متفرق مضامین

ندائے فتحِ نمایاں بنامِ ما باشد

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

ایک نبی اور مامور من اللہ کی صداقت کا سب سے بڑا نشان خدا ئے قادر وقدیرسے اس کا زندہ اور پختہ تعلق اُس کے وعدوں پر غیر متزلزل کامل و مکمل ایمان اور پورے صدق و صفا، ہمت و وفا کے ساتھ اپنے مشن میں کامیابی کے یقین ِ کامل کے ساتھ اپنے مقصد کی تکمیل کی طرف رواں دواں رہنا ہے۔ وہ اپنی ذات میں عاجزی و انکساری کا پیکر ہوتا ہے، مگر باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہوتا ہے۔وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا حنیف،کامل خلوص کے ساتھ رکوع و سجودبجا لانے والا اور پوری تن دہی کے ساتھ گم گشتہ راہوں کو توحید کے پرچم تلے جمع کرنے کی سعی میں مصروف رہنے والا انسان ہوتا ہے۔ مگر ناسمجھ نادان اورلوگ اس کے مقام و مرتبے کو سمجھنے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے اسے دھتکارنے اور اس کی دعوت کو ردّ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، پے در پے نشان دیکھ کر بھی اعراض کرتے اور اسے سحر مستمرقرار دیتے ہیں۔ وقت کے نذیر کے ساتھ ہر طرح کا ظلم وتعدی روا رکھا جاتا ہے۔اور اسے اُس کے مقصد سے دور رکھنے کے لیےہرقسم کاجتن کیا جاتا ہے اور ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے، مگر کاتب ازلی کی تقدیر کے سامنے ان کی ایک نہیں چلتی اور آخر کار ان کی خاک اڑائی جاتی ہے اور ان کی شان و شوکت قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ جبکہ سطوت و کامیابی وقت کے نبی کے قدم چومتی ہے۔ ہر زمانے میں صادقوں کی یہی نشانی رہی کہ انجام انہی کا ہوتا ہے۔

انبیاء کی آمد کے بعد ہر زمانے میں ہمیشہ یہی کہانی دہرائی گئی،اس کی ذات پرایک ہی طرح کے بھونڈے اعتراضات کیے گئے:’’اَتَوَاصَوۡا بِہٖ ۚ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ طَاغُوۡنَ۔(الذاریات: 54)کیا اِسی کی وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں؟ بلکہ یہ ایک سرکش قوم ہیں۔ ‘‘ مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدۡ قِیۡلَ لِلرُّسُلِ مِنۡ قَبۡلِکَ۔(حٰمٓ السجدہ:44)تجھے کچھ نہیں کہا جاتا مگر وہی جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا۔روئے زمین پر سب سے کامل و اکمل کتاب جو اصدق الصادقینﷺ کے قلب ِ اطہر پہ نازل ہو ئی، اُس میں اس حقیقت کا ذکر بدرجہ اتم موجود ہے۔ چند آیات ہدیہ قارئین ہیں :

فَاِنۡ کَذَّبُوۡکَ فَقَدۡ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ جَآءُوۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالۡکِتٰبِ الۡمُنِیۡرِ۔(آل عمران: 185) پس اگر انہوں نے تجھے جھٹلا دیا ہے تو تجھ سے پہلے بھی تو رسول جھٹلائے گئے تھے۔ وہ کھلے کھلے نشان اور (الٰہی) صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے۔

وَاِنۡ یُّکَذِّبُوۡکَ فَقَدۡ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡۚ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالۡکِتٰبِ الۡمُنِیۡرِ۔ (فاطر:26) اور اگر وہ تجھے جھٹلا دیں تو یقیناً جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی جھٹلا چکے ہیں۔ ان کے پاس بھی ان کے رسول کھلے کھلے نشان اور مختلف صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔

ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا تَتۡرَا ؕ کُلَّ مَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوۡلُہَا کَذَّبُوۡہُ فَاَتۡبَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ بَعۡضًا وَّجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ ۚ فَبُعۡدًا لِّقَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ۔(المومن:45)پھر ہم نے اپنے رسول پےدرپے بھیجے۔ جب بھی کسی امّت کی طرف اس کا رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا۔ پس ہم اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں کے پیچھے لائے پھر ہم نے اُنہیں قصّے کہانیاں بنا دیا۔ پس لعنت ہو اَیسی قوم پر جو ایمان نہیں لاتے۔

ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ فَجَآءُوۡہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا بِمَا کَذَّبُوۡا بِہٖ مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَذٰلِکَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡمُعۡتَدِیۡنَ۔ (یونس:75)پھر ہم نے اس کے بعد کئی رسولوں کو اُن کی اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا۔ پس وہ ان کے پاس کھلے کھلے نشان لے کر آئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے والے نہ بنے جسے وہ پہلے سے جھٹلا چکے تھے۔ اسی طرح ہم حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔

قَدۡ نَعۡلَمُ اِنَّہٗ لَیَحۡزُنُکَ الَّذِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ لَا یُکَذِّبُوۡنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ۔ وَلَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَاُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ۚ وَلَقَدۡ جَآءَکَ مِنۡ نَّبَاِی الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔(الانعام35،34)یقیناً ہم جانتے ہیں کہ تجھے ضرور غم میں مبتلا کرتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ پس یقیناً وہ تجھے ہی نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم اللہ کی آیات کا ہی انکار کرتے ہیں۔ اور یقیناً تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے تھے اور انہوں نے اس پر کہ وہ جھٹلائے گئے اور بہت ستائے گئے صبر کیا یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد آپہنچی۔ اور اللہ کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں اور یقیناً تیرے پاس مرسَلین کی خبریں آچکی ہیں۔

وَاِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَیَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ۔(القمر:3)اور اگر وہ کوئی نشان دیکھیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیشہ کی طرح کیا جانے والا جادو ہے۔

عصر حاضر میں دین اسلام کو ازسر نَو زندہ کرنے، شریعت محمدیہ کو قائم کرنے اور خالق اور مخلوق کے درمیان پیدا ہونے والی کدورت کو دور کرنے کے لیےہندوستان کی ایک گمنام بستی سے ایک آواز بلند ہوئی۔ یہ فنا فی الرسول اور محمد عربیﷺ کے عاشق صادق حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز تھی۔ آپ نے اپنے دعاوی کی صداقت اور اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے قرآن کریم اوراحادیث نبویہﷺ سے دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ پیش فرمائے۔ مگر مولوی، مشائخ،سجادہ نشین،علماء، مسلم و غیر مسلم، پنڈت، پادری سب درپہ آزار ہوئے۔ اور ان کے ساتھ مذہبی مباحثوں، مناظروں اورعلمی وروحانی مقابلوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔رب کریم نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو ان مباحثوں میں غیر معمولی کامیابی عطافرمائی اور بہت سی سعیدروحوں کوقبول حق کی توفیق ملی۔ بہتوں کے لیے یہ مباحثے ازدیادایمان کا باعث بنے۔ مخالفین احمدیت نے اپنی شکست کودیکھتے ہوئے مخالفت کاایک طوفان برپاکردیا۔

پھر چشم فلک نے یہ انوکھا نظارہ دیکھا کہ وہ مسلمان علماء جواپنے عقائدکی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن،باہم دست و گریباں اورایک دوسرے پرکفرکے فتوے لگاتے تھے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت میں متحدہوگئے، اور اخلاقی پستی کا ثبوت دیتے ہوئے مصلح زمان کی عناد کی خاطر غیرمسلم علماء،پنڈت اور پادریوں سے جو اسلام دشمن اور سیدالمعصومینﷺ کی ذات بابرکات پر دن رات حملوں میں مصروف تھے ہاتھ ملا لیا اور مشترکہ طور پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایذارسانی کے منصوبے بنانے لگے۔ مگراللہ تعالیٰ نے ان کوہرقدم پرناکام ونامرادکیا۔

غلام دستگیر قصوری، لیکھرام پشاوری، سعد اللہ لدھیانوی اور ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈووی جیسے راندہ درگاہ اس مجدد، مسیح و مہدی،امتی نبی اور امام آخرالزّمان کے مقابل آکر انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے، اور تا ابد اس کے دعویٰ کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کی۔ محمد حسین بٹالوی اور مہر علی شاہ گولڑوی اس شیر خدا کے مقابل پر آئے اور ہزیمت کے ساتھ تا دم آخر عبرت کے نشان کے طور پر زندہ رہے۔

رب ذو الجلال کے وعدوں پر کامل ایمان رکھنے والی یہ ذات دنیا سے ان الفاظ میں مخاطب ہو تی ہے : ’’….اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں….وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بدبخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اوردولت عظمیٰ کو نااہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔ اِسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جو شقی ازلی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولتِ قبول سے محروم رہ جائیں۔ یہ سنت اﷲ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہوکر آتے ہیں …پس چونکہ تما م تہمتوں کا معقولی طورپر جواب دینا ایک نظری امر تھااور نظری امور کا فیصلہ مشکل ہوتاہے اور تاریک طبع لوگ اُس سے تسلی نہیں پکڑتے۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے نظری راہ کو اختیار نہیں کیا اور نشانوں کی راہ اختیار کی اور اپنے نبیوں کی بریّت کے لئے اپنے تائیدی نشانوں اور عظیم الشان نصرتوں کو کافی سمجھا۔ کیونکہ ہر ایک غبی اور پلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ نعوذ باﷲ ایسے ہی نفسانی آدمی اور مفتری اور ناپاک طبع ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اُن کی نصرت کے لئے ایسے بڑے بڑے نشان دکھلائے جاتے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد21 صفحہ 89، 90) ’’…اور جو شخص کہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں، حالانکہ نہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بری موت مرتا ہے۔ اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے۔ لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مر کر بھی زندہ ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے اور سچائی کی روح ان کے اندر ہوتی ہے۔ اگر وہ آزمائشوں میں کچلے جائیں اورپیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروں طرف سے ان پر لعن طعن کی بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصوبے کرے، تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے۔ کیوں نہیں ہوتے ؟ اس سچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے۔ خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں، بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں۔‘‘مزیدفرماتے ہیں :‘‘ خداوندکریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہوگی اور ٹھٹھا ہوگا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن آخر کار نصرت الٰہی تیرے شامل حال ہوگی اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا…خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک ا لزام سے تیری بریّت ظاہر کردوں گااور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب ہوگی۔‘‘(انوار الاسلام،روحانی خزائن جلد 9، صفحہ 54،52) ’’….مخالف چاہتے ہیں کہ میں نابود ہو جاؤں اور ان کا کوئی ایسا داؤ چل جائے کہ میرا نام و نشان نہ رہے۔ مگر وہ ان خواہشوں میں نامراد رہیں گے اور نامرادی سے مریں گے۔ اور بہتیرے ان میں سے ہمارے دیکھتے دیکھتے مر گئے اور قبروں میں حسرتیں لے گئے۔ مگر خدا تمام میری مرادیں پوری کرے گا اور یہ نادان نہیں جانتے کہ جب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اس جنگ میں مشغول ہوں تو میں کیوں ضائع ہونے لگا اور کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے۔ یہ بھی ظاہر کہ جب کوئی کسی کا ہو جاتا ہے تو اُس کو بھی اُس کا ہونا ہی پڑتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 305)’’دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے۔ اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہےجو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکریوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے۔ میں ہر روز اس بات کے لئے چشم پُر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے۔ پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے…اے لوگو! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے…پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا…جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اِسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔ خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم۔ پس یقینا سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔ خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 50،49۔ ایڈیشن 2009ء) ’’یہ سِلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے۔ تم خدا سے مت لڑو۔ تم اس کو نابود نہیں کر سکتے۔ اس کا ہمیشہ بول بالا ہے…اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سِلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پیدا ہوا۔ اور یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا۔ سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو۔ کم سے کم یہ تو سوچو کہ شائد غلطی ہو گئی ہو اور شائد یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو۔‘‘(اربعین نمبر4،روحانی خزائن جلد17 صفحہ456)اسلام کا وہ فتح نصیب جرنیل اپنی معرکہ آراتصنیف ’’فتح اسلام‘‘میں رقمطراز ہے :’’سو اس عاجز کو اور بزرگوں کی فطری مشابہت سے علاوہ جس کی تفصیل براہین احمدیہ میں بہ بسطِ تمام مندرج ہے حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اور اس فطری مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو مَیں صلیب کو توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ میں آسمان سے اترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے، جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے۔اور اگر میں چپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب کو توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے گئے ہیں… اور درحقیقت یہ فرشتے خلیفۃ اللہ سے الگ نہیں ہوتے اُسی کے چہرے کا نور اور اُسی کی ہّمت کے آثار جَلیہ ہوتے ہیں جو اپنی قوت مقنا طیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ خواہ وہ جسمانی طور پر نزدیک ہو یا دور اور خواہ آشنا ہو یا بکلّی بیگانہ اور نام تک بے خبر ہو۔ غرض اُس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خواہ وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں درحقیقت انہیں فرشتوں کی تحریک سے جو خلیفۃ اللہ کے ساتھ اُترتے ہیں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہ الٰہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے، اور بہت صاف اور سریع الفہم ہے۔ اور تمہاری بد قسمتی ہے اگر تم اس پر غور نہ کرو۔ چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لئے تم صداقت کے نشان ہر یک طرف پاؤ گے۔ وہ وقت دور نہیں بلکہ قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے۔ یہ تم قرآن شریف سے معلوم کر چکے ہو کہ خلیفۃ اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے تا دلوں کو حق کی طرف پھیریں سو تم اس نشان کے منتظر رہو۔ اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا اور اُن کے اترنے کی نمایاں تاثیریں تم نے دنیا میں نہ دیکھیں اور حق کی طرف دلوں کی جنبش کو معمول سے زیادہ نہ پایا تو تم یہ سمجھنا کہ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا۔ لیکن اگر یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں تو تم انکار سے باز آؤ تاتم خدا تعالیٰ کے نزدیک سرکش قوم نہ ٹھہرو۔‘‘(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3،حاشیہ صفحہ 11تا 14)

ڈاکٹرجان الیگزنڈرڈووی سے مباہلہ، اور فتح عظیم

وہ صدی جو ازل سے مسیح آخرالزّمان کی آمد کے لیے مقدر تھی اسلام کا وہ بطل جلیل اُسی صدی کے سر پر نمودار ہوا، وہ توحید کے قیام کے لیےچومکھی لڑائی میں مصروف تھا، اور اس کی قوم کے لوگ اور ہم وطن پے در پے نشان دیکھ رہے تھے۔ سعید فطرت ان سے فائدہ اٹھا کر عافیت کے حصار میں داخل ہو رہے تھے اور بد فطرت انکار پر مصر تھے۔ اسی اثنا میں دنیا کے دوسرے کنارے پر امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایک بد طینت شخص نمودار ہوا۔ جو نہ صرف نبوت اور الہام کا دعویدار تھا بلکہ حضرت سیّد النبیّین و اصدق الصادقین وخیر المرسلین وامام الطیّبین جناب تقدّس مآب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور فحش کلمات سے آنجناب کو یاد کرتا تھا۔ وہ توحیدِ اسلام کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس کا استیصال چاہتا تھا۔اورآئندہ 20سال کے عرصے میں ساری دنیا میں عیسائیت کے غلبے کا آرزومند تھا۔ مگر جب توحید حقیقی کے منّاد تک اس کے دعویٰ کی خبر پہنچی تو اس مرد میدان نے باطل کے اس پجاری کو بڑی تعلّی کے ساتھ للکارا اور جلد تر آنے والی آفت کی خبر دی۔

اور پھر چار سال کے مختصر عر صہ میں چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ ایک صاحب ثروت صحت مند شخص مفلوج ہو کر انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ایڑیاں رگڑتا ہوا واصل جہنم ہوا، اور اپنے عقیدے کے بطلان پر مہر تصدیق ثبت کر گیا۔ اور اُسے للکارنے والے نے خود اس نشان کو:’’فتح عظیم۔ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈووی امریکہ کا جھوٹا نبی میری پیشگوئی کے مطابق مر گیا۔ ‘‘کےجلّی حروف سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

اور ’’الفضل ما شهدت به الأعداء ‘‘کے مصداق امریکہ کے ایک اخبار ’’بوسٹن ہیرلڈ‘‘نے اپنے سنڈے ایڈیشن (مورخہ23؍جون 1907ء) کے ایک پورے صفحے میں اس پیش گوئی کی تفصیلات درج کیں اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پورے قد کا بڑافوٹو بھی شائع کیا اور مندرجہ ذیل دوہرے عنوان کے ساتھ اپنے مضمون کو شروع کیا۔ ’’مرزا غلام احمد المسیح ایک عظیم الشان انسان ہے۔‘‘حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی موت پر 17؍اپریل 1907ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں اس عظیم الشان پیشگوئی کے ظہور اور ڈووی کے مرنے کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ ’’پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۔ اگر میں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بُلاتا اور اگر میں اُس پر بددعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذّاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا۔ ا س سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہوگا؟ اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا۔ وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22۔صفحہ 515، 516)ڈاکٹر ڈووی کے بارے میں سَہ روزہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اپریل 2021ء،25؍اپریل 2021ء اور روزنامہ الفضل آن لائن 9؍مارچ 2022ء کے شماروں میں تفصیلی معلومات موجود ہیں۔

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 07؍اگست 2021ء بروزہفتہ جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے دن کے خطاب میں فرمایا: ’’امریکہ کے زائن (Zion)مقام پر ایک یادگار بنانے کا منصوبہ تھا۔جماعت احمدیہ امریکہ زائن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت میں ایک یادگار بنانے کی خواہش مند تھی۔ دو سال قبل وہاں دس ایکڑ زمین بھی خریدی گئی۔ ایک مسجد یہاں بنانے اور exhibition ہال بنانے کا پراجیکٹ تھا۔ اس پر قریباً چار ملین ڈالر لاگت کا اندازہ ہے۔ اللہ کے فضل سے یہ رقم جمع ہوئی۔ جماعت احمدیہ امریکہ کی لجنہ نے تقریباً پونے دو ملین ڈالرز جمع کر کے اس مسجد کی تعمیر کے لیے کہا ہے کہ اس کا خرچ ہم دیں گے۔ اس طرح امریکہ میں لجنہ اماء اللہ امریکہ یہ مسجد بنا رہی ہے اور کافی بڑی مسجد ہے۔ چھ ہزار مربع فٹ کی بیسمنٹ ہے۔ اسی سائز کا ایک فلور ہے۔ مردوں اور عورتوں کے نمازوں کے ہال ہیں۔ یہ زائن شہر کی تاریخ میں پہلی مسجدہو گی۔پھر اسی طرح exhibitionہال وغیرہ بنیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی اور فتح کی معلومات ڈیجیٹل سکرینوں پر بھی اس exhibitionہال میں دیکھی جا سکیں گی۔ منارة المسیح کی طرز کا ایک منارہ بھی پراجیکٹ میں شامل ہے۔ تو بہرحال یہ جماعت احمدیہ امریکہ کا ایک بڑا پراجیکٹ ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ جلد مکمل کر لیں۔ (سَہ روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن۔7؍دسمبر 2021ء۔ صفحہ 8،7۔ جلد 28شمارہ 98)خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے ساتھ یہ عظیم الشان منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ اور آج 115سال بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو سدوشتم کا نشانہ بنانے والےکے بسائے ہوئے شہر میں مسیح محمدی کی جماعت جشن منا رہی ہے۔ مسیح محمدی کا جانشین میر کارواں حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دست مبارک سے’’ مسجد فتح عظیم ‘‘کا افتتاح فرما رہے ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران کچھ عرصہ کے لیے دنیا گویا ساکت و جامد ہو گئی تھی، اور امریکہ میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ لیکن رب ِ ذوالجلال کے فضل سے اب اس وبا کی شدت گذر گئی ہے اور امریکہ ہی وہ پہلا ملک ہے جس کی سر زمین کو خلیفۃ المسیح کے قدم چومنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ وہ مقدس و مطہر وجود جو دنیاوی لحاظ سے بیکس و گمنام تھاجب الہام کے نور سے سرفراز ہوا، اور امتی نبی کے مقام و منصب پہ فائز کیا گیا اور عرش الٰہی سے اس کے قلم کو ’’ذوالفقار‘‘قرار دیا گیا تو وہ اس زمانے میں سلطان حرف و حکمت بنا۔ اس کی تحریر میں ایسی دل آویزی، چاشنی اور لطافت ہے کہ وہ پیاسی روحوں کے لیے آب ِبقاکا درجہ رکھتی ہیں۔ ان تحریرات کی سحر انگیزی اور ضو فشانی تا ابد قائم دائم رہے گی۔

وہ ہر فانی انسان کی طرح چند سال اس دنیا میں رہا اور ’’اللہ میرے پیارے اللہ ‘‘کا ورد کرتے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوا، مگر محمد عربیﷺ کے عشق میں مخمور اسلام کایہ فتح نصیب جرنیل اپنے متبعین اور اہل دنیا کو بڑی تحدّی اور جلال کے ساتھ یہ خبر دے کر گیا : ’’میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ مَیں سچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دوربین نگاہ سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں، اور قریب ہے کہ مَیں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے۔ جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔ ‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ403)

اللّٰهُ مَوْلَانَا وَ کَافِلُ اَمْرِنَا

فِی هَذِهِ الْدُنْیا وَ بَعْدَ فَنَاءِ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button