متفرق مضامین

چودھری محمد علی صاحب (نمبر20)

(‘ابن طاہر’)

(گذشتہ سے پیوستہ )یہ فیصلہ ہوچکا تو ایک روز گورنمنٹ کالج کے پرنسپل، پروفیسر سراج کا پیغام آیاکہ میں فوری طور پر ان سے ملوں۔ میں حاضر ہوگیا۔ کہنے لگےمیں ناصر سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ میاں صاحب ان کے شاگرد رہے تھے چنانچہ جب میں نے آپ کو پروفیسر سراج کا پیغام پہنچایا تو آپ نے فرمایاہم خود وہاں جائیں گے، ان کو یہاں آنے کی زحمت کیوں دی جائے چنانچہ ہم دونوں ان سے ملنے کے لیے چلے گئے۔ وہ گورنمنٹ کالج کے ضلع کچہری والے گیٹ پر ہمارا انتظار کررہے تھے۔ ان کا اردو اور انگریزی بولنے کا ایک خاص انداز تھا چنانچہ وہ کہنے لگے Nasir! I have heard that you are going, that you are .۔leaving.۔

میاں صاحب نے کہا جی ہم واقعی جا رہے ہیں۔پروفیسر سراج نے دوبارہ پوچھا Are you really leaving? You mean you are going. No. No. Do ۔.not tell me you are going۔.۔

اس پر میاں صاحب نے کہا اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم واقعی یہاں سے جا رہے ہیں۔

پروفیسر سراج نے جواباً کہاتمہارا مطلب ہے یہاں اسلامیہ کالج آجائے گا؟

میاں صاحب نے فرمایا مجھے یہ تو علم نہیں کہ یہاں کون آئے گا لیکن ہم یہ عمارت خالی کر کے جا رہے ہیں۔

اس پر پروفیسر سراج کہنے لگےناصر! اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ گورنمنٹ کالج کے سامنے سے اسلامیہ کالج کے لڑکے گذرا کریں گے۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟

آپ نے کہا کہ ہم تو جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔بعد میں یہاں کیا ہوگا میں اس بارے میں کچھ عرض نہیں کرسکتا۔

مجھے پروفیسر سراج کے الفاظ آج بھی یاد ہیں۔ وہ کہہ رہے تھےناصر! یہ تو بہت زیادتی کی بات ہے۔No Please don‘t do it

واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج لاہور برصغیر کے قدیم ترین تعلیمی اداروں میں سے ہے اور ہمارے ملک کے کالجوں میں اس کا ایک خاص مقام ہے۔ یہاں بالعموم اچھے گھرانوں کے قابل لڑکے پڑھتے تھے اور اپنی وضع قطع اور چال ڈھال سے دُور سے پہچانے جاتے تھے۔ ان پر گورنمنٹ کالج کی ایسی چھاپ نظر آتی تھی جس سے باقی کالجوں کے طلبہ محروم تھے چنانچہ جب کسی کالج کا گورنمنٹ کالج سے مقابلہ ہوتا تو ایک نعرہ ضرو رسننے میں آتا تھا۔ ایک لڑکا بآوازِ بلند کہتاکنگھی پٹّی اور دوسرے بیک زبان اس کا ساتھ دیتے ہائے ہائے۔ پروفیسر سراج کی اس بات میں کہ تعلیم الاسلام کالج کی ربوہ منتقلی کے بعد ڈی اے وی کالج کی عمارت اسلامیہ کالج کو مل جانے سے اسلامیہ کالج کے لڑکے گورنمنٹ کالج کے سامنے سے گذرا کریں گے اسی طرف اشارہ تھا۔

ان ہی دنوں کی بات ہے میں میاں صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ آپ سے ملنے کے لیے آگئے۔ چارپانچ آدمی ہوں گے۔ سارے مولوی ٹائپ لوگ تھے بلکہ ایک دو نے تو کندھوں پر پٹکے بھی ڈالے ہوئے تھے۔ السلام علیکم، وعلیکم السلام کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ۱۹۵۳ء کے فسادات میں حصہ لیا تھا اور فلاں جیل میں بھی رہے اور یہ کہ اگر دوبارہ ایسا موقع پیدا ہوا تو بھی ان کا طرزِعمل شاید پہلے سے مختلف نہ ہو۔ اس تمہید کے بعد انہوں نے کہا ہم آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آئے ہیں۔ کہافرمائیں۔ جواب آیا کہ آپ کالج یہاں سے نہ لے کر جائیں۔ ہم اپنے بچے یہاں پڑھانا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ آپ اس سے زیادہ کالج کو خراجِ تحسین پیش نہیں کرسکتے۔ میں آپ کا شکرگزار ہوں لیکن ہمارے مالی حالات اجازت نہیں دیتے کہ ہم دو کالج چلاسکیں اس لیے ہم نے ربوہ جانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب اسے تبدیل کرنا ممکن نہیں۔

آج میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کالج کی ربوہ منتقلی کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ آپ بھی میری بات سنیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔

’’ایک بار ہم نے ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، پروفیسر عابد علی عابداور پروفیسر حمیداحمد خاں، تینوں کو اکٹھا کالج میں مدعو کر لیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر نیازبھی ان کے ہمراہ تھے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کالج کی عمارت دیکھی تو ان کے منہ میں پانی آگیا اور وہیں سے بات چلی چنانچہ ایک روز فدا حسین جو عبدالرب نشتر کی گورنری کے زمانہ میں چیف سیکرٹری پنجاب تھے یہ درخواست لے کر میاں صاحب کے پاس آگئے کہ ہم اپنے کالج کے لیے کوئی اور عمارت تلاش کرلیں۔ اب آپ سے کیا پردہ، یہ درخواست نہیں بلکہ حکم ہی تھا جو اسلامیہ کالج والوں کی کوشش سے جاری ہوا تھا چنانچہ ہمیں سر شادی لال بلڈنگ دکھائی گئی اور دوسری وہ عمارت جس میں اب لاہور کالج فارویمن یونیورسٹی ہے۔ ہندوئوں کا ایک کالج ہوتا تھا، مجھے اس کا نام بھول رہا ہے۔ ہمیں وہ عمارت بھی دکھائی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس وقت ربوہ منتقل نہ ہونے کا فیصلہ کرلیتے اور لاہور ہی میں رہتے تو کسی بھی وقت ڈی اے وی کالج کی عمارت سے بے دخل کر دیےجاتے اور پھر نہ جانے کہاں کہاں دربدر ہوتے۔‘‘

تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی تعمیر

تعلیم الاسلام کالج کی لاہور سے ربوہ منتقلی کا فیصلہ تو ہوگیا لیکن اس فیصلہ پر اس وقت تک عمل درآمد ممکن نہ تھا جب تک ربوہ میں کالج کی اپنی عمارت تعمیر نہ ہوجائے۔ اُس زمانہ میں جماعت کی مالی حالت مخدوش تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ اس مقصد کے لیے ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھے۔ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے اجازت چاہی کہ جماعت کے مخیر احباب سے عطایا وصول کرکے باقی رہ جانے والی کمی پوری کرلی جائے۔ حضور نے وصولی ٔ عطایا کو اس امر سے مشروط کردیا کہ جماعتی چندہ جات متاثر نہ ہوں۔طے یہ پایا کہ کسی فرد سے پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ عطیہ نہیں قبول کیا جائے گا اور یہ عطیہ جات وصول کرنے کے لیے کبھی صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خود دورہ پر جاتے اور کبھی چودھری محمد علی کو بھجوا دیتے۔

چودھری محمد علی نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں عطیہ جات کی وصولی کے لیے کیے جانے والے بعض سفروں کی داستان سنائی ہے اور اس حوالے سے پیش آنے والی بعض دقتوں کا بالوضاحت ذکر کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے کالج کی عمارت کی تعمیر کی صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی طرف سے نگرانی کا احوال بھی خوب دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ چودھری محمد علی کے الفاظ میں ’’کالج کی منتقلی کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ضروری تھا کہ ربوہ میں اس کے لیے عمارت موجود ہو۔ یہ عمارت اب تیار ہونا تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایاتھا کہ اس کام کے لیے میرے پاس صرف ایک لاکھ روپیہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ لمبا چوڑا نقشہ بنالیں اور یہ روپیہ بنیادوں پر ہی صرف ہوجائے لہٰذا اس رقم میں جتنے کمرے بن سکتے ہیں بنالیں اور کالج شروع کردیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے عرض کی کہ حضور اگر ہم عطایا لینا چاہیں تو کیا اس کی اجازت ہوگی؟ فرمایا آپ عطایا لے سکتے ہیں بشرطیکہ دوسرے چندے متاثر نہ ہوں۔

جب کالج کا سنگِ بنیاد رکھا جانے والا تھا تو ہم نے ہوسٹل کی بنیادیں بھی کھدوادیں۔ حضور کالج کی عمارت کے لیے خیروبرکت کی دعا فرما چکےتو میںنے میاں صاحب سے عرض کی کہ حضور سے ہوسٹل کی عمارت کا سنگِ بنیاد بھی رکھوالیا جائے۔آپ نے فرمایاخود ہی کہو، میں نہیں کہہ سکتا چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور ہوسٹل کی عمارت کے لیے بھی دعا کروادیں۔ اس پر حضور نے اپنی عینک ذرا سی سِرکا کر میری طرف دیکھا، مسکرائے اور پھر کچھ کہے بغیر دعا کرادی۔

آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اخراجات میں بچت کے خیال سے میاں صاحب نے اپنا بھٹّہ ڈلوایا۔ منشی محمد صدیق نامی ایک بزرگ تھے جو اس بھٹّے کے جملہ انتظامات کے ذمہ دار بنائے گئے اور قاضی محمد اسلم کے ایک قریبی رشتہ دار، قاضی محمد رفیق جو لاہور کالج آف آرٹس میں پروفیسر تھے نے اس کا نقشہ تیار کیا۔

شروع میں تو میاں صاحب خود ہی سارے معاملات دیکھ رہے تھے لیکن بعد میں آپ نے مجھے بھی ربوہ بلوا لیا۔ کبھی کبھی آپ چودھری غلام حسین، اوورسیئر کے چھوٹے بھائی، چودھری غلام حیدرکو بھی طلب کرلیا کرتے تھے۔ اس دوران چودھری غلام حیدر تو نہ جانے کہاں رہتے تھے لیکن میرا اور میاں صاحب کا قیام اس کوٹھی میں تھا جو بعد میں مرزا حنیف احمدکے پاس رہی۔ میری چارپائی میاں صاحب کی چارپائی کے برابر بچھی ہوتی تھی اور ہدایت یہ تھی کہ صبح اٹھو تو سب سے پہلے سوٹی سے اپنے جوتے کو اچھی طرح اُلٹ پلٹ لو تاکہ اگر بچّھو یا کوئی اور زہریلا کیڑا اندر چھپا بیٹھا ہو تو اس کے گزند سے محفوظ رہا جا سکے۔ بجلی نہیں ہوتی تھی۔ لعل دین، مددگار کارکن ہمارے پاس ہوتے تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ میاں صاحب کس وقت سوتے تھے کیونکہ جب وہ تشریف لاتے تو ہم سوچکے ہوتے تھے اور جب ہم جاگتے تو اس وقت وہ بستر پر نہیں ہوتے تھے۔

اس گھر میں لمبی گردن والی بڑی بڑی دو بطخیں تھیں۔ وہ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہمارے پائوں پر ٹُھونگے مارنے لگ جاتیں اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑتیں جب تک ہم اٹھ نہ جاتے۔ صبح کا ناشتہ میاں صاحب کالج میں کرتے تھے۔ ناشتہ کیا ہوتا تھا؟ محض چائے کا ایک کپ۔میں نے ان کو کبھی کچھ کھاتے نہیں دیکھا۔ دوپہر کو دال کے ساتھ ایک روٹی کھاتے تھے۔ اس وقت لنگرخانہ بیت مبارک کے پاس ہی تھا۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ یا شاید حکیم فضل الرحمٰن اس کے انچارج تھے۔ میں نے تین چار دن تو وہاں کھانا کھایا لیکن پھر مہند ہوٹل جس کا نام میںنے Hotel de Mondeرکھ چھوڑا تھاسے کھانا شروع کردیا۔

ایک بار شیخ محمد امین جو سائیکالوجی میں ایم اے تھے اور اسی وجہ سے ہمارے پرانے دوست تھے ربوہ آگئے۔ ان سے تعلقات کا ایک سبب گورنمنٹ کالج لاہور والے پروفیسر سعیداللہ بھی تھے۔ شیخ امین متموّل آدمی تھے اس لیے میں کچھ پریشان سا تھا کہ انہیں کھانا کہاں کھلایا جائے۔ یہاں ایک بابا یوسف ہوتے تھے۔ زمانۂ قادیان میں وہ قلاقند تیار کیا کرتے تھے۔ یہ قلاقند انتہائی لذیذ ہوتی چنانچہ یار لوگوں نے ان کا نام ’’یوسف قلاقند‘‘رکھ چھوڑا تھا۔ وہ ربوہ آکر کبابوں کی ریڑھی لگانے لگے تھے۔ فلاسفر صاحب نے جن کا ذکر پہلے گزرچکا ہے اُن سے ایک معاہدہ کر رکھا تھا جس کے مطابق یوسف قلاقند ایک مخصوص رقم کی یکمشت وصولی کے بعد فلاسفر صاحب کو ان کی باقی ماندہ زندگی کے لیے روزانہ قلاقند کی ایک مخصوص مقدار مہیا کرنے کے مکلف ہوگئے تھے۔ فلاسفر صاحب کی عمر لمبی ہوگئی۔ آخر میں انہوں نے قلاقند کھانا بھی چھوڑی دی لیکن محلے کے بچوں کو کسی طرح اس معاہدہ کا علم ہوگیا چنانچہ وہ اکٹھے ہوکر انہیں چاروں طرف سے گھیر لیتے، ان کے کپڑے کھینچتے اور کہتےکڈ قلاقند،کڈ قلاقند۔ یوسف قلاقند اس معاہدہ کے پیش نظر کچھ قلاقند ہمیشہ بچا کر رکھتے تھے چنانچہ وہ بچوں میں قلاقند تقسیم کرتے جاتے اور ساتھ ساتھ فلاسفر صاحب کو برا بھلابھی کہتے جاتے مرداوی نہیں،پِچّھوںوی نہیں لَیندا۔ یہ ایک عجیب نظارہ ہوتا تھا۔

فلاسفر صاحب کا ذکر درمیان آنے کی وجہ سے اصل بات بیچ ہی میں رہ گئی۔ میں عرض کررہا تھا کہ شیخ امین ربوہ آئے تو ہم دونوں یوسف قلاقند کے پاس چلے گئے اور پوچھاباباجی کباب ہیں؟ کہنے لگےجی ہیں۔ پھر اچانک کہنے لگے کہ کباب نہیں ہیں۔ شیخ صاحب متعجّب ہوئے اور پوچھنے لگےباباجی! ابھی آپ نے کہا تھا کباب ہیں اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں ہیں، یہ کیا قصہ ہے؟ انہوں نے جواباً کہا پرات میں قیمہ پڑا ہوا ہے لیکن کل کا ہے۔ میں نے اسے برف میں تو رکھا ہے لیکن موسم شدید گرم ہے، ڈرتا ہوں خراب نہ ہوگیا ہو۔ اگر تو بات صرف چودھری محمد علی کی ہوتی تو میں کباب بنا کر دے دیتا لیکن آپ نہ جانے کہاں سے تشریف لائے ہیں، میں آپ کو کسی امتحان میں نہیں ڈال سکتا۔ کہنے لگے باباجی! آپ نے کاروبار کا جو انداز اپنا رکھا ہے مجھے حیرت ہوتی ہے آپ کھاتے کہاں سے ہیں؟ کہنے لگے کہ آپ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہماری بھوک پیاس کی بات نہ کریں، ہم ایک دن اپنے یوسف کو دیکھ لیتے ہیں تو ہمارے سات دن یوں گذر جاتے ہیں۔

جب کالج کی تعمیر شروع ہوئی تو یہ ایک چٹیل میدان تھا جس میں روئیدگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورے ربوہ میں سوائے کیکر کے اس درخت کے جو ریلوے سٹیشن کے پاس تھایا پھر اس ایک درخت کے جو احمدنگر جاتے ہوئے پرانے لاری اڈہ کے قریب سڑک کے کنارے تھا کوئی اور درخت تھا ہی نہیں۔ اگر اسٹیشن پر کھڑے ہوں تو تاحدِنگاہ لق و دق صحرا تھا اور ریل دو میل دور سے ہی نظر آجاتی تھی۔

جب پیسے ختم ہونے کو آ جاتے تو عطایا جمع کرنے کے لیے کبھی میاں صاحب خود دورے پر چلے جاتے اور کبھی مجھے بھیج دیتے۔ دوچار بار ہمیں اکٹھے جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ جب ہم ملک صاحب خان نون کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عطایا جمع کرنے کی اجازت دے دی ہے تو انہوں نے اتنا موقع بھی نہیں دیا کہ ان سے عطیہ کے لیے درخواست کی جاتی اور ازخود پوچھنے لگے کہ میاں صاحب! کتنے پیسے چاہئیں۔اس وقت طے یہ تھا کہ پانچ ہزار روپے سے کم کا عطیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور پانچ ہزار روپے سے زیادہ رقم بھی نہیں لی جائے گی چنانچہ جب میاں صاحب نے کہا کہ پانچ ہزار روپیہ عنایت فرما دیں تو انہوں نے کہا بس! اور فوراً پانچ ہزار روپیہ نکال کر ہمیں دے دیا۔

ایک بار جب میں عطیات کی مہم کے سلسلہ میں لاہور سے بیمار ہو کر واپس آیا تو میرے لیے ایک چھتری خریدی گئی۔ مجھے اس سفر کی داستان کبھی نہیں بھولتی اور بوجوہ یہ چھتری بھی ہمیشہ یاد رہتی ہے۔

ان دنوں ہڑتال تھی یا شاید کسی اور وجہ سے بسیں سیدھی لاہور نہیں جا رہی تھیں بلکہ فیصل آباد (جسے اس وقت لائل پور کہتے تھے) سے ہوکر جاتی تھیں۔ کچہری بازار کے باہر بسوں کا اڈہ تھا۔ مجھے یاد ہے ڈیزل گاڑیاں نئی نئی آئی تھیں اور ان کے انجن سے دھواں نکلتا تھا۔ انجن سخت گرم ہوجاتا چنانچہ کوئی سواری برضا و رغبت اس کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتی تھی۔ جب میں بس میں سوار ہوا تو انجن کے پاس ہی ایک دو سیٹیں خالی تھیں لہٰذا مجھے وہیں بیٹھنا پڑا۔ میں نے سوٹ پہنا ہوا تھا اور سورج سامنے سے پڑ رہا تھا۔ میری طبیعت پر بہت بوجھ پڑا لیکن گرتے پڑتے میں لاہور پہنچ گیا۔ لاہور پہنچ کر میں تانگہ لینے کی بجائے سرائے سلطان سے پیدل ہی ڈیوس روڈ کی طرف چل پڑا۔ میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف تھا کیونکہ ایک زمانے میں احمدیہ ہوسٹل اسی علاقے میں ہوا کرتا تھا۔ مجھے خان بہادر ڈاکٹر قاضی محمد بشیرسے ملاقات کرنا تھی جو قاضی محمد اسلم کے بڑے بھائی تھے اور ڈیوس روڈ پر رہائش پذیر تھے۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جماعت چھوڑ چکے ہیں حالانکہ اللہ کے فضل سے وہ مخلص احمدی تھے۔ بدقسمتی سے ہم لوگ بعض دفعہ ناکافی معلومات کی بنیاد پر عجلت میں کوئی رائے قائم کرلیتے ہیں اور پھر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کے متعلق یہ تاثر بھی ایسی ہی کسی وجہ سے قائم تھا۔خیر میں ڈرتے ڈرتے ان کے پاس گیا۔ قاضی محمد اسلم تو میرے استاد تھے اور ان ہی کے ذریعے مجھے قبولِ احمدیت کا شرف حاصل ہوا تھا لیکن اس وقت تک میں نے ڈاکٹر قاضی محمد بشیر کو نہیں دیکھا تھا تاہم چونکہ کانوں میں یہ بات پڑی ہوئی تھی کہ وہ اب احمدی نہیں رہے لہٰذا میں حیران تھا کہ میاں صاحب نے مجھے ان کے پاس کیوں بھیجا ہے اور میں ڈر رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ نہ جانے کس طرح پیش آئیں گے۔ میں نے ان سے ملاقات کا وقت نہیں لیا ہوا تھا اور وہ مصروف الاوقات بھی تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے فوراً مجھے شرفِ باریابی بخشا۔ خوبصورت، پروقار اور جسیم تھے اور اپنی کرسی پر شاہانہ تمکنت کے ساتھ بیٹھے تھے۔ بہرحال میں نے جاکر سلام کیا اور قاضی محمد اسلم کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا۔ کہنے لگےتو فرمائیے کیا بات ہے؟ میں نے کہاتعلیم الاسلام کالج لاہور سے شِفٹ ہو رہا ہے۔ ربوہ میں کالج کی عمارت زیرتعمیر ہے۔ منظور شدہ بجٹ اس کی تعمیر کے لیے کافی نہیں ہے لہٰذا جماعت کے مخیراحباب سے عطایا جمع کیے جارہے ہیں اور میں اسی حوالے سے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ انہوں نے میری بات سنتے ہی دراز سے چیک بک نکالی، ایک بلینک چیک دستخط کرکے مجھے دے دیا اور کہا کہ میں اس پر جتنی رقم چاہوں لکھ سکتا ہوں۔ وضاحت کی گئی کہ ہم پانچ ہزار روپے سے کم یا زیادہ رقم قبول نہیں کرتے تو فرمانے لگے کہ آپ خود لکھ لیں لیکن پھر میرے اصرار پر بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ سے رقم لکھی۔ جب ان کی وفات ہوئی اور انہیں تدفین کے لیے ربوہ لایا گیا تو قاضی محمد اسلم نے یہ واقعہ مجھے یاد کروایا۔

شیخ مبارک احمدجو لمبا عرصہ مشرقی افریقہ میں ہمارے مربی رہے ہیں کے خاندان میں ایک صاحب تھے جن کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر قاضی محمد بشیر کے بعد میں ان سے اور بعض دیگر احباب سے ملا۔ ساری بھاگ دوڑ سخت دھوپ میں ہوئی۔ واپسی پھر اسی طرح بس سے ہوئی۔ اگلی سیٹ ہی ملی۔ بیگ میں اس روز جمع ہونے والے عطیات کے چیک تھے چنانچہ میں نے اسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ ایک طرف ان چیکوں کی فکر اور اوپر سے سفر کی تھکان چنانچہ جب بس فیصل آباد پہنچی اور میں نیچے اترا تو میرا سرچکرا رہا تھا۔ کچہری بازار میں ایک ڈاکٹر ممتاز ہوا کرتے تھے۔ ان کی کچھ عرصہ ربوہ میں بھی عینکوں کی دکان رہی لیکن بعد میں وہ پکّےپکّے فیصل آباد منتقل ہوگئے تھے۔ وہ ہمارے معروف سرجن، ڈاکٹر وسیم(۱۴) کے والد تھے۔ ان کے ساتھ قادیان کے زمانے سے تعلقات تھے چنانچہ میں سیدھا ان کے پاس چلا گیا اور مختصر طور پر اپنی کیفیت بتانے کے بعد درخواست کی کہ کسی ڈاکٹر کو بلاکر مجھے دکھا دیں۔ وہاں تو کوئی ڈاکٹر نہ آ سکا البتہ وہ مجھے فوج کے ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔

ڈاکٹر نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا تو میرا ٹمپریچر بہت زیادہ تھا۔پہلے تو انہوں نے برف منگوائی لیکن پھر ایک ماشکی کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ پانی کی مشکیں بھربھر کر میرے اوپر ڈالتا جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں اپنا بیگ ایک طرف رکھ دوں لیکن میں اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ وہ کچھ حیران تو ہوئے لیکن منہ سے کچھ نہیں بولے۔ دراصل مجھے اس رقم کی فکر تھی جو اس میں پڑی تھی چنانچہ وہ مجھ پر اسی کیفیت میں پانی ڈالنے لگے۔ انہوں نے مجھ پر خوب پانی ڈالا۔ چار پانچ مشکوں کے بعد میرا بخار اتر گیا۔ انہوں نے سانس درست کرنے کی بھی کوئی دوائی دی اور کہا کہ اس وقت گرمی ہے، ابھی آپ سفر نہ کریں اور جانا بہت ضروری ہو تو رات کو سفر کریں۔

ان دنوں شام کے بعد ربوہ کی بس نہیں ملتی تھی اور ٹرین صرف ایک ہی جاتی تھی۔ وہ بھی قریباً آدھی رات کے وقت۔ میں اس ٹرین پر سوار ہونے کے لیے گھر سے نکلا اور ابھی کچہری بازار کے پاس تانگہ سٹینڈ تک ہی پہنچا تھا کہ مجھے پھر چکر آگیا۔ ساتھ ٹرکوں کے اڈے تھے۔ میں ایک اڈے پر چلا گیا۔ میں چاہتا تھا کہ ربوہ فون کر کے میاں صاحب کو اپنی آمد کی اطلاع کردوں چنانچہ میں نے اڈے والے سے کہا کہ مجھے ربوہ ایک ضروری فون کرنا ہے۔ وہ کوئی شریف آدمی تھا۔ اس نے اجازت دے دی۔ ان دنوں کال بُک ہوتی تھی۔ فون ملا تو میاں صاحب نے اٹھایا۔ میں نے بتایا کہ میری طبیعت سخت خراب ہوگئی ہے لہٰذا کسی کی ڈیوٹی لگا دیں کہ و ہ اسٹیشن پر آکر مجھے لے جائے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے انتظام ہوجائے گا۔ میں ماڑی انڈس میں بیٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر طرف میانوالی کے پٹھان ہی پٹھان ہیں۔خوف بھی آیا کہ میرے پاس پیسے ہیں، کوئی گڑبڑ ہی نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے حادثات سے محفوظ رکھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے ربوہ اترنا ہے لیکن میں بیمار ہوں لہٰذا آپ ٹرین سے اترنے میں میری مدد کردیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ربوہ کہاں ہے۔ میں نے بتایا کہ دریا پار کرتے ہی پہلا سٹیشن ربوہ کا ہے۔ اگر میں خود نہ اترسکوں تو آپ مجھے مِل جُل کر اتار دیں۔

جب میں ربوہ پہنچا تو ہُو کا عالم تھا اور مجھے لینے کے لیے کوئی شخص موجود نہ تھا۔ پلیٹ فارم پر ایک بنچ پڑا تھا۔ میں اس پر بیٹھ گیا اور کچھ دیر انتظار کیا لیکن جب کوئی نہ آیاتو میں نے ریل کی پٹری پر چلنا شروع کر دیا۔اسی اثنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ کالج کی طرف سے ایک کار آ رہی ہے۔ یہ کار میاں صاحب کی تھی۔ محمد احمد حیدرآبادی مجھے لینے کے لیے آئے اور ہمراہ لے گئے۔

بعد میں پتا چلا کہ یہ کوئی معمولی بخار نہ تھا بلکہ سن سٹروک تھا۔ اس کا علاج معالجہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ کے صاحبزادے، ڈاکٹر محمد احمد نے میرا علاج کیا۔ جب احباب کو میرے سن سٹروک کا علم ہوا تو میرے لیے ایک چھتری خریدی گئی۔ میاں صاحب خود تو شدید دھوپ میں بعض اوقات ننگے سر بھی مزدوروں کے درمیان کھڑے رہتے لیکن میرے ہاتھ میں ہمیشہ چھتری ہوتی۔ اس چھتری پر بہت اعتراضات ہوئے۔ سید محمود عالم بہاری صدر انجمن احمدیہ کے آڈیٹر تھے۔ انہوں نے اعتراض لگا دیا کہ تعمیر فنڈ سے چھتری نہیں خریدی جاسکتی۔ غرض ایک دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی اور بڑی مشکل سے دوچار روپے کا بِل پاس ہوا۔

اس زمانے میں لاہور میں میری رہائش میڈیکل کالج سے ملحق ایک بالاخانے میں تھی۔ میں ربوہ آتا تو اسے تالا لگاکرچابی میڈیکل کالج والوں کو دے آتا تھا۔ ایک دفعہ میری عدم موجودگی میں کسی نے تالا توڑ کر میرا سامان نکال لیا۔ یہاں اطلاع آئی تو میں پریشان ہوا۔ میاں صاحب تک خبر پہنچی تو آپ نے کہافکر نہ کریں اور جاکر ظفرالاحسن سے میرے حوالے سے ملیں۔ ظفرالاحسن ان دنوں لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ میں ان سے ملا تو انہوں نے میری بات پوری توجہ سے سنی، پھر کسی کو فون کیا اور مجھے کہا کہ میں فلاں تھانہ میں پہنچوں وہاں میرا انتظار ہو رہا ہے۔ میں وہاں پہنچا تو تھوڑی دیر کے بعد ظفرالاحسن خود بھی آگئے۔ میں مسروقہ مال کی تفصیل بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ میری ایک بندوق، اتنی کتابیں اور یہ یہ چیزیں تھیں لیکن پولیس کہہ رہی تھی آپ کتابوں کو چھوڑیں، یہ بتائیں زیور کتنا تھا۔ پھر مشورۃً کہنے لگے کہ اتنا زیور لکھوا دیں۔ میں نے کہا زیور تو تھا ہی نہیں، میں کیسے لکھوائوں لیکن وہ کہتے چلے جا رہے تھےزیور تو ہم ضرور لکھیں گے۔ صاحب کا حکم ہے۔ اس رپورٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ بندوق مجھے مل گئی۔

اس بندوق کا قصہ بھی سن لیں۔ میاں صاحب کے پاس ایک برِیٹا فائیوشاٹس آٹومیٹک گن ہوتی تھی۔ میں نے ان کی دیکھا دیکھی ایسی ہی ایک بندوق خرید لی اور یہی بندوق وہاں پڑی تھی۔ چوراپنی شامتِ اعمال سے دوچار دن بعد پکڑے گئے اور یوں بندوق مجھے مل گئی۔ جب بندوق مل گئی تو میاں صاحب نے کہا شکر کریں اصل چیز تو مل گئی ہے لہٰذا باقی نقصان کو بھول جائیں۔ یوں بھی جب شورمچا تو میڈیکل کالج کے پرنسپل نے میاں صاحب سے اپنی اور سٹاف کی طرف سے خود معذرت کی لہٰذا اب مزید کارروائی کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔

اس بندوق کا قصہ بیان کرتے کرتے میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ ۱۹۵۴ء کے آخری مہینوں میں جب ربوہ میں کالج کی عمارت مکمل ہوگئی تو لاہور سے سارا سٹاف اسے دیکھنے کے لیے آیا۔ اس روز میاں صاحب بے حد ایکسائیٹِڈ تھے۔ چھت پہ کھڑے تھے اور اونچی آواز میں بار بار کہہ رہے تھے آئو! آئو! آکر کالج دیکھو! ‘‘(باقی اقساط آئندہ پیش کی جائیں گی۔)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button