حضرت مصلح موعود ؓ

سُستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو (قسط سوم)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍اپریل۱۹۳۶ء)

حقیقت یہ ہے کہ اصل ملیریا وہ ہے جو دل سے پیداہوتا ہے اگر دل کا ملیریا دور نہ ہو تو خواہ ظاہری طور پر انسان ملیریازدہ علاقہ میں نہ ہو پھر بھی سست اور کاہل رہ سکتاہے۔ چنانچہ یورپ میں بھی سست لوگ ہیں حالانکہ وہاں ملیریا نہیں۔ بڑے بڑے امراء ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنا کام یہی سمجھا ہوا ہوتا ہے کہ اچھی اچھی غذائیں کھائیں، شرابیں پئیں اور تاش کھیلیں ان کو کونسا ملیریا ہوتا ہے۔

پس حقیقت یہ ہے کہ

دل کا ملیریا

ہی انسان کو سست اور غافل کردیتا ہے اور سستی اور غفلت ایسی چیز ہے کہ وہ قوم کو تباہ کردیتی ، اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے انسان کو محروم کردیتی اور نجات سے دور پھینک دیتی ہے۔ میں نے بار بار

جماعت کوتوجہ

دلائی ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا۔ مائیں اپنے بچوں کو سست رکھنا پسند کرتی ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتیں کہ ان پر کام کابوجھ پڑے، باپ اپنے بچوں کو سست رکھنا پسند کرتے ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کام کی عادت ڈالی جائے اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ

کام نہ کرنے کی عادت

ان میں پیدا ہوجاتی ہے اور اس عادت کا دور ہونا پھر بہت مشکل ہوجا تا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص ہندو تھا جو بعد میں مسلمان ہوگیا ایک دن کسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ کوئی

لطیفہ کی بات ہوئی

اس پر وہ جھٹ کہنے لگا رام رام۔ رام رام۔ کسی نے کہا یہ کیا بات ہے تم تو مسلمان ہو تمہیں رام رام کی بجائے اللہ اللہ کہنا چاہئے تھا۔ وہ کہنے لگا اللہ اللہ داخل ہوتے ہی داخل ہوگا اور رام رام نکلتے ہی نکلے گا ۔ پرانی عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے زبان سے رام رام ہی نکل جاتا ہے۔ تو سُستیاں اور غفلتیں اگر کسی قوم میں

عادت کے طور پر

داخل ہوجائیں تو اس قوم کو کم از کم یہ چاہئے کہ اپنی اولادوں کو اس لعنت سے بچائے مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک اپنی اولادوں کو سُستی اور غفلت سے بچانے کی طرف جماعت نے کوئی خاص توجہ نہیں کی۔ اس تحریک میں مائیں روک بنتی ہیں، اس تحریک میں باپ روک بنتے ہیں، اس تحریک میں استاد روک بنتے ہیں حالانکہ اگر ماں باپ اور استاد

بچوں کی نگرانی

کرکے سستی اور غفلت کی عادت اگلی نسل سے دور کردیں تو ان کا یہ کام جہاد اعظم کے برابر حیثیت رکھے گا مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک یہ کام کرنے والے ہمیں میسر نہیں آئے حالانکہ ہمیں ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جنہیں کام میں لذت آئے اور جو

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا (النّٰز عٰت:۲)کا مصداق

ہوں کہ جب کسی کام میں ہاتھ ڈالیں اس میں غرق ہو جائیں اور غرق ہو کر اس میں سے موتی نکال لا ئیں ۔ مجھے تعجب ہوا کہ کل ہی میں نے ایک کام کے لیے

ایک دفتر کو تاکید

کی اور کہا کہ چونکہ وہ اس کام میں کئی مہینوں سے سستی کرتے چلے آئے ہیں اس لئے اب وہ یہ کام ختم کر کے دفتر بند کریں چاہے دو دن انہیں رات دن دفتر کھلا رکھنا پڑے۔ اس کے جواب میں رات کے تین بجے مجھے

ایک افسر کا رقعہ

ملا جسے پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی ۔ ہنستی تو اس لئے کہ اس نے لکھا فلاں شخص بھی میرے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اسے تین بجے اٹھنے کی اجازت دی جائے حالانکہ اس کی غفلت کے نتیجہ میں کام خراب ہوا تھا مگر ذکر اس رنگ میں کیا گیا گویا اس کا کام کرنا بہت بڑا احسان ہے اور رونا مجھے اس لئے آیا کہ میں نے کہا تھا چاہے دو دن انہیں دن رات دفتر کھلا رکھنا پڑے کھلا رکھیں اور اس کام کو ختم کریں مگر مجھے لکھا گیا اب تو تین بج چکے ہیں اب ہم میں سے بعض کو

جانے کی اجازت

دی جائے۔ وہ تو نو جوان ہیں اور اس لحاظ سے انہیں کام زیادہ کرنا چاہئے مگر میری تو عمر ان سے زیادہ ہے صحت بھی کمزور ہے لیکن سال میں بیسیوں دن ایسے آتے ہیں جب رات کے تین تین چار چار بجے تک مجھے کام کرنا پڑتا ہے مگر انہیں یہی بات اچنبھا معلوم ہوئی کہ ایک دن انہیں رات کے تین بجے تک کام کرنا پڑا اور اس کے بعد انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کام چھوڑنے کی اجازت لیں گویا ان کے نزدیک تین بجے کے بعد اگر کام کیا جائے تو موت ہی آجاتی ہے ۔ حالانکہ

بیسیوں دن

سال میں مجھ پر ایسے آتے ہیں جب مجھے چار چار بجے تک بیٹھ کر کام ختم کرنا پڑتا ہے اور اس میں بعض دفعہ میں اپنی بیویوں کو بھی شامل کر لیتا ہوں ۔ ابھی آٹھ دن ہوئے رات کے وقت سخت گرمی تھی اور میں پسینہ میں شرابور تھا میری بیوی بھی بیمار تھیں مگر میں نے انہیں کہا کہ تم زائدرقعے پڑھ کر مجھے دیتی جاؤ اور بتاتی جاؤ کہ اس میں کیا لکھا ہے کیونکہ کام بہت سا اکٹھا ہو گیا ہے ۔چنانچہ ہم دونوں نے بیٹھ کر رات کے تین بجے تک کام ختم کیا اور سوتے ہوئے قریبا ًچار بج گئے ۔ یہ بات بتاتی ہے کہ ہماری جماعت کے نو جوانوں کو ابھی کام کرنے کی عادت نہیں ورنہ اگر کام کرنے کی عادت ہو تو تین بجے تک کام کرنے کو اہمیت دینا تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص

تنکا اٹھا کر نا چتا پھرے

کہ میں نے کتنا بوجھ اٹھایا ہؤا ہے۔ ایسی کئی راتیں مجھ پر گزری ہیں جن میں مجھے صبح کی نماز تک کام کرنا پڑا ہے کئی کتابیں میں نے ایسی لکھی ہیں جن میں بعض دوسرے دوست بھی میرے شریک تھے اور ہم صبح تک کام کرتے چلے گئے صبح کی نماز پڑھ کر پھر بیٹھ گئے اور رات تک کام کرتے رہے ۔ پس کام کرنے سے گھبرانا ایک ایسی بات ہے جو میری

سمجھ سے بالا

ہے حالانکہ میری غرض تحریک جدید اور ان صیغوں کے قائم کرنے سے ہے ہی یہ کہ لوگوں کو کام کرنے کی عادت ڈالی جائے اور نئی پودا تنا کام کرنے کی عادی ہو کہ وہ سمجھے ہی نہ کہ کام ہوتا کیا ہے۔ یہی لعنت تو میں دور کرنا چاہتا ہوں کہ اب چھ بج چکے ہیں، اب سات بج چکے ہیں ، اب دس بج چکے اور ہمیں دفتر بند کر کے چلے جانا چاہئے کیونکہ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ دس بج چکے ہیں یا نہیں بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کام ختم کر لیا گیا ہے یا نہیں یا کام ختم ہونا ناممکن تو نہیں ہو گیا۔ میں یہ مانتا ہوں کہ

انسانی طاقت کی حد

ہے مگر جو اس حد سے پہلے ہی رہ جاتے ہیں وہ کسی تعریف کے مستحق نہیں سمجھے جاتے ۔ کام کر نےوالے لوگ تو جب انہیں کوئی ضروری کام لاحق ہو دو دو راتیں مسلسل جا گنا بھی کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے اور در حقیقت کام کرنے والا آدمی اگر کام کر کے تھوڑا سا سو جائے تو پھر دوبارہ اس کے کام کرنے کی ویسی ہی طاقت پیدا ہو جاتی ہے جیسے پہلے ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جب کوئی ضروری کام آ پڑے ہو سکتا ہے کہ ایک سو جائے اور دوسرا کام کرتا رہے پھر دوسرا سو جائے اور پہلا کام کرنے لگے گویا باری باری وہ کام کرتے رہیں اسی طرح کام بھی ہو جاتا ہے اور تھکان بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ مگر جب تک یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم نے کام ختم کرنا ہے وقت نہیں دیکھنا اس وقت تک

کاموں میں تعویق

ہوتی چلی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے جو کام چوبیس گھنٹے میں ہو سکتا ہےہمارے آدمی اس پر ہفتہ ہفتہ لگا دیتے ہیں اور پھر بھی بعض دفعہ احسن صورت میں نہیں ہوتا۔

پس میں اس مرکو اس لئے خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں کہ ایک طرف جماعت کو میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس معاملہ میں اس کے

تعاون کی ضرورت

ہے۔ جو بچے گھروں پہ رہتے ہیں ان کے متعلق والدین کا فرض ہے کہ وہ انہیں کام پر لگائیں اور محنت اور مشقت کی انہیں عادت ڈالیں۔ مثل مشہور ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اگر نو جوانوں کا ایک حصہ ایسا ہو جوسست کاہل اور غافل ہو تو انہیں دیکھ کر دوسرے بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ پس انہیں

جفاکش اور محنتی

بناؤ اور اگر بیماریاں ان کی سستی کا باعث ہیں تو ان کا علاج کرو لیکن اگر بیماری کوئی نہ ہو اور انسان پھر بھی کاہل اور غافل ہو اور کام سے جی چرانے لگے تو ایسا انسان اپنے ملک کےلئے عار اور

مذہب کےلئے ننگ کا موجب

ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی میں صدرانجمن کے دوسرے کارکنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اس معاملہ میں تعہد سے کام لیں اور محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں ۔ ممکن ہے میری غلطی ہو لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہم میں سے سب سے زیادہ محنت سے کام کرنے والے لوگ بھی اپنی طاقت سے تیسرا حصہ کام کرتے ہیں اور جب اپنے میں سے سب سے زیادہ محنتی لوگوں کے متعلق میں یہ سمجھتا ہوں تو دوسرے لوگ سمجھتے ہیں ان کے کام کی ان کی طاقت کے مقابلہ میں کیا نسبت ہو گی ۔ بہر حال میرا یہ اندازہ ہے کہ ہم میں سے محنتی شخص بھی اپنی طاقت سے تیسرا حصہ کام کرتا ہے ۔ کچھ تو اس طرح کہ وہ ہوشیاری سے کام نہیں لیتا اور آدھ گھنٹے کا کام گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں کرتا ہے اور کچھ اس طرح کہ جتنا وقت کام کےلئے دینا چاہئے اتنا وقت وہ نہیں دیتا اور اگر کارکن وقت بھی زیادہ دیں اور چستی سے بھی کام لیں تو میں سمجھتا ہوں موجودہ نسبت سے وہ

تین گنے زیادہ کام

کر سکتے ہیں ۔ اب خیال کرو اس وقت جتنے سلسلہ کے کارکن ہیں اگر وہ اس تعداد سے تین گنے زیادہ ہو جائیں تو کتنا کام ہونے لگے ۔ لیکن اگر ہمارے موجودہ کا رکن ہی اپنے دل میں زیادہ کام کرنے کا

پختہ ارادہ

کر لیں اور اس کی کے مطابق عمل کریں تو وہی صورت اب بھی پیدا ہو سکتی ہے اور دنیا کو بہت زیادہ کام دکھا سکتے ہیں۔ کتنی ہی تبلیغ بڑھ سکتی ہے، کتنی ہی تصنیف بڑھ سکتی ہے اور کتنی ہی تربیت بڑھ سکتی ہے ۔ غرض اللہ تعالیٰ تو کدح چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اتنی محنت کرے اتنی محنت کرے کہ اس کے

جسم میں ہزال پیدا ہو جائے ۔

٭…٭(باقی آئندہ)٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button