امریکہ (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقاتدورہ امریکہ ستمبر؍اکتوبر 2022ء

مسجد بیت الاکرام ڈیلس میں حضورِ انور کے ساتھ واقفاتِ نَو کی کلاس

(رپورٹ:عبدالماجد طاہر۔ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد)

٭…اس دور میں بہت سے مسائل ہیں جن کا لڑکیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب وہ ان مسائل کا سامنا کرتی ہیں تو انہیں ان کے علاج کے لیے کسی PSYCHIATRIST یا PSYCHOLOGIST کی ضرورت ہوتی ہے انہیں کسی ایسے ماہر کی ضرورت ہے جو ان کی بات سنے اور ان کے معاملات کو سنبھالے۔ اس لیے اس میدان میں جانا جماعت کے لیے بہت مفید ہے

٭… اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزادی دی ہے اور آپ کو واضح بتا دیا ہے کہ یہ بری چیز یں ہیں اور یہ اچھی چیزیں ہیں۔ اگر تم اچھے کام کرو گے تو تمہیں اجر ملے گا، یہ برے کام ہیں، اگر تم یہ برے کام کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ تم شیطان کی پیروی کر رہے ہو تمہیں اس کی سزاملے گی

دورۂ امریکہ کے دوران مورخہ 5؍اکتوبر کو مسجد بیت الاکرام ڈیلس میں واقفاتِ نَو بچیوں نے حضورِ انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔ پروگرام کے مطابق چھ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت الاکرام کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں حضورِ انور کے ساتھ واقفاتِ نَو کی کلاس شروع ہوئی۔ امریکہ کی 22 جماعتوں سے 84 واقفات نو اس کلاس میں شامل ہوئیں۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ فزہ احمد صاحبہ نے کی اور اس کا ترجمہ سعدیہ چودھری صاحبہ نے پیش کیا۔

بعدازاں امۃ الحلیم زین وہاب کریم صاحبہ نے آنحضرتﷺ کی حدیث مبارکہ اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

حدیث مبارکہ کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیزہ عائشہ سمیع صاحبہ نے پیش کیا۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔: تین باتیں جس میں ہوں وہ ایمان کا مزہ پالیتا ہے۔وہ شخص جس کو اللہ اور اس کا رسولﷺ دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر پیارے ہوں۔ اور وہ جو کسی شخص سے محبت رکھے اور محض اللہ تعالیٰ ہی کے لیے اس سے محبت رکھے۔ اور وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے کفر سے چھڑایا ہو اور پھر اُس کے بعد وہ کفر میں لوٹنا ایسا ہی ناپسند کرے جیسا آگ میں ڈالاجانا۔

اس کےبعد عزیزہ امۃ الشافی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’غرض یہ بات اب بخوبی سمجھ میںآسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا انسان کی زندگی کی غرض وغایت ہونی چاہیے، کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہ ہو،اورخدا کی محبت نہ ملے کامیابی کی زندگی بسر نہیں کرسکتا اور یہ امر پیدا نہیں ہوتا جب تک رسول اللہ کی سچی اطاعت اور متابعت نہ کرو اور رسول اللہﷺ نے اپنے عمل سے دکھادیا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ پس تم وہ اسلام اپنے اندر پیدا کرو تاکہ تم خداکے محبوب بنو۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 70ایڈیشن2016ء)

بعدازاں عزیزہ نشیتا خندکار نے اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

اس کے بعد سیدہ سلمانہ محمود صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام

’’وہ بھی ہیں کچھ جو کہ تیرے عشق سے مخمور ہیں

دنیوی آلائشوں سے پاک ہیں اور دور ہیں‘‘

خوش الہانی سے پیش کیا۔ اورا س اردو نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزہ فریحہ احمد نے پیش کیا۔

بعدازاں واقفات نو نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے سوالات کیے۔

ایک واقفہ نو رِدا ایمان احمد نے یہ سوال پوچھا کہ پیارے حضور نے وبا کے بعد پہلاملک امریکہ تشریف لانے کا فیصلہ کیا۔ پیارے حضور کس طرح فیصلہ کرتے ہیں کہ کن ممالک کا دورہ کرنا ہے اور کب ؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ مجھے صرف جماعت احمدیہ امریکہ نے بلایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ زائن مسجد اور ڈیلس مسجد کےافتتاح کا پروگرام ہے اس لیے مجھے یہاں کا دورہ کرنا چاہیے۔ تو یہی وجہ ہے جس کی بنیاد پر میں امریکہ آیا ہوں۔ اگر کوئی اور جماعت مجھے دعوت دیتی تو میں امریکہ سے پہلےوہاں ہی جاتا۔ تو اس میں کچھ خاص نہیں ہے۔ صرف آپ کی دعوت خاص ہے۔ اس لیے آپ لوگ خاص ہیں۔

ایک واقفہ نوسیدہ وسیمہ صدف نے سوال کیا کہ کیا واقفات نو کے لیے سائیکالوجی(PSYCHOLOGY)اور کونسلنگ(COUNSELING) کی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے ؟ یاڈاکٹر اور اساتذہ بننا بہتر ہے ؟

اس پر حضور انور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر کوئی تعلیم جو دنیا کے لیے مفید ہے واقفات نو کے لیے جائز ہے۔ COUNSELING اور ہے PSYCHOLOGY کی آج کل بہت ضرورت ہے کیونکہ اس دور میں بہت سے مسائل ہیں جن کا لڑکیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب وہ ان مسائل کا سامنا کرتی ہیں تو انہیں ان کے علاج کے لیے کسی PSYCHIATRIST یا PSYCHOLOGIST کی ضرورت ہوتی ہے انہیں کسی ایسے ماہر کی ضرورت ہے جو ان کی بات سنے اور ان کے معاملات کو سنبھالے۔ اس لیے اس میدان میں جانا جماعت کے لیے بہت مفید ہے۔

ایک واقفہ نو منیفہ ایمان طارق نے سوال کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ فرشتے ایک دوسرے سے کیسے رابطہ یا COMMUNICATE کرتے ہیں؟

اس کےجواب میں حضور انور نے فرمایا کہ وہ کس طریقے سے آپس میں بات کرتے ہیں، وہ مجھے نہیں معلوم۔ لیکن فرشتوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام بھی ہیں۔ اسرافیل علیہ السلام بھی ہیں۔ اور بھی کافی تعداد میں فرشتے ہیں جو ان کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ تو وہ آپس میں کیسے بات چیت کرتے ہیں ؟ خدا بہتر جانتا ہے۔ لیکن ایک نظام ہے جس میں وہ اپنے ماتحتوں سے کہتے ہیں کہ یہ پیغام اس کو یا اس تک پہنچادیں۔ لہٰذا صرف ایک سیکنڈ میں، اگر وہ اپنا پیغام پوری دنیا میں، ہر جگہ جہاں دن ہو یا رات، پہنچانا چاہیں تو فرشتے فوراً اپنے فرائض ادا کر دیں گے۔ وہ یہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

ایک واقفہ نو نبا احمد نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ نیکی یا برائی کے اختیار کو کیسے استعمال کر تا ہے۔ کیا اللہ نے جانوروں کوبھی FREE WILL سے پیدا کیا ہے ؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزادی دی ہے اور آپ کو واضح بتا دیا ہے کہ یہ بری چیز یں ہیں اور یہ اچھی چیزیں ہیں۔ اگر تم اچھے کام کرو گے تو تمہیں اجر ملے گا، یہ برے کام ہیں، اگر تم یہ برے کام کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ تم شیطان کی پیروی کر رہے ہو تمہیں اس کی سزاملے گی یا اللہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے۔ لیکن جانوروں کے لیے کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ ان کی فطرت میں ہے کہ انہیں وہی کرنا ہے جس کے لیے اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ بکری اپنی فطرت کی پیروی کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتی اور شیر اپنی جبلت کی پیروی کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ شیر کی فطرت ہے کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں پر حملہ کر تا ہے۔ یہ بکری کی فطرت ہے کہ وہ گھاس چرتی ہے۔ پھر اللہ نے جانوروں کو انسانوں کی خوراک کے طور پر پیدا کیا۔ گائے سے آپ کو دودھ اور گوشت ملتا ہے۔ چنانچہ ہر جانور کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے استعمال کے لیے پیدا کیا ہے۔

ایک واقفہ نو ماہین وڑائچ احمد نے سوال کیا کہ ہم اللہ کی صفات کو اپنی زندگیوں میں کیسے اپنا سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ اللہ کی صفات کو دہراتے رہیں گے اور ان کے معنی جان لیں گے تو یہ آپ کی عادت بن جائے گی۔ پھر اسی طرح ذکر الٰہی کی عادت ہو جائے گی۔ اور جب آپ کو اللہ کی مدد کی ضرورت ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ اللہ کسی خاص معاملے میں آپ کی دعا قبول کرے تو آپ اس خاص صفت کو دہرائیں جو اس معاملے سے متعلق ہے۔ اس لیے جب بھی آپ دعا کر رہے ہیں تو آپ ان صفات میں سے ایک کو اپنالیں جس کی آپ کو اس خاص لمحے میں ضرورت ہے اس طرح آپ اسے اپنی روز مرہ زندگی کی عادت بناسکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ یہ سب ذکر الٰہی پر منحصر ہے نیز اگر آپ روزانہ ذکر الٰہی کر رہے ہیں، پانچ وقت نماز پڑھ رہے ہیں، اگر آپ اپنے سجدے میں زور سے دعا کر رہے ہیں کہ اللہ آپ کی تمام مشکلات اور پر یشانیوں کو دور کرے اور اس صفت کو بھی استعمال کر یں جو آپ کے خیال میں آپ کے مسئلے سے متعلق ہے تو اس طرح آپ صفات الٰہی کو کثرت سے پڑھنے کے عادی ہو جائیں گے۔

ایک واقفہ نو فاتحہ عطیۃ الحق احمد نے سوال کیا کہ جب کسی کی وفات ہوتی ہے تو ہم اناللہ وانا الیہ راجعون کہتے ہیں۔ جب ہم کوئی مادی چیز کھو دیتے ہیں تو ہم یہ کیوں کہتےہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کیا آپ اس کا مطلب جانتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کے ہی ہیں اور اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔ تو قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ محض کسی کی وفات پر یہ کہنا چاہیے۔ جب بھی آپ کسی مسئلہ میں ہیں یا آپ کچھ کھو دیتے ہیں جب آپ یہ الفاظ دہرائیں گی تو یہ آپ کو اللہ کی قدرت کی یاد دلائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہمیشہ رہے گالیکن باقی ہر چیز کو یا تو مرنا ہے یا کھو جانا ہے۔ اس لیے ہم اناللہ وانا الیہ راجعون کہتے ہیں۔ اس کا بہت گہر امطلب اور اثر ہے، یہ میرے ساتھ اور کئی اَور لوگوں کے ساتھ ہوا ہے کہ جب کبھی آپ کچھ کھو دیتے ہیں یا بھول جاتے ہیں کہ کہاں ہے تو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کے فورا ًوہ چیز مل جاتی ہے یا ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ ہاں میں نے وہ چیز اس جگہ رکھی تھی۔ تو یہ ایک ایسی دعا ہے کہ جب کسی کی وفات ہو جائے اور آپ سوچتے ہیں کہ میں مرحوم پر انحصار کر رہا تھا اب کیا ہو گا تو یہ دعا انا للہ واناالیہ راجعون پڑھنے سے سکون ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے میری حفاظت کرے گا۔ ایسا ہی واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا۔ جب آپ کے والد فوت ہوئے وہ بہت پریشان ہو گئے تھے کیونکہ وہ کہیں کام نہیں کر رہے تھے اور آپ کی آمدنی کا ذریعہ والد صاحب ہی تھے۔ اس پریشانی کی حالت میں آپؑ نے دعا کی اے اللہ میں کیا کروں۔ اور اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو پھر فوراً اللہ کی طرف سے آپؑ پر وحی نازل ہوئی۔ الیس اللّٰه بکاف عبدہ۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ تم اللہ کے بندے ہو، اللہ تمہارےلیے کافی ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں، یہ ایک دعا ہے جس سے ہمیں سکون ملتا ہے۔

ایک واقفہ نو سمیرہ سہیل نے سوال کیا کہ احمدی مسلمانوں کے لیے ملکہ انگلینڈ جیسی سیاسی شخصیات کی وفات پر افسوس کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: دیکھیں وہ انسان ہے۔ جب کسی بھی انسان کی وفات ہوتی ہے ہم تعزیت کرتے ہیں۔ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو تسلی دیتے ہیں۔ میں نے ملکہ انگلینڈ کی وفات پر بادشاہ چارلس کو تعزیت کا پیغام بھیجا ہے۔ اور یہ ان کے اخبار میں بھی شائع ہوا ہے۔ تو ہم دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ ان پر رحم کرے۔ ہم ان مرحومین کے لیے اللہ کی رحمت کے لیے دعا کر سکتے ہیں۔ ہاں اللہ یہ کہتا ہے کہ جو مشرک ہیں میں انہیں معاف نہیں کروں گالیکن پھر بھی اللہ معاف کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ لیکن اللہ کہتا ہے کہ ہمیں ان کے لیے دعا نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ، دوسرے لوگوں کے لیے اللہ نے ہمیں ان کی وفات پر دعا کرنے سے نہیں روکا۔ ہم صرف کافروں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے لیکن کم از کم ہمدردی کا اظہار تو کر سکتے ہیں۔ ہم مرحومین کے عزیزوں سے افسوس کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ورنہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ محبت سب سے، نفرت کسی سے نہیں ؟ محبت یہ ہے کہ ہم تمام انسانوں سے محبت کر یں اور کسی کی وفات پر تعزیت محبت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔

ایک واقفہ نو صبا اعجاز نے سوال کیا کہ صوفی اپنے رسمی طریقوں سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا ان صوفی رسومات میں فائدے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں کیا آنحضرتﷺ کے زمانے میں تصوف موجود تھا؟ نہیں تھا۔ کیا خلفائے راشدین کے زمانہ میں تصوف کا کوئی تصور تھا؟ نہیں تھا۔ تو صدیوں بعد یہ چیز شروع ہوئی اور جب شروع ہوئی تو اس لیے کہ اس وقت خلافت روحانی خلافت نہیں تھی۔ وہ دنیاوی خلافت تھی اور اس وقت کے خلفاء دنیاوی فائدے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ اور خلیفہ کا انتخاب کسی جماعت نے نہیں کیا تھا بلکہ انہیں وراثت میں ملا تھا۔ اس لیے اس وقت لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہو گیا تھا اور کہتا تھا کہ ہم روحانی لوگ ہیں۔ اور انہوں نے لوگوں کو سکھایا کہ اصل میں تمہارے دین کی روح کیا ہے اور نماز کی روح کیا ہے اور تمہیں کس طرح نماز پڑھنی چاہیے؟ اللہ کے سامنے کیسے جھکنا چاہیے ؟ آپ کو قرآن پاک میں دیے گئے احکامات پر عمل کیسے کرنا چاہیے؟ تو یہ اس طرح شروع ہوا۔ اور وہ قرآن پاک کی تعلیم کے مختلف طریقے بتانے لگے۔ لیکن اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کے بعد جو نبی کریمﷺکی پیشگوئی کے مطابق دین اسلام کو زندہ کرنے کے لیے تشریف لائے، اب کسی صوفی کی ضرورت نہیں۔ کسی اور کی پیروی کی ضرورت نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنے خطبہ میں آیت اللّٰہُ نُوْرُ السّٰمٰوٰت وَالْاَرض کی تفسیر بیان کی۔ اس کے بعد ایک نو مبائع عرب احمدی نے مجھے خط لکھا اوربتایا کہ میں تصوف کا پیرو تھا اور آپ کا خطبہ سن کر اب میں کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑا کوئی صوفی نہیں ہے۔ اور اب خلافت احمد یہ ہی خلافت حقہ ہے اور خلافت راشدہ ہی ہے تو جب تک خلافت احمد یہ رہے گی کسی صوفی کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یہ ماضی کا تقاضا تھا، اب حال کا نہیں ہے۔

ایک واقفہ نو سجیلہ احمد نے سوال کیا کہ میں ایک واقفہ نو ہوں اور ایک واقف نو بیٹے کی والدہ بھی ہوں۔ اپنے بیٹے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے کہ وہ بڑا ہو کہ اپناوقف کا عہدہ نبھائے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کی عمر کیا ہے؟ والدہ نے جواب دیا کہ تقریباً15 ماہ۔ پھر حضور انور نے فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ آپ اپنی پانچوں نمازوں میں اس کے لیے دعا کریں اور اس کے لیے دور کعت نفل پڑھیں، کہ اللہ اسے حقیقی وقف نو بنائے۔ اور پھر جب وہ بڑا ہو تا ہے تو آپ اسے قرآن کریم پڑھائیں اور اسلام کی تعلیم سکھائیں۔ آپ کو اپنی مثال بھی دکھانی چاہیے۔ میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے اپنی مثال قائم کر یں تا کہ وہ جان لیں کہ ہمارے والدین ہمیشہ روزانہ پانچ نماز یں پڑھتے ہیں۔ وہ قرآن کریم پڑھتے ہیں، وہ قرآن پاک کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم کی مکمل مثال ہیں۔ اور وہ اسلام احمدیت کے سچے پیروکار ہیں اور پھر جب بچے اس ماحول میں تربیت پائیں گے تو وہ ایک اچھے وقف نو بن جائیں گے۔

ایک واقفہ نو امۃ النور ردا نے سوال کیا کہ احمدی لڑکی کو دوستوں کے ساتھ باہر جاتے وقت کن حدود کا خیال رکھنا چاہیے ؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ باہر کہاں جا رہی ہیں ؟ اگر رات گزارنی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر دن کے وقت ہو تو پھر ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہیں۔ اگر آپ باہر جارہی ہیں تو بس یادرکھیں کہ احمدی لڑکی کی حیثیت سے آپ کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ پہلے فجر کی نماز پڑھیں، قرآن کریم کے ایک حصہ کی تلاوت کریں، اور پھر باہر نکلیں۔ جب ظہر یا عصر کی نماز کا وقت ہو جائے تو نماز پڑ ھیں۔ اگر مغرب عشاء کا وقت آ جائےتو نماز پڑھ لیں۔ ہمیشہ باوقار انداز میں بات کریں، نا مناسب باتیں نہ کیا کر یں۔ کوئی احمدی لڑکا یالڑ کی نامناسب باتوں میں ملوث نہ ہو۔ اور اگر آپ خود اپنی مثال قائم کریں گی تو لڑکیاں جان جائیں گی کہ اگر آپ نے روحانیت اور دین کو سیکھنا ہے تو آپ امۃ النور سے جا کر سیکھیں۔

ایک واقفہ نو امۃ النور زین وہاب کریم کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، اگر نسلی اور بین الثقافتی شادیاں ہوں تو یہ اچھی بات ہے، لیکن دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آنحضرتﷺنے فرمایا ہے کہ آپ ایسے ساتھی کا انتخاب کریں جو روحانی طور پر اچھا ہو جوایک اچھی مذہبی معلومات رکھتا ہو۔ ایک پختہ مسلمان ہو۔ اگر آپ دین کو ترجیح دیں گے تو پھر آپ کسی سے بھی شادی کر لیں آپ شریک حیات کے ساتھ اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں گے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی پرفیکٹ (perfect)نہیں ہو تا، ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خامیاں ہوتی ہیں۔ برداشت کا مطلب اپنی آنکھیں، کان اور منہ بند کرنا ہے۔ اپنے ساتھی میں عیب مت تلاش کرو، ان کے بارے کوئی بری بات نہ سنو اور ایک دوسرے کو برا نہ کہو۔ اگر احمدیت میں مختلف ثقافتیں آپس میں مل جائیں تو یہ اچھی بات ہے۔ یہی احمدی ماحول ہو گا، اور یہی وہ ماحول ہے جو ہمیں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مسئلہ تب آتا ہے جب ہم رشتہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں تو ہم دنیاوی فوائد کو مد نظر رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لڑکا بہت کماتا ہے اچھی جاب ہے۔ لڑکی بہت اچھی کماتی ہے۔ اس لیے ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بجائےہمیں یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اخلاق کیسے ہیں۔ دینی حالت کیسی ہے۔

ایک واقفہ نورامیہ چودھری نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ میں روس میں اپنی جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح دیکھتا ہوں۔ اس کو پورا کرنے کے لیے ایک وقف نو کیا کر سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ وقف نو ہیں اور آپ کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کے فرائض کیا ہیں۔ میں نے تقریبا ً5-7 سال قبل کینیڈا میں وقف نو کے فرائض کے بارے میں ایک بہت مفصل خطبہ دیا تھا۔

پہلے اپنی مثال قائم کرو۔ روحانی اور اخلاقی مثال قائم کر یں۔ اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں۔ اور پھر آپ کا کام بھی تبلیغ کرنا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو روس جانے کا موقع ملتا ہے، اللہ کرے کہ ہم اس جنگ سے بچ جائیں، تو اس کے بعد میرے خیال میں روسی بھی کوئی ایسا نظام تلاش کرنے کی کوشش کر یں گے جو ان کے لیے اچھا ہو۔ اور اس وقت ہمیں ان کو تبلیغ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پہلی چیز اپنی اصلاح ہے دوسری بات تبلیغ کرنا ہے۔

ایک واقفہ نو فاطمہ ظفر نے سوال کیا کہ میں ایک نرس بننے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کیا یہ فیلڈ جماعت کی خدمت کرنے کے لیے اچھی فیلڈ ہے ؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو بھی فیلڈ انسانیت کے لیے اچھی ہو وہ اچھی ہے، اگر آپ اس فیلڈ میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں تو جماعت کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔اگر آپ ڈاکٹر ہیں، نرس ہیں، ٹیچر ہیں یا کوئی اور خدمت جس سے آپ انسانوں کو فائدہ پہنچارہے ہیں، تو یہ واقفات نو کے لیے اچھی فیلڈ ہے۔ لیکن آپ کا اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنی اصلاح کر یں۔ اپنے آپ میں بڑی تبدیلی آنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ہونا چاہیے۔ آپ کو روحانی اور اخلاقی طور پر دوسروں کے لیے ایک مثال بننا چاہیے۔

ایک واقفہ نو ہبۃ السبوح ہارون ملک نے سوال کیا کہ اچھے دوست بنانے کے لیے اور اچھے دوست بننے کے لیے حضور انور کی کیا نصیحت ہے ؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ ایک احمدی لڑکی ہیں، ایک احمدی مسلمان لڑ کی کی حیثیت سے آپ اچھے اور برے میں فرق جانتی ہیں۔ آپ اپنے فرائض جانتی ہیں کہ اللہ کے احکامات کیا ہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دو مقاصد کے لیے دنیا میں ظاہر ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ تو اگر آپ یہ سب کچھ کر رہی ہیں تو آپ ایک اچھی لڑکی ہیں۔ اگر آپ میں یہ خوبیاں ہیں تو جب آپ دوست بنائیں گی تو آپ ان لڑکیوں کو دوست بنائیں گی جو اچھی فطرت کی ہوں۔ آپ کبھی بھی بری لڑکیوں سے دوستی کرنے کی کوشش نہیں کر یں گی۔ اور وہی چیز آپ پر بھی لاگو ہو گی۔ جب آپ میں یہ تمام خوبیاں ہوں گی تو لڑکیاں آپ کو اچھا دوست سمجھیں گی۔

ایک واقفہ نو ملاحت خان نے یہ سوال پوچھا کہ اس معاشرے میں ماں لڑکوں کی پرورش کیسے کرے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ بچے کی پرورش کیسے کی جائے تو آپ کے لیے بھی یہی راہنمائی ہے۔ اگر آپ اس راہنمائی پر عمل کر یں جو میں نے پہلے دی ہے تو یہ آپ کے لیے بہتر اور فائدہ مند ہو گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button