حضرت مصلح موعود ؓ

بہادر بنو کہ مومن بُزدل نہیں ہوتا اوررحیم بنو کہ مومن ظالم نہیں ہوتا (قسط اول)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍جولائی۱۹۳۶ء)

۱۹۳۰ء کی دہائی میں جماعت احمدیہ کو منظم طور پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی نظیر جماعتی تاریخ میں اس سے قبل موجود نہ تھی۔ ان حالات کے پیش نظر سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے ۱۹۳۶ء میں ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے جماعت کو بہادر بننے اورمشکلات سے نہ ڈرنےکی نصیحت فرمائی نیز اس حوالے سے سنت انبیاء کا ذکر فرمایا اور صحابہؓ کی قربانیوں کا ذکر کیا۔قارئین کے استفادے کے لیے اس خطبہ جمعہ کوشائع کیاجا رہا ہے۔(ادارہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

میں جماعت کواس امرکی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ منہ کی باتوں سے دنیا میں ہرگز کامیابی نہیں ہوسکتی۔ ہم میں سب کے

سب ہی منہ سے اخلاص کا دعویٰ کرنے والے

ہیں مگر عمل سے اخلاص کا ثبوت دینے والے اس کثرت سے موجود نہیں ہیں حالانکہ ہماری مشکلات پہلے سے بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور اگر پہلے صرف مختلف مذاہب بلکہ یوں کہو کہ مختلف مذاہب کے افراد مخالف تھے تو

اَب حکومت میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جس کا مقصود جماعتِ احمدیہ کی مخالفت ہے۔

لوگ گھبراتے ہیں ان باتوں پر اور بعض گھبرا کر مجھے لکھتے ہیں اور بعض زبانی بھی کہتے ہیں کہ کیابات ہوگئی، خدا کیوں اس کا علاج نہیں کرتا۔ لیکن جہاں میں دعا اور تدبیر میں دوسروں سے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتا ہوں وہاں

ان مشکلات کے پیدا ہونے کے متعلق مجھے ہرگز کوئی گھبراہٹ نہیں۔

لوگوں کو اس امر پر حیرت ہے کہ خدا تعالیٰ یہ باتیں کیوں ہونے دیتا ہے اور مجھے اس امر پر حیرت ہے کہ ان کواِس وقت تک خدانے کیوں روکے رکھا۔ اگر کوئی شخص بالکل نابینا نہیں، بالکل فاترالعقل نہیں، بالکل کند ذہن نہیں، بالکل ہی جاہل نہیں تو وہ پہلے انبیاء کے حالات کو دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے کہ ان کادسواں حصہ بھی ہم پر نہیں گزرا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کو فرماتا ہے کہ

یہ کیونکرممکن ہے کہ تم ان حالات سے نہ گزرو جن سے پہلے انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں(البقرۃ:۲۱۵)۔

آج بھی وہی خدا ہے، وہی دین ہے، صداقت کو ثابت کرنے اور اس کے قائم ہونے کے لئے

آج بھی وہی شرائط ہیں جو پہلے تھیں

وہی ذمہ داریاں ہمارے سپرد کی گئی ہیں، اسی طرح ہم میں ایک مأمور مبعوث کیا گیا ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ جو حالتیں پہلوں پرگزریں وہ ہم پر نہ گزریں، جو تکالیف پہلوں پر آئیں وہ ہم پر نہ آئیں۔ ہم میں اور ان میں سوائے اس کے کیا فرق ہے کہ

پہلی جماعتیں تکالیف اُٹھانے کی عادی تھیں

اس لئے خداتعالیٰ نے ان پر تکالیف جلد بھیج دیں لیکن ہم لوگ آرام طلبی کی وجہ سے اور ایسے ملک میں رہنے کی وجہ سے جہاں کی حکومت منظم ہے اور جہاں چوری، ڈاکہ اور قتل وغیرہ کی وارداتیں بہت کم ہوتی ہیں مصائب کے عادی نہ رہے تھے اس لئے

اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ آہستہ آہستہ ہم پربوجھ ڈالے

اور یکدم مصائب کا دروازہ ہم پر نہ کھولے۔ پس ان مصائب کے دیر سے آنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی ہے نہ کہ اس کی غفلت۔ ان کا آنا قابلِ تعجب نہیں بلکہ دیر سے آنا قابلِ تعجب ہے۔

پس جو احمدی خیال کرتا ہے کہ یہ مصیبتیں ناقابلِ برداشت ہیں ان ابتلائوں میں کوئی ایسی بات ہے جن کو اس کاایمان سمجھنے سے قاصر ہے وہ یاد رکھے کہ اُسے

ایمان کی چاشنی

عطا نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی سنّت اسے معلوم نہیں۔ تم سے بہتر لوگوں کے ساتھ یہی باتیں گزریں اور انہوں نے ان کو اَور نظر سے دیکھا۔ حضرت عمرؓ اللہ تعالیٰ کے کتنے مقرب تھے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو عمرؓ ہوتا (ترمذی کتاب المناقب باب قولہﷺلوکان نبی بعدی لکان عمر)۔ یہاں

میرے بعد سے مراد معاً بعد ہے

تو وہ شخص جسے رسول کریم ﷺ بھی اس قابل سمجھتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے کسی کو شہادت کے مرتبہ سے اٹھا کر نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز کرنا ہوتا تو اس کا مستحق عمرؓ تھا۔ وہ عمرؓ جس کی قربانیوں کودیکھ کر یورپ کے اشدترین مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس قِسم کی قربانی کرنے اور اس طرح اپنے آپ کو مٹادینے والا انسان بہت کم ملتا ہے اور جس کی خدمات کے متعلق وہ یہاں تک غلوّ کرتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کو ان سے ہی وابستہ کرتے ہیں۔ وہ

عمرؓ دعا کیا کرتے تھے کہ الٰہی! میری موت مدینہ میں ہو اور شہادت سے ہو۔

انہوں نے یہ دعا محبت کے جوش میں کی ورنہ یہ دعا تھی بہت خطرناک۔ اس کے معنے یہ بنتے تھے کہ کوئی اتنا

زبردست غنیم

ہوکہ جو تمام اسلامی ممالک کو فتح کرتا ہؤا مدینہ پہنچ جائے اور پھر وہاں آکر آپ کوشہید کرے لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس نے حضرت عمرؓ کی اس خواہش کو بھی پورا کردیا اور مدینہ کو بھی ان آفات سے بچالیا جو بظاہر اس دعا کے پیچھے مخفی تھیں اور وہ اس طرح کہ اس نے مدینہ میں ہی ایک کافر کے ہاتھ سے آپ کو شہید کروادیا۔ بہرحال

حضرت عمرؓ کی دعا

سے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے نزدیک خداتعالیٰ کے قُرب کی یہی نشانی تھی کہ اپنی جان کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا موقع مل سکے لیکن آج قُرب کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے کہ خدا بندہ کی جان بچالے۔

حضرت خالدؓ

کی ہستی ایسی نہیں کہ کوئی مسلمان آپ کے نام سے ناواقف ہو۔ آپ کا نام کفار میں بھی اسی طرح مشہور ہے جس طرح مسلمانوں میں۔ آپ کا نام مسلمان اگر عزت سے لیتے ہیں تو غیر مسلم دہشت سے۔ وہ شخص موت اور مصائب کی کوئی قیمت نہیں سمجھتاتھا۔

اس کی

بہادری کا معیار

اتنا بلند تھاکہ بعض واقعات پڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں بلکہ الف لیلہ کا کوئی قصہ ہے۔ کفار کا لشکر لاکھوں کی تعدادمیں آتاہے،

اسلامی لشکر کے بعض افسر

مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہئے، بعض کہتے ہیں کہ لڑنا چاہئے لیکن جب خالدؓ سے مشورہ لیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ سارے اسلامی لشکر کو لڑانے کا کیا فائدہ مجھے دو سَو آدمی دے دیاجائے میں اِنْشَاء اللّٰہُ اسے شکست دے دوں گا اور آپ نے عملاً

ساٹھ ہزار کفار کامقابلہ صرف ساٹھ مسلمان سپاہیوں سے

کیاہے اورنہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں شکست دی اور ان کے کمانڈر کو قتل کردیا۔ اب دیکھو یہ شخص اپنی قربانیوں کا کیا اندازہ لگاتا ہے۔ وہ تمہاری طرح یہ نہیں کہتا کہ فلاں موقع پر میں نے آٹھ آنہ چندہ دیا تھا اور فلاں موقع پرپچاس یا سَو یا ہزار دیا تھابلکہ اس کے برخلاف لکھا ہے کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلاءتھے تو ان کے ایک دوست ان کے پاس عیادت کے لئے گئے۔ ان کا بیان ہے کہ

حضرت خالد مجھے دیکھ کر رو پڑے۔ میں نے کہا کہ خالد تم کیوں روتے ہو؟

موت تو آخر سب کو آنی ہے تم کو اسلام کی جو خدمات کرنے کا موقع ملا ہے ان کی وجہ سے تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ اپنے ربّ کے پاس جانے والے ہو اور اس کے انعامات سے حصہ پانے والے ہو۔ ان کے دوست کا بیان ہے کہ میری یہ بات سن کر آپ اور بھی بیتاب ہوکر رونے لگے اور کہا میرے دوست! میرے جسم پر سے کپڑا اُٹھانا اور جب میں نے اُٹھایا تو دیکھا کہ سر سے لے کر کمربند تک

کوئی ایک انچ ایسی جگہ نہ تھی جہاںزخم کا نشان نہ ہو

ا س کے بعد انہوں نے کہا کہ میری لاتوں پر سے کپڑا اُٹھانا اور جب میں نے اُٹھایا تو جسم کے اس حصہ کا بھی یہی حال تھا۔ اپنے یہ زخم دکھا کر حضرت خالد اور زیادہ بیتاب ہوگئے اور کہنے لگے کہ

میں نے ہرموقع پر خدا کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے ڈال دیا مگر نامعلوم میری کیا بدقسمتی تھی کہ میدانِ جنگ میں مارا نہ گیا اور آج بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں۔

یہ لوگ خدا کے سپاہی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق لوگوں کاحق ہے کہ

رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ

اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رَضُوْا عَنْہُ (التوبۃ:100)۔

کیا یہ عجیب زمانہ نہیں کہ آج آرام کی زندگی بسر کرنے کو خداتعالیٰ کی نعمت قرار دیا جاتا ہے اور کجا وہ زمانہ تھا کہ خالد سر سے لے کر پائوں تک زخمی تھے مگر پھر بھی تسلی نہیں اور ڈرتے ہیں کہ میں چونکہ خداکی راہ میں مارا نہیں گیا نہ معلوم میری باقی قربانیاں بھی قبول ہوئیں یا نہیں۔ پس

خوب یاد رکھو کہ جب تک پہلوں جیسی حالتیں ہم پر نہ آئیں یہ خیال کرنا کہ ہم خد اکی مقدّس جماعت ہیں بالکل غلط ہے۔ جوکچھ پہلوں کے ساتھ ہؤا ہم سے ہونا ضروری ہے۔

ابتلاء مؤمن کی ذلّت کا نہیں بلکہ عزت کا موجب ہؤا کرتے ہیں۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button