حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ اٹلی کی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ۴؍دسمبر۲۰۲۲ء کو خدام الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ اٹلی کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ اٹلی سے خدام اور اطفال نے مسجد بیت التوحید، Bologna سےآن لائن شرکت کی۔

پروگرام کاآغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعداطالوی اور اردو زبانوں میں ان آیات کا ترجمہ پیش کیا گیا۔بعد ازاں خدام اور اطفال کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ حضور انور اٹلی کب تشریف لائیں گے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں جب بھی اللہ تعالیٰ مجھے وہاں لے جائے۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ کیا فرشتوں کو ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ فرشتوں کی کوئی مادی شکل نہیں ہوتی۔جب بھی اللہ تعالیٰ تمہارے دل میں کوئی اچھا خیال یا نیک نیت ڈالتا ہے تو وہ فرشتوں کے ذیعہ ایسا کرتا ہے۔جب بھی تم کوئی نیک کام کرتے ہو تو فرشتوں کی تحریک پرکرتے ہو۔پس فرشتوں کو ظاہری طور پر تو نہیں دیکھا جا سکتا ہاں انبیاء علیہم السلام پر وحی کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہےجس طرح آنحضرتﷺ پر حضرت جبرئیلؑ کا نزول ہوا جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ملتاہے۔اسی طرح دیگر انبیاء پربھی حضرت جبرئیلؑ وحی لے کر نازل ہوئے لیکن یہ ایک الگ معاملہ ہے جو انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔جہاں تک عام لوگوں کاسوال ہے تواگر کسی کو خواب میں کوئی شخص کوئی اچھاکام کرنےکی تحریک کرے تو وہ فرشتہ ہی ہوتاہے۔ یا اگر تمہارے دماغ میں نیک خیالات پیدا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے کے ذریعہ تمہارے اندر وہ ڈالے ہیں۔

ایک سوال ہوا کہ جس طرح ہم اس دنیا میں لوگوں کی آواز سنتے ہیں کیا اگلے جہان میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کی آواز سن سکیں گے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جی مجھے امید ہےکہ اگر ہم اس دنیا میں اچھے اعمال بجا لائیں تو اللہ تعالیٰ کی آواز سن سکیں گے۔

خدا تعالیٰ کی آواز سننے سے کیا مراد ہے؟ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک تمثیل ہے۔ضروری نہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کی آواز اسی طرح سنو جس طرح اس دنیا میں لوگوں کی آواز سنتے ہو۔ وہاں ایک مختلف ماحول ہو گا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اگلے جہان میں وہ کس طرح ہم تک اپنا پیغام پہنچائے گا اور کس طرح ہم سے بات کرے گا۔اللہ بہتر جانتا ہے۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں۔

ایک طفل نے سوال کیاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا کیوں بنائی اور ہم کیوں اس کی عبادت کرتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا مالک ہے ۔اس کی مرضی جوچاہے وہ کرتا ہے۔ تمہاری مرضی ہوتی ہے تو تم ایک کاغذ لیتے ہو اس کے اوپر ڈرائنگ کرنی شروع کر دیتے ہو یا اُسی کاغذ کو لیتے ہو تواس سے ایک کشتی بنا لیتے ہو یا کوئی اور چیز بنا لیتے ہو یا کسی کا sketchبنا لیتے ہو۔ تمہارے اندر جتنی طاقت ہے، تمہارا جو دل چاہتا ہے،تم اس کے مطابق کام کرتے ہو۔اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے اور اس نے زمین و آسمان بنائے تا کہ دنیا کو اس کی قدرتوں کا پتا لگے۔ پھر اس نے ان سب میں سب سے بڑی اور اچھی مخلوق انسان کو بنایا۔تمہیں بنایا تا کہ تم لوگ اچھے کام کرو، نیک کام کرو ، اپنی عقل استعمال کرو اور دنیا کو بتاؤ کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کتنا طاقتور ہے کہ ہم ،جوچھوٹی سی چیز ہیں،ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے اتنی عقل دی ہے کہ ہم بہت بڑے کام کر سکتے ہیں۔ہم سائنس کے بہت سارے کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ہم نے کمپیوٹر ایجاد کر دیا۔ہم نے بہت ساری بیماریوں کے علاج نکال دیے۔اللہ تعالیٰ کی دوسری پیدا کی ہوئی چیزوں کے اوپر ہمیں برتری حاصل کروا دی۔ ہمیں ان سےsuperiorبنا دیا۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنائیں اور پھر جیسا کہ میں نے کہا انسان کو بنایا ۔اور انسان کو کہا دیکھو مَیں نے تمہیں کیسی اچھی چیزیں دے دیں۔ تمہیں دماغ بھی دیا،تم اچھے کام کر سکتے ہو، تم اچھے اور برے کو سمجھ سکتے ہو۔اس لیے تمہارا بھی فرض ہے کہ تم میرا شکر ادا کرو اور شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم میری عبادت کرو۔ عبادت کا طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتا دیا۔ہر نبی آیا اس نے اپنے لوگوں کو عبادت کے طریقے بتائے۔پہلے عبادت کے مختلف طریقے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت کرنے کا بہترین طریقہ سکھایا جو نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اتنی چیزیں ہمیں دیں، اتنے انعامات دیے، ہمارے پہ اتنی مہربانیاں کیں،اتنا رحم کیا تو ہمارا کام ہے کہ اس کاشکر کریں ۔بس اس شکر کا تقاضا ہے کہ ہم نماز پڑھیں ۔اس لیے ہم نمازپڑھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم شکر کرو ،نماز پڑھو ،تم مجھ سے اور مانگو گے تومیں تمہیں اور دوں گا۔ مَیں رحمان بھی ہوں ،رحیم بھی ہوں۔ تمہیں مَیں نے بن مانگے دے دیا۔اپنی رحمت سے تمہارے فائدے کے لیےبہت کچھ دے دیا۔جب تم نماز پڑھتے ہو ،میرا شکر ادا کرتے ہو تو مَیں ان انعامات کو اور بڑھاتا ہوں۔اس لیے ہم نماز پڑھتے ہیں۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ اٹلی میں جب لوگ رہائش اختیار کرنے کے لیے پیپر حاصل کر لیتے ہیں یا اپنی پڑھائی مکمل کر لیتے ہیں تو دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ ہم ان کو جماعتی طور پر کس طرح پر ترغیب دلا سکتے ہیں کہ وہ یہیں رہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ہم کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔ہم کہہ ہی سکتے ہیں ۔ان کو کہا کروکہ دیکھو یہاں باقی یورپ کے مقابلے میں تمہارے benefitsکم ہیں لیکن تم پاکستان اس لیے چھوڑ کر آئے تھے کہ وہاں تمہارے اوپر جماعتی سختیاں تھیں۔ تمہارے حالات وہاں ایسے نہیں تھے کہ تم بڑی لیوش (lavish)زندگی گزار رہے تھے۔ جب تم اپنا ملک چھوڑ کر یہاں اس لیے آئے ہو کہ تمہیں مذہب کی آزادی مل جائے تو مذہب کی آزادی یہاں اٹلی میں بھی ہے اور جماعتی مفاد اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تم اس ملک میں رہو تا کہ یہاں جماعت بڑھے۔ تم یہاں تبلیغ کرواور زیادہ سے زیادہ Italianلوگوں کو احمدی مسلمان بناؤ ۔ پھرجب جماعت بڑھے گی اور ہمارے اچھے نمونے قائم ہوں گے تو لوگوں کو ہماری طرف توجہ پیدا ہو گی۔بجائے اس کے کہ صرف دنیا کمانے کے لیے دوسرے ملکوں میں چلے جاؤ۔ صرف اٹلی میں نہیں بلکہ سپین میں بھی اس طرح ہی ہوتا ہے۔ سپین بھی یورپ کے غریب ملکوں میں سے ہے۔وہاں بھی لوگ کچھ عرصے کے بعد جب رہائش اختیار کرنے کے پیپر مل جائیں تو وہاں سے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کو بھی میں یہی کہتا ہوں۔یا پھر ان کو کہا کرو کہ تم نے اگرجانا ہے تو جماعت کی خاطر تم یہاں آئے تھے تو یہ عہد کرو کہ پانچ بیعتیںکرا لوپھر تم یورپ میں چلے جاؤ۔اس سے کم از کم جماعت کی تعداد تو بڑھےگی۔ان کی یہاںکچھ تو contributionہو گی۔ہم توجہ ہی دلا سکتے ہیں،کہہ ہی سکتے ہیں ،کسی کو مجبور تو کر نہیں سکتے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ جس طرح ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں اسی طرح ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے لیے کس طرح دعا کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ غیر احمدی درود بھیجتے ہیں، سلام بھیجتے ہیں وہ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ پر،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر اورمسلمانوں پر بھی درودبھیج دیتے ہیں۔ بعض خطوں میں ہم بھی لکھتے ہیں: نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود۔اب بیچ میں مسیح موعود ؑبھی شامل ہو گئے۔جب درود اور سلام بھیجتے ہیں: اللّٰھّمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍتو آل محمد میں کون ہیں؟ اس وقت سب سے زیادہ آل محمد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام شامل ہیں ۔حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ میرے اہل میں سے ہے۔ ان کی نسل میں سے جو مسیح موعود نے آنا تھا وہ سب سے زیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل میں سے ہو اور درجہ بدرجہ جب آپ پیچھے جاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلفاء کو بھی شامل کریں ،پھر اولیاء کو بھی شامل کریں، نیک لوگوںکو بھی شامل کریں، پھر ساری امت کو شامل کریں تو درود میں وَعَلیٰ آل مُحَمَّدٍ میں سارے مسلمان شامل ہو گئے۔ اگر ہم نیک نیتی سے درود پڑھیں ، غور سے پڑھیں، سوچ سمجھ کر پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے بھیک مانگیں کہ وہ دعا قبول کرلے۔ اگر ہر مسلمان اس طرح پڑھ رہا ہوتوسارے مسلمانوں کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ سورۃ البقرہ کی آیت۲۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ مومنین جنت میں اپنے جیون ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے کیے جائیں گے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آیا اس سے مراد ان کے دنیوی جیون ساتھی ہیں یا پھر وہاں ان کے اور قسم کے جیون ساتھی ہوں گے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جوڑوں کا ذکر فرمایا ہے جو مرد و زن دونوں ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتا ہے کہ وہ جنت میں کیسے جوڑے بنائے گا۔ اگر کوئی نیک اعمال بجا لا رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی بجا آوری کر رہا ہے،وہ اس کی اسی طرح عبادت کرتا ہے جیسے کرنی چاہیے، وہ اللہ تعالیٰ کو راضی رکھتا ہے،اچھے اخلاق کا مالک ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔خواہ مرد ہویا عورت انہیں چاہیے کہ ان کا شریک حیات بھی نیک اعمال بجا لائےتاکہ جب وہ وفات پائیں تو دونوں جنت میں داخل ہوں۔اگر کوئی نیک اعمال بجا لا رہا ہےتاہم اس کی بیوی نیک اعمال نہیں بجا لا رہی تو عین ممکن ہےکہ وہ دوزخ میں جائےاور اگربیوی نیک اعمال بجا لا رہی ہے جبکہ خاوند نیک اعمال نہیں بجا لا رہا تو اس کے بر عکس ہوگا۔ اگر دونوں نیک اعمال بجا لا رہے ہیں تو دونوں جنت میں اکٹھے ہوں گے۔ اگر وہ نیک اعمال نہیں بجالا رہے تو وہ جنت میں اکٹھےنہیں ہوں گے۔ تب اللہ تعالیٰ اور جوڑے بنادے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات واحد و یگانہ ہے اور اس نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔یہاں تک کہ جنت میں بھی اس نے آپ کے لیے جوڑے بنائے ہیں۔سو اگر میاں بیوی دونوں کو اس دنیا میں ایک دوسرے سے پیار ہےتوآخرت میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دونوں نیک اعمال بجا لائیں تا کہ وہ وہاں جنت میں بھی اکٹھے رہیں۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت۵۵میں یہ کیوں فرماتا ہے کہ اس نے دنیا کو چھ دنوں میں بنایا ہے جبکہ حقیقت میں دنیا لاکھوں سالوں میں بنی ہے؟

اس پر حضور انور نے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ کیا آپ نے قرآن کریم کی دیگر آیات بھی پڑھی ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک دن پچاس ہزار سالوں کے برابر ہے؟اس پر اس خادم نے نفی میں جواب دیا کہ مجھے ایسی کوئی آیت یاد نہیں آرہی۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ میرا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے بلکہ اس سےبھی زیادہ لمبا ہو سکتا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کے دن کی طوالت کو محدود نہیں کر سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ کا ایک دن اس دنیا کے ایک دن کے برابر نہیں ہوتا۔اور دن تو تب شروع ہوتا ہے جب سورج طلوع ہوتا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ دنیا بنا رہا تھا تب سورج، چانداور باقی سب سیارے بھی اسی تخلیقی دور سے گزر رہے تھے۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے سورج کو دنیا سے پہلے بنا دیا ہو۔یہاںچھ دنوں سے ایک عرصہ مراد ہے۔ہماری تفاسیر میں اور بعض دیگر تفاسیر میںبھی یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دن سے مراد ایک عرصہ ہوتاہے۔وہ خواہ پچاس ہزار سال کا عرصہ ہو یا ایک ہزار سال کا یا سترہ ارب سال کا۔پس اگر آپ ان سب آیات کی تطبیق کریں گے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے۔پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا دن ایک معمولی دن کی طرح نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ یہاں پر ایک عرصہ مراد ہے نہ کہ وہ دن جس کا آغاز سورج کے طلوع ہونے سے ہوتا ہے۔پس یہ ایسا دن نہیں ہے جیسا دنیا پر ہوتا ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ آجکل دنیامیں حالات کافی خراب ہو رہے ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے گھروں میں لڑائیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایسے موقع پر ایک احمدی کا کیا ردّ عمل ہونا چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قناعت پیدا کرو۔ حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ آمدنیاں کم بھی ہو جاتی ہیں زیادہ بھی ہوتی ہیں۔ گھروں میں خاوندوں اور بیویوں دونوں کو سمجھنا چاہیے کہ حالات کے مطابق ہم نے اپنے آپ کو adjustکرنا ہے۔آج اگر اچھے حالات ہیں تو کل کو خراب ہو سکتے ہیں۔آج اگر خراب ہیں تو کل کو اچھے بھی ہو سکتے ہیں۔اس لیے اگر قناعت پیدا ہو،اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری ہو اور تھوڑے میں گزارہ کرنے کی عادت ہو تو پھر نہ لڑائیاں ہوں گی نہ جھگڑے ہوں گے۔ اگر ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ پھر انعامات سے بھی نوازتا رہے گا۔جب دنیا داری بہت زیادہ آ جاتی ہے تو اپنے preferencesکو بدل دو۔ جو صبر کرنے والی قومیں ہیں وہ صبر بھی کرتی ہیں اور نہیں جھگڑتیں ۔

اب گھانا میں مَیں رہا ہوں۔جس زمانے میں مَیں وہاں تھاتواکنامک حالات بڑے برے تھے۔بعضوں کو بریڈ (bread)بھی نہیں ملتی تھی۔ایک ڈبل روٹی لینے کے لیے لائن میں لگنا پڑتا تھا۔ ایک وین ڈبل روٹی تقسیم کرنے آتی تھی اور شام کو بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ سارا دن کی لائن لگنے کے بعد آدھے لوگوں کو بریڈ ملتی تھی،آدھے لوگوں کو نہیں ملتی تھی لیکن کوئی جھگڑتا نہیں تھا۔آرام سے گھر چلے جاتے تھے۔پھر جو تھوڑا بہت مل گیا ،کسی نے cornکھا لی ،کسی نے peanutکھا لیا ، یام(yam)، کساوا(cassava) کھا لیا یاکوئی اور چیز کھا لی۔اس طرح جو بھی چیزیں وہاں availableہیں ان سے پیٹ بھر لیا۔نہ بھی پیٹ بھرا تو کم از کم پانی پی کرگزارہ کر لیا۔یہ قناعت ہے۔آہستہ آہستہ پھر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بعد میںحالات بہتر بھی ہو گئے۔ایک احمدی مسلمان کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پہ اتنا عرصہ فضل فرمایا کہ ہم اچھے حالات میں رہے اور جو چاہتے تھے ہم لے لیتے تھے ،سستی چیزیں مل جاتی تھیں۔ اب ذرا مہنگائی ہو گئی ہے تو بعض چیزیں جو غیر ضروری ہیں ان کو ہم کم کر دیں اور جو ضروری چیزیں ہیں ان کو اختیار کریں بجائے اس کے کہ جھگڑیں۔جھگڑنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ جھگڑنے سے یہی ہو گا کہ میاں بیوی لڑ پڑیں گے اور بچے تماشا دیکھیں گےکہ میرے اماں ابا لڑ رہے ہی ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یہ ہو گا کہ ماں کہے گی کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی،میں خلع لے رہی ہوں۔باپ کہے گا تم نہیں رہ سکتی تو چلی جاؤ ،میرے سے طلاق لے لو۔ میں طلاق دے دیتا ہوں۔ اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ گھر برباد ہوں گے ، بچوں پہ برا اثر پڑے گا۔ اس لیے صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے۔اپنی ناجائز ضروریات کو ختم کرنا چاہیے اورجو جائز ضروریات ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے گزاراکرنا چاہیے۔ ابھی بھی اللہ کا فضل ہے مہنگائی ہونے کے باوجود کھانا کھا لیتے ہو۔پاکستان یا افریقہ کے بہت سارے ممالک میں ایسے لوگ ہیں جنہیں شام کو ایک وقت کی روٹی ملتی ہے۔صبح دو لقمے کھا کر،پانی پی کر چلے گئے اور شام کو آ کرکھانا کھایا۔ یا شام کی باسی بچی ہوئی روٹی ہوئی تو صبح کھا لی۔تم شکر کرو کہ یہاں کھانے کو مل جاتا ہے۔قناعت پیدا کرو۔

ایک سوال ہوا کہ اگر کسی بچے کو پیدائش سے قبل وقف نو کی تحریک میں شامل نہ کیا جائے تو کیا بعد میں اسے شامل کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ وہ بعد میں اپنی زندگی وقف کرسکتے ہیں۔ ان کو وقف کرنے سےکس نے روکا ہے؟وقف نو کی تحریک سے پہلے بھی لوگ زندگیاں وقف کرتے تھے۔جب میں پیدا ہوا تھا تووقف نو کی تحریک میں شامل نہیں ہوا تھا۔میں نے بعد میں اپنی زندگی وقف کی۔بعض والدین جن کے بچے وقف نو کی تحریک میں شامل نہیں بعد میں ’’وقف اولاد‘‘ کےتحت اپنے بچوں کی زندگیاں وقف کرتے ہیں۔ایسے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کرنی چاہیے کہ جب وہ بڑے ہوں تو خود اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کریں۔

اگر آپ وقف کرنا چاہتے ہو تواچھا کردار ہونا چاہیے، نیک اعمال بجا لانے چاہئیں، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہیے، اپنی پڑھائی میں اچھا ہونا چاہیے۔ پھر جب پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کچھ حاصل کر لوتوپھر وقف کرسکتے ہو۔یا پھر secondary schoolمکمل کرنے کے بعد اگر جامعہ احمدیہ میں پڑھنا چاہتے ہو تو جامعہ میں داخلہ لے لو۔جو واقفین نو نہیں بھی ہیں وہ بھی جامعہ جا سکتے ہیں۔

ایک سوال کیا گیا کہ اگرسکول میں کسی کا کوئی برا استاد ہو یا اگر دیگر ساتھی bullyکرتے ہوں تو ان کے شر سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ برا استاد کیوں ملے گا؟ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی racistہو جوتمہیں تمہارے ایشین ہونے کی وجہ سے کہے کہ تم کیوں ہم سفید فام لوگوں کے پاس آئے ہو۔ اگر کوئی استاد ایک یا دو مرتبہ ایسا کہے تو اسے نظر انداز کرو لیکن اگر بار بار ایسا ہو تو اپنے head teacherکو بتاؤ۔

ایک سوال ہوا کہ کیا حضور انور کو بذریعہ ای میل خط بھیجا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اپنے خط یا تو ڈاک کے ذریعہ بھیجو یا پھر فیکس کرو۔آج کل جماعت احمدیہ کے علاوہ کوئی فیکس مشین استعمال نہیں کرتا بلکہ ای میل پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ اپنے لیے زیادہ آسانیاں نہ بناؤ۔ اگر خط لکھ کر دعا کی درخواست کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیےکچھ تگ ودو بھی کرو۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کون سی دعا کثرت سے کرتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ بہت ساری دعائیں ہیں۔جماعت کی ترقی کی دعائیں تو کثرت سے ہونی چاہئیں۔درود پڑھیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں،ذکر الٰہی کریں۔مختلف دنوں میں مختلف موقعوں پرمختلف دعائیں یاد آجاتی ہیں۔اس دن پھر آدمی وہی پڑھتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ خود تحریک پیدا کر دیتا ہے کہ یہ دعا کرو یا زبان پر بعض دعائیںجاری ہو جاتی ہیں۔بہرحال بنیادی طور پر یہی ہے کہ جماعت کی ترقی کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔

اصول یہی ہے کہ پہلے آپ اپنے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مضبوط ایمان دے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی توفیق دے،جماعت سے attach رکھے ، اپنی بیعت کا حق ادا کرنے کی توفیق دےاور خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق دے۔پھر اپنے گھر والوں کے لیے،اپنے بچوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی دین سے جوڑے رکھے، وہ ہمیشہ دین کے خادم بنے رہیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفا سے تعلق رکھنے والے ہوں، جماعت سے تعلق رکھنے والے ہوں۔پھر اپنے معاشی حالات کے لیے بھی دعا کریں۔پھر دنیا کی بہتری کے لیے بھی دعا کریں۔اس طرح سجدوں میں دعا کرو گے تو پھرآہستہ آہستہ نمازیں ویسے ہی لمبی ہو جائیں گی۔ پھرآپ کو نمازیں پڑھنے کا مزہ بھی آئے گا ۔جو سٹوڈنٹ ہیں وہ اپنی پڑھائی کے لیے دعا کریں۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ ہم ایک دن میں پانچ نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟

اس پرحضور انورنے فرمایا کہ پہلے میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہم پہ احسان کیے ہوئے ہیں ان کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔اپنی رحمانیت سے جو چیزیں ہمیں دی ہوئی ہیں۔ وہ ہمارا رب العالمین بھی ہے۔ہمارے پیدا ہونے سے پہلے اس نے ہمارے لیے بہت ساری چیزیں پیدا کر دیں۔اس کا شکر گزار ہونے کے لیے ہمیں نمازیں پڑھنی چاہئیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں نمازوں کے پانچ وقت بتا دیے۔فجر کی نماز یہ ہے کہ جب تم سو کر اٹھو تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو،نماز پڑھو اوراس کی عبادت کرو۔پھر ظہر کی نماز کے وقت جب سورج ڈھلنے لگتا ہے اس وقت نماز پڑھو،اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے دن کا پہلا حصہ ہمارے لیے اچھا گزار دیا۔اب دن کا باقی حصہ بھی اچھا گزارے۔ پھر مزید سورج نیچے چلا جاتا ہے تو عصر کی نماز پڑھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دوپہر کا وقت ہمارے لیے اچھا گزار دیا، ہم تیرےشکر گزار ہیں۔ہماراآئندہ آنے والا وقت بھی اچھا گزار دے۔پھر مغرب کی نماز پڑھتے ہیں۔اس میں کہو کہ اللہ تعالیٰ تُو نے ہمارا سارا دن اچھا گزار دیا اب سورج بھی ڈوب گیا ہے لیکن تیرےفضل کا سورج ہم پرکبھی نہ ڈوبے ۔تُو ہمارے سے اپنا رحم جاری رکھنا۔پھر عشاء کی نماز کا وقت آ گیا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اب اندھیرا تو چھا گیا ہے لیکن ہم پر کبھی اندھیرا نہ چھائے۔ یہ رات ہمارے لیے بہترین رات ہو۔اپنی حفاظت میں ہمیں لے لے اور اچھی طرح ہماری رات گزار دے اور صبح فجر ہو جائے تو پھر ہم تیرا شکر ادا کر سکیں۔اس عمر میں تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ پانچ نمازیں ان وقتوں کو دیکھ کے پڑھو۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ حضور! ہم آپ کا پیار کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرلو تو سارے پیار تمہیں مل جائیں گے۔اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس طرح کہا ہے کہ میری عبادت کرو اس طرح نمازیں پڑھا کرو۔پانچ نمازیں پڑھو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں مل جائے اور اللہ تعالیٰ تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار اورمحبت عطا فرمائے اورپھر مسیح موعود علیہ السلام کا اورپھر خلافت کا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو پھر اللہ تعالیٰ دے دے گا۔

ایک دس سالہ طفل نے سوال کیا کہ ہم سید طالع احمدشہید کی طرح کیسے بن سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ نیک، اچھے اعمال کرو، جماعت کی خدمت کرو،اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی کرو اور وقت پر نماز پڑھو۔

اس بچے کو حضور انور نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تم پر نمازیں فرض ہو چکی ہیںاس لیے وقت پر نماز پڑھو، اچھے کام کرو، قرآن کریم کی تلاوت کرو،اس کا ترجمہ سیکھنے کی کوشش کرو،اپنے والدین کی بات مانو،اچھی باتیں کرو، اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اپنی پڑھائی میں اچھے بنو، خلافت اور جماعت کے ساتھ تعلق رکھوتو اچھے بچے بن جاؤ گے۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ کیا وقف نو بچے صرف مربی بن سکتے ہیں یاکسی اور طرح بھی جماعت کی خدمت کرسکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نےفرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی اور مَیں نے بھی کئی سالوں سے خطبات دیے ہیں جن میں ذکر ہے کہ واقفین نو بچے کونسے careersاختیار کرسکتے ہیں۔

تم مربی بن سکتے ہو، ڈاکٹر بن سکتے ہو، ٹیچر یا وکیل بن سکتے ہو۔جو دل کرتا ہےبن جاؤ پھر جماعت جب چاہے گی تمہاری خدمات لے لے گی۔لیکن بہتر ہو گا کہ جن کو اطالوی زبان آتی ہو وہ مربی بنیں تا کہ ہم اٹلی میں زیادہ لوگ تبلیغ کے لیے بھیج سکیں۔

اس ملاقات کا آخری سوال یہ کیا گیا کہ جو لڑکے جامعہ میں جاتے ہیں کیا وہ پورا قرآن کریم حفظ کرتے ہیں یا اس کے کچھ حصے زبانی یاد کرتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ چھوٹے بچے جامعہ نہیں جاتے۔جامعہ میں secondary schoolکی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جایا جاتا ہے جب ان کی عمر کچھ بڑی ہو جاتی ہے۔تب ان کو کچھ سورتیں آنی چاہئیں۔جو بچے قرآن کریم حفظ کرتے ہیں ان کی عمر ۱۰سے۱۲سال ہوتی ہے۔

اس کے بعد حضور انور نے بتایا کہ مختلف ممالک بشمول یوکے میںجماعت نے مدرسۃ الحفظ قائم کیے ہیں جن میں بچے چند سالوں میں مکمل قرآن کریم حفظ کر لیتے ہیں۔

ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button