متفرق مضامین

مولوی صاحبان کی مایوسی،جھوٹ کی نجاست،جماعت احمدیہ کی ترقیات کا خوف اور ذکرچھتر پلین مانسہرہ کی ایک شام کا

(علی مانسہروی)

قادیان کا ایک سو ستائیسواں جلسہ سالانہ اپنی تمام تر برکات اور آب و تاب کے ساتھ اختتام پذیر تو ہو گیا مگر اپنے پیچھے بہت ہی حسین اور ایمان افروز یادیں چھوڑ گیا ہے۔افریقہ کے بہت سے ممالک کےجلسہ ہائے سالانہ پیارے آقا کے خطاب کے ساتھ اپنے اختتامی لمحات میں داخل ہو رہے تھے۔پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ لحنِ داؤدی میں شرائط بیعت کے حوالے سے جماعت کوبرائیوں سے پاک ایک خوبصورت جنت نظیر معاشرہ بنانے کے خدوخال سے آگاہ کر رہے تھے ’’یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے‘‘ طاہر و طیب خطاب ختم ہوا تو میرا دھیان اس طرف چلا گیا کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف جھوٹ کا پر چم لے کر اُٹھے تھے اور فتاویٰ دے دیے گئے تھے کہ احیائے حق کی خاطر جھوٹ بولنا جائز ہے اور پھر خود سے ہی جماعت اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف ہر جھوٹی،خلافِ شرع، خلافِ تاریخ، خلافِ عقل اور غیر معروف بات کہنے کو حق سمجھ لیا تھاآج اُن کے معاشرے کس دلدل میں آن پھنسے ہیں کہ اوّل المخالفین بھی اس پستی پر پشیمان و پریشان ہیں اورکھڑے ندامت سے اظہار کر رہے ہیں کہ’’میرا دکھ یہ ہے کہ وہ سارے قادیانی جن کے خلاف مَیں پرچم اٹھا کر کھڑا ہوتا ہوں،وہ مجھے جب ایسے جھوٹ پر مبنی بےہودہ اور بےسروپا الزامات والی گفتگو بھیجتے ہیں تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسی گفتگو کرنے والے سوچیں کہ یہ قادیانی تمہارے اس جھوٹے پروپیگنڈے کو اپنی اولاد کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوں گے کہ دیکھو یہ ہیں وہ لوگ جو چھوٹی سی سیاسی کامیابی کے لئے بھی اتنا بڑا جھوٹ بول سکتے ہیں ان پر تم کیسے اعتبار کر سکتے ہو‘‘۔

مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان کے اندرہو یاباہر ہر جگہ پر جماعت کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر اس کربیہ اظہار سے وہ بھی اپنے آپ کو باز نہیں رکھ سکے کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتے کرتے اب تو لوگ آپس میں بھی اپنے کام اور دشمنیاں نکلوانے کے لیے ایک دوسرے پر جھوٹا احمدی ہونے کا الزام لگا دیتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب کا اپنے ہی مسلک کے لوگوں سے اختلاف ہوا تو انہوں نے آپ پر بھی یہی الزام لگا دیا۔انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر’’میری قادیانیت نوازی کی داستان‘‘ ایک لمبا مضمون لکھا ہے۔میں اس حصہ کو چھوڑ کر مضمون کا آخری حصہ درج کرتا ہوں۔ آپ لکھتے ہیں:

یہ الزام لگائے بغیر جلسہ کی اجازت نہ ملتی

’’1974کی تحریک ختم نبوت کی بات ہے۔ میں اس وقت کل جماعتی مجلس تحفظ ختم نبوت ضلع گوجرانوالہ کا سیکرٹری تھا اور مرکزی جامع مسجد چونکہ تحریک کامرکز تھی، اس لیے تحریک کے تنظیمی اور دفتری معاملات کا انچارج بھی تھا۔ ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں تحریک کے جلسے کاپروگرام تھا جس میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت کے لیے اے سی کو درخواست دے رکھی تھی۔راقم الحروف تحریک ختم نبوت کے ایک اور راہ نما کے ساتھ اے سی گوجرانوالہ سے ملا کہ وہ اجازت دے دیں۔ انھوں نے حالات کی خرابی اور جھگڑے کے خدشے کے عنوان سے ٹال مٹول کرنا چاہی۔ میرے ساتھ جانے والے دوست نے اچانک ان سے کہہ دیا کہ آپ قادیانی تو نہیں ہیں؟ اے سی کچھ گھبرا سا گیا اور یہ کہہ کر منظوری کے دستخط کر دیے کہ مولوی صاحب! اتنا بڑا الزام مجھ پر نہ لگائیں اور جائیں، جا کر جلسہ کریں۔ اے سی کے دفتر سے باہر نکلے تو مولوی صاحب سے میں نے کہاکہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا کہ اس کے بغیر وہ اجازت نہ دیتا۔ اس وقت تو میں نے بھی محسوس نہ کیا کہ ہم جس کام کے لیے گئے تھے، وہ ہو گیا تھا، لیکن بعد میں یہ بات آہستہ آہستہ کھلتی چلی گئی کہ ہم بسا اوقات اپنا کام نکلوانے کے لیے یا کوئی غصہ نکالنے کے لیے بھی کسی اچھے بھلے مسلمان کو قادیانی کہہ دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کے بعد تحریکی زندگی میں بہت سے مراحل ایسے آئے کہ اچھے خاصے بزرگوں کی طرف سے بھی اسی قسم کے طرز عمل کا مشاہدہ کرنا پڑا۔‘‘

منظور چنیوٹی صاحب کا ایس ایس پی سے کام نکلوانے کے لیے الزام

مزید لکھتے ہیں:’’پنجاب کے سابق آئی جی پولیس احمد نسیم چودھری گکھڑ کے رہنے والے ہیں۔ میرے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ انھوں نے قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم ہمارے گھر میں ہماری والدہ محترمہ سے حاصل کی ہے اور ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز کے خاص عقیدت مندوں میں سے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ ضلع جھنگ کے ایس ایس پی تھے۔ ایک روز حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ گوجرانوالہ میرے پاس تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا کہ ہمارے ضلع کا ایس ایس پی مرزائی ہے۔میں نے چونک کر دریافت کیا کہ کیا ضلع جھنگ کا ایس ایس پی تبدیل ہو گیا ہے؟ فرمایا کہ نہیں، وہی احمد نسیم ہے۔ میں نے حیرت سے کہا کہ حضرت! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ فرمانے لگے کہ میں نے تحقیق کر لی ہے، وہ قادیانی ہے اور اس کا نام بھی قادیانیوں والا ہے۔ مجھے سخت غصہ آیا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ اسے نہیں، مجھے قادیانی کہہ رہے ہیں۔ مولانا چنیوٹی بھی چونکے اور فرمایا، کیا تم اسے جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ میرا دوست ہے، بھائی ہے، کلاس فیلو ہے اور حضرت والد صاحب کے شاگردوں میں سے ہے۔پھر میں نے مولانا چنیوٹی کو احمد نسیم چودھری کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتایا تو بڑے پریشان ہوئے۔قارئین کی معلومات کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ جس زمانے میں احمد نسیم چودھری لاہور کے ایس ایس پی تھے، اخبارات میں ان کے خلاف بعض حلقوں کا بیان شائع ہوا تھاکہ لاہور کے ایس ایس پی نے لاہور کے تھانوں کی مساجد میں دیوبندی اماموں کی بھرمار کر دی ہے۔مولانا چنیوٹی میری بات سن کر الجھن میں پڑ گئے اور فرمایا کہ مجھے اس کے ایک ڈی ایس پی نے بڑے وثوق کے ساتھ بتایا ہے کہ وہ قادیانی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ا س بات کی تحقیق کریں کہ اس ڈی ایس پی نے ایسا کیوں کہا ہے؟ کچھ دنوں بعد مولانا چنیوٹی نے خود مجھے بتایا کہ تمہاری بات ٹھیک ہے۔ اس ڈی ایس پی کا کوئی کام ایس ایس پی نے نہیں کیا تھا اور ا س نے غصہ نکالنے کے لیے اس عنوان سے مجھے استعمال کرنا چاہا،مگر تم نے اچھا کیا کہ مجھے بروقت آگاہ کر دیااور میں اس سے بچ گیا۔ اس کے بعد میری درخواست پر احمد نسیم چودھری اور مولانا چنیوٹی کی باہم ملاقات ہوئی اور پھر ان کے درمیان بہت اچھے دوستانہ مراسم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔‘‘

بحرین میں سفارتخانے سے کام نکلوانے کے لیےالزام

ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’مولانا چنیوٹی چونکہ اس محاذ کے جرنیل تھے اور ان کی بات کو اس حوالے سے سند سمجھا جاتا تھا، اس لیے بعض لوگ مولانا موصوف کی اس پوزیشن سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ناروا کوشش کرتے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ مولانا چنیوٹی کہیں جاتے ہوئے میرے پاس گوجرانوالہ میں رکے اور بریف کیس سے ایک فائل نکال کر مجھے دکھائی کہ گکھڑ کا ایک شخص غالباً بحرین کے پاکستانی سفارت خانے میں افسر ہے جس کے بارے میں وہاں سے بعض پاکستانیوں کے خطوط آئے ہیں جن کی ساہیوال کے ایک بڑی دینی جامعہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ وہ شخص قادیانی ہے اوربحرین کے پاکستانیوں کو تنگ کر رہا ہے۔ چونکہ وہ گکھڑ کا رہنے والا ہے، اس لیے تمہارے ساتھ مشورہ کے لیے آیا ہوں۔ میں نے نام پوچھا تو بتایا کہ اس کا نام شعبان اپل ہے۔ میرے دونوں ہاتھ بے ساختہ کانوں تک چلے گئے کہ اس کا معاملہ بھی احمد نسیم چودھری کی طرح کا تھا۔ وہ ہمارا پڑوسی تھا۔ ہمارا بچپن اکٹھے گزرا۔ میں نے لکھنا پڑھنا اس کی ہمشیرہ سے سیکھا اور اس نے قرآن کریم میری والدہ مرحومہ سے پڑھا۔ اس کی والدہ اور میری والدہ آپس میں سہیلیاں بنی ہوئی تھیں اور ہم اس کی والدہ کو خالہ جی کہا کرتے تھے۔ آج بھی ان کی یاد آتی ہے تو اس دور کی حسین یادیں دل میں گدگدی کرنے لگتی ہیں۔ میں نے وہ فائل ایک نظر دیکھی اوریہ کہہ کر مولانا چنیوٹی کو واپس کر دی کہ اس نے کسی کا کام نہیں کیا ہوگا اور اس نے بدلہ لینے کے لیے یہ حرکت کر دی ہے۔ مولانا چنیوٹی بھی فرمانے لگے کہ اچھا ہوا، میں نے تم سے پوچھ لیا، ورنہ میں بحرین کی حکومت اور پاکستان کی حکومت دونوں کو باضابطہ خط لکھنے والا تھاکہ اس افسر کو بحرین کے پاکستانی سفارت خانے سے واپس کیا جائے۔‘‘

بعض واقعات تو اس سے بھی زیادہ خوف ناک ہیں جو میرے حافظے میں محفوظ ہیں

پھر لکھتے ہیں ’’بعض واقعات تو اس سے بھی زیادہ خوف ناک ہیں جو میرے حافظے میں محفوظ ہیں۔ مگر ایک اور واقعہ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک دفعہ گوجرانوالہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں سرکردہ علماء کرام کا ڈویژنل سطح پر اجلاس تھا۔ اس میں ضلع سیالکوٹ کے ایک محترم بزرگ نے بڑے وثوق کے ساتھ اپنے خطاب میں کہا کہ پنجاب کا سیکرٹری تعلیم قادیانی ہے، اس کے بارے میں آواز اٹھانی چاہیے۔ اجلاس کے بعد میں نے ان سے علیحدگی میں پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے اور آپ نے تحقیق کر لی ہے؟ انھوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ہاں، وہ بہت پکا قادیانی ہے۔ ضیاء الحق مرحوم کا دور حکومت تھا اور ان کے ایک مشیر کے ساتھ جو تعلیم کے شعبہ ہی کے مشیر تھے، میری علیک سلیک تھی۔ کچھ دنوں کے بعد میرا اسلام آباد جانے کا پروگرام بن گیا اور میں نے طے کیا کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے اس مشیر سے اس سلسلے میں خود بات کروں گا۔ ان دنوں میرے ایک پرانے دوست پروفیسر افتخار احمد بھٹہ وفاقی وزارت تعلیم میں افسر تھے۔ پہلے میں نے ان سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا اور خیال کیا کہ انھیں بھی ملاقات میں ساتھ لے جاؤں گا۔ انھوں نے میری بات سنی تو فرمایا کہ تم نے بہت اچھا کیا کہ مجھ سے بات کر لی، ورنہ بہت گڑبڑ ہو جاتی، اس لیے کہ جن صاحب کے پاس تم یہ شکایت لے کر جا رہے ہو، یہ ان صاحب کے داماد ہیں جن کی شکایت کرنے آئے ہو اور دونوں میں سے کوئی بھی قادیانی نہیں ہے۔ میرے کچھ اور کام بھی تھے، مگر پروفیسر افتخار احمد بھٹہ کی یہ بات سن کر میں اتنا کنفیوژ ہوا کہ میں نے سرے سے ان مشیر صاحب سے ملاقات کا ارادہ ہی ترک کر دیا اور واپس گوجرانوالہ چلا آیا۔‘‘

مخالفت احمدیت کرو مگر کوئی اخلاق تو رکھو

آپ اپنے نوحہ کے آخر پر بے بسی سے لکھتے ہیں: ’’عقیدۂ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کرنا عبادت ہے اور قادیانیوں کا ہر محاذ پر تعاقب کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے، لیکن ہر جدوجہد اور محاذ کی کچھ اخلاقیات بھی ہوتی ہیں۔ پھر ہمارا دین تو ’’دین اخلاق‘‘کہلاتا ہے اور ہم ساری دنیا کے سامنے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اخلاق عالیہ کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ کیا خود ہمارے لیے ان اخلاقیات کا لحاظ کرنا ضروری نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔‘‘

http://alsharia.org/2011/sep/kalmahaq

وہ لوگ جو چھوٹی سی سیاسی کامیابی کے لیے بھی اتنا بڑا جھوٹ بول سکتے ہیں ان پر تم کیسے اعتبار کر سکتے ہو

اوریامقبول جان صاحب کی جماعت احمدیہ مخالفت سے کون واقف نہیں۔ مگر جن دنوں عمران خان صاحب کی حکومت میں مولوی فضل الرحمٰن صاحب اسلام آباد دھرنا لے کر آئے ہوئے تھے انہوں نے کرتار پور اور عمران خان کو جماعت احمدیہ سے جوڑنے کے لیے نت نئے بیان دینا شروع کیے تو اوریا صاحب نے اپنی ندامت کا اظہار ایک کالم کی شکل میں ان الفاظ میں کیا:’’اب میں جو بیان کرنے جا رہا ہوں وہ انتہائی کرب،دکھ اور تکلیف سے بتا رہا ہوں۔ ہمارے اس روئیے کی وجہ سے میں بارہا دشمنوں کے سامنے شرمندہ اور لاجواب ہوا ہوں۔ جب سے کرتا رپور راہداری کھول کر سکھوں کے مقدس ترین مقام کو راستہ دینے کا اعلان ہوا ہے ہمارے مذہبی، مسلکی اور سیاسی راہنمائوں نے اسے در پردہ قادیانیوں کو سہولت دینے کی سازش قرار دیا ہے…یہ دراصل سرحد کے ساتھ ساتھ چار مربع کلومیٹر کا ایک احاطہ ہو گا جس کو چاروں طرف سے مضبوط فصیل (Fence) نے گھیرا ہوگا۔جس کا ایک دروازہ بھارت کی طرف کھولا گیا ہے اس سے پہلے بھارتی سکھ دریا کے پار کھڑے ہو کر گوردوارہ صاحب کا درشن کرتے اور بھیگتی آنکھوں سے واپس چلے جاتے اب وہ اس دروازہ سے فصیل زدہ علاقے میں داخل ہو نگےدرشن کریں گے ماتھا ٹیکیں گے اور واپس چلے جائیں گے…اب اس جھوٹ،افتراء اور بہتان کی بات کرتے ہیں کہ یہ قادیانیوں کو سہولت دینے کے لیےکیا جارہا ہے۔اس وقت قادیانی ربوہ سے براستہ امرتسر قادیان جاتے ہیں اور پورا راستہ موٹرویز اور شاندار سڑکوں سے منسلک ہے۔ ربوہ سے لاہور 170کلومیٹر ہے اور لاہور سے قادیان براستہ امرتسر 102کلومیٹر۔ یہ سارا سفر سات سے آٹھ گھنٹوں میں بہترین سڑکوں پر مکمل ہوتا ہے۔ اب قادیانیوں اور حکومت کی ملی بھگت سے قادیانی پہلے ربوہ سے لاہور آئیں گے پھر یہ102کلومیٹر کی صاف شفاف سڑک چھوڑ کر 145 کلومیٹر ٹوٹی پھوٹی روڈپر کرتارپور جائیں گے اور پھر وہاں سے 44کلومیٹر مزید فاصلہ طے کرکے ایک اور بوسیدہ سڑک پر قادیان پہنچیں گے۔یعنی سفر کی اذیت کے علاوہ وہ چار گھنٹے مزید سفر بھی کریں گے۔ لیکن کمال ہے اس عصبیت اور منافقت کا جو عمران کی دشمنی میں ہمارے مذہبی طبقے کو بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ میرا دکھ یہ ہے کہ وہ سارے قادیانی جن کے خلاف میں پرچم اٹھا کر کھڑا ہوتا ہوں،وہ مجھے جب ایسے جھوٹ پر مبنی بےہودہ اور بے سروپا الزامات والی گفتگو بھیجتے ہیں تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسی گفتگو کرنے والے سوچیں کہ یہ قادیانی تمہارے اس جھوٹے پروپیگنڈے کو اپنی اولاد کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوں گے کہ دیکھو یہ ہیں وہ لوگ جو چھوٹی سی سیاسی کامیابی کے لئے بھی اتنا بڑا جھوٹ بول سکتے ہیں ان پر تم کیسے اعتبار کر سکتے ہو‘‘(آپ کی تحریر کا یہ حصہ مشہور صحافی سبوخ سید صاحب کی فیس بک وال پر بھی دیکھا جا سکتا ہے)

ان علمائے کرام حضرات کی بات سے مجھے تبلیغ کے دوران گزرا اپنا ایک ذاتی واقعہ یا دآگیا ہے۔جنوری 1997ء کی ایک سرد شام مَیں وادی ہزارہ کے سیاحتی مقام چھتر پلین میں ایبٹ آباد مجلس کے خدام مکرم رفیع تنولی اور مکرم اعجاز خان صاحب کے ساتھ ایک بڑے سید سردار عزت علی شاہ صاحب کی بیٹھک میں موجود تھا۔ بیٹھک میں زمین پر انتہائی نفیس قالین بچھا کر اور گائو تکیے لگا کر بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔علاقے کے سرکردہ لوگ جن میں کچھ وکیل،کچھ بزنس مین اور بڑے بڑے زمیندار جمع تھے۔بڑے شاہ صاحب نے اپنے پوتے کے دبئی سے واپس آنے کی خوشی میں ایک بڑے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ان سب میں سے صرف ہم لوگ ہی اس محفل کے لیے اجنبی تھے۔ مکرم عزت علی شاہ صاحب کے منجھلے بیٹے سے ہماری تبلیغی بات چیت جاری تھی اور اُسی کی دعوت پر ہم لوگ بھی اس محفل میں شریک تھے۔ گرم شالیں اوڑھے علاقے کے یہ چنیدہ لوگ غم جاناں،غم ہستی اور غم دوراں پر گرم گرم تبصرے کر رہے تھے۔بات پولیٹکل مسائل سے ہوتی ہوئی مذہبی سیاست پر آئی اور پھر مولوی حضرات کی طرف مڑگئی۔

ایک جہاندیدہ وکیل صاحب نے خطیب ہزارہ جناب مولوی اسحاق مانسہروی صاحب کا ایک قصہ سنا کر محفل کو زعفران زاربنا دیا۔لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور ہم اور ہمارا زیر تبلیغ دوست کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔وکیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہوا یوں کہ مولوی اسحاق مانسہروی جو بہت شعلہ بیان خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ’’خطیب ہزارہ ‘‘کی مسند پر بھی فائز تھے۔ قانون تھا کہ مانسہرہ میں جو بھی نیا افسر آتا وہ پہلے آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوتا، نذر نیاز پیش کرتا اور دعا کی درخواست کرتا۔ اسی دوران ایک اےسی صاحب تشریف لائے مگر دو ہفتے گزرنے کے باوجود نہ رابطہ کیا،نہ دعاکا کہا اور نہ ہی نذرانہ بھجوایا۔یاران حلقہ نے اس طوطا چشم،ناخلف کے بارے میں لب کشائی کی کہ یا حضرت! بڑا بدید ہے۔اس کو کسی نے ادب آداب ہی نہیں سکھائے۔ مولانا نے ترنگ میں آکر فرمایا جائو اس خبیث کے بارے میں معلومات اکٹھی کرو۔ آخر اس نے اتنی جرأت کیسے کی؟احباب نے بتایا کہ یا حضرت!ہم نے پہلے ہی سے معلومات حاصل کرلی ہیں۔ یہ بڑا کٹر وہابی ہے اور آپ ٹھہرے اہل سنت۔وہ آپ کے پاس دعا کے لیے کیوں حاضر ہو گا؟وہ تو آپ کو کافر سمجھتا ہے۔مولانا جلال میں آگئے فرمایا آنے دو جمعہ کا دن۔ اس خبیث وہابی کا بندوبست کرتے ہیں دیکھتا ہوں کیسے ایڑیا ںرگڑتے ہوئے حاضر نہیں ہوتا۔

چنانچہ جمعہ کا دن آگیا۔ مولانا نے خطبہ جمعہ کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا ’’اے اہل ہزارہ کے غیور مسلمانوں!تاجدار عربی کےغلاموں!تمہارے ایمان کے امتحان کا وقت آن پہنچا ہے۔ کمر ہمت کس لو۔اور ایمان بچانے کے لیے اور ہر قربانی کے لیے تیار ہو جائو۔ حکومت وقت نےہم مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے ہزارہ کے عظیم مسلمانوں پر ایک قادیانی کو اے سی بناکر متعین کر دیا ہے۔ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اگر اگلے جمعہ تک اس مرتد قادیانی کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہزارہ کے سرفروش مسلمان کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اس کے بعد کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔‘‘

جمعہ ختم ہوا۔ اہل کاروں نے جناب اے سی صاحب کو اطلاع دی اور اُنہوں نے پہلی فرصت میں گاڑی پکڑی اور مولانا کے پاس روتے پیٹتے حاضر ہو گئے۔یا حضرت! میرے خاندان میں دور دور تک کوئی قادیانی نہیں ہے پھر آپ نے اتنا بڑا الزام مجھ پر بغیر تحقیق کےکیسے لگا دیا؟ مولانا فاتحانہ انداز میں مسکرائے اور فرمایا او ناخلف مجھے پتا ہے کہ تیرے خاندان میں دور دور تک کوئی قادیانی نہیں ہے مگر تیرے جیسے سر پھروں کا یہی ایک کامیاب علاج ہے۔آئندہ احتیاط کرنا۔اور وقت پر نذرانہ بھجواتے رہنا۔ چنانچہ اگلے جمعہ مولانا نے الحمد للہ سے خطبہ شروع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تحقیق کی گئی ہے اور پتا چلا ہے کہ بات غلط تھی۔ اےسی صاحب مسلمان ہیں۔ اہل ایمان مطمئن رہیں جب تک ان بوڑھی ہڈیوں میں جان ہے آپ کے ایمان کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔مسجد سے نکلتے ہوئے تمام مسلمان بہت خوش تھے کہ الحمد للہ ایمان کو لگاخطرہ ٹل گیا۔

یہ قصہ سنا کر وکیل صاحب نے بہت داد وصول کی۔ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے اور ہم اور ہمارا زیر تبلیغ دوست ماتم کناں رہ گئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جھوٹ بولنے اور جھوٹ کا سہارا لینے کا عذر بیان کرنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’حقیقت میں جب تک انسان جھوٹ کو ترک نہیں کرتا،وہ مطہر نہیں ہو سکتا۔نابکار دنیا دار کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں ہوتا۔یہ ایک بیہودہ گوئی ہے۔اگر سچ سے گذارہ نہیں ہو سکتا،تو پھر جھوٹ سے ہرگز گذارہ نہیں ہو سکتا۔…وہ اپنا معبود اور مشکل کشا جھوٹ کی نجاست ہی کو سمجھتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جھوٹ کوبتوں کی نجاست کے ساتھ وابستہ کر کے بیان فرمایا ہے…جو لوگ صدق کو چھوڑ دیتے ہیںاور خیانت کر کے جرائم کو پناہ میں لانے والی سپر کذب کو خیال کرتے ہیں۔وہ سخت غلطی پر ہیں۔ کذب اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے آنی اور عارضی طور پر ممکن ہے اس سے کسی انسان کو کچھ فائدہ حاصل ہو جائے،لیکن فی الحقیقت کذب کے اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے اور اندر ہی اندرسے ایک دیمک لگ جاتی ہے۔ایک جھوٹ کے لیے پھر اسے بہت سے جھوٹ تراشنے پڑتے ہیں،کیونکہ اس جھوٹ کو سچائی کا رنگ دینا ہوتا ہے۔اسی طرح اندر ہی اندر اس کے اخلاقی اور رُوحانی قویٰ زائل ہو جاتے ہیں اور پھر اُسے یہانتک جرأت اور دلیری ہو جاتی ہے کہ خداتعالیٰ پر بھی افتراء کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ کے مُرسلوں اور مامُوروں کی تکذیب بھی کر دیتا ہے اور خداتعالیٰ کے نزدیک اَظْلَمْ ٹھہر جاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 243تا245،ایڈیشن1988ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کی روشنی میں جھوٹ کے ہر زاویہ سے بچائےاور سداسچ کو سپر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button