متفرق مضامین

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (کینسر کے متعلق نمبر 3) (قسط10)

(ڈاکٹر طاہر حمید ججہ)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

کاربو اینیمیلس

Carbo animalis

٭…کاربو اینیمیلس، کاربوویج سے بہت مشابہ دوا ہے۔ کاربو و یج نباتات کے کوئلے سے بنتی ہے جبکہ کاربو اینیمیلس حیوانات کے کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ اگرچہ کیمیاوی لحاظ سے ان دونوں میں بہت تھوڑا فرق ہے مگر بعض علامتوں میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔ کار بو اینیمیلس کی علامتیں رکھنے والی بیماریاں کینسر کی شکل اختیار کر لینے کا رجحان رکھتی ہیں۔ عمر رسیدہ افراد کی بیماریوں میں یہ دوا بطور خاص بہت مفید ہے۔ اس کا مریض خون کی کمی کا مستقل شکار رہتا ہے۔ چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے، قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور جسم کی دفاعی طاقتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ کاربو و یج کی طرح اس میں بھی غدود سخت ہو جاتے ہیں جو کینسر میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اگر وریدوں میں خون جم جائے اور وہ نیلے جال کی صورت میں جگہ جگہ سے ابھر گئی ہوں تو اس بیماری میں بھی کار بو اینیمیلس مفید ہے۔ اس پہلو سے اس دوا کا مزاج ایسکو لس سے ملتا ہے۔ کار بو اینیمیلس کا مریض غمگین اداس اور تنہائی پسند ہوتا ہے۔ عموماًخاموش رہتا ہے، رات کو بے چین اور خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ خون کا دوران سر کی طرف ہو تا ہے۔ ذہن الجھا ہوا، نظر دھندلا جاتی ہے، آنکھوں پر بوجھ محسوس ہو تا ہے گدی میں درد ہو تا ہے، ہونٹ اور گال نیلگوں ہو جاتے ہیں، ناک سوج جاتا ہے اور اس پر نیلے رنگ کی غدود سی ابھر آتی ہے۔ قوت شنوائی بھی متاثر ہوتی ہے، آوازوں کی سمت کا اندازہ لگانا مشکل ہو تا ہے، خشک زکام ہو تا ہے اور قوت شامہ ختم ہو جاتی ہے۔ چہرے پر تانبے کے رنگ کے دانے اور کیل بنتے ہیں۔ سر اور چہرے پر گرمی کا احساس ہو تا ہے۔ بوڑھے لوگوں کے چہرے اور ہاتھوں پر مسے نکلتے ہیں۔ مریض ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے۔(صفحہ237)

٭…عورتوں کے رحم کے منہ پر کینسر ہو جائے تو معالجین رحم نکالنے کا مشورہ دیتے ہیں حالانکہ یہ علاج بھی کارگر نہیں ہوتا۔ اگر کاربواینیمیلس آغاز میں ہی دے دی جائے تو شفا بخش ثابت ہوتی ہے۔ عام سوزش اور دردوں میں بھی مفید ہے۔ رحم کے منہ پر زخم ہو جائے تو لیکوریا بھی جاری ہو جاتا ہے جس میں بہت جلن ہوتی ہے۔ کاربو و یج میں بھی ایسی ہی جلن کی علامت ہوتی ہے لیکن صرف اندرونی طور پر بیرونی سطح پر ٹھنڈک کا احساس رہتا ہے۔ رحم سے جلن دار لیکوریا کا اخراج ہو تو فوراً کار بو اینیمیلس استعمال کروانی چاہیے۔ اگر تاخیر ہو جائے تو علامتیں بڑھ کر کینسر میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ حمل کی متلی کی بھی اچھی دوا بتائی جاتی ہے اور اس کی خاص علامت یہ ہے کہ رات کے وقت متلی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر دودھ پلانے کے زمانے میں سخت کمزوری واقع ہو جائے اور اعصاب جواب دے جائیں تو کار بو اینیمیلس کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ فم رحم کی طرح رحم کے عمومی کینسر کی بھی دوا ہے۔(صفحہ238)

٭… جسم میں تخلیقی توازن بگڑنے سے ہڈیوں میں غیر ضروری بڑھوتی ہونے لگتی ہے جس میں کینسر کا رجحان پایا جا تا ہے۔ اگر جسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی رونما ہو تو کاربواینیمیلس فورا ًدینی چاہیے۔ (صفحہ239)

کار بو نیم سلفیوریٹم

Carboneum sulphuratum

Alcohol Sulphuris – Bisulphide of Carbon

٭…کینسر کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بھی کار بو نیم سلف بہت مفید پائی گئی ہے۔ کاربن اور سلفر سے مل کر ایسی دوا بنتی ہے جو سارے انسانی جسم پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے۔ جو دوا لیو پس جیسی بیماری میں شفا دے سکے وہ لازما بہت اہم اور گہری دوا ہوگی۔ مختلف قسم کے کینسر کی شفا کے لیے الگ الگ دوائیں چاہئیں لیکن بعض دوائیں ایسی ہیں جو ہر قسم کے کینسر میں اتنا فائدہ ضرور دے دیتی ہیں کہ ایک دو سال تک کینسر کی بڑھوتی رک جاتی ہے اور اس عرصہ میں اصل دوا تلاش کی جا سکتی ہے۔ کاربو نیم سلف،آرسینک آئیوڈائیڈ اور گریفائیٹس، تین چوٹی کی دوائیں ہیں جو کینسر میں مفید ہیں۔ جلد کے کینسر میں پائیرو جینم اور سورائینم بھی مفید ہیں۔ ان میں فرق کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ ان کے مریضوں کی اپنی اپنی شخصیت اور مزاج ہوتے ہیں۔ جہاں مریض کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہ ہو سکیں وہاں آرسینک آئیوڈائیڈ سے علاج شروع کرنا چاہیے جو انتڑیوں کے کینسر میں بھی بہت مفید ہے۔ (صفحہ252)

٭…کاربو نیم سلف میں غدودوں کی عمومی سختی بھی پائی جاتی ہے۔ کار بو نیم سلف بہت سی مردانہ کمزوریوں میں بھی مفید ہے اور عورتوں کی کمزوریوں میں بھی۔ بیضہ دانی (Ovary) پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اور اس کے سکڑنے کی علامت اس دوا میں پائی جاتی ہے جو دراصل کینسر کا آغاز ہوتا ہے۔ دوا نسبتاً اونچی طاقت میں استعمال کرنی چاہیے۔ 200 طاقت سے آغاز اچھی تدبیر ہے۔(صفحہ254)

کارسینوسن

Carcinosin

(کینسر کے مادہ سے تیار کردہ ایک دوا)

٭…ہومیوپیتھ ڈاکٹروں نے کینسر کے مواد سے مختلف ہومیو پیتھک دوائیں بنائی ہیں جن میں کارسینوسن امتیازی مرتبہ رکھتی ہے۔ اسے پھیپھڑوں کے کینسر Carcinoma کے فاسد مادے سے تیار کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر برنٹ (Dr. Brunt) نے اس پر تجربات کیے۔ بعد میں ڈاکٹر کلارک (Dr. J.H.Clarke) نے ان کے تجربات کو آگےبڑھایا۔(صفحہ255)

٭…کارسینوسن سینے کے کینسر میں بہت مفید ہے۔ اگر ٹانگوں میں نیلے خون کی رگیں بڑھ جائیں تو ان کو بھی کارسینوسن سے افاقہ ہوتا ہے۔ اگر انتڑیوں میں کینسر کا رجحان ہو تو کارسینوسن کے اثر سے مریض کی انتڑیوں سے خارج ہونے والے مواد پر پلنے والے کئی قسم کے چمونے اور دیگر کیڑے فضلے میں نکلنے لگتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے مریضوں کو جن میں خاندانی طور پر کینسر کی روایات ملتی ہیں جب بھی کارسینوسن دی جاتی ہے اگر ان کے اندر کینسر کا دیا ہوا مادہ ہو گا تو ضرور ان کے گلوں کے غدود پھول جاتے ہیں جو بہت پر درد ہوتے ہیں۔ یہ بہت قطعی علامت ہے جو اگرچہ کتابوں میں نہیں لکھی ہوئی مگر مجھے اپنے تجربہ سے معلوم ہوئی ہے۔ اس امر کا کسی مخصوص ملک علاقے یا آب و ہوا سے تعلق نہیں بلکہ یہ بات دنیا بھر پہ یکساں اطلاق پاتی ہے۔ جن لوگوں میں یہ رد عمل ظاہر ہو ان کو یہ دوا دیتے رہنے سے اس بیماری میں نمایاں فائدہ ہو تا ہے۔ ڈاکٹر کینٹ نے کارسینوسن کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے کینسر کے درد کی شدت، چبھن اور جلن میں کمی آجاتی ہے۔ مریض کئی سال چین سے زندہ رہتا ہے۔(صفحہ255)

٭…کینٹ کے نزدیک اگر چہ مکمل شفا نہیں ہوتی مگر کینسر پھیلنے کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے اور تکلیف کافی حد تک قابو میں آ جاتی ہے۔ ڈاکٹر کینٹ کی باتیں اکثر درست ہوتی ہیں۔ اس لیے غالباً ان کا یہ تبصرہ بھی درست ہو گا۔ لیکن میں نے کینسر کے بعض مریضوں میں کارسینوسن کو اس طرح کامیابی سے استعمال کیا ہے کہ پھر سالہا سال تک ان میں کینسر کی کوئی علامت لوٹ کر نہیں آئی مگر مریضوں کی اکثریت کے معاملہ میں کینٹ کا بیان ہی درست ہے۔ کار سینوسن کے علاوہ دو دوائیں کینسر کے زخم پر پلنے والے بیکٹیریا سے تیار کی گئی ہیں۔ یہ دونوں کینسر کے علاج میں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئیں۔ مائیکرو کو کسین (Micro Coccine) مائیکرو کو کس جرثومہ سے تیار کی گئی ہے۔ ڈاکٹر و نیٹر نے اسے صرف کینسر کی زودحسی دور کرنے میں مفید پایا ہے۔ دوسری دوا اوسلو کوکسین (Oslo Coccine) ہے جو اگرچہ کینسر میں فائدہ مند نہیں ہے مگر انفلوئنزا میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر فوبسٹر (Dr. Fobester) نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کارسینوسن کھانے سے کینسر کی سب علامتیں پر وونگ (Proving) کے طور پر ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ جن حصوں میں کمزوری ہو وہاں کچھ تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے (Lymphatic Glands) کا ردِ عمل گلے کی سوزش کی صورت میں اسی وجہ سے ظاہر ہو تا ہو کہ ان میں کینسر کا مادہ پایا جا تا ہو۔ ان سب باتوں میں ابھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فوبسٹر نے اپنا ایک تجربہ بتایا ہے کہ کارسینوسن کھانے کے دس دن بعد جسم کا درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے اور بخار رہنے لگتا ہے۔ڈاکٹر فوبسٹر کے مطابق جن مریضوں میں کینسر کا رجحان ہو ان میں مندرجہ ذیل دوائیں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ٹیوبرکولینم، میڈورائینم، نیٹرم میور اور سیپیا۔ ان دواؤں کا تفصیلی ذکر کتاب میں موجود ہے۔ الیومینا،آرسینک البم، آرسینک آئیوڈائیڈ پلسٹیلا، سٹیفی سیگریا، فاسفورس اور کلکیر یا فاس وغیرہ بھی بہت مفید ہیں اور کینسر کے تعلق میں زیر نظر رہنی چاہئیں۔ سیپیا اور سٹیفی سیگریا کا جذبات کو دبا دینے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے تعلق ہے جن میں سے ایک کینسر بھی ہو سکتی ہے۔ فاسفورس اور کلکیر یا فاس کا ہڈیوں کے کینسر سے گہرا تعلق ہے اور یہ پھیپھڑوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ لائیکو پوڈیم کا تعلق پتے اور لبلبے (Pancreas) کے کینسر سے ہے۔ اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ جگر کے لعاب یعنی صفراء کو پتلا کر تا ہے اور وہ نارمل ہو جاتا ہے۔ سلیشیا کو پراسٹیٹ کے کینسر میں بہت مفید پایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ایڈز کی انتہائی مہلک بیماری میں بھی سلیشیا CM طاقت میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ ایڈز بھی کینسر ہی کی طرح ایک لاعلاج بیماری سمجھی جاتی ہے۔ مختلف ممالک میں ایڈز پر میرے زیر نگرانی سلیشیا CM کے تجربے ہوئے ہیں۔ بہت سے مریضوں میں سلیشیا نے حیرت انگیز اثر دکھایا ہے۔ کینسر سے تعلق رکھنے والی دواؤں پر مزید تحقیق ہونی چاہیے۔ مریض کا مکمل کلینیکل ٹیسٹ (Clinical Test) ہو۔ اس کے بعد ہو میو پیتھک دوا دے کر دوبارہ ٹیسٹ ہوں تا کہ جن مریضوں کو یقینی طور پر فائدہ ہوا ہے ان کی اندرونی تبدیلیوں کا علم ہو سکے کہ ان میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اس کے لیے جدید ترین کلینیکل لیبارٹریز سے تعاون لینا پڑے گا۔ سب ہو میو پیتھک دواؤں کو کینسر کے حوالے سے غور سے پڑھیں اور پھر سب علامات کے فرق کو ذہن نشین کر لیں۔ اس طریق پر کار بند ہونے سے آپ خود بھی استفادہ کر سکیں گے اور تمام بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچا سکیں گے۔ شرط یہ ہے کہ اپنے کامیاب تجربات کو بخل سے کام لیتے ہوئے اپنے تک ہی محدود نہ رکھیں۔ کار سینوسن، ریڈیم برومائیڈ (Radium Bromide) کے ساتھ ادل بدل کر CM پوٹینسی میں دینا تابکاری کے مہلک اثرات سے طبعی دفاع پیدا کر سکتی ہے۔(صفحہ256-257)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button