خلاصہ خطبہ عید

خطبہ عید الاضحی بطرز سوال و جواب 10؍ جولائی 2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عید الاضحی منا رہے ہیں یعنی قربانی کی عید۔اس قربانی کی یاد میں عید، جو ہزاروں سال پہلے باپ،بیٹےاورماں نے دی تھی۔یہ کوئی وقتی قربانی نہیں تھی بلکہ مسلسل کئی سالوں پر پھیلی ہوئی قربانی تھی۔

سوال نمبر3:حضرت ابراہیمؑ سے کیے وعدہ کو خداتعالیٰ نے کس طرح پورافرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابراہیمؑ نے بیوی اور لاڈلے بیٹے کو ایک بےآب وگیاہ جگہ میں چھوڑدیا صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا۔اوربیوی کو جب پتا چلاکہ ہمیں اس جگہ اللہ تعالیٰ کی خاطرچھوڑے جارہے ہیں تو اس کے ایمان کا بھی کیا اعلیٰ معیارتھا۔بڑے یقین اور عزم سے کہا کہ پھرجاؤ۔اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ سب کچھ ہے تو پھر خداتعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔اور پھردنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا۔وہیں پانی کابھی انتظام کردیا مستقل انتظام کردیا جو آج تک چل رہا ہے۔خوراک کا بھی انتظام کردیا بلکہ ایک شہراس ریگستان میں آبادکردیا اور پھراللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق ہرضرورت کی چیزوہاں مہیاکردی۔دنیا کے ہرقسم کے پھل اور نعمتیں وہاں جمع کردیے …کہاں وہ بے آب وگیاہ جگہ تھی اور کہاں لاکھوں لوگوں کے روزگاروہاں میسر ہیں۔اور کروڑوں لوگوں کو خوراک وہاں میسر ہے۔پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے کرنے کا اظہار کہ ایک وعدہ کیا اور ایک نشان کے طورپر اس کی چمک دکھلا دی۔اس نے اپنے وعدے کے مطابق وہ نبی پیداکیا جس پرآج تک کروڑوں لوگ روزانہ درودوسلام بھیجتے ہیں اورقیامت تک بھیجتے چلے جائیں گے۔

سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق تکمیل اشاعت دین اوراسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کرنے کےلیےآنحضرتﷺکے غلام صادق اورعاشق صادق کو مبعوث فرمایا۔آنحضرتﷺکا یہی غلام صادق ہے جس نے اعلان کیا کہ میں وہی مسیح موعودومہدی معہودہوں جس کے آنے کی پیشگوئی آنحضرتﷺنے فرمائی تھی۔یہی وہ اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے جس نے نہ صرف اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرکے اسلام کا حسن لوگوں کو بتایابلکہ ہرمخالف کو چیلنج دیا کہ کوئی دین اورمذہب نہیں ہے جو اسلام جیسی خوبصورت تعلیم پیش کرسکے۔اگر ہے تو مقابلہ پرلاؤ۔پھردیکھو کس طرح براہین اوردلائل اورخداتعالیٰ کی خاص تائیدات کے ساتھ اس کو ردکرکے دکھاؤں گا۔اسے ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔

سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خانہ کعبہ کے قیام کامقصدپوراکرنے کے لیے کیا نصیحت فرمائی؟

جواب: فرمایا:انہوں نے جس شہر کی خواہش کی تھی یا یہ دعا کی تھی کہ یہاں شہربن جائے تو یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًاٰمِنًا کہ اے میرے رب اس شہرکو ایک پرامن شہربنا دےتا کہ جویہاں رہنے والے ہوں،جو یہاں آنے والے ہوں امن اور سلامتی سے رہنے والے اور امن اورسلامتی کے پھیلانے کا خیال رکھنے والے ہوں۔پس کیا یہ دعا مسلمانوں سے تقاضا نہیں کرتی کہ اگر اس شہرکی طرف منسوب ہوتے ہیں،رب کعبہ کی عبادت کرتے ہیں، حضرت ابراہیمؑ،حضرت اسماعیلؑ کی قربانیوں اور خانہ کعبہ کے قیام کے مقصدکو پوراکرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو پھراپنے دلوں میں بھی امن اورسلامتی اورپیارومحبت کے شہربسائیں۔ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی بجائے رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کے نمونے پیش کریں۔دنیا کو سلامتی اورامن کا پیغام دیں۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے پاکستان میں قربانی کرنےکے حوالہ سے احمدیوں سے امتیازی سلوک کی بابت کیا بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا:اب تو پاکستان میں باقاعدہ انتظامیہ کی طرف سے بعض جگہ اعلان کیا گیا کہ عید کے تین دن کوئی احمدی کسی جانورکو ذبح نہیں کرسکتا۔چاہے وہ قربانی کے لیے ہو یا کسی اورمقصد کے لیے ہو۔کیونکہ اس طرح اسلامی شعائر کی بے حرمتی ہوتی ہے۔نعوذباللہ! قربانی اگراحمدی کرتے ہیںتو یہ قربانی صرف ان نام نہاد علماءکا حق ہے؟صرف ان لوگوں کا حق ہے جن پر یہ علماء مسلمان ہونے کی مہر ثبت کررہے ہیں۔ان لوگوں کے لیے اس مہرکی کوئی حیثیت نہیں جو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول حضرت محمدمصطفیٰﷺکی ایک شخص کو مسلمان بنانے اور کہنے کی مہر ہے۔بہرحال جب ایسے حالات اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بھی چلتی ہے۔اور پھر وہ ہرایک سے چاہے وہ بڑاعالم ہونام نہادعالم یا سب سے بڑالیڈرہے یا اورکوئی افسر ہے جو بھی ظلم وتعدی میں بڑھتا ہے اسے پیس کر رکھ دیتی ہے، اس کا قلع قمع کردیتی ہے۔

سوال نمبر7: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کے لیےکن امور کے بجالانے کی طرف توجہ دلائی؟

جواب: فرمایا:پس ہمارافرض ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں۔اس کی عبادتوں کے معیارقائم کریں، اس کی مخلوق کے حقوق اداکریں۔اپنی قربانیوں کو صرف اورصرف خداتعالیٰ کے حضورپیش کرنے کے لیے تیاررہیں۔اپنے تقویٰ کےمعیار بڑھائیں۔حقیقت میں اس روح کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اس عید کے منانے کی روح ہے۔اور جو اس عید پہ قربانیاں کرنے کی روح ہے، تبھی ہم اپنے مخالفین کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔تبھی ہم خداتعالیٰ کا فضل جذب کرسکتے ہیں۔اور جذب کرتے ہوئے ان وعدوں کو پوراہوتا دیکھ سکتے ہیں جواللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے فرمائے تھے۔

سوال نمبر8:حضرت مسیح موعودؑ نے قربانی کے فلسفہ کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: قربانی کا فلسفہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑایک جگہ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لیے نمونے قائم کیے ہیں۔چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اوراپنےتمام وجود کے ساتھ خداتعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔یہ ہے قربانی کا معیار۔ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔فرمایا:پس ظاہری قربانیاں اس حالت کے لیے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں۔بھیڑبکریوں کی جو قربانیاں ہیں یہ تو اصل قربانی ایک نمونہ ہیں ۔لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لن ینال اللّٰہ لحومھا ولادماءھا ولکن ینالہ التقوی منکم۔ یعنی خداکو تمہاری قربانی کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے۔یعنی اس سے اتنا ڈروکہ گویا اس کی راہ میں مرہی جاؤ۔اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم خدا کی راہ میں ذبح ہوجاؤ۔جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔

سوال نمبر9: حضرت مسیح موعودؑ نےعید الاضحی کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ عید الاضحی پہلی عید سے بڑھ کر ہے اور عام لوگ بھی اس کو بڑی عیدتو کہتے ہیں۔ مگرسوچ کربتلاؤکہ عید کی وجہ سے کس قدر ہیں جواپنے تزکیہ نفس اور تزکیہ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اورروحانیت سے حصہ لیتے ہیں۔اور اس روشنی اورنورسے حصہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ضحٰی میں رکھا گیا ہے۔فرمایا:یہ عید جس کو بڑی عیدکہتے ہیں ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندررکھتی ہے۔اور جس پرافسوس کہ توجہ نہیں کی گئی۔پس ہمیں ہروقت ہمیشہ یادرکھنا چاہیئے کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے جس روشنی کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بھیجا ہےاس سے فیض پانے کے لیے ہمیں اپنے جائزے لیتے رہناچاہیےاور تزکیہ نفس اور تزکیہ قلب کرتے ہوئے یہ دیکھناچاہیے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنے اوپرلاگو کرنے کے ساتھ دنیا میں پھیلانے کے لیے بھرپورکوشش ہم کس حد تک کررہے ہیں۔اگرہم یہ کررہے ہوںگے تو ہماری قربانیاں بھی مقبول ہوںگی۔اور ہم ضحی سے بھی فیض پارہے ہوں گے۔

سوال نمبر10: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو کی تربیت کے حوالہ سےوالدین کو کیا نصائح فرمائیں؟

جواب: فرمایا: والدین کو جو اپنے بچوں کو دین کی خاطر پیش کررہے ہیں یاکرچکے ہیں انہیں یادرکھنا چاہیے کہ وقف ایک قربانی چاہتاہے اور اس قربانی کا معیارکیا ہے۔یہ وہ معیار ہے جو حضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسماعیلؑ نے پیش کیا۔جب حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے سے کہا میں نے تجھے خواب میں گلے پہ چھری پھیرتے دیکھا ہے تو بیٹے سے پوچھا کہ اے اسماعیل تیراکیا ارادہ ہے؟تو بیٹے نے جس کی تربیت بزرگ اور تقویٰ میں بڑھے ہوئے ماں باپ نے کی تھی فوراً جواب دیا کہ اے میرے باپ!تو اپنی رؤیا پوری کر تو مجھے انشاءاللہ صبرکرنے والوں اور قربانی کرنے والوں میں سے پائے گا۔پس وقف کرتے وقت والدین کی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو وقف کے لیے پیش کررہے ہیں تو ان کی تربیت بھی اسی نہج پرہواوران کے لیے دعائیں بھی ہوں تاکہ ہمارے بچوں کا جواب بھی اسماعیل والاجواب ہو۔والدین صرف دوسروں کو دیکھا دیکھی یا وقتی جوش کے تحت بچوں کو وقف نہ کریں۔اپنے جائزے لیں کہ کیا ہم اس نہج پر بچوں کی اٹھان کرسکتے ہیں کہ ان کا جواب حضرت اسماعیلؑ والاجواب ہو اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہےجب والدین کے اپنے عملی نمونے نیکی اورتقویٰ کے اعلیٰ معیارقائم کرنے والے ہوں۔ورنہ پھر بچے بڑے ہوکرکہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں وقف کیا تھا ہم اس کے لیے تیارنہیں۔ہم تھوڑے سے الاؤنس میں جماعت کی خدمت کرکے گزارہ نہیں کرسکتے۔فلاں فلاں پابندی کے ساتھ ہم کام نہیں کرسکتے۔اس لیے ہم وقف نہیں کرتے۔اگروقف کرتے وقت ماں باپ کی نیت نیک بھی ہو لیکن بعدمیں ان کی عملی اورروحانی حالت میں کمزوری ہو اور بچوں کی تربیت میں وہ اپنا کردارادانہ کررہے ہوں توبچے کبھی اس قربانی کے لیے تیارنہیں ہوتے۔پس اس لحاظ سے واقفین نو بچوں کے ماں باپ کو اورجوماں باپ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے کہ کیا وہ اس معیارکو حاصل کرنے والے ہیں۔

سوال نمبر11:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےواقفین کو کس طرح اپنے قربانی کے معیاربڑھانے کی طرف توجہ دلائی ؟

جواب: فرمایا:جو بچے اب جوان ہوکر وقف میں آگئے ہیں انہیں اب فکرہونی چاہیے کہ ہم کس طرح اپنے وفا اورقربانی کے معیارکوبڑھائیں نہ یہ کہ ہم کس طرح اپنے گھرکا خرچہ چلائیں۔اللہ تعالیٰ پرتوکل کریں اورتقویٰ میں بڑھیں۔تو اللہ تعالیٰ خودضروریات پوری فرما دیتا ہے۔پس واقفین نو جو اس وقت جماعتی خدمت میں آگئے ہیں انہیں بھی اپنے اندر اسماعیلی صفات پیداکرنی ہوںگی۔تبھی اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہمیشہ بھلائی اوربہتری کے راستے کھولتا رہے گا۔

سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے آخر پر کن کے لیے دعاکی تحریک کی؟

جواب: فرمایا:مظلوم احمدیوں کے لیے دعا کریں۔اسیران راہ مولیٰ اورشہدائے احمدیت کے لیے دعاکریں۔اسی طرح اسیران اورشہداءکے اہل خانہ کے لیے بھی دعا کریں۔ہرقسم کی مالی اوروقت کی قربانی کرنے والوں کے لیے بھی دعائیں کریں۔واقفین کے لیے جو خدمت دین کی ادائیگی کررہے ہیں دعائیں کریں۔اللہ تعالیٰ سب کی مددفرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button