بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط45)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…کیا اسلام میں بچوں کو Adoptکرنے کی اجازت ہے نیز ان کے کیا حقوق ہیں؟

٭…کیا اسلامی تعلیمات کے مطابقMilk Bank قائم کرنے کی اجازت ہے؟

٭… وتر پڑھنے کا درست طریقہ کیا ہے نیز Holidays کے دوران کرایہ پر لیے اپارٹمنٹ کے برتنوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟

٭… مسلمانوں پر شادی کرنا کیوں فرض ہے؟

٭… بینک کی مینجمنٹ میں بطور انجنیئر یا بینک کی ملکیتی کسی انجنیئرنگ کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ کیونکہ اس سے سود اور شراب کے کام پر تعاون ہوتا ہے؟

سوال: یوکے سے ایک خاتون نے بچوں کو Adopt کرنے نیزان بچوں اوران کے دیگر عزیز و اقارب کے حقوق و فرائض کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے راہنمائی چاہی ہے۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 26؍ستمبر 2021ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں کو Adopt کرنے کی اجازت تو ہے لیکن اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاص طور پر یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایسے بچوں کو ان کے حقیقی والدین ہی کے ناموں کے ساتھ یاد کیا جائے۔(سورۃ الاحزاب:6،5) اس لیےایسے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی ان کےAdoptکیےجانے کے بارے میں اور ان کے حقیقی والدین کے متعلق بتا دینا چاہیے۔ یہی صحیح اسلامی تعلیم ہے۔

جہاں تک ایسے بچوں کے وراثت وغیرہ میں شرعی حق کا تعلق ہے تو وہ ان کے حقیقی والدین کے ساتھ ہی قائم رہتا ہے۔ یعنی ان بچوں کے حقیقی والدین ان بچوں کے اور یہ بچے اپنے حقیقی والدین کے شرعی وارث ہوتے ہیں۔ Adoption کی وجہ سے ان بچوں اور ان کے حقیقی والدین کے باہمی وراثتی شرعی حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ ایسے بچوں کو Adopt کرنے اور ان کی پرورش کرنے والے والدین بھی اگر کچھ ان بچوں کو دینا چاہیں تو اپنی زندگی میں ہبہ کے ذریعہ اور زندگی کے بعد وصیت کی صورت میں انہیں دے سکتے ہیں۔ لیکن وصیت انسان اپنے کل ترکہ کے زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ تک ہی کر سکتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الوصایا بَاب أَنْ يَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَكَفَّفُوا النَّاسَ)

سوال: قادیان سے ایک دوست نے Milk Bank جہاں سے یتیم بچوں کے لیے ماں کا دودھ مہیا کیا جاتا ہےکا ذکر کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ اس طرح تو وہاں کا دودھ پینے والے بچے آپس میں رضاعی بہن بھائی بن جاتے ہوں گے لیکن یہ پتا نہیں چل سکتا کہ کون کس کا رضاعی بھائی یا بہن ہے۔ کیا اسلام میں اس طرح کےMilk Bank قائم کرنے کی اجازت ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 12؍اکتوبر 2021ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اسلامی تعلیم کے مطابق ایک ماں کا دودھ پینے والے بچوں کا باہم رضاعت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہےجس کی وجہ سے ایسے بچوں اور بچیوں کی آپس میں شادی نہیں ہو سکتی جنہوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہو۔ لہٰذا اگر کسی جگہ ضرورت کے تحت یتیم بچوں کوماں کےدودھ کی سہولت مہیا کی جائے تو اس کا انتظام کرنے والے ادارہ یا حکومت کو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑے گی اور اُس کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ اس چیز کا بھی ریکارڈ رکھے کہ کس بچہ کو کس عورت کا دودھ پلایا گیا ہے۔ جو بظاہر ناممکن ہو گا۔

لہٰذا میرے نزدیک تو شریعت اسلامی کی رو سے اس طرح کے Milk Bank کا اجراء درست نہیں کیونکہ اس سے کئی قسم کے ابہام اور مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی اس زمانہ میں اس طرز کے Milk Bank کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ مارکیٹ میں بیسیوں قسم کے Formula Milkدستیاب ہیں۔ اگر کسی ادارہ یا حکومت کو یتیم بچوں کی پرورش کا اتنا ہی احساس ہے تو وہ ایسے بچوں کے لیے اس Formula Milkکی سہولت مہیا کر سکتے ہیں۔

بہرحال میں اس بارے میں مزید تحقیق کروا رہا ہوں لیکن فی الحال تو میرا یہی نظریہ ہے کہ آپ کے خط میں بیان Milk Bank کے اجرا کا طریق اسلامی تعلیم کے مطابق درست نہیں ہے۔

بعدازاں حضور انور نے اس مسئلہ پر دارالافتاء ربوہ کے ذریعہ تحقیق کروا کر اپنے مکتوب مورخہ 17؍اگست 2022ء میں سوال کرنے والے دوست کو مزید درج ذیل ہدایت سے بھی نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:

میں نے اس معاملہ پر دارالافتاء ربوہ کے ذریعہ تحقیق کروائی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اسلامی تعلیمات کی رو سے عورتوں کے دودھ کا Milk Bank قائم کرنا اور اس کے ذریعہ بچوں کو دودھ مہیا کرنا درست نہیں، کیونکہ اسلام نے رضاعت کی بنا پر قائم ہونے والے رشتوں کا اس حد تک تقدس قائم فرمایا ہے کہ ان رشتوں کی آپس میں شادی کی اُسی طرح ممانعت فرمائی، جس طرح نسب کی بنا پر محرم رشتوں کی باہم شادی کی ممانعت فرمائی ہے۔جبکہ اس قسم کے Milk Bank سے ملنے والے دودھ کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ایک دودھ کے پیکٹ میں کتنی اور کن کن عورتوں کا دودھ ہے۔ اور اگر ان عورتوں کی اس پیکٹ پر تفصیل درج بھی کر دی جائے، تواس دودھ کو پینے والے بچوں کے بے شمار رضائی بہن بھائی بن جائیں گے، جن کا حساب رکھنا اور ان سے شادی کے معاملہ میں احتیاط برتنا بظاہر ناممکن ہو جائے گا۔

لہٰذا اگر کسی بچہ کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہو تو اس کے لیے جس طرح اسلام نے رضاعی ماں کے طریق کو جاری فرمایا ہے، اسی طریق کو اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی جگہ اس کی سہولت موجود نہ ہوتو پھر عورتوں کے دودھ کے Milk Bank سے ملنے والے دودھ کے استعمال کا تکلف کر کے رشتوں کو مشتبہ بنانے کی بجائے عام گائے، بھینس یا مصنوعی دودھ کے پیکٹوں کے دودھ کو استعمال کرنا چاہیے۔ تاکہ اسلام نے جن رشتوں کے تقدس کو قائم فرمایا ہے اس کی پوری طرح پابندی ہو سکے۔

سوال: یوکے سے ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ہم عشاء کی نماز میں وتر کی آخری رکعت الگ پڑھتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز یہ کہ جب ہم Holidays پر جاتے ہیں اور اپارٹمنٹ بک کرتے ہیں تو کیا ہم وہاں کے Frying pans وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 12 ؍اکتوبر 2021ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:علمائے حدیث و فقہ نے وتر پڑھنے کے کئی طریق بیان کیے ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے موقف کے حق میں مختلف دلائل بھی دیےہیں۔ان میں زیادہ معروف دو طریق ہیں ایک یہ کہ دو رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور پھر تیسری رکعت الگ پڑھی جائے۔ اور دوسرا طریق یہ ہے کہ تینوں رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائیں اوردرمیان میں دو رکعات کے بعد تشہد بیٹھا جائے۔چنانچہ ایک شخص کے سوال پر کہ وتر کس طرح پڑھنے چاہئیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’خواہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو۔ خواہ تینوں ایک ہی سلام سے درمیان میں التحیات بیٹھ کر پڑھ لو۔ ‘‘(الحکم نمبر 13، جلد 7، مورخہ 10؍اپریل 1903ء صفحہ14) احادیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ عموماً وتروں کی تین رکعات کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْصِلُ بَيْنَ الْوَتْرِ وَالشَّفْعِ بِتَسْلِيْمَةٍ وَيُسْمِعُنَاهَا۔(مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمر بن خطابؓ حدیث نمبر5204)یعنی رسول اللہﷺ وتر اور اس کے قبل کی دو رکعتوں کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کر لیا کرتے تھے اور یہ سلام ہمیں سنایا کرتے تھے۔

اسی طرح حضرت عائشہؓ سے مروی ہے:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْحُجْرَةِ وَأَنَا فِي الْبَيْتِ فَيَفْصِلُ بَيْنَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ بِتَسْلِيمٍ يُسْمِعُنَاهُ۔(مسند احمد بن حنبل،حديث السَّيِّدَةِ عَائِشَة ؓحدیث نمبر23398)یعنی رسول اللہﷺ حجرہ میں نماز پڑھتے تھے اور میں گھر میں ہوتی، آپ وتر اور پہلی دو رکعتوں میں سلام کے ساتھ فاصلہ کرتے تھے اور اپنا سلام ہمیں سناتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وتر پڑھنے کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضرت صاحب وتر دو پڑھ کر سلام پھیرتے تھے یا تین پڑھ کر؟اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:’’عمومًا دو پڑھ کر۔ مولوی سید سرورشاہ صاحب نے کہا۔ جس قدر واقف لوگوں سے اور روایتیں سُنی ہیں۔ ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیرتے تھے پھر ایک پڑھتے۔‘‘(الفضل قادیان دارالامان نمبر 97، جلد 9 مورخہ 12؍جون1922ء صفحہ7)

پس اگرچہ فقہاء نے تینوں وتر اکٹھے ایک ہی سلام کے ساتھ درمیان میں تشہد بیٹھ کر پڑھنے کے طریق کو بھی درست اور مسنون قرار دیا ہے لیکن ہمارے آقا و مطاع آنحضور ﷺ اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمومی سنت یہی تھی کہ آپ وتر کی دو رکعات پڑھنے کے بعد سلام پھیر کر پھر تیسری رکعت الگ پڑھا کرتے تھے۔

باقی جہاں تک Holidays کے دوران کرایہ کے اپارٹمنٹ کے برتنوں کے استعمال کا تعلق ہے تو ان برتنوں کو اچھی طرح دھوکر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

سوال: کویت سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ ہم مسلمانوں پر شادی کرنا کیوں فرض ہے۔ اور اگر کوئی بہت نیک ہو لیکن شادی نہ کرے تو کیا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 15 ؍اکتوبر2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: مسلمانوں کے لیے شادی کرنا اسلام کے بنیادی احکامات میں سے ایک حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس کا ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا: فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ۔(سورۃ النساء:4)یعنی عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین اور چار چار۔

اسی طرح شادی کرنا حضور ﷺ کی سنت ہے اور حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ حقیقی مسلمان وہی ہے جو میری سنت پر عمل کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الْأُمَمَ وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ۔(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ النِّكَاحِ)یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نکاح میری سنت ہے۔ پس جو میری سنت پر عمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ اور نکاح کیا کرو اس لیے کہ تمہاری کثرت پر میں امتوں کے سامنے فخر کروں گا۔ اور جس میں استطاعت ہو تو وہ نکاح کرے اور جس میں استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو توڑ دے گا۔

پس اگر اچھا رشتہ مل رہا ہو اور کفو بھی ہو تو شادی ضرورکرنی چاہیے۔ لیکن یہ نہیں کہ کسی بھی کافر اور ملحد کے ساتھ شادی کر لی جائے بلکہ اس معاملہ میںبھی اسلامی تعلیمات اور انتظامی ہدایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

سوال: مصر سے ایک ڈاکٹر صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ بینک کی مینجمنٹ میں بطور انجنیئر یا بینک کی ملکیتی کسی انجنیئرنگ کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ کیونکہ اس سے سود اور شراب کے کام پر تعاون ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 18؍اکتوبر 2021ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: موجود زمانہ میں بینکنگ سسٹم تقریباً ہر دنیاوی کاروبار کا لازمی جزو ہے اور دنیا کے اکثر بینکوں کے نظام میں کسی نہ کسی طرح سود کا عنصر موجود ہوتا ہے، جو ان کاروباروں کا بھی حصہ بنتا ہے۔ لہٰذا اس بات کو سمجھنے کے لیے اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسب ذیل ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ‘‘(البدرنمبر 41 و 42، جلد 3، مورخہ یکم و 8نومبر1904ء صفحہ8)

پس ایسے حالات میں اگر انسان بہت زیادہ وہم میں پڑا رہے تو اس کا زندگی گزارنا ہی دوبھر ہو جائے گا۔ کیونکہ عام زندگی میں جو لباس ہم پہنتے ہیں، ان کپڑوں کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں بھی کہیں نہ کہیں سودی پیسہ لگا ہو گا۔ جو بریڈ ہم کھاتے ہیں، اس کے کاروبار میں بھی کہیں نہ کہیں سودی پیسہ کی آمیزیش ہو گی۔ اگرانسان ان تمام دنیاوی ضرورتوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہے جو بظاہر ناممکن ہے پھر بھی وہ مکان جس اینٹ، ریت اور سیمنٹ سے بنا ہے، ان چیزوں کو بنانے والی کمپنیوں کے کاروبار میں بھی کہیں نہ کہیں سودی کاروبار یا سود کے پیسہ کی ملونی ہو گی۔

پس بہت زیادہ مین میخ نکال کر اور وہم میں پڑ کر اپنے لیےبلا وجہ مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے،حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں۔ أَنَّ قَوْمًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَنَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمُّوا اللّٰهَ عَلَيْهِ وَكُلُوهُ۔(صحیح بخاری کتاب البیوع بَاب مَنْ لَمْ يَرَ الْوَسَاوِسَ وَنَحْوَهَا مِنْ الشُّبُهَاتِ)یعنی کچھ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ایک جماعت ہمارے پاس گوشت لے کر آتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے (اسے ذبح کرتے وقت) اس پر اللہ کا نام لیا ہوتا ہے یا نہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس گوشت پر اللہ کا نام (بسم اللہ )پڑھ لیاکر و اور اسےکھالیا کرو۔

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیاکہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا:’’شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاپر زور دیا ہے۔ آنحضرت ﷺ آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ بھی تو نہیں ہوتا۔‘‘(الحکم نمبر 19، جلد 8،؍مورخہ 10؍جون1904ءصفحہ3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں نائب تحصیلدار تھے۔ انہوں نے حضور سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ کیا اس قسم کی نوکری ہمارے واسطے جائز ہے؟حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:’’اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں۔ تحصیلدار یا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے نہ بیچتا ہے نہ پیتا ہے۔ صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے۔ ملک کی سلطنت اور حالات موجودہ کے لحاظ سے اضطراراً یہ امر جائز ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پیدا کرے۔ گورنمنٹ کے ماتحت ایسی ملازمتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ایسی باتوں سے تعلق نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ ‘‘(اخبار بدر نمبر 39، جلد 6، مورخہ 26؍ ستمبر 1907ء صفحہ6)حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بینک کی ملازمت کے بارے میں فرماتے ہیں:’’جس ملازمت میں سود لینے یا اس کی تحریک کرنے کا کام کرنا پڑتا ہو وہ میرے نزدیک جائز نہیں۔ ہاں ایسے بینک کے حساب وکتاب کی ملازمت جائز ہے۔‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 95، جلد3، مورخہ 7؍ مارچ 1916ء صفحہ 9)

پھرایک اور موقع پر فرمایا:’’جس ملازمت میں سود کی تحریک کرنی پڑے وہ ناجائز ہے۔ کلرکی اور حساب رکھنا بہ تسلسل ملازمت جائز ہے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 113، جلد3، مورخہ 13؍مئی 1916ء صفحہ 8)

پس انسان کو وہموں اور شک و شبہ میں مبتلا ہوئے بغیر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنے معاملات اور دنیاوی امور کو بجا لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اورجہاں براہ راست کسی ممنوع کام میں پڑنے کا امکان ہو یا کسی چیز کی حرمت واضح طور پر نظر آتی ہواس سےبہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔لیکن بہت زیادہ وہموں میں پڑ کر جائز اشیاء کے استعمال سے بلا وجہ کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button