حضرت مصلح موعود ؓ

ہمّت کے ساتھ آگے بڑھو اور وقفِ جدید کی تحریک کو کامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو (قسط نمبر2۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۰؍جنوری۱۹۵۸ء)

جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تو جماعت کے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ ہم نے تو آپ کی تحریک کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ سات ہزار روپیہ جمع کرنا ہے مگر اب وہ کام لاکھوں تک پہنچ گیا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کی تحریک پر بہت سا چندہ لکھوا دیا تھا اور یہ سمجھا تھا کہ آپ نے صرف ایک ہی دفعہ چندہ مانگا ہے لیکن اب میں اپنا چندہ کم نہیں کروں گا بلکہ اپنے وعدہ کے مطابق دینے کی کوشش کروں گا۔ اس کے علاوہ اَور بھی کئی لوگ تھے جنہوں نے اُس وقت سَوسَو، دودوسَو روپیہ چندہ لکھوا دیا تھا مگر بعد میں انہوں نے اُس چندہ کو کم نہ کیا اور بڑھتے بڑھتے وہ سولہ سو، دوہزار یا اَڑھائی ہزار چندہ دینے لگ گئے۔

یہ تحریک بھی آہستہ قدموں سے شروع ہوئی ہے لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ جماعت میں اس قدر اخلاص اور جوش پیدا ہو جائے گا کہ وہ لاکھوں اور کروڑوں روپیہ دینے لگ جائے گی۔ تم یہ نہ دیکھو کہ ابھی ہماری جماعت کی تعداد زیادہ نہیں۔ اگر یہ سکیم کامیاب ہو گئی تو تم دیکھو گے کہ دوتین کروڑ لوگ تمہارے اندر داخل ہو جائیں گے۔ اور جب دو کروڑ اَور آدمی تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں گے تو آمد کی کمی خودبخود دُور ہو جائے گی۔ دوکروڑ آدمی چھ روپیہ سالانہ دے تو بارہ کروڑ بن جاتا ہے۔ اگر ایک کروڑ روپیہ ماہوار آمد ہو تو دولاکھ مبلغ رکھا جاسکتا ہے جو بیس لاکھ میل کے رقبہ میں پھیل جاتا ہے اور اتنا رقبہ تو سارے پاکستان کا بھی نہیں۔پس ہمّت کر کے آگے بڑھو اور وہی نمونہ دکھلاؤ کہ

آں نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پُشتِ من

آں منم کاَندر میانِ خاک و خوں بینی سرے

دشمن تمہارے مقابلہ میں کھڑا ہے اور یہ جنگ روحانی ہے جسمانی نہیں۔ اس جنگ میں دلائل اور دعاؤں سے کام لینا اصل کام ہے۔

صحابہؓ کو دیکھ لو وہ تلواروں سے لڑتے تھے اور میدانِ جنگ میں ان کی گردنیں کٹتی تھیں مگر وہ اس سے ذرا بھی نہیں گھبراتے تھے۔ جنگِ اُحد کے موقع پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے متعلق ہدایت فرمائی کہ اُسے تلاش کرو وہ کہاں ہے۔ صحابہؓ نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی لاش دوسری لاشوں کے نیچے کہیں دبی پڑی ہے اس لیے وہ کہیں ملی نہیں۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور پھر تلاش کرو۔ چنانچہ بہت تلاش کے بعد وہ صحابی ملے۔ وہ زخمی تھے اور پیٹ پھٹا ہوا تھا۔ تلاش کرنے والے صحابی نے کہا اپنے رشتہ داروں کو کوئی پیغام پہنچانا ہے تو دے دو ہم پہنچا دیں گے۔ وہ کہنے لگے اَور تو کوئی پیغام نہیں میرے عزیزوں تک صرف اِتنا پیغام پہنچا دینا کہ جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔ اب یہ فرض تم پر ہے۔ اور میری آخری خواہش یہ ہے کہ میرے خاندان کے سارے افراد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ اگر تم ایسا کرو تو میری یہ موت خوشی کی موت ہو گی۔ (سیرت ابن ہشام جلد۳صفحہ ۱۰۰۔۱۰۱ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء)تو دیکھو صحابہؓ نے تو عملی طور پر قربانیاں کی تھیں اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ’’تھوک میں بڑے پکائے‘‘۔ دلیلیں دینا کونسی بڑی بات ہے۔ دلیلیں دے کر گھر آگئے۔ لیکن وہاں یہ ہوتا تھا کہ صحابہؓ میدانِ جنگ میں جاتے تھے اور پھر بسااوقات انہیں اپنے بیوی بچوں کی دوبارہ شکل دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی۔ ایک عورت کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جنگِ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو اُس کے خاوند کو آپ نے کسی کام کے لیے باہر بھیجا ہوا تھا۔ جب وہ صحابی مدینہ واپس آئے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے جا چکے تھے اور اُس صحابی کو اِس کا علم نہیں تھا۔ وہ صحابی سیدھے گھر آئے۔ اپنی بیوی سے انہیں بہت محبت تھی۔ وہ گھر میں گھسے اور بیوی اُنہیں نظر آئی تو انہوں نے آگے بڑھ کر اُسے اپنے جسم سے چمٹا لیا لیکن اُس زمانہ کی عورتیں بھی اِس زمانہ کے مردوں سے زیادہ مخلص ہوتی تھیں۔ اس عورت نے خاوند کو دھکّا دیا اور کہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی کہ خداتعالیٰ کا رسول تو جان دینے کے لیے رومیوں کے مقابلہ کے لیے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار کرنا سُوجھتا ہے۔ اِس بات کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ اُسی وقت اُس نے اپنا گھوڑا پکڑا اور سوار ہو کر تبوک کی طرف چلا گیا اور کئی منزلوں پر جا کر وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا۔ تو اِس قسم کی ہمت اگر تم بھی اپنے اندر پیدا کر لو تو دین کی اشاعت کوئی مشکل امر نہیں۔

چند دنوں کی بات ہے اﷲ تعالیٰ کی رحمت اُترنے والی ہے۔ اب یہ ناممکن ہے کہ زیادہ عرصہ تک آسمان اپنی مدد کو روکے رکھے۔ کوئی پچیس چھبیس سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دشمنوں کی گالیاں سنیں، اُن سے پتھر کھائے، اینٹیں کھائیں، ماریں کھائیں لیکن تبلیغ جاری رکھی۔ اس کے بعد قریباً پچاس سال تک یہ کام ہم نے کیا۔ یہ سارا زمانہ مل کر پچھتّر سال کا ہو جاتا ہے۔ آخر اﷲ تعالیٰ ایسا تو نہیں کہ پچھتّر سال تک ایک قوم کو گالیاں دلوائے، ماریں کھلائے، پتھر مروائے اور پھر چُپ کر کے بیٹھا رہے۔ اب میں سمجھتا ہوں بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اُترے گی اور گو ساری دنیا میں احمدیت پھیل جانے میں ابھی دوسَوسال باقی ہیں لیکن ساری دنیا میں پھیلنے کے تو یہ معنے ہیں کہ امریکہ میں بھی پھیل جائے، انڈونیشیا میں بھی پھیل جائے،کینیڈا میں بھی پھیل جائے،چین میں بھی پھیل جائے،اٹلی میں بھی پھیل جائے،جرمنی اور فرانس میں بھی پھیل جائے۔ ایسا بھی ایک دن ضرور ہو گا لیکن ابھی ہمیں صرف اپنے ملک میں پھیلنے کی ضرورت ہے اور اتنی ترقی مَیں سمجھتا ہوں کہ اَسّی سال کے اندراندر ہو جانی چاہیے اور اس میں اب صرف چند سال باقی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۱۸۸۲ء میں دعوی کیا اور ۱۹۰۸ء میں آپ فوت ہوئے۔ یہ چھبیس سال کا عرصہ ہو گیا۔ چھبیس سال کے بعد پھر پچاس سال اب تک کے ملائے جائیں تو چھہتّر سال بن جاتے ہیں۔ اور اگر ہم یہ عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش سے لیں تو ۱۸۳۵ء میں آپ پیدا ہوئے اور ۱۹۳۵ء میں آپ پر سَوسال ہو گئے۔ ہمارا فرض تھا کہ ۱۹۳۵ء میں ہم ایک بہت بڑی جوبلی مناتے لیکن ہماری جماعت نے ۱۹۳۹ء میں خلافت جوبلی تو منائی لیکن ۱۹۳۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صدسالہ جوبلی بُھول گئی۔ اب بھی وقت ہے کہ جماعت اِس طرف توجہ کرے۔ سَو سال کی جوبلی بڑی جوبلی ہوتی ہے۔ جب جماعت کو وہ دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جوبلی منائے۔ اب تک انہوں نے چھہتّر سال کا عرصہ دیکھا ہے اور چوبیس سال کے بعد سَوسال کا زمانہ پورا ہو جائے گا۔ اُس وقت جماعت کا فرض ہو گا کہ ایک عظیم الشان جوبلی منائے۔ اِس سَوسال کے عرصہ میں سارے پاکستان کو خواہ وہ مغربی ہو یا مشرقی ہم نے احمدی بنانا ہے۔ اس کے بعد جو لوگ زندہ رہیں گے وہ اِنْشَاءَ اللّٰہُ وہ دن بھی دیکھ لیں گے جب ساری دنیا میں احمدی ہی احمدی ہوں گے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو اِس جماعت سے باہر ہیں وہ رفتہ رفتہ اِس قدر کم ہو جائیں گے کہ اُن کی حیثیت بالکل ادنیٰ اقوام کی سی ہو جائے گی۔

پس ہمت سے آگے بڑھو، زیادہ سے زیادہ چندے لکھواؤ اور جو لوگ آنریری سیکرٹری کے طور پر کام کر سکتے ہوں وہ اپنے آپ کو آنریری سیکرٹری بنا لیں اور شہر میں یا باہر جہاں کہیں جائیں وہاں احمدیوں سے مل کر یا غیر جو اثر قبول کریں اُن سے مل کر زیادہ سے زیادہ چندہ لینے کی کوشش کریں تا کہ ہمارا چندہ جلدی جلدی بارہ لاکھ تک پہنچ جائے۔ اِسی طرح نوجوانوں کو وقفِ زندگی کی تحریک کریں۔ یہ ایسا چھوٹا وقف ہے کہ پرائمری تک کے آدمی کو بھی ہم لے لیتے ہیں۔ ہم جو مرکز بنائیں گے اور پھر اسے قائم کریں گے وہاں ہم ایک زیادہ تعلیم یافتہ شخص رکھ لیں گے اور اُس کے ساتھ پرائمری پاس شخص کو لگا دیں گے۔ اور تعلیم اردو میں دیں گے۔ اردو زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کئی کتابیں ہیں۔ مثلاً درثمین ہے، تحفہ گولڑویہ ہے، سرمہ چشم آریہ ہے، براہین احمدیہ حصہ پنجم ہے، ازالہ اوہام ہے، فتح اسلام ہے وہ یہ کتابیں اُن کو پڑھائیں گے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ اِن کتابوں کو پڑھ لیتے ہیں وہ بڑے سے بڑے مولویوں کے اعتراضات کے ایسے جواب دے سکتے ہیں کہ وہ بول نہیں سکتے۔ اِسی طرح ہم تفسیر صغیر پڑھائیں گے۔ پھر جب کچھ قابلیت بڑھ جائے تو وہ سیرروحانی پڑھیں، احمدیت، دعوۃ الامیر، تحفۃ الملوک اور تحفہ شہزادہ ویلز پڑھیں۔ اِن ساری کتابوں کو پڑھ لیا جائے تو عیسائیوں کا اور مسلمانوں میں سے غلط رستہ پر چلنے والے مولویوں کے اعتراضات کا بڑی عمدگی سے ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح دیباچہ تفسیر القرآن ہے۔ اس کے متعلق تمام مبلغ لکھتے ہیں کہ اِس کو ہم ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم ہر علمی مجلس میں غالب آتے ہیں۔ ان سب کتابوں کو غور سے پڑھ لیا جائے تو بڑی علمی قابلیت پیدا ہو سکتی ہے۔ اب تو یہاں پادری زیادہ تعداد میں نہیں۔ زیادہ تر اپنے ممالک کو واپس چلے گئے ہیں۔ تھوڑے سے پادری موجود ہیں جن کے لیے اِن کتابوں سے بہت حد تک علم سیکھا جاسکتا ہے۔ یا ہندوستان جانے کا موقع ملے تو وہاں پنڈت موجود ہیں اُن کے لیے سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت وغیرہ کتابیں ہیں وہ پڑھ لی جائیں تو انسان ان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ باقی لوگوں کے لیے ہندوستان اور پاکستان میں دوسری کتابیں زیادہ مفید ہیں جیسے ازالہ اوہام ہے، توضیح مرام ہے، فتحِ اسلام ہے، تحفہ گولڑویہ ہے یہ اردو میں پڑھ لی جائیں تو تمام مولویوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یا سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت کے ذریعہ ہندوستان میں جا کر پنڈتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے بعض کتابوں کا گورمکھی میں ترجمہ کر دیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کتابوں کے متعلق سکھوں اور ہندوؤں کے بڑی کثرت سے خطوط آتے ہیں کہ ہم نے ان کو پڑھا تو یوں معلوم ہوا کہ آسمانی نور ہمیں ملا ہے ہمیں اَور کتابیں بھجوائی جائیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے ہماری روحانی آنکھیں کھل گئی ہیں۔

(الفضل۱۶؍جنوری۱۹۵۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button