متفرق مضامین

ڈاکٹر الیگزنڈر ڈووی کی زندگی کا ایک جائزہ سال بہ سال

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

اس مضمون کے لیے معلومات الفضل ربوہ کے سلسلہ مضامین 3 و 4؍ستمبر 2015ء، 7؍اکتوبر 2015ء، 22؍نومبر 2008ء، 16و 17 دسمبر 2015ء محررہ ’’ابو نائل‘‘ سے لی گئی ہیں۔ تاریخ کے تضادکی صورت میں جدید تحقیق کو فوقیت دی گئی ہے۔

پیدائش: جان الیگزینڈر ڈووی (John Alexander Dowie) پچیس مئی 1847ءکو سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا(Edinburgh) میں پیدا ہوا۔

والدین: اس کے والد کا نام جان مرے ڈووی (John Murray Dowie) تھا۔ اس کی والدہ کا نام Ann Macfarlane Mchardie تھا۔

اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے بائبل چھ سال کی عمر میں پڑھ لی تھی۔ اور سکول سے سلور میڈل Duxحاصل کیا۔(ڈووی کا عبرت ناک انجام۔ صفحہ 15)

1860ء: ڈووی کی عمر تیرہ سال تھی تو یہ خاندان نقل مکانی کر کے جنوبی آسٹریلیا میں Adelaideمیں رہنے لگا۔ یہاں پر ڈووی کے ماموں کا جوتوں کا کاروبار تھا۔ کچھ عرصہ ڈووی نے اپنے رشتہ دار کے ساتھ کام کیا اور پھر مختلف جگہوں پر ملازمتیں کیں۔

1868ء: 20 سال کی عمر میں اپنے لیے ٹیوٹر کا انتظام کیا اور پادری بننے کی تیاری شروع کی۔

1868ء: پندرہ ماہ کی ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے ایڈنبرایونیورسٹی میں الہیات (Teleology) میں داخلہ لیا اور تعلیم کے لیے واپس سکاٹ لینڈ آگیا۔

اعزازی پادری: ایڈنبرا میں قیام کے دوران وہاں کے ایک بڑے ہسپتال میں اعزازی پادری کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔

1870ء: تعلیم کے دوران اسے والد کے کاروبار میں نقصان کے باعث آسٹریلیا بھی آنا پڑا۔

اپریل 1872ء : ڈووی نے جنوبی آسٹریلیا میں پادری کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی تقرری ALMAکے مقام پر ہوئی۔

دسمبر 1872ء: اس جگہ سے استعفیٰ دے دیا

1873-1874ء: سڈنی (SYDNEY) کے قریب MANLY BEACH پر پادری مقرر ہوا یہاں پر چرچ سے وابستہ افرادکی تعداد کافی زیادہ تھی۔ یہاں پر اس نے 1874ء کے اختتام تک کام کیا۔

اس کے بعد نیوٹن (NEWTON) کے مقام پر تقرری قبول کی۔ جب وہ یہاں کام کر رہاتھا تو اس علاقے میں طاعون پھیل گئی اور ڈووی کے علاقہ میں بڑی تعداد میں اموات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

1876ء : ڈووی کی شادی اپنی چچا زاد Jeanieسے ہوئی۔زندگی کا یہ مرحلہ بھی کافی تنازعات کا شکار رہا۔ کیونکہ عیسائیوں میں بالعموم کزن سے شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ شادی سے قبل وہ اپنی ہونے والی بیوی کے کرایہ دار کی حیثیت سے سکاٹ لینڈ میں رہتا تھا۔

ان کے تین بچے ہوئے : اے جے گلیڈ سٹون (1945-1877ء)، جینی (1885-1879ء)، ایسثر(1902-1881ء)(بحوالہ ویکیپیڈیا)

1878ء: ڈووی نے سڈنی میں 1878ء کے آغاز میں Theatre Royalکرائے پر لے کر واعظ شروع کیا۔ لیکن جگہ کا کرایہ بہت زیادہ تھا، اس لیے اسے کم درجہ کی جگہ پروٹسٹنٹ ہال میں منتقل ہونا پڑا۔ اس مرحلہ پر اس نے یہ اعلان کیاکہ وہ فری کرسچن چرچ کی بنیاد رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور کئی لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور یہ سرگرمیاں Masonic Hallمیں منتقل کر دی گئیں۔

الیکشن میں حصہ: ڈووی نے پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ڈووی بھاری اکثریت سے الیکشن ہار گیا۔ قرض میں ڈوب گیا اور اس کے چرچ کو بھی شدید دھچکا پہنچا تھا۔

1882ء : مالی تنگی اور بیٹی کا انتقال: اپنی بیوی کے نام خط لکھا کہ مجھے دن میں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے اور بعض اوقات 48گھنٹے بغیر کچھ کھائے گزر جاتے ہیں اور کسی طرف سے مدد کی توقع پوری نہیں ہو رہی اور بعض مرتبہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت نزدیک ہے۔ اس پر مزید یہ صدمہ پہنچاکہ اس جوڑے کی چھوٹی بیٹی کا انتقال ہو گیا۔

1884ء : ڈووی کو مالی وسائل میسر آگئے جس سے ملبورن میں فری کرسچن چرچ قائم کیا گیا اور ایک Tabenacle (عبادت گاہ) تعمیر کی گئی۔ پھر ایک کنونشن میں Ministry of Divine Healing یعنی روحانی طریقہ علاج کا آغاز کیا گیا۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ مرض شیطان کی طرف سے ہے اور اس سے شفا یسوع کی مدد سے ہی ہو سکتی ہے۔ یہاں اس کے وعظ میں آنے والے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں بیس ہزار تک کی تعداد میں بھی لوگ شامل ہوتے رہے۔

جیل کی ہوا: ملبورن شہر میں بھی ڈووی کی مخالفت شروع ہو گئی۔شہر میں یہ قانون بنا دیا گیا کہ اب سڑکوں اور گلیوں میں میٹنگز اور وعظ نہیں ہوں گے۔ڈووی نے یہ قانون ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے انجیل کی تعلیمات پر عمل کیا ہے اور اس طرح کی میٹنگز اس نے انگلستان اور آسٹریلیا کے دوسرے مقامات پر بھی منعقد کی ہیں۔ اس کے نزدیک یہ غیر آئینی اور مذہبی تعلیمات کے خلاف تھا اور گلیوں میں اپنی میٹنگز جاری رکھیں۔ اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا اور پانچ پاؤنڈ کا جرمانہ کیا۔ ڈووی نے جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا اور اس پاداش میں تیس روز کے لیے جیل جانا پڑا۔

1888ء۔ نقل مکانی: ڈووی نے International Divine Healers Associationکی بنیاد رکھی۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر کام شروع کرے اور اس کے لیے اس نے اب امریکہ کے ملک کا انتخاب کیا۔

جون 1888ء کو ڈووی کا گھرانہ نیوزی لینڈ کے راستے امریکہ پہنچا۔ امریکہ میں اپنی آمد کے بعد دو سال تک ڈووی نے امریکہ کی مختلف ریاستوں کے دورے کیے، لیکچر دیے اور روحانی علاج (Divine Healing) کا پرچار کیا۔

1890ء:ڈووی نے شکاگو کے مضافات میں Evanston میں رہائش اختیار کی اور یہاں رہائش پذیر ہوتے ہی اخبارات اور بعض دوسرے حلقوں کی طرف سے ڈووی کی مخالفت کا آغاز ہو گیا اور بعض حلقوں کی طرف سے ڈووی کو جھوٹا اور بہروپیا قرار دیا گیا۔

ایک شخص Jacob Schweinfurth نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہوا تھا اور اپنی ایک جماعت بھی بنا لی تھی، جس میں عورتوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔

ڈووی کے مداحوں کے مطابق ڈووی اس سے ملاقات کرنے گیا اور اس کو خوب لاجواب بھی کیا۔ اس ملاقات کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق اس گفتگو میں ڈووی نے آنحضرتﷺ کے بارے میں گستاخانہ تبصرہ کیا۔

91-1890ء دعویٔ مسیحیت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام۔آپؑ نے 1890ءمیں رسالہ فتح اسلام لکھا جو 1891ء کے اوائل میں شائع ہوا فرمایا: ’’مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔‘‘ مزید فرمایا: ’’مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے‘‘۔( فتح اسلام صفحہ10-11،حاشیہ)

1893ء۔شفاخانوں کا قیام:1893ء میں شکاگو میں ہونے والے عالمی تجارتی میلہ کے موقع پر اس نے شکاگو میں رہائش پذیر ہونے کا ارادہ کیا۔جہاں یہ میلہ ہو رہا تھا وہاں پر اپنا Tabernacle بنایا جو کہ لکڑی کی مختصر عمارت تھی۔ لیکن شروع میں اسے پبلک میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔لیکن پھر لوگ زیادہ تعداد میں یہاں پر روحانی علاج کے لیے آنے لگے۔

ڈووی اور اس کے گروہ نے کچھ گھر کرائے پر لے کر وہاں پر healing homes قائم کیے۔اس پر اخبارات میں مخالفت اور شدیدہوگئی۔اخبارات نے ان کو پاگل خانوں کا نام دیا۔

1894ء۔اخبار کا اجرا:ان Divine Healing Housesمیں کسی کی موت ہوتی تو اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہوتیں اور یہ بھی لکھا جاتا کہ جب ڈووی سے ان اموات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو اسے غصہ آجاتا ہے۔ اسی دور میں ڈووی نے اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ (Leaves of Healing) کا آغاز کیا، جس کے بعد اس کو اپنے پروپیگنڈا میں آسانی ہو گئی۔

مقدمات: ڈووی کے مداحوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں اس کےDivine Healing Homesکی طرف رجوع کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک بہت بڑا طبقہ اس کی مہم کی پہلے سے زیادہ مخالفت کر رہا تھا اور اس کی مخالفت میں شکاگو کا بورڈ آف ہیلتھ بھی شامل ہو گیا تھا۔ ڈووی کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے۔ اس کی عدالت سے ضمانت کرائی گئی۔مقدمہ شروع ہوا۔عدالت نے ڈووی کو جرمانہ کی سزا سنائی اور ڈووی نے جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔صحت کے شعبہ نے اپنےHEALING HOMESکو رجسٹر کروانے کو کہا تو ڈووی نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ اس مرحلہ پر بیسیوں مرتبہ ڈووی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے اور ضمانت کرائی گئی۔ اس کے بہت سے مداحوں نے اس کے حق میں گواہی بھی دی۔

صدرِ امریکہ سے ملاقات: محکمہ ڈاک نے اس کے جریدے لیوز آف ہیلنگ کو رعایتی نرخ دینے سے انکار کیا تو رعایتی نرخ کی بحالی کے لیے دارالحکومت واشنگٹن کا سفر کیا اور رعایتی نرخ بحال کرائے اور اس دوران امریکہ کے صدر McKinley سے بھی ملاقات کی۔

1896ء: ڈووی نے کرسچن کیتھولک چرچ (Christian Catholic Church) بنانے کا اعلان کیا اور سال کے شروع میں اس سلسلہ میں دو کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ یہ چرچApostolic Churchکی طرز پر بنایا جارہا تھا اور ڈووی کو اس کا First Apostleمقرر کیا گیا۔ اس چرچ کے قیام کے بعد سب سے پہلے اس چرچ کے منادی مقرر کیے گئےجو کہ شکاگو کے گھر گھر جا کر منادی کریں۔ جلد ان رضاکاروں کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی۔ امریکہ کے دوسرے شہروں کے علاوہ آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور سکاٹ لینڈ میں اس چرچ کی شاخیں قائم کی گئیں۔لاکھوں ٹریکٹ شائع کر کے پھیلائے گئے۔ڈووی کو اب اس چرچ کا General Overseer کہا جاتا تھا۔

25؍اگست1890ء: ڈووی نے اسلام دشمنی میں کہا کہ ’’میں امریکہ اور یورپ کی عیسائی اقوام کو خبردار کرتا ہوں کہ اسلام مردہ نہیں ہے اسلام طاقت سے بھرا ہوا ہے اگرچہ اسلام کو ضرور نابود ہونا چاہیے محمڈن ازم کو ضرور تباہ ہونا چاہیے مگر اسلام کی بربادی نہ تو مضمحل لاطینی عیسویت کے ذریعے ہو سکے گی نہ ہی بے طاقت یونانی عیسویت کے ذریعہ سے‘‘۔ ( تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ242)

1896ء۔ڈووی کی اپنے عروج کے بارے میں پیشگوئی: ’’ اگر خدا نے اسے زندگی دی اور وہ چرچ کے جنرل اوورسیئر کے مقام پر فائز ہوا۔ تو اس کا کرسچن کیتھولک چرچ اتنا مضبوط اور اتنا دولتمند ہو جائے گا کہ دنیا نے اس کی نظیر نہ دیکھی ہو گی۔‘‘ (ڈووی کا عبرت ناک انجام۔ صفحہ 24)

19؍اکتوبر 1899ء:ڈووی نے19؍اکتوبر 1899ء کو شکاگو میں ایک لیکچر دینے کا اعلان کیا جس کا عنوان Doctors, Drugs and Devilتھا۔یعنی’’ڈاکٹر، دوائیاں اور شیطان‘‘۔اس کا مقصد طبی دنیا پر حملہ کرنا تھا۔ اس مرتبہ میڈیکل کالج کے طلباء اور طب کے پیشہ سے منسلک لوگوں نے ردعمل دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے کئی ایسی بوتلوں سے مسلح ہو کر گئے تھے جن میں امونیا (Ammonia) بھرا ہوا تھا۔ ان لوگوں کی تعداد اڑھائی ہزار کے قریب تھی۔ جونہی یہ تقریب شروع ہوئی، ان لوگوں نے حملہ کر دیا۔

1899ء : شکاگو کے باہر بھی کئی مرتبہ ڈووی کے لیکچروں پر ڈنڈوں اور پتھروں سے مسلح لوگوں نے حملہ کیا۔

اسی سال ڈووی کے چرچ نے شکاگو میں برائیوں کے خلاف ’’مقدس جنگ‘‘ کا اعلان کیا۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس کا آغاز کرتے ہوئے ڈووی نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے ’’ملاکی‘‘ نبی کی پیشگوئی پڑھ کر سنائی۔ کچھ عرصہ کے بعد اس نے یہ اعلان کرنا تھا کہ وہ اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ اس جنگ کی افتتاحی تقریب میں اپنے پیروکاروں کو یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ گزشتہ مالی سال میں اس کے چرچ کو دس لاکھ ڈالر کے عطیات موصول ہوئے تھے۔ اس مہم کے موقع پر بھی ڈووی نے ڈاکٹروں کے خلاف بہت کچھ کہا۔

اس کے علاوہ اس مہم میں شراب نوشی، تمباکو، سؤر کا گوشت کھانے اور جوئے کے خلاف مہم بھی شامل تھی۔

1900ء : اس سال کے واقعات بھی بنیادی طور پر اسی طرز پر نظر آتے ہیں، جس طرز پر 1899ء کا سال گزرا تھا۔ فرق یہ تھا کہ اب ڈووی اور اس کا چرچ Zion پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آتا تھا۔ اب اس کی مہم پہلے سے زیادہ وسیع پیمانے پر چلائی جا رہی تھی اور زیادہ لوگ اس سے منسلک ہو رہے تھے لیکن اس کے ساتھ اس کی مخالفت بھی زیادہ وسیع ہو رہی تھی۔ اپنی تبلیغی مہم چلاتے ہوئے ڈووی کے چرچ سے وابستہ افراد کو جو کہ Zionists کہلاتے تھے گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاریاں شکاگو، Mansfieldاور انڈیانا میں ہوئیں۔

1900ء: ڈووی اور اس کے رفقائے کار نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے ایک فوجی کمپنی بنائیں گے۔ پہلے 200افراد پر مشتمل Zion Guard موجود تھی۔ پھر گورنر Tanner کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس میں وسعت پیدا کی جائے۔

چرچ کے سرکردہ افراد اس بات کا ذکر کر رہے تھے یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کی تیاری کے لیے ہو رہا ہے اور اس بات کا بھی اعلان کیا جا رہا تھا کہ اس چرچ کا نام Christian Catholic Church in Zion ہے اور لفظ Zion سے مراد خدا کے وہ چنیدہ لوگ ہیں جو کہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ ابھی تو یہ چرچ Zion (صیہون) کا حصہ ہے لیکن پھر تمام Zion اس چرچ میں ضم ہو جائے گا۔

1900ء۔ تبلیغ میں وسعت:اس چرچ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مغربی دنیا کے علاوہ مشرقی دنیا میں بھی اپنی سرگرمیاں شروع کرے۔ چنانچہ چین کے لیے ایک Overseerمقرر کیا گیا۔

1899یا1900ء۔ڈووی کا دعویٔ نبوت:1899ء کے اواخر یا 1900ء میں اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور اس فرقہ کا نام تبدیل کر کے کرسچن کیتھولک اپاسٹلک چرچ رکھا۔ (تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ241)

اگست 1900ء۔دورہ یورپ: شکاگو میں ڈووی کے ہزاروں پیروکاروں نے اسے الوداع کیا۔ وہ اپنے وفد سمیت شکاگو سے نیویارک پہنچا اور وہاں سے یورپ کے لیے روانہ ہوا۔ یروشلم جانا بھی پروگرام میں تھا۔

سینٹ مارٹن ہال، لندن میں اپنی تقریر میں اسے مخالفانہ ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ چار سو کے قریب مشتعل میڈیکل کے طلباء نے اس تقریب کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

نومبر1900ء : ڈووی نے لنڈن سے نکل کر لیڈز اور مانچسٹر میں تقاریر کی کوشش کی تو بھی میڈیکل کے طلباء نےان تقریبات پر حملہ کر دیا۔

انگلستان سے ڈووی پیرس اور پھر سوئٹزرلینڈ کے لیے روانہ ہوا اور پھر وہاں سے واپس لندن آگیا۔

1900ء:ڈووی کے قائم کیے جانے والے شہر صیہون (ZION) کا منصوبہ سامنے آ گیا تھا۔ شکاگو کے نزدیک اس شہر کے لیے زمین مسلسل کوششوں سے مختلف اوقات میں خریدی گئی تھی۔

3؍جنوری 1901ء :ڈووی لندن سے واپس امریکہ کے لیے روانہ ہو گیا۔یروشلم نہیں گیا۔

فروری 1901ء : ڈووی کے پیروکار ایک ہزار کے وفد کی صورت میں اس مجوزہ شہر کی جگہ کو دیکھنے کے لیے آئے۔

جولائی 1900ء : اس شہر کے سنگ بنیاد کی تقریب منعقد ہوئی اور ڈووی نے گرجا کی جگہ پر کدال چلا کر اس شہر کی تعمیر کا افتتاح کیا۔اس شہر کی اقتصادی ترقی کا منصوبہ آغاز سے ہی بنا لیا گیا تھا اور شروع میں کم از کم دو صنعتوں کو شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک Laceکے کپڑے کی صنعت تھی۔

15؍جولائی1901ء: صیہون شہر کی بنیاد رکھی اور ظاہر کیا کہ مسیح اسی شہر میں نازل ہوگا۔( تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ241-242)

25؍مارچ 1901ء: ڈووی شکاگو سے اپنے شہر میں اپنی نئی تعمیر کی گئی رہائش گاہ میں منتقل ہو گیا۔

مئی 1901ء:ڈووی کے ایک نمایاں مرید Deacon Judd کی بیوی ایما لیسی جڈ (Emma Lacy Judd) تھی۔ بچہ کی پیدائش کے دوران اس خاتون کی حالت بگڑتی گئی اور ڈووی کے چرچ کی روایت کے مطابق ڈاکٹروں کی مطلوبہ مدد نہیں لی گئی اور اسی تکلیف کی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا۔ معاملہ بڑھا اور عدالت میں ڈووی کو اور اس کے اس قریبی ساتھی کو طلب کیا گیا۔ عدالت میں ڈووی نے اپنا بیان قلمبند کروایاتواس میں ڈووی نے بیان کیا کہ پہلے اسے اس عورت کے لیے دعا کرنے کی درخواست ملی تھی پھر وہ اس عورت کی رہائش گاہ پر گیا اور اس پر ہاتھ رکھ کر دعا کی۔ اس وقت صیہون کی دو تربیت یافتہ مڈ وائف وہاں پر موجود تھیں۔ بعد میں اس خاتون کا انتقال ہوگیا۔ اس بیان میں ڈووی نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ مریضوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بعد میں اس خاتون کی قبر کھود کر لاش نکالی گئی لاش کا معائنہ کرایا گیا اور ماہرین نے عدالت میں رائے دی کہ معمولی جراحت کے عمل سے اس عورت کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ جیوری نے ڈووی اور اس عورت کے خاوند کو ذمہ دار قرار دے دیا۔ ڈووی کو حراست میں لینے کے لیے چھاپہ مارا گیا مگر ڈووی اور اس کے ساتھی کو پکڑا نہیں جاسکا۔ اگلے روز ان کو حراست میں لیا گیا۔ جج کے سامنے پیش کیا گیا جج نے دونوں کی دس دس ہزار ڈالر کی ضمانت لی۔لیکن جب گرینڈ جیوری نے مقدمہ کی سماعت کی تو اس نے ڈووی اور اس کے ساتھیوں کو بری کر دیا۔

جون 1902ء: ڈووی نے یہ اعلان کیا کہ (ترجمہ) صیہون یروشلم کو اپنے بادشاہ کے لیے خرید لے گا۔ اگر ہم تین، چار، پانچ، چھ، سات یا زیادہ صیہون شہر آباد کر لیں اور ہر سال دس لاکھ ڈالر کا انتظام کر لیں تو ہم ترکوں کو خرید سکتے ہیں، ہم مسلمانوں کو خرید سکتے ہیں، ہم یہودیوں کو خرید سکتے ہیں، ہم بے دینوں کو خرید سکتے ہیں۔ ہم یروشلم کی مقدس زمین کا قبضہ حاصل کر سکتے ہیں اور وہاں پر اپنے بادشاہ یسوع کی صیہون پر اس کی مقدس پہاڑی پر آمد کے لیے اس شہر کو تعمیر کریں گے۔

2؍جون 1901ء: دعویٰ نبوت، اچانک ایک آڈیٹوریم میں پانچ ہزار کے مجمع میں ڈووی نے یہ اعلان کیا: ’’میں ایلیا (الیاس )نبی ہوں جو کہ پہلی مرتبہ خود ایلیا کی صورت میں آیا، دوسری مرتبہ بپتسمہ دینے والے یوحنا (یحییٰ) کی صورت میں ظاہر ہوا، اور اب میری صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔میں تمام چیزوں کو بحال کرنے کے لیے آیا ہوں۔ ایلیا ایک نبی تھا، یوحنا ایک مبلغ تھا۔لیکن مجھ میں ایک رسول کی خصوصیات بھی ہیں، ایک منادی کی خصوصیات بھی ہیں اور میں انسانوں پر حکمران بھی ہوں۔ میں بغیر کسی خوف کے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جو کہ ایلیا کا جسمانی بروز بھی ہوں اور روحانی بروز بھی ہوں اور زمین پر میرے تیسری مرتبہ آنے کی پیشگوئی ملاکی نبی نے بھی کی تھی، پطرس نے بھی کی تھی اور تین ہزار سال قبل موسیٰ نے بھی کی تھی۔ جو مجھ پر ایمان لاتے ہیں کھڑے ہو جائیں‘‘۔ اسی وقت تین ہزار سے زائد موجود افراد نے کھڑے ہو کر ڈووی پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔

14؍مئی 1902ء: ڈووی کی اکلوتی بیٹی Esther Dowie شکاگو یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ 14؍مئی 1902ء کو یعنی ڈووی کے دعویٰ رسالت کے چند ماہ بعد ڈووی کی بیٹی صبح صبح شکاگو میں اپنے گھر میں اپنے بال صحیح کر رہی تھی کہ لیمپ سے اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ جب ملازم کمرے میں پہنچے تو لڑکی کے جسم کا اکثر حصہ جل چکا تھا۔ لڑکی بہت تکلیف میں تھی۔ ڈووی اور اس کی بیوی اس وقت نئے آباد ہونے والے شہر صیہون میں تھے۔ یہ خبر سن کر وہ شکاگو کے لیے روانہ ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ شکاگو میں اپنے گھر میں پہنچ کر ڈووی لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر دعا میں مصروف ہوگیا۔ لیکن لڑکی کی حالت ابتر ہوتی گئی اور رات کو نو بجے اسی تکلیف کی حالت میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ چونکہ ڈووی کا عقیدہ تھا کہ بیماروں کا صرف روحانی علاج کرنا چاہیے اس لیے کوئی طبی امدا د نہیں لی گئی۔ صرف زخموں پر پٹیاں رکھی گئیں۔ بعض کا دعویٰ تھا کہ اس کے ایک مرید ڈاکٹر کو بلایا گیا تھا۔ اعتراضات سے تنگ آکر ڈووی نے بیان دیا کہ وہ وقت پر پہنچ نہ سکا تھا۔

6؍اگست 1902ء۔قادیان سے ڈائری: امریکہ کے مشہور مفتری مدعی الیاس ڈووی کا اخبار پڑھا گیا جو مفتی محمد صادق صاحبؓ ایک عرصہ سے سنایا کرتے ہیں۔ ڈووی نے اپنے مخالف قوموں بادشاہوں اور سلطنتوں کی نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہ تباہ ہوجائیں گے۔ اس پر حضرت اقدسؑ کی رگِ غیرت و حمیت دینی جوش میں آئی اور فرمایا کہ’’مفتری کذاب اسلام کا خطرناک دشمن ہے۔ بہتر ہے اس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کے لیے بلایا جاوے۔ اسلام کے سوا دنیا میں کوئی سچا مذہب نہیں ہے اور اسلام کی ہی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر یہ مفتری میرا مقابلہ کرے گا، تو سخت شکست کھائے گا اور اب وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے افتراء کی اس کو سزا دے۔‘‘ غرض یہ قرار پایا کہ 7؍اگست کو حضرت اقدسؑ ایک خط اس مفتری کو لکھیں اور اسے نشان نمائی کے میدان میں آنے کی دعوت دیں۔ یہ خط انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر مختلف اخبارات میں بھی شائع ہو گا اور بھیجا جاوے گا۔ (ڈائری حضرت مسیح موعودؑ 6؍اگست 1902ء)

ستمبر1902ء:۔مباہلہ کاپہلا چیلنج : حضرت مسیح موعودؑ نے چیلنج کرتے ہوئے فرمایا:’’سو ہم ڈووی صاحب کی خدمت میں با ادب عرض کرتے ہیں ……مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے۔‘‘(اشتہار ڈووی کی پیشگوئی کا جواب جو اس نے تمام مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے کی ہے۔) (مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ 568-570)

یہ چیلنج ریویو آف ریلجنز (انگلش) ستمبر 1902ء میں انگریزی میں شائع ہوا اور اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی گئی اور امریکہ بھی پہنچا دیا گیا۔

1902ء: امریکہ اور یورپ میں بہت سے مقامات پر اس کے چرچ کی شاخیں قائم ہو چکی تھیں۔

دسمبر 1902ء۔حضرت مسیح موعودؑ کے چیلنج کا مذاق: دسمبر 1902ء کے آخر میں اس نے حضرت مسیح موعود ؑکو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ جیساکہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اشتہار میں واقعہ صلیب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ بچنے اور سری نگر میں یوز آسف کی قبر کا ذکر فرمایا تھا۔اس کے جواب میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ڈووی نے کہا:

’’There is one foolish man in India, a Messiah, who persists in writing to me saying that the body of Christ is buried in Cashmir, in India, and can be found there. He never says that he has seen it, but the poor fanatical and ignorant creature keeps on with the raving that the Christ died in India.

The Christ rescinded into the heavens at Bethany, and he is there in His celestial body. I can tell you exactly when He shall appear, and yet I name no day, I name no week, I name no year.‘‘(Leaves of healing, 27 th December 1902, p 306)

ترجمہ:’’ہندوستان میں ایک بیوقوف شخص ہے جو کہ اسلام سے وابستہ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ مسلسل مجھے لکھتا رہتا ہے کہ مسیح کا جسم ہندوستان کے کشمیر میں دفن ہے۔ وہ یہ کبھی نہیں کہتا کہ اس نے خود دیکھا ہے۔لیکن یہ بیچارہ، تنگ نظر اور جاہل شخص یہ لا یعنی دعویٰ کرتا رہتا ہے کہ مسیح کی وفات ہندوستان میں ہوئی تھی۔ مسیح بیت عنیاہ کے مقام پر آسمان پر چلا گیا تھا اور وہ وہاں پر اپنے روحانی جسم کے ساتھ موجود ہے۔ میں معین طور پر بتاسکتا ہوں کہ وہ کب ظاہر ہو گا۔ لیکن میں کسی دن، کسی ہفتہ اور کسی سال کا نام نہیں لیتا۔‘‘

1902-1903ء۔اخبارات میں چیلنج کا ذکر: شکاگو انٹرپریٹر اخبار نے 28؍جون1903ء۔/ارگوناٹ سان فرانسسکو 1؍دسمبر1902ء۔/شکاگو انٹر اوشن 28؍جون1903ء۔/اسینی پریس25؍جون1903ء۔/ٹیلیگراف5؍جولائی1903ء۔/ ہیرلڈ اوچسٹر 25؍جون1903ء۔/نیو یارک میل 25؍جون 1903ء۔/ بوسٹن ریکارڈ27؍جون1903ء۔/ سونانیوز 29؍جون1903ء(بحوالہ حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ506-508)

1902-1903ء ۔ڈووی کی خاموشی: حضور کے اشتہار کو ایک سال گزر گیا مگر ڈووی نے اب تک ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالا اور نہ اس چیلنج کو قبول کیا نہ انکار۔ (تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ244)

31؍مئی 1903ء: ڈووی نے اپنے رسالے کے اسی شمارے میں یہ گستاخانہ فقرے بھی شائع کیے۔ یہ اس نے اپنی اس تقریر میں کہے تھے جو کہ اس نے حضرت مسیح موعودؑ کے پہلے چیلنج کے کچھ عرصہ بعد 31؍مئی 1903ء کو کی تھی۔

’’لوگ بعض دفعہ مجھے کہتے ہیں کہ تم اِس کو کیوں نہیں جواب دیتے تم اُس کو جواب کیوں نہیں دیتے۔ میں جواب دوں! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں گا… تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں ان مکھیوں اور حقیر مچھروں کو جواب دوں۔ میں اگر ان پر پاؤں رکھوں تو یہ کچلے جائیں گے۔ میں انہیں موقع دیتا ہوں کہ وہ اڑ جائیں اور اپنی زندگی بچا لیں۔ صیہون کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ رک کر ان کو جواب دے۔ ان کی مثال اسی طرح ہے جیسے ایک چوہا ایک بجلی سے چلنے والی آری کو کہے کہ تم رک جاؤ ورنہ میں تمہیں کاٹ لوں گا۔ اسے کاٹنے دو اسی وقت اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘

24؍جون 1903ء۔ چیلنج کی منادی: ALEXANDRIA GAZZETTEکی اشاعت 24؍جون 1903ء میں لکھا کہ ڈووی کو چیلنج: ڈووی کو ایک دلچسپ مقابلہ کا چیلنج دیا گیا ہے۔ یہ چیلنج دینے والے قادیان، پنجاب کے مرزا غلام احمد ہیں۔ انہوں نے کہا ہے اے خود ساختہ رسول آؤ ہم دونوں زمین پر گھٹنے ٹیک کر دعا کریں اور خدا سے التجا کریں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے ہلاک ہو۔ ایلیا نے ابھی یہ دعوت قبول نہیں لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا۔ وہ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اسے قبول نہ کرے۔ ریویو آف ریلیجنز جس میں یہ چیلنج شائع ہوا ہے گورداسپور پنجاب میں شائع ہوتا ہے۔ اس رسالے کے مطابق مرزا مسیح موعود ہے جسے دنیا کی اصلاح کے لیے بھجوایا گیا ہے۔ ان کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔مرزا غلام احمد کا کہنا ہے ڈاکٹر ڈووی اپنے بلند و بانگ دعاوی کے ثبوت میں یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ اس نے سینکڑوں بیماروں کو شفا دی ہے۔ لیکن پھر وہ اپنی عزیز بیٹی کو شفا کیوں نہیں دے سکا، حالانکہ اس صلاحیت کا سب سے زیادہ مظاہرہ اسی موقع پر ہونا چاہیے تھا۔

نوٹ: تقریباً اسی مضمون کی خبرThe Bellefontaine Republican میں 26؍جون 1903ء کوشائع ہوئی تھی۔

23اگست1903ء۔دوسرا اشتہار مباہلہ:حضرت مسیح موعودؑ نے ایک اور اشتہار 23؍اگست1903ءکو لاہور سے انگریزی زبان میں بھی شائع کروایا جو چھ صفحوں کا تھا۔ اس میں فرماتے ہیں :’’مسٹر ڈووی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاًیا اشارتاً میرے مقابلے پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا… آج جو 23؍اگست 1903ء ہے اس کو پورے سات ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طور سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کرچکا ہوں اس تجویز کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوگا۔ میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ جیساکہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے۔‘‘(اشتہار: پگٹ اور ڈووی کے متعلق پیشگوئیاں۔مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ606-607)

14؍اکتوبر 1903ء۔نیویارک کا مجمع: صیہون کی تنظیم نیو یارک پر ایک بہت بڑی تبلیغی یلغارکا آغاز کرنے والی تھی۔ اخبارات میں خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ نیویارک پر ایک منفرد حملہ کاآغاز ہونے والا ہے۔ ڈووی نے اس غرض کے لیے میڈیسن سکوائر گارڈن کرائے پر حاصل کر لیا تھا۔

14؍اکتوبر 1903ء : ڈووی اپنے تین ہزار منادیوں کی فوج کے ساتھ صیہون سے نیو یارک کے لیے روانہ ہوا۔ یہ گروہ چھ ریل گاڑیوں میں سوار تھا۔ یہ ریل گاڑیاں آدھے آدھے گھنٹے کے وقفے سے صیہون سے روانہ ہوئیں۔ سات ہزار کا مجمع ان کو رخصت کرنے کے لیے موجود تھا۔ دوسری طرف نیویارک میں صیہون کے کارندے ان کی آمد کی تیاریاں کر رہے تھے۔

19؍اکتوبر 1903ء: ڈووی کے وعظ کے متعلق اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ چودہ ہزار کا مجمع اس کا وعظ سننے کے لیے موجود تھا اور تقریباً پانچ ہزار افراد کو جگہ نہ ہونے کے باعث واپس جانا پڑا۔ یہ سب کچھ اس تزک و احتشام سے ہو رہا تھا کہ یونیفارم میں ملبوس گانے والوں کا وہ طائفہ جو اس موقع پر مذہبی نظمیں پڑھ رہا تھا، چھ سو افراد پر مشتمل تھا۔

26؍اکتوبر1903ء۔اپنی ولدیت میں شبہ کااظہار: ڈووی نے ہزاروں کے مجمع میں اپنی تقریر میں ولدیت کے جائز ہونے کے بارے میں شکوک پیدا کر دیے۔ بعد ازاں اس کے اس دعویٰ کی تردید اس کے حقیقی والد نے کی۔

مباہلہ شروع ہونے کے چند روز کے بعد ہی یہ آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے کہ ڈووی کو اپنی زندگی کی بہت بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے منہ سے ان وعظوں کے دوران ایسے فقرے نکلنے لگے کہ حاضرین کو اس کے ذہنی توازن پر شبہ ہونا شروع ہوگیا۔ یہ سب کچھ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں ہو رہا تھا اور اخبارات میں بھی شائع ہورہا تھا۔ تقریبات کے ختم ہونے سے قبل ہی آدھے لوگ واپس چلے جاتے۔ گو کہ وہاں پر ہزاروں لوگ ڈووی کے وعظ سننے کے لیے تو آتے لیکن نیویارک کے لوگ ڈووی کی تنظیم میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بعض مواقع پر تو یہ خوف بھی پیدا ہوا کہ فسادات شروع ہو سکتے ہیں۔ یہ خبریں شائع ہوئیں کہ نیویارک پر یہ حملہ کرنے کا مقصد ان کی اصلاح نہیں بلکہ ان سے مال و دولت جمع کرنا تھا۔

نومبر 1903ء: اس مرحلہ پر ڈووی نے اپنے وفد سمیت اس وقت امریکہ کے صدر تھیوڈر روزویلٹ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور پھر یہ اعلان کیا گیا کہ ڈووی کے پیروکار اگلے انتخابات میں روزویلٹ کی حمایت کریں گے۔

4؍نومبر 1903ء۔ناکام تبلیغی مہم اور رسوائی: ڈووی کے منادیوں کی فوج خاموشی سے 2نومبر کو نیویارک سے روانہ ہوئی اور 4 نومبر کو صیہون واپس پہنچ گئی۔

دسمبر1903ء۔ڈووی کا اشارتاً مقابلہ میں آنا: ڈووی لکھتا ہے ’’ہندوستان میںایک بے وقوف شخص ہے جو محمدی مسیح ہونے کا دعوی کرتا ہے … بے چارہ دیوانہ اور جاہل شخص ہے ‘‘۔ پھر کہا کہ ’’لوگ مجھے بعض اوقات کہتے ہیں کہ تم فلاں فلاں بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ جواب! کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کو جواب دوں گا اگر میں اپنا پائوں ان پر رکھوں تو ایک دم ان کو کچل دوں گا۔‘‘

جنوری 1904ء: سال کےآغاز میں ہی ڈووی صیہون سے بین الاقوامی دورہ کے لیے روانہ ہوا۔

آسٹریلیا روانہ ہونے سے قبل اس نے امریکہ کے بعض شہروں میں قیام کرنا تھا۔ڈووی پہلے سان فرانسسکو گیا۔ وہاں جا کر اس کا اصل منصوبہ سامنے آیا۔ وہ ٹیکساس میں ایک نیا شہر آباد کرنا چاہتا تھا۔ اور اس سلسلہ میں مختلف مقامات کا معائنہ کیا گیا۔ ٹیکساس کے ساحل پر ایک جزیرہ Matagorda بھی زیر ِغور آیا۔ اس جزیرہ کا رقبہ تیس ہزار ایکڑ تھا۔

جنوری میں ہی ڈووی امریکہ سے آسٹریلیا روانہ ہو گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ245-246)

فروری اور اپریل 1904ء: آسٹریلیا کے سفر کے دوران ڈووی نے انگلستان کے بادشاہ کے متعلق منفی تبصرے کیے جس کے نتیجہ میں اس کے خلاف جذبات اور بھی بھڑک اُٹھے۔ اڈیلیڈ (Adelaide) کے میئر نے اسے مطلع کیا کہ اب کوئی پبلک عمارت اس کو استعمال کے لیے نہیں دی جائے گی۔ اور یہ بھی لکھا کہ وہ اپنی قوم کے نام پر ایک بد نما دھبہ ہے۔

مئی 1904ء۔ہندوستان کا پروگرام:آسٹریلیا کے دورہ کے بعد ڈووی کا ارادہ ہندوستان جانے کا تھا لیکن کسی وجہ سے عین آخر وقت میں یہ ارادہ منسوخ کر دیا گیا۔

Sunday Timesجو پرتھ سے شائع ہوتا تھا، نے Dowie in Indiaکی سرخی لگائی اور اس کے نیچے ڈووی اور حضرت اقدس مسیح ِ موعودؑ کے بارے میں کئی کالم کی خبر شائع کی۔ اس اخبار نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کا ذکر کیا اور کسوف و خسوف کا ذکر بھی کیا۔

جون 1904ء: لندن میں ہزیمت: ڈووی جب لنڈن پہنچا تو بادشاہ کے خلاف بیانات کے باعث اس کے خلاف جذبات بری طرح بھڑکے ہوئے تھے۔کچھ اس کے دعاوی کی وجہ سے اور کچھ برطانیہ کے بادشاہ کے خلاف بیان دینے کی وجہ سے بھی۔ یوسٹن روڈ (Euston Road) پر اس کی تنظیم کا مرکز تھا۔ ڈووی جب وہاں جاتا تو ہزاروں کا ہجوم اس عمارت کا محاصرہ کر لیتا۔ کسی ہوٹل میں قیام کی جگہ نہ دی گئی۔

1904ء : جرمنی میں مرکز کا ارادہ۔ یورپ کے اس دورہ کے دوران ڈووی جرمنی بھی گیا اور وہاں برلن کے قریب پانچ روزہ مہم کا آغاز بھی کیا۔ اور یہ اعلان کیا کہ وہ برلن سے چالیس میل کے فاصلہ پر ایک اور صیہون آباد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

جون 1904ء۔واپسی: جون کے آخر میں ڈووی انگلستان سے واپس امریکہ پہنچا۔واپسی پر اس کے ساتھ سویڈن کی ایک بہت امیر نوجوان عورت تھی۔ یہ خاتون ڈووی کی پیروکار بن چکی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ اس نے اپنی دولت ڈووی کے مشن کے لیے وقف کردی ہے۔ صیہون واپس پہنچنے پر ڈووی کا شاندار استقبال ہوا۔ ہزاروں لوگ اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ اسے شہر کی ایک بہت بڑی چابی دی گئی۔

ستمبر1904ء۔نیا دعویٰ:ستمبر 1904ء میںFirst Apostle of Christian Catholic Churchہونے کا اعلان کیا۔ یہ دعویٰ سات ہزار کے مجمع میں کیا گیا۔ اس نے اپنے دعوے کی تائید میں بائبل کے حوالے پڑھے۔

برطانیہ میں تبلیغ کا اعلان: برطانیہ سے واپسی پر اس نے ایک اور اعلان کیا کہ وہ انگلستان میں اپنی تبلیغ کے لیے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ یلغار کرے گا۔ اس نے کہا کہ بہت سے جہازوں میں جنہیں وہGospel Ships کا نام دے رہا تھا اس کے پیروکار انگلستان پہنچیں گے اور اپنی مہم کا آغاز کریں گے۔

فروری1905ء : یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوئیں کہ ڈووی، اس کی تنظیم کے اعلیٰ عہدیدار اور ان کے اہل ِخانہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

آغاز 1905ء۔میکسیکو میں مرکز کے قیام کی کوششیں: ڈووی نے میکسیکو (Mexico)کی طرف سفر کیا۔ اور جائزہ لینے اور مذاکرات کرنے کے بعد اعلان کیا کہ وہ میکسیکو شہر کے قریب ایک نیا صیہون آباد کرے گا۔ اور اس شہر میں اپنے پیروکار آباد کرے گا۔یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ ڈووی اس مقام کو آباد کرنے کے لیے بیس لاکھ ایکڑ زمین خرید رہا ہے۔

وسط 1905ء۔ایک مثبت پیش رفت: 1905ء کے وسط میں ڈووی کے لیے ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ عدالت میں اس کے خلاف دیوالیہ کے جتنے بھی مقدمات تھے وہ خارج کر دیے گئے۔تمام قرضے سود سمیت ادا کر دیے گئے۔ اب صیہون مالی طور پر مستحکم ہو سکتا تھا۔

24؍ستمبر 1905ء: اس ماہ کے آخر میں اس نے صیہون میں تقریر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس کی ایک پیروکار نے بادشاہ سے ملنے کا وقت لیا اور بادشاہ کو صیہون تنظیم کا تعارف کرایا اور تعلیمات سے متعارف کرایا جس کے نتیجہ میں بادشاہ نے اس تنظیم کے نظریات قبول کر لیے اور اس کے اثر کی وجہ سے اب یورپ کے ہر شاہی خاندان میں ڈووی کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔

یکم اکتوبر 1905ء۔ فالج کاپہلا شدید حملہ: اسی تقریر میں ڈووی ایک میز پر بیٹھ کر مخصوص دعا پڑھ رہا تھا اور ہزاروں کا مجمع اس کے سامنے سر جھکا کر بیٹھا ہوا روٹی کے ٹکڑوں کو برکت دے رہا تھا کہ ڈووی کو فالج کا حملہ ہوا۔ کچھ دیر میں اس کو ہوش آگئی لیکن اس کے جسم کا آدھا حصہ مفلوج ہو چکا تھا۔کچھ دنوں میں اس کی طبیعت سنبھلی۔

شروع میں اس کی تنظیم کی طرف سے انکار کیا گیا کہ اسے فالج کا حملہ ہوا ہے۔ لیکن جلد ہی اس کی طرف سے اور اس کی تنظیم کی طرف سے اس بات کا اعلان کر دیا گیا کہ اسے فالج کا حملہ ہوا ہے۔اس کی طرف سے لیوز آف ہیلنگ میں پیغامات شائع کیے گئے جس میں اس نے لکھا کہ وہ موت کے منہ سے واپس آیا ہے۔

ڈووی نے میکسیکو دوبارہ جانے کا ارادہ کیا۔اس کے ساتھیوں نے اسے وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا۔لیکن اس نے یہ ارادہ برقرار رکھا اور میکسیکو کے لیے روانہ ہو گیا۔

ڈووی صیہون سے رخصت ہوا اور میکسیکو کی طرف روانہ ہوا۔معلوم ہوتا ہے کہ راستہ میں ڈووی کو ایک اور فالج کا حملہ ہوا، جس سے اس کی طبیعت ایک اور مرتبہ خراب ہو گئی۔ اور وہ میکسیکو پہنچ کر اس زمین کی طرف نہیں جا سکا جسے اس نے نئے صیہون کو آباد کرنے کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ ڈووی ہر قسم کے امراض کے علاج کا دعویٰ کرتا تھا لیکن اسے خود فالج ہو گیا ہے۔ اس نے اپنا جانشین مقرر کر دیا ہے لیکن ابھی اس کا نام خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

اکتوبر 1905ء: آخر ماہ تک وہ میکسیکو کے شہر Tampico میں مقیم تھا اور بیماری بدستور شدید تھی اور اس نے اپنی تنظیم کے معاملات دوسرے عہدیداروں کو منتقل کر دیے تھے۔

نومبر 1905ء: میکسیکو میں ڈووی کا قیام دو ماہ تک رہا۔یہاں پر اس نے Tamaulipasکی ریاست میں بیس لاکھ ایکڑ تک کی اراضی خریدنے کے لیے منصوبہ بنایا تھا۔ میکسیکو کے صدر Diaz کا رویہ ڈووی کے منصوبے کے ساتھ ہمدردانہ تھا۔ نومبر میں ڈووی میکسیکو سے واپس آیا۔

نومبر 1905ء: ڈووی کی صحت نسبتاً بہتر تھی کیونکہ ایک موقع پر اس نے امریکہ میں ایک گھنٹہ کا وعظ بھی کیا۔

19؍دسمبر 1905ء: صیہون واپس آکر ڈووی نے وہاں کے مرکزی گرجا Shiloh Tabernacle میں وعظ کرنے کی کوشش کی۔ جب ڈووی نے کھڑے ہو کر بولنے کی کوشش کی تو لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس کے بعد اس نے کرسی پر بیٹھ کر بولنا شروع کیا۔ اس کی آواز مدھم اور کانپ رہی تھی۔

19؍دسمبر1905ء:دوبارہ فالج گرا۔تمام مرید اس کو چھوڑ گئے۔بیوی بچے الگ ہو گئے۔ جسمانی طور پر حالت ایسی خراب ہو گئی کہ وہ خود اٹھ کر ایک قدم بھی نہ چل سکتا تھا بلکہ اس کے حبشی ملازم اسے ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جاتے تھے۔ اس حالت میں وہ دیوانہ ہو گیا۔

اس نے اپنی تنظیم کے تین عہدیداروں کو تمام اختیار منتقل کیے۔ ان تین عہدیداروں کے نام Sprecher، Judge D. Barnes، Alexander Granger تھے۔

صحت کی بحالی کے لیے اپنے بیٹے، ایک نرس اور دو ساتھیوں کے ہمراہ ایک بحری جہاز میں جمیکا روانہ ہو گیا۔ ڈووی یکم جنوری 1906ء کو جمیکا پہنچا۔ وہاں سے یہ تاریں صیہون موصول ہونی شروع ہوئیں کہ ڈووی کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔

صیہون کی مالی حالت ابتر ہو گئی۔ صیہون کے جریدے لیوز آف ہیلنگ کو بھی مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنی اشاعت وقتی طور پر روکنی پڑی۔

ڈووی طبیعت بہتر ہوتے ہی دوبارہ میکسیکو جا پہنچا۔اس کے مقرر کردہ تین عہدیدار اپنی سی کوششوں میں لگ گئے کہ صیہون کی مالی حالت بہتر بنائی جا سکے۔

ڈووی نے ان میں سےSpeicher کو معطل کر دیا۔اور آسٹریلیا سےWilbur Glenn Volivaکو حکم دیا کہ وہ صیہون پہنچے اور اسے صیہون کے تمام کاروبار اور ملکیت کا مختارِ کل مقرر کر دیا۔Volivaنے آسٹریلیا میں ڈووی کی تنظیم کے انچارج کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ Voliva تقریباً ایک ماہ کا سفر کر کے صیہون پہنچا۔اس نے کچھ ہفتے حالات کا اور صیہون کی مالی حالت کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا۔جلد ہی اس پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ صیہون کا دیوالیہ نکلنے والا ہے۔

یکم اپریل 1906ء: ڈووی کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا۔ Shiloh Tabernacle میں پانچ ہزار کے مجمع میں ڈووی کے مقررکردہ انچارج Volivaنے اعلان کیا کہ ڈووی ایک جھوٹا اور منافق انسان ہے۔ سٹیج پر دوسرے سرکردہ افراد کے ساتھ ڈووی کی اپنی بیوی بھی موجود تھی۔ ڈووی کا بیٹا بھی مجمع میں موجود تھا۔

پھرVolivaنے مجمع سے دریافت کیا کہ وہ کس کو اپنا لیڈر بنانا چاہتے ہیں۔ اس پر مجمع نے متفقہ طور پر اسے اپنا نیا لیڈر بنانے کا اعلان کیا۔

ایک ڈالر: Voliva نے مختار کی حیثیت سے ساری املاک اسی تنظیم کے ایک عہدیدار Grainger کے ہاتھ ایک ڈالر کی قیمت پر فروخت کر کے اس کے نام قانونی طور پر حقوق ِملکیت منتقل کر دیے۔

ڈووی کو تار دے کر مطلع کیا گیاکہ اسے برطرف کر دیا گیا ہے۔ اور اس پر دیگر الزامات کے علاوہ تعدد ازدواج کا حامی ہونے کا بھی الزام لگایا گیا۔ اور یہ اطلاع بھی دی گئی کہ وہ نہ اب ان کا لیڈر ہے اور نہ ہی اس چرچ کا ممبر ہے جس کا بانی وہ خود تھا۔

ڈووی نے آٹھ سو الفاظ کی ایک تار بھیجی اور Graigner کو برطرف کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ جلد وہ ایک تفصیلی خط بھجوائے گا۔

یکم مئی 1906ء: ڈووی نے صیہون میں دوبارہ قدم جمانے کی کوششیں شروع کیں اور شکاگو سے صیہون اپنے گھر میں منتقل ہو گیا۔یکم مئی کو اس کے مخالفین نے اسے ایک چارج شیٹ بھجوا دی۔ اس میں الزامات کے ساتھ ان کی تائید میں لوگوں کی گواہیاں بھی منسلک تھیں۔

مئی1906ء : سرکٹ کورٹ میں ابتدائی سماعت شروع بھی ہو گئی۔لیکن اس دوران ڈووی کی صحت مسلسل خراب ہو رہی تھی اور یہ چیز بھی اسے خاطر خواہ انداز میں مقدمہ لڑنے سے روک رہی تھی۔

20 برس زندہ رہنے کا دعویٰ: ایک روز شکاگو میں اپنے ہوٹل میں اس نے صبح بیدار ہو کر اخبار پڑھنا شروع کیا۔ اس اخبار میں یہ خبر تھی کہ ڈووی اب چند دنوں کا مہمان ہے۔ ڈووی نے یہ پڑھ کر ہچکیوں سے رونا شروع کر دیا۔ اور کہا کہ ’’یہ بالکل سچ ہے۔‘‘ اس کے ساتھ باقی بچنے والے وفادار ساتھیوں نے اسے ہمت دلائی کہ اب اس کے چرچ کو پہلے سے زیادہ اس کی ضرورت ہے۔اس پر ڈووی نے رونا بند کیا اور کہا کہ میں اب تقریر کروں گا اور بیس برس زندہ رہوں گا۔

14؍مئی 1906ء: ڈووی نے صیہون کےShiloh Tabernacle میں وعظ دیا۔ پہلے ہزاروں لوگ اس کا وعظ سننے آتے تھے۔ اب پانچ سو کے قریب لوگ اس موقع پر موجود تھے اور ان میں سے کئی اس کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔

ڈووی کے مخالفین نے ’’چور چور، منافق منافق، جھوٹاجھوٹا‘‘ کے نعرے لگانے شروع کیے۔ کچھ لوگ یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ہمارے پیسے واپس کرو۔پولیس طلب کی گئی۔

جون 1906ء: ڈسٹرکٹ عدالت میں مقدمہ شروع ہونا تھا۔ اور عدالت نے فریقین کو سن کر یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا صیہون کی تمام املاک کا مالک ڈووی ہے یا اس سے باغی ہونے والی نئی انتظامیہ ہے۔

جولائی 1906ء: اس مہینہ میں توقع تھی کہ عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ فیصلہ سے قبل صیہون میں Feast Day کی تقریبات کا وقت آیا۔ یاد رہے کہ ایک سال قبل اس کی تقریبات بڑی شان سے ایک ہفتہ منائی گئی تھیں۔ لیکن اس سال اس روز ڈووی نے تھوڑے سے لوگوں کے مجمع میں اپنی تقریر کی۔ دوسرے مقام پر Voliva نے ہزاروں کے مجمع میں تقریر کی۔لیکن دونوں نے یہ ذکر تک نہیں کیا کہ اس تاریخ کو کیا دن منایا جاتا ہے۔

ڈووی مخالف فیصلہ: جولائی کے آخر میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اور فیصلہ یہ تھا کہ نہ تو ڈووی صیہون کا مالک ہے اور نہ ہی نئی قیادت اس کی مالک ہے۔ اگرچہ کاغذوں میں ڈووی پورے شہرکا مالک ہے لیکن ان املاک کی حیثیت ایک ٹرسٹ کی ہے اور عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس کی تائید میں ڈووی کے بیانات بھی پیش کیے۔عدالت نے فیصلہ کیا کہ اپنی مذہبی قیادت کے لیے صیہون کے چرچ کے ممبران ستمبر میں ایک انتخاب کے ذریعہ اپنا قائد منتخب کریں گے۔ اور مالی معاملات کے لیے عدالت نے Hatley نام کے شخص کو Receiver مقرر کر دیا۔ اس طرح قانونی طور پر صیہون پر ڈووی کی ملکیت کے حقوق ختم ہوگئے۔

جس شخص کو صہیون پر Receiver مقرر کیا گیا تھا، اس نے مدد کی اپیل کی کہ صیہون کے لوگوں کو کھانے کو مناسب خوراک اور پہننے کو مناسب لباس بھی میسر نہیں۔ ان کی مدد کی جائے۔

ستمبر 1906ء میں یہ انتخاب منعقد ہوا۔ ڈووی نے اپنے ایک امیدوار Billsکو اس انتخاب میں کھڑا کر دیا۔دوسرا امیدوار اس کے خلاف بغاوت کا قائد Voliva تھا۔ Voliva کو تقریباً دو ہزار اور ڈووی کے مقرر کردہ امیدوار کو صرف چھ ووٹ ملے۔

ڈووی پر ساٹھ لاکھ ڈالر کا قرضہ ہو چکا تھا۔ ڈووی کی فیکٹریا ں اس کے قرض خواہوں کے حوالے کر دی گئیں۔

نومبر 1906ء: دسمبر کے شروع میں ایک مرتبہ ڈووی کے سو دو سو عقیدت مند اس کے گھر میں جمع ہوئے تاکہ اس کا وعظ سنیں۔ لیکن جب ڈووی ان کے سامنے آیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ڈووی کا ذ ہنی توازن بگڑ چکا ہے۔ اس کی بیوی اور بچہ اسے چھوڑ کر کسی اور شہر منتقل ہوگئے۔

9؍فروری1907ءتازہ نشان کی پیشگوئی

فرمایا: ’’9؍ فروری1907ء کو مجھے یہ الہام ہوا کہ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی یعنی غلبہ تجھی کو ہو گا۔ اور پھر اسی تاریخ مجھے یہ الہام ہوا اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُ تَنَالُ مِنْہ فَتْحًا عَظِیْمًا یعنی ایک اور خوشی کا نشان تجھ کو ملے گا۔خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہو گی وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہو گا …اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہو گا چاہیے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے۔ کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کرے گا۔‘‘ (حقیقة الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ510)

مارچ 1907ء: پانچ ہفتہ سے ڈووی نےپبلک کے سامنے آنا تقریباً بند کر دیا تھا۔کبھی کبھی کوئی اکا دکا معتقد آتا تو اس کے لیے دعا کر دیتا۔ 9؍مارچ کو رات کے ایک بجے ڈووی نے بہکی بہکی باتیں شروع کر دیں۔

9؍مارچ1907ء : صبح کو بڑے دکھ اور حسرت کے ساتھ اس دنیاسے کوچ کر گیا۔

ڈووی کا دماغ: آخری رسومات اور تدفین کے بعد پولیس کو یہ اطلاع ملی کہ شکاگو کے بعض طبی ادارے ڈووی کا دماغ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے حصول کے لیے کرائے کے آدمی بھی مقرر کیے گئے ہیں اس لیے اس کی قبر پر پہرہ بٹھانا پڑا۔

آخری رسومات: اس کے بچے کھچے چندعقیدت مندوں نے یہ اعلان کیا کہ ڈووی صرف ایک گہری نیند میں چلا گیا ہے اور پھر کسی اور جگہ پر جنم لے گا۔ اس کی آخری رسومات پر بھی جھگڑا ہو گیا۔ اس کی بیوی اور بیٹے نے اس کے باقی ماندہ پیروکاروں کو اس کی لاش پر آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔اس کی تین مختلف آخری رسومات ادا کی گئیں۔ بعض نے اس دوران دعا میں اس کو برا بھلا کہا۔

1907ء: ڈووی کی ہلاکت پر

تبصرہ کرنے والے چند اخبار

انڈیپنڈنٹ 14؍مارچ1907ء، بوسٹن ہیرلڈ23؍جون 1907ء، سول اینڈ ملٹری گزٹ12؍مارچ1907ء، شکاگو ٹریبیون10؍مارچ1907ء۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’تیسواں نشان۔ ایک شخص ڈووی نام امریکہ کا رہنے والا تھا اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا اُس کا خیال تھا کہ میں اسلام کی بیخ کنی کروں گا۔ حضرت عیسیٰ کو خدا مانتا تھا میں نے اُس کی طرف لکھا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرے اور ساتھ اس کے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ مباہلہ نہیں کرے گا تب بھی خدااُس کو تباہ کر دے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی امریکہ کے کئی اخباروں میں شائع کی گئی اور اپنے انگریزی رسالہ میں بھی شائع کی گئی۔ آخر اس پیشگوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی لاکھ روپیہ کی ملکیت سے اُس کو جواب مل گیا اوربڑی ذلّت پیش آئی اور آپ مرضِ فالج میں گرفتار ہو گیا ایساکہ اب وہ ایک قدم بھی آپ چل نہیں سکتا۔ہر ایک جگہ اُٹھاکر لے جاتے ہیں اور امریکہ کے ڈاکٹروں نے رائے دی ہے کہ اب یہ قابل علاج نہیں شائد چند ماہ تک مر جائے گا۔‘‘ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 226)

پھر فرمایا کہ ’’ 9؍مارچ 1907ء لنڈن کی تار میں خبر آئی ہے جو سول اخبار میں شائع ہو گئی کہ ڈوئی جس نے امریکہ میں پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور جس کی نسبت میں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ اپنے دعوے میں کاذب ہے خدا اُس کو نہیں چھوڑے گا۔ وہ مفلوج ہو کر مر گیا۔فالحمد للہ علیٰ ذالک بڑا نشان ظاہر ہوا۔ منہ‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن، جلد 22 صفحہ 492،حاشیہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button