لجنہ اماء اللہ کی ایک ابتدائی ممبر میری والدہ محترمہ زُبیدہ بیگم بنت حضرت ذوالفقار علی خان گوہرؓ سے وابستہ کچھ باتیں
آج سے سو سال قبل 1922ء کا سال جماعت احمدیہ عالمگیر کے لیے ایک عظیم الشان تاریخی سال تھا جبکہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانی، مصلح موعودؓ نے جماعت کی ترقی اور استحکام کے لیے پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر شوریٰ کا نظام جاری فرمایا۔ نیز اسی سال خواتین کی علمی، اخلاقی، تمدنی ترقی، اورفلاح و بہبود کے لیے 25؍دسمبر کو لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی۔ مستورات کے لیے لجنہ اماء اللہ کا قیام ایک انقلابی امر تھا جس نے احمدی مستورات کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتوں اور عملی رُجحان کو روحانی اور ارتقائی رنگ میں ڈھال دیا۔
اب چند دنوں میں 25؍دسمبر 2022ء کو لجنہ اماء اللہ کے قیام کی ایک صدی مکمل ہوجائے گی۔ اس لحاظ سے یہ عاجزہ ایک ناچیز لجنہ ممبر کی حیثیت سے سو سو بار شکر ادا کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل اور رحم کے ساتھ مجھے بھی لجنہ اماء اللہ کے درخشندہ سو سالوں کی ترقی اور کارناموں نیز اس کی اہمیت و برکات کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی توفیق عطا کی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔
ورطۂ حیرت
16؍اکتوبر 2022ء کو مسجد بیت الفتوح میں لجنہ اماء اللہ یوکے کی شوریٰ کے اختتامی اجلاس میںنیشنل صدر لجنہ مکرمہ ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ نے اختتامی تقریرمیں حضرت مصلح موعودؓ کے مرتب کیے ہوئے لجنہ اماء اللہ کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ نیز نمائندگان شوریٰ کی ذمہ داریا ں بتائیں۔ اس تقریر کے دوران انہوں نے بتایا کہ جماعتی شوریٰ کے موقع پر پہلی مرتبہ 1929ء میں دو خواتین کو موقع دیا گیا کہ وہ عورتوں کی نمائندگی میں اپنی رائے دیں۔یہ باقاعدہ نمائندہ نہ تھیں بلکہ پردہ کے پیچھے زائرین میںسےتھیں۔ان میں ایک اُستانی میمونہ صاحبہ اور دوسری زبیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ذوالفقار علی گوہرؓ ،یعنی میری والدہ مرحومہ تھیں۔یہ سن کر میں تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گئی کہ کیسے پہلی مرتبہ شوریٰ کے موقع پر میری والدہ کو خواتین کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا۔
بعد ازاں میری یادوں کے دریچے میری امی کی طرف مبذول ہوگئے کہ کس طرح وہ خلافت کی محبت میں سرشار رہتی تھیں اور ہر خدمت کے لیے ہر دم تیار رہتی تھیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ جو کہ موعود خلیفہ تھے۔ علوم ظاہری و باطنی سے پُر تھے۔ انتہائی ذہین و فہیم تھے۔ دل کے اس قدر حلیم تھے کہ ان کو خواتین کی تعلیم و تربیت اور ترقی کی تڑپ رہتی تھی۔ لجنہ اماء اللہ کا قیام تمام احمدی مستورات کے لیے ان کا احسان عظیم تھا۔ میری والدہ نے خلافت کے زیرِسایہ تربیت پا کر کیا سیکھا اور کیسے عمل کیا۔ اس مضمون میں ان کے حوالے سے ہی ابتدائی لجنہ ممبرکا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔
ابتدائی لجنہ ممبر
میری والدہ زبیدہ بیگم صاحبہ حضرت مولانا ذوالفقار علی گوہرؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ اور کلثوم کبریٰ صاحبہ صحابیہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی تھیں۔ نانی جان حافظہ قرآن اور موصیہ بھی تھیں۔ انہوں نے اپنے تینوں بچوں یعنی والدہ صاحبہ اور ماموں عبدالمالک خان صاحب شہید احمدیت اور حبیب اللہ خان صاحب پروفیسر ٹی آئی کالج ربوہ کی اس طرح تربیت کی تھی کہ ان کے دلوں میں قرآن کی محبت بھر دی ۔ اطاعت اور قربانی کا جذبہ ان کے اندر مثالی طور پر تھا۔ آگے چل کر لجنہ اماءاللہ کے قیام کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی راہبری اور ہدایات ان سب کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔
والدہ صاحبہ کہا کرتی تھیں کہ انہوں نے لجنہ کے قیام سے پہلے حضرت مصلح موعودؓ کا مضمون پڑھا تھا جو حضورؓ نے قادیان کی سب مستورات کے لیے لکھا تھا۔ عورتوں کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے مقاصد کو سمجھیں۔ علم حاصل کریں۔ اس علم کو دوسروں میں پھیلائیں۔ عمل کے میدان میں خواتین آگے بڑھیں اور اس دنیا میں اور اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ حضور نے لکھا تھا کہ ان مقاصد پر غور کریں اور ان کے حصول کے لیے مل کر کام کریں۔
چونکہ میرے نانا جانؓ قادیان میں ناظر امورعامہ تھےبعد میں ناظر اعلیٰ بھی رہے اور نانی جان بھی خلافت سے والہانہ لگاؤ رکھتی تھیںاس لیے والدہ صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ خاندان کی خواتین مبارکہ سے قریب ہو گئیں۔حضرت ام طاہرؒ سے تو ان کا بہنوں جیسا تعلق تھا۔ امی اکثر یاد کرتی تھیں کہ وہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؒ یعنی حضرت ام طاہر سے چوڑیاں بدل بدل کر پہنتی تھیں۔اسی قربت کے نتیجے میں والدہ صاحبہ کا خاندان میں آنا جانا رہتا تھا۔ قیام لجنہ اماءاللہ کے بارے میں وہ بتاتی تھیں کہ سخت سردی کے دن تھے۔ 25؍دسمبر 1922ءکو بہت سی خواتین حضرت اماں جانؓ کے گھر گئی تھیں۔ اس میں سیدہ ام طاہرؒ کے علاوہ خاندان مسیح موعوؑد کی خواتین مبارکہ نیز بڑی عورتیں معزز گھرانوں سے بھی گئی تھیں۔ 14 مقدس خواتین کی موجودگی میںلجنہ کا قیام ہوا تھا۔
لجنہ کے قیام کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے خاص طور پر خواتین کو لجنہ کے قیام کے مقاصد بتائے اور فرمایا کہ وہ اپنے اخلاق کو بلند کریں۔نماز کی پابندی کریں۔ قرآن کریم حفظ کریں۔ آپس میں وحدت کی روح کو فروغ دیں۔ اپنے وقت کی قدر کریں۔سُستیاں ترک کردیں۔ چست اور باخبر رہیں۔ ہر تکلیف برداشت کریں۔ اللہ تعالیٰ،حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعودؑ کے احکامات کی پیروی کریں اور خلافت سے محبت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں۔ جیسا کہ والدہ صاحبہ نے بتایا اور مَیں نے ساری عمر ان خواتین کو دیکھا کہ وہ ان سب احکامات پر حتّی الوسع عمل کرتی تھیں۔
ہفتہ وار اجلاس
جب حضور ؓنے ہفتہ وار اجلاس کا ارشاد فرمایاتو والدہ صاحبہ نے اجلاسوں میں جانا شروع کر دیا۔ پہلا اجلاس تو حضرت اماں جانؓ کی صدارت میں ہونا قرار پایا تھا لیکن حضرت اماں جانؓ نے اپنی جگہ حضرت امّ ناصرکو صدر لجنہ بنایا اور پہلی جنرل سیکرٹری حضرت صاحب کی حرم ثانی امة الحی صاحبہؓ بنیں جو کہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی بیٹی تھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین مبارکہ کو جلسہ سالانہ مستورات کے انتظامات کرنے کا بھی ارشاد فرمایااوربرلن میں مسجد بنانے کے لیے تحریک کی۔ اس تحریک میں خواتین مبارکہ نے اور دوسری مستورات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہماری نانی جان نے بھی جو زیور والدہ صاحبہ کی شادی کے لیے بنا کر رکھا تھاایک دو زیور کے علاوہ سب مسجد برلن کے لیے پیش کر دیا۔ قادیان کی مستورات نے قربانی کا بےمثال نمونہ دکھایا۔
مَدْرَسَةُ الْخَوَاتِیْن (1925ء)
قیام لجنہ اماء اللہ کے بعد اُن مقاصد کے حصول کو آسان بنانے کے لیے علمی ترقی اور تربیت کے لیے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے عورتوں کے لیے ایک سکول کا اجرا فرمایا۔اس کا افتتاح 18؍مارچ 1925ء کو ہوا۔ اس سکول میں قرآن کریم، عربی، انگریزی، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میرے نانا جان اور نانی جان نے فوری طور پر میری والدہ صاحبہ کا داخلہ کروایا۔ امی جان اس سکول میں بے حد خوش تھیں اور اکثر ذکر کیا کرتی تھیں۔ ان کے اساتذہ میں حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس خود بھی پڑھاتے تھے۔اس کے علاوہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اورماسٹر محمد طفیل صاحب بھی اساتذہ میں شامل تھے ۔
حضرت مصلح موعودؓ کا وجود ایک سورج کی طرح تھا جس کی روشنی اور آپ کے نور کی کرنیں تمام احمدی مرد و زن اور بچوں پر پڑ رہی تھیں۔ اور وہ طالبات تو بے حد خوش نصیب تھیں جو، بلاواسطہ حضور ؓ کے علم و عرفان کے چشموں سے سیراب ہورہی تھیں۔ اس سکول کے امتحانات کانتیجہ مصباح رسالے میں شائع ہوتا تھا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ جو اس وقت ناظر تعلیم و تربیت تھے انہوں نے اس کلاس کی رپورٹ لکھی تھی۔ دیکھئےمصباح ضمیمہ یکم مئی 1927ء ۔
حضور ؓنے اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے جن لجنہ کی تربیت کی تھی وہ خواتین خدمت دین اور قربانیوں میں بے مثال تھیں۔
1931ء میں والدہ صاحبہ شادی کے بعد صوبہ بہار (انڈیا) چلی گئی تھیں۔ 1938ء میں جب خلیفۂ وقت کی طرف سے ارشاد ہواکہ جن علاقوں میں لجنہ قائم نہیں ہے وہاں لجنہ کا قیام ہونا چاہیےتو والدہ صاحبہ نے اس حکم کو اپنے لیے فرض سمجھا اور مونگھیر میں لجنہ قائم کی۔ یہ کام بہت دشوار تھا کیونکہ صوبہ بہار انڈیا کا یہ شہر مونگھیر ایک ہندو علاقہ تھا۔ دور دور کوئی مسلمان نہیں تھے۔ اس زمانہ میں عورتیں دن کو باہر نہیں جاتی تھیں۔ یا پھر پالکی پر اگر بہت ضروری ہو۔
میری والدہ صاحبہ مرحومہ راتوں کو بیل گاڑی پر باپردہ جایا کرتی تھیں۔ ایک دو عورتوں کو ساتھ رکھتی تھیں اور دور دورجا کر احمدی خواتین کوملتی تھیں اور ان کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اس طرح سے انہوں نے سب لجنہ کو اکٹھا کیا۔ پھر الیکشن کروائے تو سب نے والدہ صاحبہ کو ہی صدر بنا لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تربیت کے اثر سےوالدہ صاحبہ کے اندر بھی عورتوں کی تعلیم اور ترقی کے لیے ایک جوش اور جذبہ تھا۔ بہت کوشش کرتی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی لجنہ کے کاموں میں پیش پیش ہوتی تھیں۔
مونگھیرمیں جب لجنہ قائم ہوئی تو اس وقت وہاں کوئی مسجد نہ تھی نہ کوئی بڑی جگہ تھی جہاں اجلاس ہوسکتا۔ پھر والدہ صاحبہ نے اپنی زمین پرجو ان کو حق مہر میں ابا جان نے دی تھی ایک پھلواری بنائی اور لجنہ کے اجلاسوں کے لیے جگہ بنائی۔ اچھی اور کھلی فضا میں وہ اجلاس کرواتی تھیں۔ درس قرآن دیتی تھیں، عورتوں کو سلائی کڑھائی سکھاتی تھیں اور صحت کے اصول بھی بتاتی تھیں۔ حضورؓ کا ارشاد تھاکہ مِل جُل کر کام کرو اور اپنے مولا کے فضلوں کے وارث بنو۔ والدہ صاحبہ نے لجنہ مونگھیر میں خلافت سے محبت، اطاعت اور قربانی کی روح پھونک دی۔
پھر والد صاحب کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے قادیان بلا لیا اور وقف کا حکم دیا۔ چنانچہ میری والدہ صاحبہ سب بچوں کے ساتھ قادیان آگئیں اور یہاں پر بھی لجنہ کے کاموں میں بی بی امة القدوس صاحبہ کے ساتھ کام کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے 47سال لجنہ میں خدمت دین کے فرائض انجام دیئے۔ تبلیغ بھی بہت کرتی تھیں اور احمدی بھی بنائے۔(الفضل 26؍اپریل1940ء صفحہ6)
عاجزہ نے بذات خود جو جوش اور جذبہ، قربانی کی روح قادیان کی بزرگ خواتین میں دیکھا اور محسوس کیااس کی بات ہی اور تھی۔ مسیح کی بستی اس قدر پاک اور پُر امن جگہ تھی۔بزرگان سلسلہ اور متقی پارسا خواتین کی یاد یں میرے لیے بہترین سرمایہ ہیں۔ لندن میں اکاون سال سے رہ رہی ہوں لیکن جب کوئی قادیان سے آئے یا جائے تو دل ابھی بھی بے قرار ہوجاتا ہے۔
وہ بستی جس کے ذروں نے مسیحا کے قدم چومے
اور اس بستی کے کوچوں نے وہ پاؤں دم بدم چومے
میرا بچپن جہاں گزرا وہ بستی چھن گئی کیونکر
میری بستی میرے خوابوں کی بستی بن گئی کیونکر
زمین قادیاں تو ہم سے چھوڑی جا نہیں سکتی
قسم اک بار کھائی ہے جو توڑی جانہیںسکتی
چودہ عظیم خواتین
25؍دسمبر1922ءکو جن مبارک خواتین کی معیت میں لجنہ کی ابتدا ہوئی ان کے نام تاریخ لجنہ میں ہمیشہ تابندہ و پائندہ رہیں گے۔ ان کی دانائی ، علم و حکمت، پیار، محبت، قربانیوں کا جذبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے نام درج ذیل ہیں:
حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ،حضرت سیدہ امۃ الحی بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ( ام طاہر)، حضرت ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ،صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ،مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، حمیدہ خاتون خورشید صاحبہ بنت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ،رضیہ بیگم صاحبہ، کلثوم بانو صاحبہ، میمونہ خاتون صوفیہ صاحبہ اہلیہ مولوی غلام محمد صاحب، سائرہ خاتون صاحبہ،بشریٰ بیگم صاحبہ بنت شیخ عبد الرحمٰن صاحب۔(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ78تا79)
٭…٭…٭
خوش قسمت میمبرات لجنہ جنہوں نے وہ دور پایا