حضرت مصلح موعود ؓ

سُستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو (قسط2)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 24؍اپریل1936ء)

(گذشتہ سے پیوستہ)میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ

سستی اور غفلت بہت بڑی لعنت

ہے اور ہمیں اس لعنت کوبہت جلد اپنے آپ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر ہم اس کو دور نہیں کرسکتے تو ہمیں کم از کم اپنی اولادوں سے تو اس کو دورکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ڈاکٹروں نے اس بات پر بحثیں کی ہیں کہ

ایشیائی لوگ سُست کیوں ہوتے ہیں

بعض کا خیال ہے کہ چونکہ ایشیاء میں ملیریا زیادہ ہوتا ہے اس لئے ملیریا کی وجہ سے ایشیاء والے سُستی کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بات غلط ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملیریا سُستی پید اکرتاہے اور جب ملیریا کا انسانی جسم پر اثر ہونے لگے تو بخار چڑھنے سے کئی دن پہلے ہی انسان کاکام کرنے کو جی نہیں چاہتا اور پھر بخار کی حالت میں بھی جمائیاں آتی ہیں، اعضاء شکنی ہوتی ہے اور پژمردگی سی چھائی رہتی ہے۔ پس یہ صحیح ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ

ایشیاء میں ملیریا

نہایت سخت ہوتا ہے لیکن اسی ایشیاء میں وہ لوگ بھی ہوئے ہیں جنہوںنے دنیا میں اتنے مہتم بِالشان او رحیرت انگیز کام کئے ہیں کہ دنیا ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ اسی ایشیاء میں

رسول کریم ﷺ

ہوئے ہیں جن کی زندگی پر جب اس لحاظ سے غور کیا جائے کہ وہ کیسی محنتی زندگی تھی تو ہمیں اس میں محنت کا ایسا اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے کہ اُسے دیکھ کرحیرت آجاتی ہے۔

دنیا میں ایک شخص جرنیل ہوتا ہے اور وہ جرنیلی کے کاموں میں ہی تھکا رہتا ہے، کوئی استاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ سکول کا کام اتنا زیادہ ہے کہ دماغ تھک جاتا اور جسم چُور چُور ہوجاتا ہے، ایک جج ہوتا ہے اور وہ یہ شور مچاتا رہتا ہے کہ ججی کا کام اتنا زیادہ ہے کہ میری طاقتِ برداشت سے بڑھ کر ہے، ایک وکیل ہوتا ہے اور وہ یہ شکوہ کرتا رہتا ہے کہ وکالت کا کام اتنا بھاری ہے کہ مجھے اس سے ہوش ہی نہیں آتا، ایک میونسپل کمیٹی کا پریذیڈنٹ ہوتا ہے اور وہ اس امر کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ اتنا زیادہ کام ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا اسے کس طرح کروں،ایک

لیجسلیٹواسمبلی کا سیکرٹری

ہوتا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ قانون سازی کا کام اتنا بھاری ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوں۔ غرض ایک ایک کام انسان کی کمر توڑدینے کے لئے کافی ہے مگر محمدﷺ کی زندگی میں یہ سارے کام بلکہ ان کے علاوہ اور بھی

بیسیوں کام

ہمیں ایک جگہ اکٹھے نظر آتے ہیں۔ محمد ﷺ معلّم بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کو دین پڑھاتے اور رات دن پڑھاتے، محمد ﷺ جج بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرتے، محمد ﷺ پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتے کیونکہ بلدیہ کے حقو ق کی نگرانی و صفائی کی نگہداشت اور چیزوں کے بھائو کا خیال رکھنا یہ سب کام آپ کرتے، پھر رسول کریم ﷺ مقنّن بھی تھے کیونکہ آپ قرآن کریم کے احکام کے ماتحت لوگوں کو قانون کی تفصیلات بتاتے اور ان کا نفاذ کرتے، اسی طرح رسول کریم ﷺ جرنیل بھی تھے کیونکہ آپ لڑائیوں میں شامل ہوتے اور مسلمانوں کی جنگ میں راہبری فرماتے، رسول کریم ﷺ بادشاہ بھی تھے کیونکہ آپ تمام قسم کے ملکی اور قومی انتظامات کا خیال رکھتے، پھر اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام تھے جو رسول کریم ﷺ کے سپرد تھے مگر آپ یہ سب کام کرتے اور اسی علاقہ میں رہ کر کرتے جس میں رہنے والوں کی سستی کی دلیل بعض ڈاکٹر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ملیریا زدہ علاقہ ہے۔ آخر آپ بھی تو ایشیاء کے ہی رہنے والے تھے یورپ کے رہنے والے تو نہ تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں

اپنی صحت کی درستی کا خیال

رکھنا چاہئے اور ملیریا کو اس بات کا موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہماری تندرستی برباد کرے مگر ملیریا بھی تو بعض کمزوریوں کی وجہ سے ہی آتا ہے یا روحانی کمزوریاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا جسمانی سستیاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا امنگوں کی کمی ملیریا کا شکار بنادیتی ہے۔ دنیا میں امنگ بھی بہت حد تک بیماریوں کامقابلہ کرتی ہے۔ بے شک بداحتیاطی او ربدپرہیزی بھی بیماری لانے کا باعث بنتی ہے مگر

امنگیں بیماری کو دبا لیتی ہیں

لیکن وہ جوپہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال چکا ہو او رکہے کہ ’’آ بیل مجھے مار‘‘اور بیماریوںکے مقابلہ کی تاب اپنے اندر نہ رکھتاہو اس پر بیماری بہت جلد غلبہ پالیتی ہے۔ لیکن وہ جو اپنی امنگوں کو زندہ رکھتا، اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا اور اپنے حوصلہ کو بلند رکھتا ہے بیماری اس پر غلبہ نہیں پاسکتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی حکومت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اگر بیماری اس پر حکومت کرنا چاہے تو وہ اس کی حکومت سے بھی انکار کردیتا ہے۔ پس میں تسلیم کرتا ہوں کہ بیماری کا علاج ہونا چاہئے مگرمیں یہ ہرگز تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ یہ سست اور نکمّا بنانے کا کافی سبب ہے۔ ایسے ہی حالات میں رسول کریم ﷺ نے جس محنت اورمشقت کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے آپ کے متبعین میں سے کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ کہے کہ ملیریا کا ہمارے ملک میں پایا جانا ہمارے ملک کی سُستی اور غفلت کے لئے کافی عذر ہے۔ ہم جب

رسول کریم ﷺ کی زندگی

دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ آدھی رات کے بعد اٹھ بیٹھتے اور عبادت شروع کردیتے ہیں۔ اسی عبادت کے دورا ن میں فجر کی اذان ہوتی ہے اور آپ کو نماز کے لئے اطلاع ملتی ہے رسول کریم ﷺ نما زپڑھانے چلے جاتے ہیں۔ نمازپڑھا کر آپ مسجد میں ہی بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں جس کو کوئی ضرورت اوراحتیاج ہو وہ بیان کرے۔ اس پر پہلے جن جن لوگوں کورات کو کوئی خواب آیا ہوتا وہ بیان کرتے اور آپ تعبیریں بتاتے، اس کے بعد جنہیں کوئی دوسری حاجتیں ہوتیں وہ آپ کے سامنے اپنی حاجات بیان کرتے اور آپ مناسب مشورے دیتے۔ پھر صحابہ کو آپ قرآن کی تعلیم دیتے بعض کو حفظ کراتے اور بعض کو معانی بتاتے پھر مقدمات والے آجاتے اور آپ ان کے جھگڑوں کو سنتے اور فیصلہ کرتے۔ مقدمات سننے کے بعد

ظہر کا وقت

آجاتا ہے اور آپ کھانا کھانے اندر تشریف لے جاتے ہیں اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے نکلتے ہیں۔ ظہر کی نماز کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، درس و تدریس ہوتا ہے، اسلامی ضروریات پر مشورے ہوتے ہیں، قانون کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں، افتاء کا کام کیا جاتا ہے اسی میں عصر کا وقت آجاتا ہے اور آپ عصر کی نماز پڑھانے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر یا تو نصائح کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے یا فوجی مشقیں ہونے لگتی ہیں کیونکہ بالعموم عصر کے بعد رسول کریم ﷺ صحابہ سے فوجی مشقیں کراتے کہیں تیر اندازی ہوتی، کہیں کشتی ہوتی، کہیں گھڑدوڑ ہوتی اسی طرح بِالعموم ظہر سے پہلے اور اشراق کے بعد رسول کریم ﷺ بازار تشریف لے جاتے اور بھائو وغیرہ معلوم کرتے اور دیکھتے کہ کہیں دکاندار دھوکا تو نہیں کررہے یا لوگ دکانداروں پر تو ظلم نہیں کررہے اور عصر کے بعد

وعظ و نصیحت کا سلسلہ

شروع ہوتا یا صحابہ کو فوجی مشقیں کرائی جاتیں اور انہیں جنگ کے لئے تیار کیا جاتا۔ گویا اس وقت رسول کریم ﷺ جرنیل کے فرائض سرانجام دیتے پھر مغرب کی نماز پڑھا کرکھانا کھاکر آپ مسجدمیں آجاتے اور مجلس لگ جاتی پھر عشاء تک یا تو مقدمات کے تصفیے ہوتے یا شکایات سنی جاتی ہیں یا تعلیم دی جاتی ہے اسی دوران میں عشاء کی نماز کا وقت آجاتا ہے اور عشاء کی نماز پڑھ کر اور نوافل سے فارغ ہوکر آپ سوجاتے اور آدھی رات کے بعد پھر اٹھ بیٹھتے اور اسی کام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ غرض اس زندگی میں ایک منٹ بھی تو ایسا نہیں آتا جسے ہمارے ہاں گپیں ہانکنے کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے اور

نہایت قیمتی وقت

محض بکواس میں ضائع کردیا جاتا ہے کہ فلاں کا یہ حال ہے اور فلاں کا یہ۔ اور اصل کام کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اسی وقت کے اندر رسول کریم ﷺاپنی

بیویوں کے حقوق

بھی اداکرتے تھے اور اتنی توجہ سے ادا کرتے تھے کہ ہر بیوی سمجھتی تھی کہ سب سے زیادہ میں ہی آپ کی توجہ کے نیچے ہوں۔ پھر بیوی بھی ایک نہیں آپ کی نو بیویاں تھیں اورنو بیویوں کے ہوتے ہوئے ایک بیوی بھی یہ خیال نہیں کرتی تھی کہ میری طرف توجہ نہیں کی جاتی۔چنانچہ عصر کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺکا معمول تھا کہ آپ ساری بیویوں کے گھروں میںایک چکر لگاتے اور ان سے ان کی ضرورتیں دریافت فرماتے۔ پھر بعض دفعہ خانگی کاموں میں آپ ان کی مدد بھی فرمادیتے اس کام کے علاوہ جو میں نے بیان کئے ہیں اوربھی بیسیوں کام ہیں جو رسول کریم ﷺ سرانجام دیتے ہیں۔ پس آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو فارغ ہو مگر آپ بھی اسی ملیریا والے ملک کے رہنے والے تھے۔ پھر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام

کو ہم دیکھتے ہیں جو آپ کے ظلّ تھے۔ مجھے یا د ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کی یہ حالت ہوتی کہ ہم جب سوتے تو آپ کو کام کرتے دیکھتے اور جب آنکھ کھلتی تب بھی آپ کوکام کرتے دیکھتے اور باوجود اتنی محنت اور مشقت برداشت کرنے کے جو دوست آپ کی کتابوں کے پروف پڑھنے میں شامل ہوتے آپ ان کے کام کی اس قدر،قدر فرماتے کہ اگر عشاء کے وقت بھی کوئی آواز دیتا کہ حضور میں پروف لے آیا ہوں تو آپ چارپائی سے اُٹھ کر دروازہ تک جاتے ہوئے راستہ میں کئی دفعہ فرماتے جزاک اللہ۔ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی جزاک اللہ۔ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ حالانکہ وہ کام اس کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جو آپ خود کرتے تھے۔ غرض اس قدر کام کرنے کی عادت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دیکھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں حیرت آتی۔ بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ آپ کو ٹہلنا پڑتا مگر اس حالت میں بھی آپ کام کرتے جاتے۔سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو راستہ میں بھی

مسائل کا ذکر کرتے

اور سوالات کے جوابات دیتے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس ملیریا زدہ علاقہ کے تھے بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا میں جتنے عظیم الشان کام کرنے والے انسان ہوئے ہیں وہ سب اسی ملیریا والے ملک میں ہوئے ہیں کیونکہ

اکثر معروف انبیاء ایشیاء میں ہوئے ہیں

حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے اور حضرت دائود علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے بلکہ حضرت کرشنؑ، حضرت رام چندرؑ اور حضرت زرتشت بھی اسی علاقہ کے رہنے والے تھے۔ تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہمیں اپنی صحتوں کو درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے مگر مغرب کے کسی ڈاکٹر کا کوئی فقرہ سن کر اس کے پیچھے چل پڑنا بھی تو نادانی ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button