تاریخِ عورت (بزبانِ احمدی عورت)

(آصف محمود باسط)

مرا وجود اندھیروں میں قید رکھا گیا
جہالتوں میں مرا ذہن صید رکھا گیا

مرا بدن کبھی نیلام کر دیا جاتا
مجھے فروخت سرِعام کر دیا جاتا

سلوک مجھ سے تھا بہتر نصیبِ بزغالہ
تو میرے دام سے اونچا تھا نرخِ گوسالہ

تھی چار سو مری ذلّت کی یہ گھٹا چھائی
کہ جیسے وادیٔ بطحا سے اِک ہوا آئی

جو مجھ پہ گرد تھی تذلیل کی اُڑا ڈالی
وہ جس کا والی خدا تھا، بنا مرا والی

اُٹھا کے خاک سے حوّا کی بیٹیوں کا وجود
عطا کیا انہیں جنت کی وادیوں کا کشود

مرے نقوشِ قدم کو بنا دیا فردوس
مرے وجود سے پیدا ہوئے ولی اور غوث

عطا کیا تھا جو انسانیت میں عالی مقام
سوال یہ تھا کہ حاصل ہو کیسے اُس کو دوام

ہزار سال میں مد و جزر ہزار آئے
اور امتحان مری رہ میں بے شمار آئے

پھر اِک نشان خدا کے کرم کا بھیجا گیا
اور اِک مسیحا مرے درد و غم کا بھیجا گیا

تو گم شدہ مرا منصب بحال اُس نے کیا
مقام کو بھی مرے لازوال اُس نے کیا

خدا کے نور کا مصباح تھما دیا مجھ کو
ستارہ اوجِ فلک کا بنا دیا مجھ کو

مری فلاح کی خاطر بنائی اِک لجنہ
کہ ہم ہمیشہ رہیں سر تا پا اماءاللہ

اب اک صدی نہیں، صدیاں نصیب ہیں مجھ کو
ترقیات کی گلیاں نصیب ہیں مجھ کو

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button