں گی۔اگر آپ ایسے ہی بیٹھ جائیں اور کہیں کہ اب میں نے بہت محنت کر لی ہے تو یہ ٹھیک نہیں۔اگر وہ چیز آپ کے مقدر میں ہے تو آپ کو بھی اس کے پانے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ اگر آپ ایسے بیٹھ جائیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق محنت نہیں کی اور آپ کی کوشش بے کار ہو گی۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ جب حضور انور کوئی غم محسوس کرتے ہیں یا کوئی مشکلات در پیش ہوں تو حضور اپنے جذبات پر کیسے قابو رکھتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ جب آپ کسی وجہ سے بےچین ہوں یا آپ جذباتی ہوں تو اس وقت آپ کو خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ آپ کی مدد کرے۔ اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے ادا کرو۔ اپنے سجدوں میں رو کر دعا کرو اور پھر آپ کو اطمینان قلب نصیب ہو جائےگا اور سب ٹھیک ہو جائےگا۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ بطور خاتون خانہ (House Wife)اور واقفہ نو ہم کس طرح جماعت کی خدمت کر سکتی ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میں پہلے ہی اس سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ تقریباً وہی سوال ہے جو پہلے کیا گیا تھا۔

بطور خاتون خانہ آپ کو اپنے گھر اور بچوں کی نگرانی کرنی ہے۔اس کے ساتھ اگر آپ کو چھٹیوں میں یا ویک اینڈ پر کوئی فارغ وقت ملتا ہے تو اپنے خاوند کی اجازت اور باہمی رضامندی سے آپ جماعتی خدمت کرسکتی ہیں۔

ایک اکیس سالہ واقفہ نو نے سوال کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کی محبت احمدی نوجوان نسل میں کیسے پیدا کر سکتے ہیں تا کہ وہ جماعت کا ایک فعال رکن بن سکیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب آپ نوجوان تھیں تو آپ نے کس طرح جماعت کی محبت کو اپنے دل میں بٹھایا؟ کیا آپ کے والدین نے آپ کو متاثر کیا یا آپ کے دوستوں نے کیا یا لجنہ کی تنظیم یا آپ نے خود اپنے آپ کو کیا؟ کیا یہ آپ کے اندر پیدائشی طور پر تھا کہ جماعت کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دو؟

اس پر موصوفہ نے عرض کی کہ سب سے پہلے میرے والدین نے جماعت کی محبت کو میرے دل میں ڈالا۔

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ پھر جواب بھی یہی ہے۔ جس طرح آپ کے اندر جماعت کےلیے محبت ہے اسی محبت کو آپ جماعت کی نوجوان نسل میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

پہلی بات یہ ہے کہ ان کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ احمدی کیوں ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں؟ خلافت کی بیعت کیوں کی؟ ان کے والدین نے ان کو بطور واقف نو کیوں پیش کیا؟ اور ایک واقف نو کی حیثیت سے یا ایک احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے کیا فرائض ہیں؟ جب وہ اپنے فرائض کو سمجھ لیں تو پھر وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھ لیں گے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیں تو پھر ایک مقصد ان کے سامنے ہو گا جس کو انہوں نے حاصل کرنا ہے اور جب وہ اس کے حصول کےلیے محنت کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو پھر جماعت کی محبت، اس کی خدمت کرنا اور وقف نو کا مقام خود بخود ان کے دلوں میں پیدا ہو جائےگا۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ بطور واقفات ہم کُل وقتی جماعتی کارکن کے طور پر خدمت بجا لا رہے ہیں جب ہماری شادی ہو جاتی ہے تو کیا ہمیں اپنی خدمت کو چھوڑ دینا چاہیے اور بیوی کے فرائض کو ترجیح دیںیا ہمیں اپنے خاوند سے اجازت لے کر جماعتی کام جاری رکھنا چاہیے؟

اس پرحضور انورنے فرمایاکہ شادی کے بعد جو بھی آپ کام کرتی ہیں،خواہ جماعت میں ہو یا باہر ،خاوند کی اجازت اور رضا مندی سے کرنا چاہیے۔

پہلی بات یہ ہے کہ آپ اپنے خاوند کو سمجھائیں کہ اگر آپ جماعت کے لیے کام کر رہی ہیں تو وہ آپ کی روحانیت میں بھی مدد دے گا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکتیں بھی ملیں گی۔ اپنے خاوند کو یہ بات باور کرائیں کہ وہ آپ کو جماعت کےلیے کام کرنے کی اجازت دیں اور اس طرح آپ اور آپ کی فیملی خدا تعالیٰ کی برکتوں سے مستفیض ہوتی چلی جائیںگی۔اس کے باوجود اگرآپ کے خاوند اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ آپ جماعتی کام چھوڑیں تو پھر کچھ وقت کےلیے آپ اس کو چھوڑ سکتی ہولیکن آپ اپنے خاوند کو بار بار بتائیں اور اس کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کو کہیں کہ ہمیں جماعت کو کچھ وقت دینا چاہیے تا کہ ہم پر خدا تعالیٰ کا زیادہ فضل ہو۔

ایک واقفہ نو لڑکی کو اپنے ہونے والے خاوند اور اس کی فیملی کو بتانا چاہیے کہ بطور ایک واقفہ نو ہمارا فرض ہے کہ جب جماعت ہم سے کہےتوہم جماعت کی خدمت کریں۔مَیں ایک واقفہ نو ہوں اور اس حیثیت سے یہ میرا فرض ہے۔ آپ کو یہ بات سمجھنی ہو گی اور شادی کے بعد بھی جب بھی جماعت کہے گی تو میں جماعتی خدمت کےلیے حاضر ہو جاؤں گی۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ کیا انڈونیشیا کی واقفاتِ نَو کےلیے دوسرے ممالک میں خدمت بجا لانے کے مواقع ہیں اور اگر ہیں تو کس قسم کی خدمت کر سکتی ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ یہ تمام باتیں آپ کی تعلیم پر منحصر ہیں ۔اگر آپ ایک واقفہ نو ڈاکٹر ہیں یا ٹیچر ہیں تو آپ کو دوسرے ممالک بھجوایا جا سکتا ہےلیکن یہ باتیں آپ کے پیشہ اور تعلیم پر منحصر ہیں۔ اگر آپ نے صرف گریجوایشن کی تو پھر جماعت آپ کو اپنے ملک میں خدمت بجا لانے کےلیے کہے گی اورباہر نہیں بھیجے گی۔ایک واقفہ نو کی حیثیت سے آپ اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہیں کہ اب میں تیار ہوں مَیں نے اپنی تعلیم کو مکمل کر لیا ہے، جہاں بھی جماعت ، مرکز یا خلیفہ وقت مجھے بھجوانا چاہتے ہیں میں ادھر ہی جاؤں گی تو پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ آیا آپ کی خدمات اپنے ملک میں لیں گے یا بیرون ملک لیں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو بیرون ملک بھجوایا جائے بشرطیکہ ہمیں اس شعبہ میں ضرورت ہو۔

ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا کہ اللہ حافظ و ناصر۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button