امریکہ (رپورٹس)دورہ امریکہ ستمبر؍اکتوبر 2022ء

دورۂ امریکہ کا سترھواں روز 12؍ اکتوبر 2022ء بروز بدھ

(رپورٹ:عبدالماجد طاہر۔ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد)

٭…امریکہ مین متعین سیرالیون کے سفیر ، نیز گیمبیا کے سفیر کے سیکرٹری کی حضورِ انور سے ملاقات اور مختلف امور پر تبادلہ خیال

٭…اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کی پروفیسر شعبہ تاریخ کی ملاقات

٭…امریکہ کے دور دراز علاقوں سے حاضر ہونے والے احبابِ جماعت کے اپنے پیارے امام سے ملاقات کے بعد تاثرات

٭…ایم ٹی اے ٹیلی پورٹ کامعائنہ

٭…اجتماعی بیعت کی ایمان افروز تقریب

٭…واقفاتِ نو اور واقفینِ نوکی پیارے حضور کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں، متنوع امور پر حضورِ انور سے راہنمائی کا حصول

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر ’’مسجد بیت الرحمٰن‘‘ تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

امریکہ میں متعین سیرالیون کے سفیر کی ملاقات

پروگرام کے مطابق صبح گیارہ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ روم میں تشریف لائے۔ جہاں سیرالیون کے امریکہ میں سفیر آنریبل صدیق ابوبکر Wai صاحب حضورِانور سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ موصوف نے حضورِانور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ سیرالیون میں صحت اور تعلیم کے میدان میں مسلسل ہماری مدد کررہی ہے اور جماعت کا تعاون ہمیں حاصل ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ یہ ہمارا فرض ہے۔ سفیر نے بتایا کہ بچپن میں انہیں احمدیہ سکول میں داخلہ نہ مل سکا تھا۔ وہاں معیار دیکھا جاتا تھا۔ میں معیار پر پورا نہ اُتر سکا تھا۔

امریکہ میں متعین سیرالیون کے سفیر کی حضور انور سے ملاقات

حضور انور نے ملک کی معیشت اور اقتصادی حالت کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ ملک کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن کیا ہے۔ اس پرسفیر نے عرض کیا کہ سیرالیون زرعی ملک ہے۔ حضور انور نے فرمایا آپ زراعت پر زیادہ توجہ دیں۔ کوئی ماڈل فارم بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کس طرح زراعت کو زیادہ بہتر کیا جا سکتا ہے۔ آپ لوگ پرانے طریقوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ اب نئی تکنیک اختیار کریں۔ جدید مشینری کا استعمال کریں اور جدید طرز پر کاشتکاری کریں۔

حضور انور نے فرمایا وہاں خواتین پرا نے آلات کے ذریعہ چھوٹے لیول پر کساوا اور بعض دوسری فصلیں کاشت کرتی ہیں۔ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن آپ لوگوں کو بڑے پیمانے پر کام کرنا چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا سیرالیون کی زمین بہت زرخیز ہے۔حضور انور کے دریافت فرمانے پر سفیر موصوف نے بتایا کر امریکہ میں سیرالیون کے چار لاکھ پچاس ہزار کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا یہ تو ایک بڑی تعداد ہے۔

یہ ملاقات قریباً دس منٹ تک جاری رہی۔ ملاقات کے آخر پر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔

تاریخ کی پروفیسر شوبھانہ شنکر کی ملاقات

بعدازاں پروگرام کے مطابق پروفیسر Shobana Shankar نے حضور سے شرف ملاقات پایا۔ موصوفہ اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ اور ان کا تعلق انڈیا سے ہے۔ تاریخ کے شعبہ میں ان کی خصوصیت افریقہ میں مختلف مذاہب، اقلیتی کمیونیٹیز اور بین الاقوامی انسانی ہمدردی ہے۔

پروفیسر صاحبہ نے عرض کیا کہ میں چند سال پہلے غانا بھی رہی ہوں۔ وہاں کچھ عرصہ کے لیے گئی تھی۔ حضور انور نے فرمایا میں نے غانا میں ایک عرصہ گزارا ہے۔ اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ اگر چہ حضور نے کافی عرصہ پہلے غانا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن حضور کا کام اب بھی وہاں زندہ ہے۔ حضور کے کام اب بھی باقی ہیں۔

تاریخ کی پروفیسر شوبھانہ شنکر کی حضور انور سے ملاقات

پروفیسر صاحبہ نے عرض کیا کہ وہ مغربی افریقہ کے احمدیوں پر ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اگر آپ کتاب لکھنا چاہتی ہیں تو آپ کو وہاں جانا پڑے گا اور وہاں کے احمدیوں کے انٹرویوزکرنے پڑیں گے۔ آپ کو خود معلومات حاصل کرنی ہوں گی۔ خاص طور پر اگر آپ تحقیق کرنا چاہتی ہیں توہم آپ کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ پروفیسر صاحبہ کی درخواست پر حضورِانور نے فرمایا کہ مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے حوالہ سے بھی ہم آپ کی مدد کریں گے۔

پروفیسر صاحبہ نے بتایا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن ان کی دادی صاحبہ نے ان کو سکھایا تھا کہ ہندو ہونے کے باوجود مسلمانوں کا احترام کرنا چاہیے۔

موصوفہ کے ایک سوال پر حضور انور نے فرمایا کہ میں چار سال غانا کے انتہائی نارتھ کے علاقہ میں رہا ہوں اور چار سال ساؤتھ کے علاقہ میں رہا ہوں۔ حضورانور نے فرمایا نارتھ اور ساؤتھ میں قبائلی سسٹم مختلف ہے اور ان کے مختلف کلچر ہیں۔ شمال میں مسلمان ہیں اور جنوب میں عیسائی ہیں اور جوجماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے وہ نارتھ میں ہے۔ ہمارے مشن ہاؤسز،سکولز اور ہسپتال ساؤتھ میں ہیں۔ سالٹ پانڈ میں ہمارا پہلا مشن ہاؤس اور مسجد ہے اور وہاں ہمارا ہیڈکوارٹر رہا ہے۔

پروفیسر صاحبہ نے گندم اُگانے کے منصوبہ کے بارہ میں پوچھا جس پر حضورِانور نے فرمایا : میں نے سوچا اگر نائیجیریا میں گندم اُگائی جاسکتی ہےتو یہاں غانا میں کیوں نہیں اُگائی جاسکتی تو میں نے وہاں تجربہ کیا اور یہ کافی کامیاب رہا۔

حضور انور نے فرمایا وہاں ہرقسم کی سبزیاں اُگائی جاسکتی ہیں بشرطیکہ آپ کو مناسب سہولیات حاصل ہوں۔

حضور انور کے استفسار پر پروفیسر صاحبہ نے بتایا کہ وہ اپنی کتاب میں لڑکیوں کے احمدی سکولوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ بہت سے افریقی پروفیسروں نے مجھے بتایا کہ وہ احمدی سکولز میں پڑھتے تھے۔ افریقہ میں لڑکیوں کے لیے بھی بہترین احمدیہ سکولز تھے۔ جہاں لڑکیوں نے بہترین رنگ میں تعلیم حاصل کی۔ موصوفہ نے کہا کہ وہ افریقہ کے پرنٹنگ پریس اور احمدیہ اخبارات سے بھی متاثرہے۔ پہلا اسلامی انگریزی اخبار جماعت احمدیہ نے ہی شروع کیا تھا۔ حضور انور نے فرمایا ’’The Truth‘‘اخبار تھا۔ پروفیسر نے کہا کہ میں اپنی کتاب میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ جماعت احمدیہ نے افریقہ کی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔

آخر پرحضورِانور نے فرمایا کہ افریقہ میں احمدیہ مسلم خواتین اور ان کی تعلیم پر اپنی تحقیق کو وسعت دینے کے لیے سیرالیون اور فرانکوفون ممالک کا بھی دورہ کریں۔

یہ ملاقات گیارہ بج کر 22 منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر موصوفہ نے تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

گیمبیا کے سفیر کے سیکرٹری کی ملاقات

بعدازاں پروگرام کے مطابق حضور انور اپنے دفتر تشریف لے آئے۔ جہاں امریکہ میں گیمبیا کے سفیر کے سیکرٹری Saikou Ceesay صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات پایا۔حضور انور نے موصوف سے گیمبیا کے حالات کے بارہ میں دریا فت فرمایا۔ موصوف Ceesay صاحب نے گیمبیا میں جماعت کی تعلیمی و طبی خدمات اور دیگر منصوبوں اور پروگراموں پر شکریہ ادا کیا۔ موصوف نے بتایا کہ وہ جاپان میں بھی رہے اور جاپانی زبان بھی بولتے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرایا کہ نا گویا جاپان میں ہماری مسجد ہے اور انہیں وہاں جانا چاہیے۔ حضورانور نے فرمایا کہ جماعت جو گیمبیا میں خدمات کی توفیق پارہی ہے یہ انشاءاللہ جاری رہیں گی۔ ملاقات کے آخر پر حضور ِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ موصوف نے تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

فیملیز ملاقاتیں

اس کے بعد پروگرام کے مطابق فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج صبح کے اِس سیشن میں 37 فیملیز کے 162 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

آج ملاقات کرنے والے یہ احباب اور فیملیز Mary Land کی مقامی جماعت کے علاوہ دیگر مختلف 18 جماعتوں اور علاقوں سے آئی تھیں۔ Albany سے آنے والی فیملیز 353 میل، Charlotte سے آنے والی 422 میل، بوسٹن سے آنے والی 427 میل جبکہ Georgia سے آنے والی 661 میل اور Orlando سے آنے والے احباب اور فیملیز 874 میل کا طویل سفر طے کر کے آئے تھے۔

آج بھی ملاقات کرنے والوں میں بہت سے ایسے احباب اور فیملیز تھیں۔ جن کی زندگی میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات تھی۔

جماعت Syracuse سے آنے والے ایک دوست طاہر احمد صاحب کہنے لگے کہ میری تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اس سے اچھا دن میری زندگی میں نہیں ہوسکتا۔ پر میری پہلی ملاقات تھی۔موصوف رورہے تھے۔ جب حضوردور سے آتے تھے تو ہم دیکھ لیتے تھے لیکن آج میں انتہائی قریب تھا۔ میں بتانہیں سکتا کہ میری کیا حالت ہے۔

ایک دوست فاتح باجوہ صاحب Long Island جماعت سے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ میں شروع میں بہت گھبرایا ہوا تھا لیکن جونہی میں اندر گیا اور حضور انور پر نظر پڑی تو میں نے اپنے دل میں بے انتہا سکون پایا۔ ہمیں کل ہی ملاقات کا پتہ چلا۔ میں یہاں مسجد میں ڈیوٹی کررہا تھا۔ میری بیوی نیویارک میں قریباً چار سو میل دور تھی۔ وہ فورا ًٹرین کے ذریعہ یہاں پہنچی ہے اور ہمیں ملاقات کا شرف نصیب ہوا ہے۔

جماعت Atlanta سے آنے والے ایک دوست فضل الہٰی صاحب جب ملاقات کے بعد باہر آئے تو رونے لگ گئے اور بات ہی نہیں کر سکتے تھے۔ بڑی مشکل سے کہنے لگے کہ مجھے اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ میری ملاقات ہوگئی ہے۔ میں دس سال کاتھا اور دعا کرتا تھا کہ میری بھی خلیفہ وقت سے ملاقات ہو۔ آج 34 سال بعد میری ملاقات ہوئی ہے حضور کے چہرہ پر نور ہی نور تھا۔ میں دیکھ نہیں سکتاتھا۔ حضور انور نے ہمیں بہت دعائیں دی ہیں۔ میرے بیٹے کو پیدائش میں تھوڑا مسئلہ ہوا تھا۔ اس کا آپریشن ہوا۔ یہ وقف نو ہے۔ حضور انور نے اس بچے کو بہت دعائیں دی ہیں۔

محمد واصف صاحب جماعت Cleve Land سے آئے تھے۔ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ہم پاکستان میں تھے۔ حضور انور کو ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے اور دعا کیا کرتے تھے کہ ہمیں بھی حضور سے ملنانصیب ہو۔ آج اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول کرتے ہوئے ہمیں ملاقات کی نعمت عطا کردی۔ ملاقات سے ہمارے دل کو تسکین ملی ہے۔ حضور انور نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ نماز نہیں چھوڑنی کیونکہ ہم لا پرواہی کرتے تھے۔

ایک دوست عتیق چودھری صاحب بیان کرتے ہیں کر ملاقات کے لیے بہت دیر سے انتظار کر رہا تھا۔ ہم صبح سات بجے کے آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ہم ملاقات کے لیے اندر گئے تو پھر اس دنیا میں نہ رہے۔ اس وقت میرے جذبات ایسے ہیں کہ الفاظ میں نہیں بتا سکتا۔ ہم حضور انور کے خطبات سنتے ہیں اور ٹی وی پر حضور انور کو دیکھتے ہیں لیکن ملاقات میں جو کیفیت تھی وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ حضور انور نے ہمیں فرمایا نماز پڑھا کریں۔ حضور انور نے ہمیں نماز کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دلائی۔

جماعت بالٹی مور سے آنے والے دوست عبد المالک ولی صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بہت کچھ سوچ کر گئے تھے لیکن وہاں جاکر کچھ نہ کہا جاسکا۔ جو کہنا تھا سب کچھ بھول گئے۔حضور نے فرمایا بیٹے کی داڑھی ہے لیکن ابو کی داڑھی چھوٹی ہے۔ ابو نے مجھے ملاقات سے پہلے ہی کہا تھا کہ حضور انور یہ پوچھیں گے کہ تمہاری داڑھی بڑی اور ابو کی چھوٹی ہے۔

ظہور طیب صاحب جماعت Willingboro سے آئے تھے۔ کہنے لگے میں بیان نہیں کرسکتا میں نے تو کمرے میں نور ہی نور دیکھا ہے۔ حضور نے مجھ سے بہت پیار سے بات کی۔ مجھے بہت سکون ملا ہے، حضور نے مجھے نصیحت فرمائی کہ اب جاکر جلدی شادی کرلو۔

جماعت Charlotte سے ایک دوست شریف احمد صاحب ملاقات کے لیے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ زندگی میں پہلی بار حضور انور سے ملاقات ہوئی ہے۔ آج میری زندگی کا بہترین دن ہے۔ اب معلوم نہیں کہ دوباره یہ دن نصیب ہو یا نہ ہو۔ان کی اہلیہ رونے لگ گئیں، کہنے لگیں کہ سب برکت حضور کے قدموں میں بیٹھنے میں ہے۔ جماعت کی خدمت میں ہے۔ مجھے جماعت کی وجہ سے بہت برکتیں ملی ہیں۔ میں نے اپنے بچوں کو یہی سمجھایا ہے کہ جماعت کے کام کرو گے تو تمہیں برکتیں ملیں گی۔ جماعت کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ان کا بیٹا جامعہ احمدیہ کینیڈا کے ساتویں سال میں ہے۔ کہنے لگا کہ حضور انور نے مجھے نصیحت فرمائی کہ پہلے اپنے خاندان کے افراد کو تبلیغ کرو۔حضور نے مجھے بہت ہی پیار دیا۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر بیس منٹ پر ختم ہوا۔ بعدازاں ایک بج کر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بیت الرحمٰن تشریف لا کر نماز ظہر وعصر جمع کرکے پڑھائی۔

اجتماعی بیعت

نمازوں کی ادائیگی کے بعد پروگرام کے مطابق بیعت کی تقریب ہوئی۔ حضور انور کے دست مبارک میں بیعت کی سعادت پانے والے دوستCharistopher R Meyers کا ہاتھ تھا۔ یہ صاحب گزشتہ تین ماہ سے زیر تبلیغ تھے اور نو مبائعین کے پروگرام میں شامل ہوئے تھے اور وہاں انہوں نے حضور ِانور کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی خواہش کااظہار کیا تھا۔

کرسٹوفر کے ساتھ تین نومبائعین حمزہ الیاس صاحب، عماد احمدسلیم صاحب اور ہسپانوی نژاد دوست Roberto William Cerrato صاحب بھی بیعت میں شامل تھے۔

بیعت کی اس تقریب میں حضور انور کی اقتدا میں نماز میں شامل ہونے والے تمام احباب مرد وخواتین شامل ہوئے جن کی تعداد 13 سو سے زائد تھی۔ بہتوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم دستی بیعت کی تقریب میں شمولیت کی سعادت حاصل کریں گے۔ بعضوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہماری زندگی میں یہ پہلی بیعت کی ایسی تقریب تھی جس میں ہم شامل ہوئے۔

بعضوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ جب ہمیں علم ہوا کہ آج نماز ظہر وعصر کے بعد بیعت کی تقریب ہے تو ہم اپنے گھروں سے مسجد کی طرف بھاگے ہیں کہ وقت سے پہلے پہنچیں کہیں اِس سعادت سے محروم نہ ہو جائیں۔بیعت کی تقریب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

معائنہ مسرور ٹیلی پورٹ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ

پروگرام کے مطالق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور ’’مسرورٹیلی پورٹ مسلم ٹی وی احمدیہ انٹرنیشنل‘‘کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے۔ MTA کا یہ ارتھ سٹیشن مسجد بیت الرحمٰن کے بیرونی احاطہ میں واقع ہے۔ حضور انور نے سب سے پہلے نیٹ ورک آپریشن سینٹر(ٹرانسمشنروم) کا معائنہ فرمایا اور ڈائریکٹر ٹیلی پورٹ چودھری منیر احمدصاحب سے سسٹمز کے بارہ میں بعض امور دریافت فرمائے۔ اس سینٹرمیں کمپیوٹر سرورز، سیٹلائٹ، فائبر آپٹک آن لائن سٹریمنگ ٹرانسمشنکے سسٹمز نصب ہیں۔ حضور انور نےازراه شفقت اس حصہ کا بھی معائنہ فرمایا۔ اس کے بعدحضورِانور ٹیلی پورٹ کے ماسٹر کنٹرول روم (MCR) میں تشریف لائے جہاں سارے چینلز کے کنٹرول اور مانیٹرنگ سسٹمز نصب ہیں۔ حضورِانور نے ڈائریکٹر ٹیلی پورٹ سے نارتھ اور ساؤتھ امریکہ میں ٹرانسمشن کے بارہ میں بعض امور دریافت فرمائے اور ہدایات دیں۔

بعدازاں ڈائننگ اور بورڈ روم سے ہوتے ہوئے حضورِانور اِس ٹیلی پورٹ کے دفتر میں تشریف لے آئے۔ ڈائریکٹر ٹیلی پورٹ چودھری منیراحمد صاحب نے حضورِانور کی خدمت میں دفتر کی کرسی کو برکت بخشنے کی عاجزانہ درخواست کی۔ حضورِانور ازراہِ شفقت کچھ دیر کے لیے دفتر کی کرسی پر تشریف فرماہوئے اور ڈائر یکٹر صاحب کوہدایت کی کہ آپ سامنے والی کرسی پر بیٹھ جائیں تاکہ تصویر میں آسکیں۔

بعدازاں حضورِانور باہر تشریف لائے جہاں مسرور ٹیلی پورٹ کے سٹاف کے ممبران ایک قطار میں کھڑے تھے۔حضور انور نے دوسری منزل کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ حضور انورکی خدمت میں عرض کیا گیا کہ وہاں سٹور کو تبدیل کرکے پوسٹ پروڈکشن کا آفس بنایا ہے۔

بعدازاں حضورِانور باہر برآمدے میں تشریف لے آئے اور چند لمحے باہر بڑی سیٹیلائٹ ٹرانسمشنڈش کا معائنہ فرمایا۔

کلاس واقفاتِ نو

اس وزٹ کے بعد چھ بج کر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز’’مسجد بیت الرحمٰن‘‘ کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے جہاں واقفات نو کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس ہوئی۔ (تفصیلی رپورٹ یہاں ملاحظہ فرمائیں) واقفات نو کی یہ کلاس سات بجے اپنے اختتام کو پہنچی۔

کلاس واقفینِ نَو

بعدازاں سات بج کر دس منٹ پر پروگرام کے مطابق واقفین نو کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔ (تفصیلی رپورٹ یہاں ملاحظہ فرمائیں) واقفین نو کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ کلاس آٹھ بج کر تین منٹ پر ختم ہوئی۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لیے اپنے دفتر تشریف لے گئے۔ساڑھے آٹھ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ’’مسجد بیت الرحمٰن‘‘ تشریف لا کر نمازمغرب وعشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button