ایشیا (رپورٹس)جلسہ سالانہ

۱۲۷ واں جلسہ سالانہ قادیان دار الامان (قسط اوّل)

منعقدہ ۲۳ تا ۲۵؍دسمبر ۲۰۲۲ء

٭…کورونا وبا کے بعد پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ قادیان کا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ انعقاد

٭…علمائے سلسلہ کی علمی و تربیتی تقاریر

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے جلسہ سالانہ قادیان بستان احمد کے وسیع احاطہ میں مورخہ 23، 24 و 25؍دسمبر2022ء بروز جمعہ، ہفتہ و اتوار منعقد ہو کر بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا۔ قبل ازیں کورونا کی وبا کی وجہ سےسال 2019ء اور 2020ء میں جلسہ کا انعقاد نہیں ہوسکا تھا۔ اور سال 2021ء میں محدود حاضری کے ساتھ جلسہ منعقد ہوا تھا۔ الحمد للہ کہ امسال جلسہ سالانہ قادیان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ منعقد ہوا۔ ملک کے طول و عرض سے عشاق احمدیت بڑے ہی ذوق و شوق اور جوش و خروش کے ساتھ جلسہ میں شرکت کے لیے قادیان آنے لگے۔ اور جلسے کے ایام جوں جوں قریب آتے گئے قادیان دارالامان کی رونق میں توں توں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ قادیان پوری طرح مہمانوں سے بھر گیا۔ جدھر نکلو، جدھر نظر دوڑاؤ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان نظر آتے۔ بیرون ملک سے بھی ایک بڑی تعداد میں عشاق احمدیت جلسہ میں شریک ہوئے۔ قادیان دارالامان کی پیاری بستی، ایک بار پھر خوشیوں اور رونقوں سے بھر گئی۔ مہمانوں کی آمد سے قبل ہی نظامت بجلی و روشنی کی طرف سے محلہ کی تمام گلیوں اور سڑکوں کو ٹیوب لائٹوں کے ذریعہ روشن کردیا گیا تھا۔ بہشتی مقبرہ، دارالمسیح، مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح کو بجلی کےچھوٹے چھوٹے رنگین بلبوں سے دُلہن کی طرح سجایا گیا۔ اس طرح مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی یہ رُوحانی بستی اپنی باطنی جگمگاہٹ کے ساتھ ساتھ ظاہری طور پر بھی جگمگا اُٹھی۔

معائنہ کارکنان وانتظامات جلسہ

مورخہ 19؍دسمبر 2022ء بروز سوموار ٹھیک پونے گیارہ بجے جلسہ گاہ بستان احمد میںنمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مولانا محمد انعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ و امیر جماعت احمدیہ قادیان کی زیر صدارت معائنہ کارکنان کی تقریب عمل میں آئی۔ نمائندہ حضور انور جونہی بستان احمد میں تشریف لائے ان کا اَھْلاً وَّسَھْلاً وَّمَرْحَباً کے نعروں سے استقبال کیا گیا۔ آپ نے سب سےپہلے جلسہ سالانہ کے شعبہ جات کے بینر تلے کھڑے منتظمین و ناظمین وکارکنان سے ملاقات کی اور مصافحہ کیا۔ بعدہٗ نمائندہ حضور انور مستورات کے پنڈال میں تشریف لے گئے۔ تقریب کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سےشروع ہوئی جومکرم ہمایوں رشید صاحب متعلم جامعہ احمدیہ قادیان نے کی اور ترجمہ پیش کیا۔

اس کے بعد نمائندہ حضور انور نے خطاب کیا جس میں آپ نے تمام خدمت کرنے والوں کو پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کی تلقین کی۔ نیز آپ نے تمام خدمت کرنے والوں کو نمازوں کی پابندی اور دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اس جلسہ کو کامیاب اور بابرکت فرمائے۔ آپ نے جلسہ سالانہ سے متعلق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بعض ارشادات بھی پیش کیے۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے اجتماعی دُعا کے بعد تقریب کا اختتام ہوا۔

جلسہ سالانہ کا پہلا دن

23 دسمبر 2022ء بروز جمعہ

جلسہ سالانہ کے پہلے دن مہمانان کرام صبح جلد ہی جلسہ گاہ کے احاطہ میں آکر بیٹھنے لگے اور زیرلب دعائیں کرتے رہے اور جوشِ ایمان سے نعرئہ تکبیر اللہ اکبر بلند کرتے رہے۔ یہ منظر بہت ایمان افروز تھا۔

پرچم کشائی

جماعتی روایات کے مطابق لکڑی کے ایک خوبصورت بکس میں، جس کی پہرہ داری خدام کررہے تھے، لوائے احمدیت جلسہ گاہ لایاگیا۔ مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب صدر، صدرانجمن احمدیہ قادیان نے صبح ٹھیک دس بجے لوائے احمدیت لہرایا اور پھر اجتماعی دعاکروائی۔ جب لوائے احمدیت فضا میں بلند ہورہا تھا، جلسہ گاہ کے سٹیج سے رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ کی دعائیں بآواز بلند حاضرین دہرا رہے تھے۔ بعدہٗ سٹیج سے اللّٰہ اکبر کا پُرشوکت نعرہ لگایا گیا جس کا حاضرین نے پُرجوش جواب دیا۔

افتتاحی اجلاس

افتتاحی اجلاس زیر صدارت محترم صدر، صدر انجمن احمدیہ قادیان منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم طارق احمدلون صاحب آف کشمیر نے کی۔ آپ نےسورۃ الصف کی آیات7تا10کی تلاوت کی جس کا اُردو ترجمہ مولوی سیدکلیم الدین احمد صاحب قاضی سلسلہ نظامت دارالقضاء قادیان نے پیش کیا۔

بعدہٗ صدر صاحب مجلس نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم سب 127ویں جلسہ سالانہ قادیان کے انعقاد کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں جس کا آغاز حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے 1891ء میں اذنِ الٰہی سے کیا تھا۔ ہمارا یہ جلسہ سالانہ دُنیوی میلوں اور اجتماعات کی طرح ہرگز نہیں ہے۔ موصوف نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک اقتباس بھی پیش کیا جس میں حضور انور نے جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد بیان فرمائے۔ محترم صدر مجلس نے آخر پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرکے اپنے صدارتی خطاب کو ختم کیا۔

بعدہٗ مکرم تنویر احمدناصر صاحب نائب ناظر نشرواشاعت قادیان نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کامندرجہ ذیل منظوم کلام نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنایا۔

محمدؐ پر ہماری جاں فِدا ہے

کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے

اس اجلاس کی پہلی تقریر محترم ناظراعلیٰ صاحب و امیر جماعت احمدیہ قادیان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت پر کی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا’’ قیامِ امن کے حوالےسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپؐ کااُسوئہ حسنہ۔‘‘ آپ نے بتایا کہ اسلام کے معنے ہی امن وسلامتی کے ہیں اوربانیٔ اسلام حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عالمگیر امن وسلامتی کے پیغامبر ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ امن، سکھ، چین بنیادی طور پر دوطرح کا ہوتا ہے۔ (1)انفرادی امن (2) اجتماعی امن۔

انفرادی امن کا تعلق انسان کی ذات سے ہے جبکہ اجتماعی امن کا تعلق خاندان، محلہ، شہر، ملک اور پوری دنیا سے ہے۔ گھروں کے امن کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔ اسی طرح پڑوسیوں اور ہمسایوں سے، والدین، قریبی رشتہ داروں، یتامی ٰاور مسکینوں سے حسن سلوک کی تعلیم قرآن مجید میں موجود ہے۔

آنحضرتﷺ نے ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ جو دراصل سلامتی کی دعا ہے اور امن کی ضمانت ہے۔ اسی طرح راستوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے جو امن قائم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ نیز آپؐ نے مریض کی عیادت کا حکم دیا اِسی طرح تجہیزوتکفین میں مدد کرنے،جنازہ میں شریک ہونے، میت کا احترام کرنے، حسدنہ کرنے، چھوٹوں پر رحم کرنے اور بڑوں کی عزت کرنے، مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی کرنے کا حکم دیا۔ یہ تمام احکامات امن قائم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہاںتک کہ آپؐ نےجانوروں کو بھی تکلیف نہ دینےکی تعلیم دی۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حکومت اورریاست کے حقوق وفرائض بھی آپ نے بیان کیے۔

اس کے بعد مولانا منیر احمد خادم صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد جنوبی ہند نے ’’سیرت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام توکل علی اللہ اورقبولیت دعا کے آئینہ میں‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔ آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اور اس کے حضور دعا کے لیے جھکنادراصل ہردوصفات لازم وملزوم ہیں۔ اس کے بعد آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے توکل علی اللہ اور قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات بیان کیے اور آخر پر کہا کہ خلفائے احمدیت کے دورمیں بھی قبولیت دعاکے ایمان افروزواقعات رونماہورہے ہیں۔

پہلے دن کا دوسرا اجلاس

پہلے دن کادوسرا اجلاس ٹھیک 2بج کر 5منٹ پر شروع ہوا۔یہ اجلاس مولانا جلال الدین صاحب نیر صدرمجلس تحریک جدید قادیان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ سورۃ توبہ کی آیات 100تا103کی تلاوت مکرم محمد ابراہیم صاحب نے کی اور ان آیات کا ترجمہ از تفسیر صغیر مولوی طاہر احمد طارق صاحب نائب ناظراصلاح وارشاد مرکزیہ نے پیش کیا۔ مکرم عبد الواسع صاحب کارکن نظامت تعمیرات قادیان نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ منظوم کلام

کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدءالانوار کا

بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

میں سے چند اشعار نہایت خوش الحانی سے پڑھے۔ اجلاس کی پہلی عالمانہ تقریر مولانا محمد کریم الدین صاحب شاہد صدرصدرانجمن احمدیہ قادیان نے ’’ہستی باری تعالیٰ-حصول معرفت الٰہی کے ذرائع‘‘کے موضوع پر کی۔ فاضل مقرر نے بتایا کہ خدا تعالیٰ کی معرفت کے لیے ایک مجاہدہ اور کوشش کی ضرورت ہے جیسا کہ ظاہری طورپر دنیا کے ہر کام کے لیے محنت درکا رہے، اِسی طرح خدا کو بھی انسان مجاہدہ سے پاتا ہے۔ آپ نے حصول معرفت الٰہی کے موٹے طورپر پانچ ذرائع کی تفصیلات پیش کیں۔(1)پہلا ذریعہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا انا الموجود کہہ کر خود اپنی ذات کی گواہی دینا۔ (2)دوسرا یہ کہ اپنے نیک بندوں پر غیبی علوم ظاہر کرکے اپنی ہستی اُن پر آشکار کرنا۔ (3)تیسرے یہ کہ مظاہر قدرت کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنا۔(4)چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ کا دنیا میں ظہور۔ (5) اور پانچواں یہ کہ دُعاؤں کی قبولیت سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر اطلاع ملتی ہے۔

اجلاس کی دوسری تقریر مولوی فیروز احمد نعیم صاحب مبلغ انچارج وامیر ضلع دہلی نے ’’سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وسیرت حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ‘‘ کے عنوان پر کی۔ فاضل مقرر نے اپنی تقریر کے پہلے حصے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایمان افروز سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جس میں آپ ؓکے قبول اسلام، آپؓ کی عظیم مالی قربانی،آپؓ کی بے انتہاسخاوت، حضرت رسول اکرم ﷺ سے آپ ؓکا عشق، ہجرت مدینہ میں رفاقت رسولﷺ،غارثور کا واقعہ غزوات میں شرکت جیسےآپ ؓکی زندگی کے حسین پہلوؤں پرلب کشائی کی نیز آپ رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کی فتوحات کا بھی ذکر کیا۔تقریر کے دوسرے حصے میں فاضل مقرر نے اوّل المومنین حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ(خلیفۃ المسیح الاول )کی سیرت پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے آپ کی بیعت، فدائیت اور حضرت مسیح موعودؑ سے عشق ومحبت جیسے عظیم پہلوؤںکا تذکرہ کیا اور آخر پر آپ کی خلافت، اور استحکام خلافت سے متعلق آپ ؓکے عظیم کارناموںکا تذکرہ کیا۔

اس کے بعد مکرم وسیم محمد صاحب صدرجماعت احمدیہ سیریا نے عربی زبان میں تعارفی تقریر کی جس کا اردو ترجمہ مولانا زین الدین حامد صاحب ناظم دارالقضاء قادیان نے پیش کیا۔

اس اجلاس کی آخری تقریر بعنوان ’’صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام -قرآن وحدیث کی رو سے‘‘ مکرم حافظ مخدوم شریف صاحب قائمقام ایڈیشنل ناظراعلیٰ جنوبی ہند نے کی۔ آپ نے صداقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بعض قرآنی دلائل کی روشنی میں پیش کرکے حضرت مسیح موعودؑ کی تائید میںظاہر ہونے والا ایک آسمانی نشان کسوف وخسوف اور ایک زمینی نشان طاعون کی تفصیلات بیان کیں۔

ازاں بعد صدراجلاس کی اجازت سے پہلے دن کا دوسرا اجلاس برخاست ہوا۔ ہندوستانی وقت کے مطابق شام ٹھیک ساڑھے چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ لائیو نشر ہوا۔ تمام مساجد میں اجتماعی طورپر مردوں نے حضور کا خطبہ سنا اورگھروں میں بھی احباب و مستورات نے خطبہ سُنا۔

جلسہ سالانہ کا دوسرا دن

24 دسمبر 2022ء بروز ہفتہ

دوسرے دن کا پہلا اجلاس

دوسرے دن کا پہلا اجلاس زیر صدارت محترم منیر احمد صاحب حافظ آبادی سیکرٹری مجلس کارپرداز بہشتی مقبرہ قادیان منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن مجید مکرم راشد خطاب صاحب صدر مجلس انصاراللہ کبابیر نے کی۔ آپ نےسورۃ النور کی آیات31تا33کی تلاوت کی۔ ترجمہ مولوی جمال شریعت صاحب نائب انچارج شعبہ نورالاسلام قادیان نے پیش کیا۔ بعدہٗ مولوی مرشداحمدڈار صاحب استاذ جامعہ احمدیہ قادیان نے نہایت خوش الحانی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا منظوم کلام

اے دوستو! جو پڑھتے ہو امّ الکتاب کو

اَب دیکھو میری آنکھوں سے اِس آفتاب کو

پڑھا۔ اس اجلاس کی پہلی تقریر مولانا محمد حمید کوثر صاحب ناظر دعوتِ الی اللہ مرکزیہ شمالی ہند قادیا ن نے ’’اسلامی پردہ اوراِس کی ضرورت واہمیت اوربرکت‘‘ کے عنوان پر کی۔ آپ نے دین اسلام کے کامل و مکمل ہونے کے حوالہ سے قرآنی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کیے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا اَلْـحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِ یعنی حیا ایمان میں سے ہے۔جب شرم و حیا ختم ہوجاتی ہے اور مرد و عورت میں بلا روک ٹوک میل ملاپ ہو تو پھر فحاشیت وبائی بیماری کی طرح پھیلتی ہے۔آنحضرت ﷺنے فرمایا: اِذَالَمْ تَسْتَحْیِیْ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ یعنی جب حیا اُٹھ جائے توپھر انسان جوچاہے کرے۔ فارسی میں مثل مشہورہے کہ بےحیاباش ہرچہ خواہی کن۔اسلام نے بے حیائی اور فحاشی کے سدباب کے لیے مومن مرداورعورت کو غض بصر کا حکم دیاہے۔پھربھی اسلامی حجاب کوشدیدتنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حقیقی مسلمان ان اعتراضات سے کبھی متاثر نہ ہوں گے انشاء اللہ۔ ہماے خالق حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو معاشرہ میں صحیح طورپر روحانی اورجسمانی کردار اداکرنے کے لیے کچھ سنہرے اصول تجویزفرمائے ہیں۔ یہ اصول تکلیف کے لیے نہیں ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی(طٰہٰ:3) یعنی ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں اُتارا کہ تُو دکھ میں مبتلا ہو۔

اس کے بعد مولانا مظفر احمد ناصر صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ قادیان نے ’’نماز باجماعت اور تلاوت قرآن کریم کی اہمیت و برکات‘‘ کے موضوع پر تقریرکی۔ آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز کی فضیلت و اہمیت کے متعلق جو احکامات بیان فرمائے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز قائم کرنے والوں کو اللہ نے عظیم الشان بشارات سے نوازا ہے، ان کے لیے بڑے بڑے انعامات کا وعدہ ہے اور اس میں سستی اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ نماز متقیوں کی نشانی ہے کیونکہ متقی ہی دراصل نماز کو قائم کرتے ہیں۔ نماز وقت پر ادا کی جانے والی سب سے اہم عبادت ہے۔ نماز بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ نماز سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اور اس کے احکام کی بجا آوری اور اس کی راہ میں مالی قربانیوں کی توفیق ملتی ہے۔ نماز خدا کو یاد کر نے اور اس کا شکر ادا کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ اور اس کا رسول اور مومن نماز قائم کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتے ہیں۔ اسلام کی بنیادجن پانچ ارکان پر قائم ہے ان میں دوسر ا اہم رکن نماز ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا نماز کو چھوڑ نا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔فرمایا۔ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے نجات پالی۔ اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ نا کام ہو گیا اور گھاٹےمیں رہا۔آپﷺ کی شدید خواہش تھی کہ آپ کی امت نماز پر کار بند ہو جائے۔

تلاوت قرآن کریم کی اہمیت و برکات کے متعلق آپ نے بتایا کہ

٭ حضرت ابو اُمامہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا : قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو کیونکہ قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفیع بن کر آئے گا۔ (صحیح مسلم)

٭ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔ (صحیح بخاری)

٭ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس کے سینے میں قرآن کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ(سینہ) ویران گھر کی طرح ہے۔ (ترمذی)

اجلاس کی تیسری تقریر مکرم پی ۔ایم۔محمدرشید صاحب ناظر بیت المال خرچ ووکیل المال تحریک جدید قادیان نے ’’اسلام میںانفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت و برکات ‘‘ کے عنوان پرکی۔ آپ نے بتایا کہ اسلام نے بنی نوع انسان کے سامنےمادہ پرست لوگوں کے نظریہ سے بالکل برعکس ایک اچھوتا مالی نظام پیش کیا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ یہ نظام کسی انسان یا تنظیم کے غور و فکر کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس نظام کو پیش کرنے والاعلیم و خبیر عالم الغیب خدا ہےجس کے پاس آسمان اور زمین کے خزانےہیں۔ لیکن مادہ پرست دنیا اس حقیقت سے بالکل نا آشناہے۔ آجکل دنیا کے ہر گوشے سے، بینکوں یا ان سے منسلکہ دیگر سوسائٹیوں بلکہ ہر کس وناکس کی طرف سے بچت، بچت کی تحریک اور آواز بلند ہورہی ہے گویا ان کے نزدیک مال کو سنبھال سنبھال کے روکے رکھنا مالی وسعت کا نام ہے۔ لیکن اسلام اس نظریے کویکسر رد ّکرتا ہے اور مالی وسعت اورحقیقی بچت کا راز بیان کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اُن لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اُگاتا ہو ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھی) بہت بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔(البقرہ:۲۶۲)

اللہ تعالیٰ نے صرف مومنین کو ہی یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہ انفاق فی سبیل اللہ میں حصہ لیںاور یہ مومنین کا ایک منفرد مقام و مرتبہ ہے کہ صرف انہیں سے اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کا مطالبہ کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کو قابل رشک وجود قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا : لَاحَسَدَاِلَّا فِیْ اثْنَتَیْنِ رَجُلٌ اٰتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہٗ عَلٰی ھَلَکَتِہٖ فِی الْحَقِّ وَرَجُلٌ اٰتَاہُ اللّٰہُ حِکْمَۃً فَھُوَ یَقْضِیْ بِھَا وَیُعَلِّمُھَا(بخاری) دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہِ حق میں خرچ کردیا دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے۔

دوسرے دن کا دوسرا اجلاس

دوسرے دن کا دوسرا اجلاس جلسہ پیشوایان مذاہب کے طور پر منایا جاتا ہے جس کے لیے مختلف مذاہب کےراہنماؤں اور سادھو سنتوں، گوروؤں اور پنڈتوں اور چرچ کے فادروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سیاسی راہنما بھی تشریف لاتے ہیں جوجلسہ اور جماعت احمدیہ کی تعلیمات کے تئیں اپنے نیک خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ اجلاس زیر صدارت مکرم سیّد تنویر احمد صاحب صدر مجلس وقف جدید منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن مجید مکرم لقمان احمد تقی صاحب متعلم جامعہ احمدیہ قادیان نے کی۔ آپ نےسورۃالنمل کی آیات 61 تا64کی تلاوت کی جن کا اُردو ترجمہ مکرم عطاء اللہ نصرت صاحب نائب ناظر بیت المال آمد نے پیش کیا۔ بعدہٗ مکرم مبشر احمد خادم صاحب استاذ جامعہ احمدیہ قادیان نے بزبان پنجابی ’’امن عالم اور اسلام‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔ بعدہٗ صدر اجلاس کی اجازت سے مکرم تنویر احمد خادم صاحب نے اسٹیج پر تشریف فرما غیر مسلم معززین کا تعارف کروایا اور اُن میں سے بعض کو جلسہ سالانہ قادیان سے متعلق اپنے خیالات پیش کرنے کی دعوت دی۔ جن مہمانان کرام نے اپنے خیالات پیش کیے ان کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر بلجیت کور صاحبہ منسٹر آف افیئرز گورنمنٹ آف پنجاب

انہوں نے کہا کہ آج کا دن میرے لیے بہت ہی فخر کا دن ہے جو میں آج آپ کے درمیان 127 ویں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل کررہی ہوں۔ اس جلسہ میں تمام شاملین کو مَیں خوش آمدید کہتی ہوں۔ آپ کی جماعت آج جو ساری دُنیا میں امن کا پیغام دے رہی ہے یہ سب سے اہم و ضروری پیغام ہے جس کی اس وقت دُنیا کو ضرورت ہے۔ ایسے پیغام کو دُنیا بھر میں پھیلانے کے لیے انسان کو خود سے بھی لڑنا پڑتا ہےتبھی خدا بھی ہماری مدد کرتا ہے۔ اس چھوٹی سے بستی سے بانی جماعت احمدیہ نے جو پیغام دیا ہے وہ آج ساری دُنیا میں پھیل چکا ہے۔ آپ نے ہمارے ہندوستان کی اصل تصویر کو دُنیا کے سامنے رکھا ہے۔ جماعت کا اصل مقصد پیار محبت و امن ہے۔ ہندوپاک کی تقسیم کے وقت اگرچہ کہ ظلم و بربریت کا نہایت گھناؤنا کھیل کھیلا گیا لیکن اُس وقت بھی انسانیت سے محبت کرنے والے لوگ موجود تھے جنہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مظلوم ہندو ہے یا مسلمان اور اس کی انہوں نے مدد کی۔ اور انسانیت کا یہ جذبہ آج بھی ہمارے دلوں میں قائم ہے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔

جگروپ سنگھ سیکھواں

قادیان کے جلسہ سالانہ میں تمام شاملین و حاضرین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ قادیان بہت ہی مقدس بستی ہے جہاں آج ہم 127واں جلسہ سالانہ منارہے ہیں۔ پوری دُنیا سے لوگ بہت ہی محبت اور خلوص سے اس بستی میں آتے ہیں۔ اس بستی سے پوری دُنیا میں امن اور محبت کا پیغام جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ بستی پوری دُنیا میں مشہور ہے۔ آج تھرڈ ورلڈوار ہمارے سروں پر کھڑی ہے۔ دوسری طرف جماعت کے خلیفہ پوری دُنیا کو امن اور محبت کا پیغام دے رہے ہیں جس کو آج پوری دُنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ حضور کا یہ قدم قابل تعریف ہے۔ دُنیا کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جنگ تباہی لاتی ہے جبکہ ہمیں امن کی ضرورت ہے۔ہمارے خاندان کا جماعت سے بہت ہی پرانا اور گہرا تعلق ہے۔ ہم ہروقت جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مَیں شکرگزار ہوں کہ مجھے یہاں آنے کی دعوت دی گئی۔

سوامی آدیش پوری صاحب آف ہماچل، نمائندہ ہندو مذہب

موصوف نے تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور جلسہ کی مبارک باد پیش کی۔انہوں نے کہا کہ تمام مذہبی راہنماؤںکا ایک ہی مقصد ہوتا ہےکہ یہ انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں اور باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے اور بھائی چارے کا سبق سکھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی سارے انسانوں کو ایک جیسا ہی بنایا ہے۔ کسی کے خون سے کبھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ہندو ہے اور یہ مسلمان ہے۔ سب کا خون ایک جیسا ہی ہے۔ جماعت احمدیہ جو ساری دُنیا میں امن اور محبت اور بھائی چارے کی تعلیم کو پھیلارہی ہے یہ جماعت کی طرف سے ایک بہت ہی قابل تعریف کام ہے۔آج سب ایک دوسرے کو کافر کہنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کافر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو ٹھکراتا ہے اور ان کی قدر نہیں کرتا۔ وہ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہوںگے جو آج سے ایک سو ستائیس سال قبل پہلے جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے۔ حضرت مرزا غلام احمد کی سچی تعلیمات آج اس جلسہ کے ذریعہ سے پوری دُنیا میں پھیل رہی ہیں۔ آخر پر انہوں نے جلسہ سالانہ کی تعریف اور اپنی ایک نظم پڑھی جو انہوں نے جلسہ سے کچھ ہی دیر پہلے لکھی تھی۔

فتح جنگ سنگھ باجوہ لیڈر بی جی پی حلقہ قادیان

انہوں نے نعرہ تکبیر سے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ بعدہٗ تمام شاملین جلسہ کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا اور ان کے خاندان کا جماعت سے پرانا اور بڑا گہرا ناطہ ہے۔ بانی جماعت احمدیہ کے امن کے پیغامات اور جماعت کا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں قابل تعریف ہے۔تقسیم کے وقت قادیان میں چند گنتی کے احمدی رہ گئے تھے مگر آج یہ ساری دُنیا میں پھیل چکے ہیں۔ جماعت کے موجودہ خلیفہ آج ساری دنیا کو انسانیت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ امن اور شانتی کا پیغام پھیلارہے ہیںجو بہت ہی قابل تعریف ہے۔ آج دُنیا کو امن اور پیار اور محبت کی ضرورت ہے۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اُسی امن کی ضرورت ہے جس کے قیام کے لیے جماعت جدوجہد کررہی ہے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ جماعت کے خلیفہ قادیان تشریف لائیں۔ آپ سب کو 127 ویں جلسہ سالانہ کی مبارک باد۔

کیشو مُراری داس صاحب، صدر اِسکان ٹیمپل دہلی

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مَیں جماعت احمدیہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی۔ مَیں جماعت کے تقریباً سارے پروگراموں میں شامل ہوتا ہوں کیونکہ جماعت ہمیشہ محبت اور امن ہی کی بات کرتی ہے۔ جماعت کا ماٹو بھی پیار اور محبت ہی کا پیغام دیتا ہے۔ اس ماٹو نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ جب میں نے جماعت کے متعلق معلومات حاصل کیں تو مجھے جماعت کی تعلیمات کا علم ہوا۔ جس طرح قرآن و حدیث میں امن کی، محبت کی تعلیم ہے اسی طرح گیتا میں بھی امن اور محبت کی تعلیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب مجھے جماعت کا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں بتایا گیا تو مجھے بڑا عجیب معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا محبت اور امن سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب مَیں نے اسلام کا مطالعہ کیا تو پھر مجھے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث میں واقعی امن اور محبت کی تعلیم ہے۔ ہم سب کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم اس دُنیا میں اچھے کام کرکے خدا کے حضور حاضر ہوں۔ جب تک ہمارا کام اور ہمارا عمل اچھا نہیں ہوگا تب تک ہمارا کسی مذہب کو ماننا بے فائدہ ہوگا۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کی نیک تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا تب ہی اس زندگی کا کوئی فائدہ ہے۔ جماعت احمدیہ کی تعلیمات زمانہ کی ضرورت کے عین مطابق ہیں۔

گورندرسنگھ گورا ، ممبر sgpc

موصوف نے اسٹیج پر تشریف رکھنے والے تمام معززین اور شاملین جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت کے تمام کام، اس کی تعلیمات اور اس کا ماٹو سب کے لیے ایک نیک نمونہ ہے۔ جماعت کا پیغام آج ساری دُنیا میں پھیل چکا ہے۔ اچھے اور نیک لوگ وہ ہوتے ہیں جو خواہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب کے ہوں وہ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کی تعلیمات کی عزت کرتے ہیں۔ جماعت اپنے عمل سے یہ ثابت کرتی ہے کہ اس کو سب سے محبت ہے اور نفرت کسی سے نہیں ہے۔

پرتاپ سنگھ باجوہ ایم ایل اے حلقہ قادیان

انہوں نے تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور جلسہ پر مدعو ہونے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے جماعت کی تعلیمات کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت سے ممالک میں جانے کا موقع ملا ہے مَیں جہاں بھی جاتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ وہاں جماعت کے احباب سے ملاقات کروں۔ اور اس سے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہر جگہ ہر ملک میں جماعت نے وہاںکے لوگوں کے ساتھ ، سیاستدانوں کے ساتھ، حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے ہیں۔اپنی نیک نامی پیدا کی ہے۔ وہاں کے باشندوں اور انتظامیہ کے ساتھ گھل مل کر اور مل جل کر کام کرتے ہیں اور اُن میں ایک اپنا اثر پیدا کیا ہے۔ آج اس موقع پر میں جماعت کے خلیفہ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ قادیان تشریف لائیں ہم سب آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ اس پاک بستی سے جو امن و محبت کا پیغام ساری دُنیا میں پھیلایاجارہا ہے وہ بہت ہی قابل تعریف اور وقت کی ضرورت ہے۔

امن شیر کلسی صاحب ایم ایل اے حلقہ بٹالہ

انہوں نے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آپ کے درمیان حاضر ہونے کا موقع ملا۔ مَیں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔ جماعت کو جہاں ہماری ضرورت ہوگی ہم جماعت کا ساتھ دیں گے۔ ہم جماعت کے ساتھ کھڑے ہیںاور آپ کے اقدامات کو اور آپ کے کاموں کو سراہتے ہیں۔

انوراگ سود صاحب آف ہوشیار پور

انہوں نے کہا کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کی دعوت دینے کے لیے ساری جماعت کا شکرگزار ہوں۔ آپ سب بہت خوش نصیب ہیں جو جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرا تعلق ہوشیارپور شہر سے ہے جہاں سے جماعت کا بھی بہت پرانا اور گہرا رشتہ ہے۔ حضور جب 2005ء میں قادیان تشریف لائے تھے تو آپ ہوشیار پور بھی تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر حضور نے میرے گھر کو بھی برکت عطا فرمائی تھی اور دعائیں دی تھیں۔ جماعت کی جو محبت کی تعلیم ہے اس پر چل کر پوری دُنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے اور دنیا کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں حضور انور سے کئی مرتبہ یوکے میں بھی مل چکا ہوں۔ جماعت کی تعلیمات کی اس وقت دُنیا کو ضرورت ہے۔ دیگرمذاہب بھی اسی طرح امن کی تعلیمات دیتے ہیں۔ جماعت احمدیہ اس اسٹیج پر تمام مذاہب کے نمائندگان کو بلاکر جو عزت دیتی ہے وہ بہت ہی قابل تعریف ہے۔ تمام مذاہب کی عزت کرنا جماعت کی بہت بڑی خوبی ہے۔ امریکہ کے ایک شہر میں ابھی حال ہی میں جماعت کو مسجد تعمیر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ جماعت کی سچائی کی دلیل ہے۔ میں اس موقع پر حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ حضور قادیان تشریف لائیں ہم سب آپ کے منتظر ہیں۔

ان احباب کے علاوہ اور بھی بعض معزز شخصیات سٹیج پر تشریف فرماتھیںجن کا مکرم تنویر احمد خادم صاحب نے تعارف کرایا اور انہیں شال کا تحفہ دے کر ان کی عزت افزائی کی۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button