حضرت مصلح موعود ؓ

سُستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو (قسط چہارم۔آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 24؍اپریل1936ء)

یہ مت خیال کرو کہ جس قوم کے افراد میں ہزال آجائے گا وہ تباہ ہو جائے گی۔ یہ یورپین لوگوں کا خیال ہے جس کی اسلام تائید نہیں کرتا۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ جس ہزال کے ساتھ اخلاص ہو وہ ہزال انسانی حوصلہ کو بڑھادیتا ہے او راسے کمزور نہیں رہنے دیتا۔ جب خلافت کا جھگڑا ہؤا اُس وقت ہمارے ایک دوست جو ایم۔ اے ہیں اوربنگال کے رہنے والے ہیں خواجہ کمال الدین صاحب کے بہت مداح تھے وہ خلافت کے منکر نہیں تھے مگر کہتے تھے کہ خلافت کے اہل خواجہ صاحب ہیں میں نہیں۔ مجھ سے چونکہ وہ ذاتی طور پر واقف تھے اور جانتے تھے کہ میری صحت ہمیشہ کمزور رہتی ہے لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف انہوں نے توجہ کی تو الہام ہؤا

’’بادشاہی را نشاید پیلتن‘‘

کہ بادشاہی کے لئے ہاتھی جیسا جسم نہیں چاہئے۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے میری بیعت کرلی اور بھی الہام انہیں ہوئے تھے مگر ایک الہام یہ تھا۔ تو ہزال جس کے ساتھ ایمان ہو وہ انسان کو خراب نہیں کرتا ایسا انسان کشتی میں بے شک ہار سکتا ہے مگر اپنے فن میں نہیں ہارتا۔

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر

جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے ا ور اپنے تقویٰ و طہارت اور خدمت دین کی وجہ سے بہت مشہور ہیں دبلے پتلے تھے مگر لڑائی کے کامیاب جرنیلوں میں سے ایک جرنیل سمجھے جاتے تھے۔ ایک دفعہ کفار کے ایک مشہور جرنیل سے ان کا مقابلہ ہوگیا وہ آدمی تھا ذہین اُس نے سوچا میں تلوار میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکوں گا یہ دبلا پتلا اور پھرتیلے جسم کا آدمی ہے تلوار کے وار میں کامیاب ہوجائے گا اس لئے اس نے دائو کھیل کر ان کی کمر پر ہاتھ ڈال دیا اور جس طرح تنکا اُٹھایا جاتا ہے اسی طرح اُس نے اُنہیں اٹھا کر زمین پرپھینکا اور ان کے سینہ پر بیٹھ کرتلوار اٹھائی کہ ان کی گردن کاٹ دے۔ اتنے میں پیچھے سے ایک شخص نے جو

اسلام سے مرتد

ہوکر عیسائیوں میں شامل ہوچکا تھا تلوار سے اس کافر کی گردن اُڑادی اور اس کا سر کاٹ کر مسلمانوں کے لشکرمیں لے آیا۔ اسلامی لشکر یہ دیکھ کرحیران رہ گیااور لوگوں نے کہا تُو تو مرتد تھا تُو نے اپنے جرنیل کو کس طرح ماردیا؟ وہ کہنے لگا ارتداد کے بعد ہمیشہ میرے

دل میں ندامت

پیدا ہوتی اور میں اپنی حالت پر افسوس کرتا لیکن ساتھ ہی میں کہتا مجھ سے اتنا بڑا قصور ہوا ہے اب میری توبہ کہاں قبول ہوسکتی ہے یہاں تک کہ یہ دن آیاا ور آج جب عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو اُس نے گرایا اور تلوار سے گردن کاٹنے لگا تو مجھے چونکہ اُن کی نیکی اور

تقویٰ کا حال معلوم

تھا میرے دل میں یکدم جوش آیا کہ کمبخت آج اگر تُونے دین کی خدمت نہ کی تو اور کونسا دن ہوگا جب تُو دین کی خدمت کرے گا دیکھ!

اسلام کاایک درخشندہ ستارہ غائب ہونے لگا ہے

تُوکیوں آگے نہیں بڑھتا۔ یہ خیال جونہی میرے دل میں آیا میں نے جھٹ تلوار نکال کر اس کافر کی گردن اڑادی اور ساتھ ہی خیال آیا کہ اب میری توبہ بھی قبول ہوجائے گی۔ تو حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر جسمانی طور پر ہزال رکھتے تھے مگر اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے

ایک کامیاب جرنیل

سمجھے جاتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور جرنیل تھے مگر دُبلے پتلے اور چھوٹے قد کے آدمی تھی۔ چنانچہ ایک ضرب المثل ہے کہ کُلُّ قَصِیْرٍ فِتْنَۃٌ اِلَّا عَلِیٌّ۔ہر چھوٹا قد رکھنے والا انسان فتنہ ہوتا ہے۔ یعنی بڑا متفنّی ہوتا ہے مگر حضرت علیؓ باوجود چھوٹا قد رکھنے کے ایسے نہیں تھے۔ اور حضرت عمرؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ كُلُّ طَوِيْلِ أَحْمَقٌ إِلَّا عُمَرُ ہر لمبا انسان احمق ہوتا ہے مگر حضرت عمرؓ با وجود لمبا ہونے کے ایسے نہ تھے۔ یہ تو ایک مثال ہے اور عام طور پر ایسا ہو بھی جاتا ہے کیونکہ

بعض قدوں کے ساتھ بعض باتیں وابستہ ہوتی ہیں

لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت علیؓ جو ایک مشہور جرنیل تھے دبلے پتلے اور چھوٹے قد کے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ تم اپنے جسموں کی حفاظت کر کے اور

بناؤ سنگھار کر کے خدا تعالیٰ کو حاصل نہیں کر سکتے

بلکہ جب محنتیں اور مشقتیں تمہارے جسم کے اندر داخل ہو کر تمہیں گھائل کر دیں اور تم میں ہزال نظر آنے لگے اس وقت تم خدا تعالیٰ کے حضور پہنچو گے اور تمہارے دائیں ہاتھ میں تمہارے اعمال کا کاغذ دیا جائے گا اور کہا جائے گا اب تمہیں

محنتوں کا ثمرہ

ملنے والا ہے جاؤ بہشت میں داخل ہو جاؤ۔ مگر یہ نہیں کہ بہشت میں آرام مل جائے گا بلکہ بہشت میں بھی کام کرنا پڑے گا۔ آرام کا لفظ اس جگہ ان معنوں کے لحاظ سے میں نے استعمال کیا ہے جو عام طور پر اس کے لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہ ہو اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر انسان بیٹھا ر ہے اس قسم کا آرام بہشت میں بھی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ

بہشت کام کی جگہ ہے

اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بہشت میں نکما بیٹھا رہنا ہو گا وہ غلط سمجھتے ہیں۔ غرض انسان کے لئے آرام اور

حقیقی راحت

کام میں ہی ہوتی ہے نکمے پن میں نہیں ہوتی اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت اور مشقت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں ورنہ میرے ساتھ ان کا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے ایک عرصہ تک

سلسلہ کے دفاتر میں دخل

نہیں دیا اور جب میرے پاس لوگ شکایات لاتے تو میں انہیں کہتا کہ متعلقہ دفاتر میں جاؤ۔ اس سے میری غرض یہ تھی کہ جماعت کو سلسلہ کے نظام کی پابندی کی عادت ڈالی جائے اور میں سمجھتا ہوں نہایت نیک نیتی سے میں نے ایسا کیا اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ میں نے جو کچھ کیا وہی صحیح طریق عمل تھا لیکن میں سمجھتا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ میں کارکنوں کی سستی اور غفلت دور کرنے کے لئے ان کے کاموں میں دخل دوں۔ خصوصاً

تحریک جدید کے کارکنوں

کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ میں ان کے متعلق ہرگز کسی قسم کا لحاظ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ میرے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک کو جواب دے دوں بجائے اس کے کہ اس کی سستی اور غفلت کا سو یا دو سو لوگوں پر اثر پڑے۔ اسی طرح اگر ایک مبلغ محنت سے کام نہیں لیتا تو وہ

ہزاروں جاہلوں کو ہلاک کرنے کا موجب

بنتا ہے۔ پس بہتر ہے کہ اس کو الگ کر دیا جائے بجائے اس کے کہ ہزاروں جانوں کی ہلاکت برداشت کی جائے۔ اسی طرح اگر ایک مدرس طالب علموں کا فکر نہیں کرتا، ایک افسر اپنے ماتحتوں کی نگرانی نہیں کرتا تو یہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کو الگ کر دیا جائے اور وہ ہزاروں جانیں جو اس کی وجہ سے نقصان اٹھارہی ہیں انہیں بچا لیا جائے۔ لیکن اگر میری یہ کوشش محدود ہو تحریک جدید کے کارکنوں تک یا محدود ہو سلسلہ کے افسروں اور کارکنوں تک یا قادیان کے لوگوں تک تو بھی اس کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس

زیادہ تر میرے مخاطب جماعت کے وہ لوگ ہیں جو باہر رہتے ہیں اور جو اپنے گھروں پر اپنے بچوں کو رکھتے ہیں۔

ایسے بچے بہت بڑی تعداد میں ہیں اور میں اپنی جماعت سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالے گی یہاں تک کہ ان کا کوئی منٹ ایسا نہ ہو جو فارغ ہو اور جسے وہ فضول ضائع کر سکیں۔ یاد رکھو جس قوم کو ذلت اور رسوائی پہنچ رہی ہو اس قوم کے موٹے جسم اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، جس جسم پر جوتے پڑ رہے ہوں اس جسم کی موٹائی اسے کیا فائدہ دے سکتی ہے۔ پس ایک ذلیل اور رسوا شدہ قوم کے گوشت کوئی قابل قدر گوشت نہیں ہوتے۔ کتے کی بوٹیاں بھی کوئی بوٹیاں ہوتی ہیں ہاں

دُبلے پتلے دنبے کا گوشت

موٹے کتے کے گوشت سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔ پس تم اپنی اولادوں کو اگر کتوں جیسا بناؤ گے تو ان کی بوٹیاں سوائے اس کے کسی کے کام نہیں آئیں گی کہ چیلیں اورکوے انہیںکھا جائیںلیکن اگر اخلاق سکھا کر تم انہیں دنبےجیساقیمتی وجود بناؤ گے تو وہ دبلے پتلے ہونے کے باوجود بھی

روحانی اور اخلاقی دنیا میں زیادہ قیمت

پائیں گے۔مجھے افسوس ہے ایک عرصہ سے عورتوں کا جمعہ کے لئے آنا رک چکا ہے۔ جس وقت انہیں روکا گیا اس وقت تو مصلحت تھی اب وہ مصلحت ختم ہو چکی ہے۔

میرے کئی خطبات ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگر عورتیں بھی سنیںتو ان کا زیادہ شاندار نتیجہ نکل سکتا ہے۔

میں امید کرتا ہوں آئندہ عورتوں کے لئے بھی خطبہ سننے کا انتظام کر دیا جائے گا۔ دراصل بچوں کوسست بنانے میں عورتوں کا بہت حد تک دخل ہوتا ہے اگر اس قسم کے خطبات وہ سنیں تو گو عورتیں تعلیم میں بہت پیچھے ہیں مگر اخلاص سے کام لے کر وہ بہت سے نقائص کا ازالہ کر سکتی ہیں۔قادیان کی ایک عورت تھوڑے ہی دن ہوئے میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں کہتی ہوں میں اپنے بچہ کو مبلّغ بنائو ں گی اور میرا خاوند کہتا ہے کہ اُسے دنیا کاکوئی پیشہ سکھانا ہے آپ اس کا فیصلہ کریں میں نے کہا یہ تمہارا خانگی جھگڑا ہے اس میں مَیں دخل نہیں دے سکتا لیکن ایک بات میں تمہیں بتادیتا ہوں اور وہ یہ کہ تمہارا اثر تمہارے بچے پرزیادہ ہے تم اپنی باتیں اُس کے کانوں میں ڈالتی رہو اور ہمت نہ ہارو۔ تم دیکھو گی کہ اس کے نتیجہ میں ایک دن تمہارے خاوند کی باتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور تمہارا بچہ مبلّغ بن جائے گا کیونکہ بچے پر ماں کا اثر باپ سے زیادہ ہوتا ہے اور تمہارا ارادہ تو نیک ہے اس کا اثر کیوںنہ ہوگا۔ تو اگر

عورتوں کے لئے خطبہ سننے کا انتظام کردیا جائے

تو اس کا بھی بہت کچھ فائدہ ہوسکتاہے لیکن بہرحال جب تک عورتیں خطبہ نہیں سنتیں مردوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کوسمجھیں اور نہ صرف اپنی اولادوں کو بلکہ اپنے بھائیوں کی اولادوں اور اپنے ہمسائیوں کے بچے کو بھی محنتی او رجفاکش بنانے کی کوشش کریں اور یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ کا وصال کدح کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب انسان کدح کرتا ہے تو نفس دُبلا ہونا اور روح موٹی ہونی شروع ہوجاتی ہے لیکن کدح کے بغیر نفس موٹا ہوجاتا اور روح دُبلی ہوجاتی ہے۔ میںاللہ تعالیٰ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ہر قِسم کی سُستیاں، عجز اورکسل اس سے دور فرمادے اور اپنے فضل سے اسے محنت، مشقت اور جفاکشی سے کام کرنے کی عادت ڈالے اور اس کدح کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہمارا ربّ ہمیں مل سکتا ہے۔

(الفضل ۳۰؍ اپریل ۱۹۳۶ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button