حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ و ناصرات الاحمدیہ بیلجیم کی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ۱۱؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ بیلجیم کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ بیلجیم کی ممبرات نے مسجد بیت المجیب،برسلزسے آن لائن شرکت کی۔

پروگرام کاآغاز تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ سے ہوا جس کے بعد ایک نظم پیش کی گئی۔بعد ازاں لجنہ اور ناصرات کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا اور عادتاً نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہے تو کیا اس کی نماز قبول ہو گی؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ نمازیں قبول کرنا نہ میرا کام ہے نہ آپ کا ۔وہ تو اللہ تعالیٰ نے قبول کرنی ہیں۔اب پتانہیں کوئی شخص جو عادتاً نماز پڑھتا ہے تو اس میں کتنی رو کے دعا کرتا ہے ،کتنی رقت سے پڑھتا ہے، اس میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے کہ نہیں ۔ عبادت کرتے ہوئےاس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ رازو نیاز کی باتیں ہو رہی ہیں ۔اب ہم کان لگا کر تو نہیں سن رہے ہوتے کہ سجدے میں وہ اللہ میاں سے کیا بات کر رہا ہے اور نہ اس کی نیت کا حال ہمیں پتا ہے۔ تو جہاں تک نماز قبول کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔

باقی اگر کوئی شخص اپنے آپ کو نہیں بدلتا، دنیا کے معاملات میں اپنے اخلاق کو ٹھیک نہیں کرتا، لوگوں سے اپنے میل جول کو ٹھیک نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر تم لوگوں کے حق ادا نہیں کرتے تو تم میرا حق بھی ادا نہیں کرتے۔اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں دو مقصد لے کے آیا ہوں۔ ایک یہ کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کرنا ۔دوسرے یہ کہ حقوق العباد ادا کرنا۔ بندوں کو ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والا بنانا۔ اگر ہم ایک دوسرے کے حق اداکرنےوالے نہیں بنتے، اچھے اخلاق نہیں دکھاتے اور دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایسے لوگ جو حق ادا کرنے والے نہیں ہوتے ان کی نمازیں بھی ان کے منہ پہ ماری جاتی ہیں۔لیکن کون لوگ ہیں ؟یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہمیں تو یہ پتا ہے کہ ہمیں اچھے اخلاق دکھانے چاہئیں۔

ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ نماز ظہر اور عصر میں جو سورتیں پڑھی جاتی ہیں وہ بلند آواز میں کیوں نہیں پڑھی جاتیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ پہلی بات تو یہ کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کر کے دکھایا ہم نے وہ کرنا ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہو سکتا ہے یہ وقت ایسا ہو کہ اس میں جب ہم خاموشی سے نماز پڑھ رہے ہوںتو اس وقت ہماری نماز کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہو۔ اس وقت دنیا میں اور طرح کا شور شرابا پڑا ہوا ہے اور اس سے بالکل ہٹ کر ہم خاموشی سےاپنی نمازیں پڑھ رہے ہیں، اللہ کی عبادت کر رہے ہیں۔تواس وقت نمازوں کی طرف زیادہ concentrationہوتی ہے۔شاید اس میںایک یہ بھی حکمت ہے۔

ایک سوال ہوا کہ کیا احمدی لڑکیاں physicsاور spaceکےشعبوں میں کام کر سکتی ہیں؟

اس پر حضور انور نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ اتنی لائق اور قابل ہوں تو ایسا کر سکتی ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں ایک Ph.Dاحمدی خاتون کی مثال دیتے ہوئے حضور انور نے بتایا کہ وہ space centreمیں کام کرتی ہیں جہاں Big Bangسے متعلق تجربات کیے جاتے ہیں۔حضور انور نے مزید فرمایا کہ اگر احمدی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرتیںتو دوسری احمدی لڑکیوں کو کس طرح پڑھا سکتی ہیں یا انہیں physicsجیسے مضامین کے بارے کیسے علم ہو سکتا ہے؟

حضور انور نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ عورتوں کوگھریلوذمہ داریوں اور بچوں کی تربیت کے کام کو پڑھائی اور نوکری پر ترجیح دینی ہو گی۔حضور نے خواتین کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی تعلیم کوصرف پیسے کمانے کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اسے اپنے بچوں کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔

ایک ممبر لجنہ نے حضورانور کے اسیری کے حالات پر مشتمل ایم ٹی اے نیوز کی تیار کردہ ایک ڈاکومنٹری [Brutality & Injustice]کے حوالے سے عرض کیا کہ اس میں حضو ر انور بہت پُرسکون دکھائی دیتے ہیںاورسوال کیا کہ حضور کو اس آزمائش میں کیسے طاقت ملی؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ بس مل گئی۔اللہ تعالیٰ نے دے دی۔پتا تھا کہ جب ہم اللہ کی خاطر جا رہے ہیں تو پھر کیا پروا ہے؟ جب انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی کام کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ پہ معاملہ چھوڑ دینا چاہیے۔بس اللہ تعالیٰ نے پھر آپ ہی طاقت بھی دے دی اور آپ ہی چھڑوا بھی لیا۔ہم نے تو جیل سے باہر آنے کے لیےکچھ نہیں کیا تھا ۔

ایک سوال کیا گیا کہ کبھی کبھی ہم یا ہمارا کوئی پیارا دنیا میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ سے رابطہ کرنا بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دوبارہ اللہ تعالیٰ سے اپنا رابطہ کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ایک تو ان کو یہ سمجھاؤ کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور ایک احمدی مسلمان کو کس طرح کا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کی نشانی بتائی ہے کہ وہ عبادت کرنے والا ہوتا ہے۔انسان کا مقصد پیدائش بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ تمہارا مقصد عبادت کرنا ہےتو ہمیں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا چاہیے۔ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے بنیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہم پہ مزید فضل فرمائے گا اور ہمیں دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے گا۔

ہم جو یہاں دنیا میںآئے ہیں کسی وجہ سے آئے ہیں۔ ہمارا مقصد دنیا میں اسلام کی تبلیغ پھیلانا ہے۔ ہم نے مسیح موعودؑ کو مانا تو اس لیے کہ جو اسلام کا احیائے نو ہونا تھا اس میں ہم شامل ہوں۔اگر ہم ہی پیچھے ہٹ گئے تو پھر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہوا اور ہمارے احمدی ہونے کا مقصد کیا ہوا ؟پیار سے علیحدگی میں ان کو سمجھاؤ اور ان کے لیے دعا بھی کرو تو اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔یہی ہمارا کام ہے۔

Ahmadiyya Muslim Women‘s Student Association بیلجیم کی صدر صاحبہ نے سوال کیا کہ احمدی لڑکیوںکو اخبارات میں لکھنے کے لیے کس طرح ترغیب دلائی جا سکتی ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جنہیں شوق ہے اورلکھنا آتا ہے انہیں ترغیب دلانی چاہیے۔پھر انہیں ایسے موضوعات پر لکھنے کا کہنا چاہیے جو ان کے دلچسپی کے ہوں۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ ہمارے کزن نامحرم ہوتے ہیں تو کیا ہمیں ان سے پردہ کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ شرعاً تو پردہ کرنا چاہیے لیکن آج کل تو تم لوگ کسی سے بھی نہیں پردہ کر تے۔ بازار میں بھی منہ ننگا ہوتا ہے،پھر رہے ہوتے ہو۔ گھروں میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔اگر پردہ نہیں کرنا تو کم ازکم ایک حجاب ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ کھلے طور پر باتیں کر رہے ہیں،گپیں مار رہے ہیں یابازار میں اکٹھے پھرنےچلے گئے۔یہ نہیں ہونا چاہیے۔ لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھیں، کھیلیں، باتیں کریں اور لڑکے لڑکوں کے ساتھ۔

لڑکیوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کزن لڑکے نامحرم ہیں اس لیے ہمارے درمیان ایک حجاب ہونا چاہیے۔ اس حجاب کو قائم رکھو تو ٹھیک ہے۔ تم لوگ ویسے بھی بازاروں میں چہروں کا پردہ کر کے نہیں پھر تے۔ نہ آجکل پوری طرح کوئی پردہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے صرف یہ کہنا کہ ہمیں کزنوں سے پردہ کرنا ہے بےمقصدہے۔ ہاں جب مرد کزن آئیں تو تمہارا لباس صحیح ہونا چاہیے۔ گھروں میں بھی اگر وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ یا ویسے آتے ہیں،ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے بھائیوں کے دوست ہیں ،تو پھر ان کے سامنے نہ جاؤ اور اگر مجبوری سے جانا پڑے تو پھر جیسے اسلام کہتا ہے تمہارا لباس حیا دار ہواور سر بھی ڈھکا ہو۔ان سے زیادہ فری (free)ہو کر بھی نہیں باتیں کرنی چاہئیں۔یہی آج کل کا پردہ ہے۔

ایک لجنہ ممبر نے عرض کیا کہ جیساکہ حضور فرماچکے ہیں نیوکلیئر جنگ کے تناظر میںہمیں زیادہ سے زیادہ اسلام احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔پیارے حضور!کیا ہم اتنی خطرناک جنگ میں بچ جائیں گے؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ جو بچیں گے انہوں نے ہی پیغام پہنچانا ہے۔ تم لوگ پہلے تو دنیا کو بتاؤ کہ یہ پیشگوئیاں ہیں کہ اس طرح خوفناک تباہی آئے گی۔اس لیے پہلے اپنے آپ کو اس خوفناک تباہی سے بچاؤ،بچنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف آؤ۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو، بندوں کے حق ادا کرو، اپنے اخلاق درست کرو، بری باتوں کو چھوڑو تو پھر بچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کرو تا کہ جنگ کی صورت ہی پیدا نہ ہو۔ لیکن اگر پھر بھی نہیں مانتے تو پھر ان میں سے جو بچ جائیں گے ان کو کم از کم یہ خیال ہو گا کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو ہمیں اس بات کی تلقین کیا کرتے تھے کہ یہ اچھی باتیں ہیں اگر کرو گے تو تم تباہی سے بچ جاؤ گے۔ ہم نے ان کی بات نہیں مانی اس لیے ہم پہ تباہی آ گئی۔ اب اس کا یہی طریقہ ہے کہ ہم مزید تباہی سے بچنے کے لیے ان لوگوں کو تلاش کریں یا اللہ تعالیٰ کو تلاش کریں ۔اس وقت جو احمدی موجود ہوں گے ان تک ان کی پہنچ ہو گی،ان تک وہ accessکرنے کی کوشش کریں گے یا احمدی ان تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور پھر ان کو بتائیں گے کہ دیکھو !ہم نے تم کو پہلے ہی وارننگ (warning)دی تھی۔اب بھی وقت ہے کہ بچ جاؤ۔

باقی جہاں بڑے پیمانے پر تباہیاں آتی ہیں وہاںسارے اس میں پِس جاتے ہیں ۔آٹے کے ساتھ گھن بھی پستا ہے ۔ لیکن جو نیک لوگ ہوں گے ،جواللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوں گے ،اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہوں، اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے ہوں ان کو اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح بچا لے گا۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے رہو تو بچنے کا امکان زیادہ ہے۔

ملاقات کنندگان میں سے ایک نے اپنے غیر احمدی دوست کے حوالے سے عرض کی کہ اس نے اپنی YouTubeچینل پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں وہ ڈانس کر رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اسے کس طرح سمجھایا جا ئے کہ یہ غیر اسلامی فعل ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمان ہے تو اسے کہو کہ ایک مسلمان کو ایسا کرنا زیب نہیں دیتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ پردہ کریںاور ان میں حیا پائی جائے۔آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ الحیاء من الایمان۔کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔اس لیے اگر وہ سچی مسلمان ہے تو اسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔حیا کا مطلب ہے کہ نامناسب تصاویر نہ پھیلائی جائیں کیونکہ اس سے معاشرے میںبےحیائی پھیلتی ہے۔اس لیے قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسے سمجھاؤ تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لے۔لیکن اگروہ اپنی اصلاح نہ کرے تو اس سے دوستی کرناچھوڑ دو۔

معاشیات(اکنامکس) میںماسٹرز کر نے والی ایک طالبہ نے سوال کیا کہ بہت سی یونیورسٹیز سٹوڈنٹس کو ملک سے باہر جاکر تجربہ حاصل کرنے کے لیےایک یا دو سمسٹر سٹڈی کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ کیا جماعت ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ماسٹر کر رہی ہو تو آخر بالغ عورت ہو،ہوش و حواس میں ہو،اپنا اچھے برے کا خیال رکھنے والی ہو۔ پتا ہے کیا چیز اچھی ہے اور کیا چیز بری ہے اور یہ بھی پتا ہے کہ میرا مقصد کیا ہے۔یہ پتا ہے کہ میں ایک اللہ کی بندی ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہوں اور مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہوا ہے۔ میرا کردار اچھا ہونا چاہیے۔ مَیں نے وقت پہ نمازیں بھی ادا کرنی ہیںا ور اپنے کام سے کام رکھنا ہے، غلط دوستوں سے، غلط لوگوں میں نہیں اٹھنا بیٹھنا، اپنی پڑھائی کرنی ہے، اپنا کام کر کے واپس آجانا ہے۔اس کے لیے جہاں جارہی ہو وہاں اگر یونیورسٹی کا ماحول اچھا ہے اور رہنے کے لیے علیحدہ جگہ مل جاتی ہے تو جو ماسٹرز کر رہی ہیں ان کےجانے میں کوئی ہرج نہیں۔لیکن اگر ماں باپ کو فکر اور پریشانی ہے تو پھر ان کی پریشانی کو دیکھ لیا کرو۔ باقی اگر حیا ہے، تمہارا ایمان مضبوط ہے اور مقصد صرف پڑھائی ہے، ادھر ادھر کی فضولیات میں involveہونا نہیں ، تو پھر ٹھیک ہے،کوئی ہرج نہیں ہے۔

ایک سوال ہو اکہ چہل احادیث میں ایک حدیث ہے: کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّکُوْنَ کُفْرًاجس کے معنی ہیں کہ قریب ہے کہ محتاجی کفر بن جائے۔اس حدیث سے کیا مراد ہے اوراس میں کس محتاجی کا ذکر ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ مانگنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے دولت دے تو تب بھی مجھے شکر گزار بندہ بنائے اور میں اس کا حق ادا کرنے والا ہوں اور اپنی دولت کو جہاں اپنے پہ خرچ کرتا ہوں،جائز کاموں میں خرچ کروں اور غریبوں کی خدمت کرنے میں بھی خرچ کروں اور جب فقر و فاقہ کی حالت آ جائے،محتاجی کی حالت آجائے،کسی سے مانگنا پڑے تو وہاں پھر اپنا ایمان نہ بیچوں۔

پھر اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ تم غیرمسلم ہو جاؤ یا فلاں غلط کام کرو تو مَیں تمہارے خرچے پورے کر دیتا ہوں تو یہ چیز پھر کفر میں شامل ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے محتاجی میں بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے محتاجی سے بچائے تا کہ کبھی ایسی حالت پیدا نہ ہو جہاں مجھ سے کفر کی کوئی حالت سرزد ہو۔

ایک سوال ہوا کہ جب ہم نماز میں سلام پھیرتے ہیں تو دائیں اور بائیں طرف کیوں دیکھتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ سلام اس لیے پھیرتے ہیں کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے دربار سے جا رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو توہم سلام کرتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی جو لوگ ہمارے دائیں اوربائیں ہوتے ہیں ان پہ بھی سلام پھیر رہے ہوتے ہیں۔ دائیں طرف کے لوگوں کو بھی سلام کرتے ہیں،بائیں طرف کے لوگوں کو بھی سلامتی بھیجتے ہیں تاکہ ہمارے اندر یہ احساس ہو کہ ہم نے نماز کے بعد بھی دائیں طرف والوں سے امن، پیار اور سلامتی کے ساتھ رہنا ہے اور بائیں طرف والوں سے بھی امن ،پیار اور سلامتی کے ساتھ رہنا ہےاور اپنے ماحول کو امن والا بنانا ہے۔کسی سے لڑائی جھگڑے نہیں کرنے۔ اس لیے ہمارا نہ دائیں طرف کوئی دشمن ہے نہ بائیں طرف۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیاکہ اللہ تعالیٰ نے سورت بنی اسرائیل آیت نمبر 32میں فرمایا ہےکہ اپنی اولاد کو رزق کے خرچ ہو جانے کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ہم ہی ان کورزق دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پھر افریقہ اور دوسرے ممالک میں بچے بھوک سے کیوں مر جاتے ہیں؟

اس پر حضورانورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ قانون قدرت بھی رکھا ہوا ہے۔اگر تم قانون قدرت پہ عمل کر رہے ہو ،اپنی پوری محنت کر رہے ہو،جو تمہارے وسائل ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے تم اپنے بیوی بچوں کی خوراک کا خیال رکھنے کی کوشش کر رہے ہو تو پھر اس بات سے ان کو ہلاک نہ کرو کہ ان کو رزق کہاں سے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے فیملی پلاننگ بھی اگر کرنی ہے تو اس خوف سے فیملی پلاننگ نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ روٹی کہاں سے دے گا۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے دنیا میں اتنے وسائل پیدا کیے ہوئے ہیں کہ اگر تم لوگ کام کرو گے، محنت کرو گے تو ایسے وسائل ہیں کہ ان کو خوراک مہیا ہو جائے گی، رزق مہیا ہو جائے گا۔ مَیں تمہیں بھی رزق دے رہا ہوں، تم زندہ ہو،ان کو بھی رزق دے دوں گا۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ صرف پیسہ کمانے کے لیے دنیا میں اتنے محو نہ ہو جاؤ کہ اپنی اولاد کی تربیت چھوڑ دو۔ اپنی اولاد کی تربیت کرنا بھی تمہارا کام ہے تا کہ وہ نیک بنے اور نیک رزق کمانے والی ہو۔رزق سے مراد روحانی رزق بھی ہے اور مادی رزق بھی۔اللہ تعالیٰ ہر طرح کے رزق مہیا کرتا ہے۔

افریقہ میں جو بچے مرتے ہیں تو بعض اوقات یہ اللہ تعالیٰ کےایک ٹرائل(trial) کا نتیجہ ہوتا ہے۔دنیا میںابتلا آتے ہیں۔ بعض دفعہ اُن ملکوں میں بھی آتے ہیں۔ بارشیں نہیں ہوتیں،droughtآتے ہیں۔دنیا پہ بہرحال اس کا اثر پڑتا ہے۔پھر بعض دفعہ حکومتیں dishonestہوتی ہیں۔وہ خود تو کھا جاتی ہیں مگر عوام کا خیال نہیں رکھتیں۔

افریقہ میں اگر لوگ مرتے ہیں تو ایک تو وہاں کی حکومتیں اپنی عوام کا خیال نہیں رکھتیں۔دوسرا یہ کہ اب دنیاایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔یورپ میں رہنے والے لوگ اپنی بےشمار خوراک ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر ہم ایمانداری سے افریقن ملکوں میں بھجوائیں،اور اس میں ہمارے اپنے vested interestsنہ ہوں ،تو دنیا کی بہت ساری بھوک ہم ویسے ہی مٹا سکتے ہیں۔ اگر ہم بانٹ کے کھانے والے ہوں ، اللہ تعالیٰ نے جو رزق پیدا کیا ہوا ہے اس کو ہم صحیح طرح distributeکریں تو کوئی بھوکا نہیں مرتا۔ اللہ تعالیٰ نے رزق دے دیا ہے، ہماری پلاننگ ، ہمارے غلط کام، اس رزق کا صحیح استعمال نہ ہونا اس میں بے برکتی ڈال دیتا ہے۔جو قدرتی نتیجہ اس کا نکلنا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ قحط سالی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بچے بھی مرتے ہیں،عورتیں بھی مرتی ہیں اوربڑے بھی مرتے ہیں۔لیکن اس کا الزام اللہ تعالیٰ کو نہیں دیا جا سکتا۔ابھی بھی اگر دنیا کی خوراک کا اندازہ لگائیں اور دنیا کی آبادی کو دیکھیں تو اتنی خوراک ہے کہ ہر انسان کو مل سکتی ہے۔

ایک سوال کیا گیا کہ اسلام میں اتنے زیادہ فرقے کیوں ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب سفر کی اتنی سہولتیں نہیں تھیں تو لوگ زیادہ تر اپنے علاقے میں ہی رہتے تھے اور کسی عالم کی پیروی کرتے تھے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ فرقے وجود میں آئے۔لیکن آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ جب دنیا ایک گلوبل ولیج بن جائے گی تو مسیح موعود کے ذریعہ ان تمام فرقوں کو جمع کر دیا جائے گا۔ اس کا فرقہ تہترواں فرقہ ہو گا۔ مسیح موعود کا کام امت مسلمہ کو امت واحدہ بنانا تھا اورآپؑ کی بعثت کے ساتھ یہ کام شروع ہوا۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ہمارا فرض ہے کہ تمام فرقوں کو تبلیغ کریںاورآہستہ آہستہ انہیں احمدیت کے قریب لائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ دنیا بھر سے جماعت احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں احمدیت پھیلی ہوئی ہے۔ اسلام احمدیت قبول کرنے والے لوگوں کا تعلق زیادہ تر مختلف مسلمان فرقوں سے ہی ہوتا ہے نہ کہ عیسائیت اوریہودیت وغیرہ سے۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ ایک واقفۂ نو کی حیثیت سے میں اپنی پڑھائی اور شادی شدہ زندگی کو کس طرح متوازن رکھ سکتی ہوں؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ شادی شدہ ہو تو پہلے شادی اورگھر کا حق ادا کرو۔ اگر بچے ہو جاتے ہیں تو بچوں کی تربیت کرو۔وقف نو کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کرے اور ان کو نیک احمدی بنائے تا کہ وہ جماعت کے لیے مفید assetsبن سکیں۔

جہاں تک سٹوڈنٹ ہونے کا سوال ہے تو جب تک بچوں کی نگہداشت ہے اس وقت تک اپنا gap yearلے لو یا کچھ عرصے کا gap لے لو۔بعد میں جب بچوں کی تربیت ہو جائے، یا بچے اس قابل ہو جائیں یا تمہارے گھر میں بچوں کو کوئی سنبھالنے والا ہو تو پھراپنی پڑھائی بھی مکمل کر لو۔

بہت ساری احمدی عورتیں ہیں جن کی شادیاں ہو گئیں، ان کے تین تین چار چار بچے ہو گئے پھر انہوں نے پڑھائیاں کیں۔مثلاً بعض ڈاکٹر ایسی ہیں جنہوں نے شروع میں میڈیسن (medicine)کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد جب بچے تھوڑے بڑے ہو گئے تو سپیشلائز (specialize)کیا۔اس طرح دوسری فیلڈز میں جانے والی عورتیں بھی ہیں۔

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے اپنا گھر سنبھالو۔اپنے بچوں کی تربیت کرنا ہے ،ان کو نیک،صالح خادم دین بنانا ہے، ان کو ملک،قوم اوردین کے لیے، اچھا انسان بنانا ہے۔ جتنی بھی تعلیم حاصل کی ہے اس کو ان پہ استعمال کرواوران کی تربیت کرو۔اس کے بعد اگر وقت ملتا ہے تو پھر مزید پڑھائی کر کے اپنی پڑھائی کو بھی improveکرو اور اگر کسی پروفیشن میں ہو ،ڈاکٹر بن رہی ہو یا ٹیچر بن رہی ہو تو پھر وہاں improveکر کے اپنے کام بھی کر سکتی ہو۔گھر آؤ تو گھر کے کام کرو، بچوں کی تربیت کرو اور پھر جو تھوڑا بہت اپنے پروفیشن کاکام ہے وہ بھی کرو۔

ایک سوال کیا گیاکہ احمدی خواتین کس طرح تبلیغ کر سکتی ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلے اپنے ساتھی طالبات کو تبلیغ کر سکتی ہیں اور انہیں اسلام احمدیت کے بارےبتا سکتی ہیں۔ Ahmadiyya Muslim Women‘s Student Association مختلف دینی اور دنیاوی موضوعات پر سیمینار منعقد کر سکتی ہے۔اس سے تبلیغ کے مزید رستے کھلیںگے۔احمدی خواتین گروپس کی صورت میں محفوظ مقامات پر لیف لیٹس بھی تقسیم کر سکتی ہیں۔

Secondary سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک بچی نے سوال کیا کہ میری کلاس میں کچھ Moroccanلڑکیاں ہیں جو جادو پر یقین رکھتی ہیں اور دجال اور نبیوں کے معجزات کو بھی ظاہری طور پر مانتی ہیں ۔مَیں انہیں کس طرح سمجھا سکتی ہوں؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اگرجادو پر یقین رکھتی ہیں تو غلط کر تی ہیں۔ان سے کہو کہ مجھ پہ جادو کر کے دکھاؤ ۔ مجھ پہ تمہارا جادو نہیں چلتا۔ مولویوں نے دماغوں میں یہ خیال اتنا زیادہ ڈال دیا ہے اور عربوں میں خاص طور پہ کہ جادو کوئی چیز ہے اور ہم جادو نکالیں گے۔ مولوی اپنا پیسہ کمانے کے لیے کہتے ہیں کہ تمہاری لڑکی بیمار ہو گئی، اس کو کوئی دماغی بیماری ہو گئی ہےیا ڈپریشن میں چلی گئی ہے۔اس کا جن نکالنے کے لیے یا جادو ختم کرنے کے لیے مار مار کر بیچاری کا بھرتا نکال دیتے ہیں۔ بعض دفعہ اس طرح بعض عورتیں مر بھی جاتی ہیں ۔

باقی رہا یہ کہ نبیوں کے معجزات کیا ہیں؟ نبیوں کے معجزات وہ ہوتے ہیں جوقرآن شریف میںلکھے ہوتے ہیں۔حضرت موسیٰؑ نے اپنا سونٹا پھینکا تو وہ سانپ نظر آنے لگ گیا ۔یااپنا ہاتھ بغل میں ڈالا تو ساروں کوسفید نظر آنے لگ گیا۔ یہ معجزات ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایسے حالات پیدا کر دیے، آنکھوں کو ایسا بنا دیا کہ لوگوں کی نظر میں یہ ہونے لگ گیا ۔ دنیا میں بھی عام جادو دکھانے والے لوگ تماشے اورمسمریزم کے ذریعے سے یہ کر دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ جادو نہیں ہے، یہ معجزہ ہے۔ اس کے مقابلے میں جب حضرت موسیٰؑ کے سامنے جادوگر آئے اور انہوں نے اپنی رسیاں پھینکیں اور لوگوں کے خیال میں وہ سانپ بننے لگے تو حضرت موسیٰ ؑبھی گھبرا گئے۔اس طرح انہوں نے ساروں کے اوپر مسمریزم کر دیا۔ سب مسمرائزڈ ہو گئے۔اللہ تعالیٰ نے کہا یہ جادو ہے۔تم اپنا سونٹا پھینکو،سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ حضرت موسیٰؑ نے اپنا سونٹا زمین پہ پھینکا تو ان لوگوں کا جو جادو تھا ،آنکھوںپر جس طرح ماحول کو مسمرائز کیا تھا ،وہ سارا تاثرختم ہو گیا۔تو یہ لوگوں کے جادو ہیںجبکہ حضرت موسیٰ ؑکا ایک معجزہ تھاجس کو کوئی ردّ نہیں کر سکا تھا۔دنیا والوں کے جو جادو ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعہ سے ردّ کروا دیتا ہے۔بعض معجزات ہوتے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کا کھانا یا پانچ آدمیوں کے کھانے کو پچاس آدمیوں یا سو آدمیوں کو کھلا دیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی اس طرح ہوا۔ تھوڑے سے چاول پکے اور بہت سارے لوگ آ گئے وہ بےشمار لوگوں نے کھائے اور پھر قادیان میں تقسیم بھی ہوئے اور وہ’’برکت والے چاول ‘‘مشہور ہو گئے۔یہ چیزیں انبیاء سے ہوتی ہیں۔یہ معجزات ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غیر معمولی باتیںدکھاتا ہے۔

باقی جہاں تک دجال کے معجزات کا تعلق ہے تودجال کے معجزات سے مراد یہی ہے کہ وہ نئی نئی چیزیں ایجاد کرے گا اور تمہیں اس سےimpressکر لے گا۔ یہ دجال کے معجزات ہیں۔اب دیکھو!یہ نئی ٹیکنالوجی ہے،اگروہ تم گاؤں میں لے جاؤ،یا اَن پڑھ لوگوں میں لے جاؤ ،تو وہ تو یہی کہیں گے کہ یہ معجزہ ہے۔یہ کس طرح ہو گیا کہ اتنی دور بیٹھ کر ایک آدمی بول رہا ہے اورہم ٹی وی دیکھ کراس کی تصویر بھی دیکھ رہے ہیں ؟ جاہلوں میں اگر جاؤ تو یہی ہوتا ہے۔ ابھی بھی دنیا میں جاہل لوگ موجود ہیں۔ تو اُس زمانے میں جب لوگوں کو آج کل کی ٹیکنالوجی کاتصور نہیں تھاان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کے اس طرح کے معجزات بھی ہوتے ہیں کہ وہ تم کو impressکر لے گا۔ آگ سے چلنے والی بڑی بڑی سواریاں ایجاد کر لے گا۔ان کے پیٹ میں آگ ہو گی ۔ان کے بڑے بڑے کان ہوں گے۔ یہ ساری باتیں حدیثوں میں لکھی ہوئی ہیں۔اس سے مراد یہی تھی کہ دجال کی ایجادات یا بعض ایسے کام جو تم لوگ آج سمجھتے ہو کہ نہیں ہو سکتے تھے ایک زمانے میں ہونے لگ جائیں گے ۔اُس وقت پھر مسیح موعود آئے گا جو دجال کا مکر اورساری تدبیروں کو ردّ کرنے والا ہو گا ،ان کو ظاہر کرنے والا ہو گا،ان کو دکھانے والا ہو گا ۔اور وہ ہم کر رہے ہیں اوردنیا کو بتا بھی رہے ہیں۔ یہ ظاہری شکل نہیں ہوتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےایک تمثیلی زبان استعمال کی تھی۔ یہ سب metaphorتھا۔

یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ نے کہا کہ اس کی یونیورسٹی میں ایک جرنلسٹ نے پاکستان کے معاشی حالات پرایک لیکچر دیا۔ اس احمدی طالبہ نےصحافی کو پاکستان کے خراب معاشی حالات کی ایک وجہ مذہبی آزادی کا فقدان بھی بتائی اوراس کے ساتھ احمدیوں پر ہونے والے بعض مظالم کا ذکر کیا۔ اس پر صحافی نے، جو پہلے جماعت کو نہ جانتا تھا ،کہا کہ وہ جماعت کے متعلق مزید تحقیق کرے گا۔اس طالبہ نے حضور انور سے پوچھا کہ کیا جماعت کو متعارف کروانے کا یہ طریقہ صحیح ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ٹھیک ہےتم نے پیغام پہنچا دیا۔اگر وہ نیک نیت ہو گا تو تحقیق بھی کر لے گا۔ کوئی بھی موقع ہواس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔تم نے پہنچا دیا تو اچھاکیا۔ کوئی ہرج نہیں کیا بلکہ اچھی بات ہو گئی۔ اَور لوگوں کو بھی اسی طرح پیغام پہنچانا چاہیے تا کہ پتا لگے کہ دنیا میں احمدیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔اصل چیز یہ ہے کہ تمہیں کہنا چاہیے تھا کہ جب ظلم ہونا شروع ہو جائے اور بے انصافی شروع ہو جائے تو وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ ظلم اور بےانصافی تم لوگ کر رہے ہو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل ختم ہو گئے اور تمہارے مال میں بھی اور تمہاری لیڈرشپ میں بھی بے برکتی پڑ گئی اور وہ dishonestہو گئے۔بے ایمان لیڈر ہو گئے، مال میں بےبرکتی پڑ گئی کیونکہ تم انصاف سے کام نہیں لیتے اور ظلم کر رہے ہو اور معصوموں کو بلا وجہ تکلیفیں دے رہے ہو۔اس لیے سارا کچھ ہو رہا ہے۔ایک طرف تم اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہو دوسری طرف یہ کہتے ہو۔جب اللہ کے نام پر ایسی باتیں کرو گے جو اللہ کی تعلیم کے خلاف ہیں تو ظاہرہے اس کا یہی نتیجہ نکلے گا جو نکل رہا ہے۔اس لحاظ سے تم نے جو کہا ٹھیک کہا۔

ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button