متفرق

چودھری محمد علی صاحب (نمبر17)

(‘ابن طاہر’)

پہلی کانووکیشن

(گذشتہ سے پیوستہ)’’پس دوسرے قدیمی ملکوں کے لوگ ایک اولاد ہیں مگر تم ان کے مقابلے پر ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہو۔ وہ اپنے کاموں میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں۔ تم نے اپنے کاموں میں آئندہ نسلوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جو بنیاد تم قائم کرو گے آئندہ آنے والی نسلیں ایک حد تک اس بنیاد پر عمارت قائم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر تمہاری بنیاد ٹیڑھی ہوگی تو اس پر قائم کی گئی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی۔ اسلام کا مشہور فلسفی شاعر کہتا ہے کہ

خِشتِ اوّل چوں نہد معمار کج

تا ثریا مے رود دیوار کج

یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت اگر ثریا تک بھی جاتی ہے تو ٹیڑھی ہوجائے گی۔ پس بوجہ اس کے کہ تم پاکستان کی خِشتِ اول ہو تمہیں اس بات کا بڑی احتیاط سے خیال رکھنا چاہیے کہ تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کجی نہ ہو کیونکہ اگر تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کجی ہوگی تو پاکستان کی عمارت ثریا تک ٹیڑھی چلتی جائے گی۔بیشک یہ کام مشکل ہے لیکن اتنا ہی شاندار بھی ہے۔ اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کرکے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردو گے تو تمہارا نام اس عزت اور اس محبت سے لیا جائے گا جس کی مثال آئندہ آنے والے لوگوں میں نہیں پائی جائے گی۔

پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم، استقلال اور علو حوصلہ سے قدم مارو۔ قدم مارتے چلے جائو اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جائو کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزل اول بھی ہوتی ہے اور منزل دوم بھی ہوتی ہے، منزل سوم بھی ہوتی ہے لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی۔ ایک منزل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری وہ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے سفر کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اپنے رختِ سفر کو کندھے سے اتارنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ ان کی منزل کا پہلا دور اسی وقت ختم ہوتا ہے جب کہ وہ کامیاب اور کامران ہوکر اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی خدمت کی صحیح داد دے سکتی ہے۔

پس اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو! …..ملک کی امید کے مرکزو! قوم کے سپُوتو! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا، تمہارا دین، تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘(روزنامہ الفضل ۳؍اپریل ۱۹۵۰ء )

زمانہ لاہور کی بعض دلچسپ یادیں

تعلیم الاسلام کالج وسط ۱۹۵۴ء تک لاہور میں رہا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کا یہ زمانہ بے حد ہنگامہ خیز تھا۔ وسائل کی کمی کا یہ عالم تھا کہ حضرت مصلح موعوؓد جیسی عظیم المرتبت شخصیت کے پاس بھی روزانہ بدلنے کے لیے مناسب لباس موجود نہ رہا تھا اور کھانے پینے کے لیے مرغوب اشیاء کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ اگرچہ حضور کے حکم پر تعلیم الاسلام کالج قائم تو کردیا گیا تھا مگر اس کے لیے سرے سے کوئی عمارت ہی موجود نہ تھی۔ بالآخر کالج کو ایک متروکہ عمارت الاٹ تو ہوگئی لیکن وہ کسی لحاظ سے یہ مقصد پورا نہیں کررہی تھی۔ جہاں تک ڈی اے وی کالج والی عمارت کا تعلق ہے اس میں نہ تو بورڈرز کی رہائش کے لیے کوئی مناسب انتظام تھا نہ طلبہ کی شام کی کھیل کود کے لیے کوئی پلے گرائونڈ میسر تھی۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سب لُٹی پُٹی حالت میں پاکستان پہنچے تھے لہٰذا غربت و افلاس اپنی انتہا پر تھی۔ ایسے میں کالج چلانا کچھ آسان نہ تھا لیکن آفرین ہے اُن عشاقانِ احمدیت پر جن کی کوششوں سے جلد ہی اس کالج کو لاہور کے کالجوں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔ اس دوران بعض ایسے دلچسپ واقعات بھی رونما ہوئے جو چودھری محمد علی کو ہمیشہ یاد رہے اور جنہیں وہ مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ آئیے یہ واقعات ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ’’قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کو درپیش مشکلات اور اس زمانے کی کس مپرسی کا کچھ ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔ اس حوالے سے بعض اور واقعات بھی ذہن میں آ رہے ہیں۔ رتن باغ کے عقب میں ایک بہت بڑی جگہ تھی۔ جو احمدی لُٹ پُٹ کر آرہے تھے وہاں ان کے لیے کیمپ قائم کیا گیا تھا اور کھانا حضور کی طرف سے مہیا کیا جاتا تھا تاہم اس کھانے کی کیفیت کیا ہوتی تھی، اس کا اندازہ حضرت مرزا بشیر احمد کے اس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے لاہور سے قادیان لکھا تھا اور جس میں ذکر کیا تھا کہ جس سالن سے آج کل ہم روٹی کھا رہے ہیں بعض فقہاء کے نزدیک اس سے وضو جائز ہے۔ ایک روٹی اور ایک بوٹی کے فارمولے پر عمل ہو رہا تھا۔

مجھے نواب محمد احمد خان کے بیٹے، حامدنے بتایا کہ انہیں کسی تہ خانے میں جگہ ملی ہوئی تھی۔ ان کی والدہ بیمار تھیں۔ ایک بار ان کا جی چاہا کہ کوئی چٹ پٹی چیز کھائیں لیکن سوال یہ تھا کہ اس کے لیے پیسےکہاں سے آئیں۔ یہ خبر کسی طرح حضور تک پہنچ گئی۔ حامد کہتے ہیںاندھیرا تھا، ہم لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک کوئی شخص اندر آیا اور تکیہ کے نیچے کوئی چیز رکھ کر چلا گیا۔ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہ حضور ہی ہو سکتے ہیں۔ دیکھا تو تکیے کے نیچے سو روپے کا نوٹ رکھا ہوا تھا۔ اس وقت یہ ایک خطیر رقم تھی۔ ہم نے سوچا اس غیبی امداد سے فائدہ اٹھایا جائے چنانچہ والدہ کی خواہش پر اگلے روز ہم ان پیسوں سے کباب خرید لائے۔ جب کباب کی خوشبو کوٹھی میں پھیلی تو سب کو خبر ہوگئی اور خاندان کے لوگ ہمارے ہاں جمع ہونے لگے۔ اگرچہ یہ کباب اتنے لوگوں کی بھوک مٹانے کے لیے تو کافی نہ تھے لیکن سب نے اپنا چسکا پورا کرلیا۔ اس بے سروسامانی کے عالم میں یہ ایک بڑی عیاشی تھی جو انہیں غیرمتوقع طور پر نصیب ہوگئی تھی۔

اسی زمانے میں میرے ایک غیرازجماعت دوست، چودھری محمد صدیق نے جو پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے اور میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے مجھ سے کہا کہ وہ اور ان کا ایک دوست جو اُن دنوں ہائی کورٹ کا جج تھا حضور سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے بلاتأمل انہیں اتوار کا دن دے دیا لیکن میری حماقت دیکھئے کہ حضور سے اس کی اجازت ہی نہیں لی۔ ایک روز جب حضور میٹنگ سے تشریف لے جانے لگے تو میں نے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا اور کہا کہ میں ایک گذارش کرنا چاہتا ہوں۔ فرمانے لگے ہاں کہیں۔ میں نے کہا جی میرا ایک دوست ہے، صدیق۔ اس کا آگے ایک دوست ہے جو ہائی کورٹ کا جج ہے۔ ان دونوں کی خواہش ہے کہ انہیں اگلی اتوار کو ملاقات کا موقع دیا جائے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر میں نے اپنی درخواست دہرائی۔ حضور سن رہے تھے لیکن جواب پھر کوئی نہیں دیا۔ جب میں نے تیسری دفعہ وہی بات کی تو حضور نے فرمایا آپ یہ کپڑے جو میں نے پہنے ہوئے ہیںدیکھ رہے ہیں نا؟میں نے کئی دنوں سے یہ کپڑے نہیں بدلے۔ میں اس حالت میں کسی معززغیراحمدی سے نہیں ملنا چاہتا۔

جب پاکستان میں نئے مرکز کے قیام کے لیے مناسب جگہ کی تلاش شروع ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس کے چیئرمین نواب محمد الدین تھے اور ممبران میں میرے علاوہ مولوی عصمت اللہ اور ڈاکٹر عبدالاحد شامل تھے۔ مجھے یاد ہے کسی کی تحریک پر ہم سانگلہ ہِل بھی گئے تھے۔ اس وقت سارا شہر خالی پڑا تھا۔ مکانات اور دکانوں کا کوئی والی وارث نہ تھا۔ مولوی عصمت اللہ کسی قریبی گائوں کے رہنے والے تھے اور ڈاکٹر عبدالاحد کا سسرال وہاں سے زیادہ دور نہ تھا۔ وہ دونوں اس خیال کے حامی تھے کہ نیا مرکز یہاں بننا چاہیے تاہم وہاں سکول یا کالج کے لیے کوئی موزوںعمارت موجود نہ تھی۔ نواب محمد الدین اس معاملہ میں غیرجانبدارانہ رائے رکھتے تھے تاہم جب حضور کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو آپ نے اسے رد فرما دیا۔ دراصل حضور کے ذہن میں اپنا ایک منصوبہ تھا اور وہ تھا جماعت کے لیے ایسے مرکز کا قیام جہاں باقی لوگوں کا عمل دخل کم سے کم ہو اور جہاں احمدی اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارسکیں۔ربوہ والی زمین کا انتخاب اسی سوچ کا عکّاس تھا۔

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ربوہ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد صحافیوں کی ایک جماعت کو ربوہ کا دورہ کرایا گیا۔ اس میں فیض احمد فیض سمیت دنیائے صحافت کے کئی نامور لوگ شامل تھے۔ اگرچہ وہ منہ سے تو حضور کی اولوا لعزمی کی تعریف کر رہے تھے لیکن دل ہی دل میں حیران تھے کہ اچھی بھلی شہری آبادیاں چھوڑ کر مرکزِ احمدیت کے لیے اس ویرانے کا انتخاب کیوںکیا گیاہے۔ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر طنزیہ مسکراتے تھے لیکن آج ہم محسوس کرتے ہیں کہ حضور کا یہ فیصلہ کتنا دانشمندانہ تھا۔

اُسی زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا ہے۔ آپ سنیں گے تو یقیناً لطف اندوز ہوں گے۔ ایک بار مجھے چودھری اعظم علی سیشن جج، منٹگمری سے کچھ کام پڑ گیا لیکن میں ان سے متعارف نہ تھا چنانچہ میں نے حضرت مرزابشیرا حمد سے درخواست کی کہ مجھے ان کے نام تعارفی چٹھی دے دیں۔ میاں صاحب میری بات سن کر پہلے تو مسکرائے لیکن پھر انہوں نے مجھے ایک خط دے دیا جس میں لکھا تھا کہ حاملِ رقعہ ہٰذا کی بات سن لیں اور اگر ان کا کیس جائز ہے تو مدد کردیں۔ منٹگمری پہنچ کر میں سیدھا امیرجماعت، حضرت چودھری محمدشریف ایڈووکیٹ کے پاس چلاگیا۔

جب میں نے انہیں بتایا کہ میں چودھری اعظم علی سے ملنا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہامیں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ ان سے نہ ملیں۔ میں نے پوچھاکیوں؟ انہوں نے کہا مجھ سے یہ نہ پوچھیں لیکن آپ کو میرا دوبارہ یہی مشورہ ہے کہ آپ ان سے ملاقات نہ کریں۔ میں نے چودھری صاحب کے مشورے کے مطابق اس ملاقات کا ارادہ ترک کردیا اور واپس چلا آیا۔

لاہور پہنچ کر میں حضرت مرزا بشیراحمد سے ملا اور سارا قصہ بیان کرتے ہوئے ان کا خط انہیں واپس کردیا۔ آپ میری بات خاموشی سے سنتے رہے اور پھر فرمانے لگےآپ نے سفارشی چٹھی کے لیے کہا تھا سو میں نے دے دی لیکن سچ پوچھیں تو میں چٹھی دینا نہیں چاہتا تھا کیونکہ مجھے اس سلسلے میں پہلے ایک تلخ تجربہ ہوچکا تھا۔ پھر انہوں نے ایک واقعہ سنایا۔ تفصیلات کے مطابق ایک بار چودھری اعظم علی کے والدِبزرگوار میاں صاحب کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ فلاں کیس میں ان کی ان کے بیٹے کے پاس سفارش کردیں۔ میاں صاحب نے رقعہ لکھ کر انہیں دے دیا۔ ان کے والد بیٹے کی کورٹ میں چلے گئے اور رقعہ انہیں دے دیا۔ چودھری اعظم علی نے یہ خط پڑھا تو بہت سیخ پا ہوئے اور پولیس طلب کرلی۔ حضرت مرزا بشیراحمد نے بتایاوالدِ بزرگوار نے جو یہ صورتِ حال دیکھی تو سخت گھبرائے اور وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ کوئی بس گذررہی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ بس جا کدھر رہی ہے وہ چھلانگ مار کر اس پر سوار ہوگئے۔ جب یہ بس شہر سے باہر نکل گئی تو وہ نیچے اترے، اپنے ہوش و ہواس درست کیے اور گھر واپس گئے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی تعلیم الاسلام کالج کی۔ کالج میں شرارتی لڑکوں کا ایک ٹولہ تھا جو اپنی نِت نئی شرارتوں سے بعض اوقات انتظامیہ کا ناک میں دم کر دیتا تھا تاہم یہ سب لڑکے مخلص احمدی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور خدا کے فضل سے خود بھی جماعت کے ساتھ بے حد مخلص تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان میں سے بہتوں کو بعد میں جماعت کی نمایاں خدمت کا موقع ملا۔ ان میں سے بعض جماعتوں کے امراء رہے اور کچھ صدرانجمن احمدیہ کے تحت کئی ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے۔

اُن میں سے ایک اہم نام چودھری عبدالرحمٰن کا تھا جو بعد میں سی اے رحمٰن کے نام سے پہچانے جانے لگے اور جماعت کے معروف وکلاء میں شمار ہوتے تھے۔ وہ لمبا عرصہ قضابورڈ کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۷۴ء کے فسادات کے دوران وہ امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ تھے۔ انہوں نے اس زمانے کا ایک لطیفہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب حالات کے ستائے ہوئے احمدی ان کے گھر پر جمع ہونا شروع ہوئے تو ان میں ایک غیرمانوس چہرہ بھی شامل تھا۔ سی اے رحمٰن کہتے ہیںہمیں خطرہ تھا کہ کوئی فسادی یا شرارتی ہمارے اندر گھس کر گڑبڑ نہ کردے چنانچہ ہم انہیں پرکھ ہی رہے تھے کہ وہ خود کہنے لگے جی آپ میری وجہ سے بالکل نہ گھبرائیں۔ میں فسادات کے زمانے میں مار کھانے والے احمدیوں میں سے ہوں۔ ان کا مطلب یہ تھا وہ آزمائش کے کسی پچھلے موقع پر جماعت سے دور ہوگئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا اور نہ کبھی کسی نماز یا جمعہ، جلسہ میں آئے لیکن لوگوں نے انہیں پھر بھی نہیںچھوڑا اور ہنگامے شروع ہوئے تو انہیں بھی احمدی ہونے کے جرم میں اپنی دشمنی کا نشانہ بنا ڈالا۔

کالج کے ایک اور طالب علم رشید قیصرانی تھے۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک معزز احمدی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ایئرفورس میں رہے اور معروف شاعر تھے۔ وہ زمانۂ لاہور میں ہمارے کالج میں پڑھا کرتے تھے۔ المنار کے پہلے سٹوڈنٹ ایڈیٹر اور بہت اچھے ڈِیبیٹر تھے۔۱۹۷۴ء کے بعد کی بات ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی غیر مسلم نشست کے لیے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کی کچھ تیاری کرلی اور اخراجات بھی کرڈالے۔ ان کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ وہ احمدی کے طور پر اسمبلی میں جائیں گے اور احمدیت کا دفاع کریں گے۔ جماعت کوپتا چلا تو ان کا اخراج از نظام جماعت کردیا۔ انہوں نے الیکشن نہیں لڑا لیکن جماعت کے سامنے اپنی پوزیشن بھی واضح نہیں کی جس کی وجہ سے وہ کچھ عرصہ تک جماعت سے باہر رہے اور معافی ہو جانے پر بھی دیر تک اس کی اطلاع نہ پاسکے۔ ان کا ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ ہمارے ہوسٹل میں نمازوں کی سخت پابندی تھی۔ وہ آزاد منش آدمی تھے ایک بار میرے پاس آئے اور کہنے لگے سر! آپ مجھے نمازباجماعت سے استثنیٰ دے دیں۔ میں انہیں یہ اجازت کس طرح دے سکتا تھا لیکن بات کو ٹالنے کے لیے میں نے ان سے کہا کہ وہ درخواست لکھ کر لائیں۔ وہ لکھ لائے۔ میں نے یہ درخواست میاں صاحب کو بھیج دی۔ آپ نے انہیں بلایا اور کہا میرے عزیز! جس چیز کوا للہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے میں اس سے استثنیٰ کیسے دے سکتا ہوں؟

حالات کا جبر اپنی جگہ نوجوان تو نوجوان ہوتے ہیں اور ان کی شرارتیں چلتی رہتی ہیں۔ اُس وقت تک کالج کے پیچھے بعض سکھ رہ رہے تھے۔ ہمارا ایک لڑکا سکھوں کا بہروپ بہت خوبصورتی سے بھرتا تھا۔ وہ ایک بار آدھی رات کے وقت سکھ کا بہروپ بھر کر ہوسٹل میں داخل ہوگیا۔ شور مچ گیا کہ ہوسٹل میں کوئی سکھ آگھسا ہے۔ لڑکوں کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ مولانا ارجمند خان کے کمرہ میں گھس کر انہیں ڈرائے گا۔ مولانا ایک عجیب انسان تھے یعنی بہت بڑے عالم، بہت بزرگ لیکن طلبہ کے سچے دوست۔ کوئی دیوار ان دونوں کے درمیان حائل نہ تھی۔ ایک دوسرے کو چھیڑتے بھی رہتے تھے۔وہ لڑکا ان کے کمرہ میں گھسا تو مولانا نے اسے مضبوطی سے پکڑلیا کہ اب جاتا کہاں ہے۔ لڑکے نے جب کھیل خراب ہوتے دیکھا تو خود ہی راز فاش کردیا اور بات بڑھنے سے پہلے ختم ہو گئی۔ بہرحال ایک زمانہ تھا جو گذر گیا۔

اسی زمانہ میں کرنل تقی الدین احمدجو کرنل ٹی ڈی احمد کے نام سے معروف تھے کا بیٹا، بشیر کالج میں داخل ہوا۔ اس کا رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا چنانچہ والدین نے اسے ہمارے پاس ہوسٹل میں داخل کرادیا۔ بشیر کسی اچھے سکول کا پڑھا ہوا صاحب ٹائپ نوجوان تھا۔ اب ہر انسان میں نمودونمائش کی خواہش ضرور ہوتی ہے اور شاید اس عمر میں یہ چیز ضروری بھی ہوتی ہے لیکن باقی لڑکے یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ کوئی اپنے آپ کو بلاوجہ طرّم خان سمجھتا پھرے۔ بشیر نے آتے ہی ہر شے کو بنظرِحقارت دیکھنا شروع کردیا۔ وہ برملا کہتا کہ یہ کوئی ہوسٹل ہے! کھانا آتا تو وہ ناک منہ چڑھاتا اور ٹک شاپ پر جاتا تو تُھو تُھو کرتا۔ لڑکے بشیر کی یہ سب باتیں نوٹ کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک دو دن تو صبر کیا لیکن تیسرے روز وہ میرے پاس اس کی شکایت لے کر آگئے۔ میں نے پوچھا تو بشیر نے کہامیں ٹھیک کہتا ہوں۔ مجھے ہنستے بستے گھر سے اَپ رُوٹ کر کے کباڑخانے میں پھینک دیا گیاہے۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میں نے تانگہ منگا کر بشیر کا بستر اور کتابیں اس میں رکھوادیں۔ اسے بھی تانگے پر بٹھایا اور اسے بتایا کہ ہم تمہیں اس سے بہتر جگہ پر لے جا رہے ہیں۔ میں اسے رتن باغ لے گیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کو بتایا کہ ہمار ا ہوسٹل بشیر کے شایانِ شان نہیں ہے، آپ اسے کسی بہتر جگہ پر رکھیںاور اسے آپ کے سپرد کر کے خود واپس آگیا۔

بشیر آپ کا ماموں زاد بھائی تھا۔ اگلے دن ٹی ڈی احمد اسے ساتھ لے کر میاں صاحب کے دفتر میں آگئے اور مجھے بھی وہیں بلالیا۔ ناشتے کا آرڈر کیا گیا تو بند اور دودھ آیا۔ کرنل صاحب نے اپنے بیٹے سے کہا تمہیں یہی ناشتہ کرنا پڑے گا۔ میں بھی علی گڑھ میں ہمیشہ یہی ناشتہ کیا کرتا تھا۔ خیر یہ وقتی بات تھی۔ بعد میں بشیر لڑکوں میں گھل مل گیا۔

ہم نے ایک بار محسوس کیا کہ ہوسٹل میں مقیم طلبہ بعض دفعہ غیرمناسب لباس میں کامن رُوم میں آجاتے ہیں چنانچہ میں نے ایک نوٹس لگادیا کہ آئندہ سے طلبہ کامن رُوم میں مناسب لباس میں آئیں لیکن ’’مناسب لباس‘‘سے مراد کیا ہے؟یہ وضاحت نہ کی جا سکی۔ میرا خیال ہے کچھ وضاحت کی بھی گئی تھی مثلاً یہ کہ کمبل لے کر نہیں آنا، تولیہ لے کر نہیں آنا اور چپّل پہن کر نہیں آنا۔اذان سے پہلے گھنٹی بجتی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ کامن روم بند ہوگیا ہے۔ اس کے بعد اذان ہوتی تھی۔ ہمارا ایک مددگار کارکن کامن روم کا انچارج تھا۔ ایک روز وہ میرے پاس آیا کہ کامن روم میں آکر دیکھئے تو سہی، لڑکے رضائیاں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں یہ بتاتا چلوں کہ نوٹس میں رضائی پر پابندی کا کوئی ذکر نہ تھا۔ اب وہ رضائیاں لے کر بیٹھے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب آئیں گے، کچھ تیز و تند جملوں کا تبادلہ ہوگا اور پھر شاید جرمانہ بھی ہو لیکن میں نے ان کی شرارت کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ وہ بہت دیر تک میرا انتظار کرتے رہے اور پھر شرمندہ ہوکر خود ہی اپنے کمروں میں چلے گئے۔

ہوسٹل کا ذکر ہوا تو ایک اور واقعہ یاد آگیا ہے۔ ہر کمرے میں تین تین چار چار لڑکوں کی رہائش تھی۔ مختلف ماحول سے آئے ہوئے مختلف طبائع اور مختلف بیک گرائونڈز کے لڑکوں کا ایک ساتھ رہنا خاص طور پر شروع شروع میں بہت مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یوں بھی ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی عجیب سی بات ضرور ہوتی ہے جس کا اسے خود تو کوئی احساس نہیں ہوتا لیکن دیکھنے والے اسے جلد ہی نوٹ کرلیتے ہیں۔ تعلیم الاسلام کالج کا ایک احمدی طالب علم تھا، شریف احمد۔جب وہ اپنا لیمپ جلاتا تو باقی لڑکے اس کی روشنی میں پڑھنے لگتے اور شرارتاً اسے احساس بھی دلاتے چلے جاتے کہ ہم تمہارے لیمپ کی روشنی میں پڑھ رہے ہیں۔ جب یہی بات بار بار ہونے لگی تو اس نے باقی لڑکوں کی اس ’’حرکت ‘‘کے خلاف میرے پاس شکایت کردی۔ہم نے اس قسم کے چھوٹے موٹے جھگڑے نمٹانے کے لیے لڑکوں ہی کی کورٹ بنا رکھی تھی۔ طرفین اس کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور مدعا علیہ تھوڑی سی بحث کے بعد مان گیا کہ وہ اور اس کے ساتھی اس لڑکے کے بلب کی روشنی میں پڑھتے ہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ انہیں اس کی روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے۔ لڑکوں نے کہا کہ آپ ہمیں اس فیصلے کی پابندی پر مجبور نہیں کرسکتے کیونکہ ہم استطاعت ہی نہیں رکھتے کہ اپنا بلب خود خرید کر لائیں اور اگر کورٹ ہمیں بہت ہی مجبور کرے گی تو ہم پڑھائی چھوڑ دیں گے۔ غرض بہت دلچسپ بحث ہوئی۔ اگلے دن پھر کورٹ بیٹھی۔ مدعا علیہ نے کہا کہ ہم مدعی کی بات مان لیتے ہیں لیکن چونکہ اس بلب کی روشنی ہمیں بھی ڈسٹرب کرتی ہے لہٰذا ہم انہیں اپنا بلب نہیں جلانے دیں گے۔ یہ تھے باہمی محبت کے انداز!

یہاں مجھے یاد آگیا ہے کہ جب چودھری ظفراللہ خان یُواین او میں کشمیر کا کیس پیش کرنے کے بعد واپس آئے تو پوری دنیا میں ان کی قابلیت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ان دنوں پطرس بخاری گورنمنٹ کالج، لاہور کے پرنسپل تھے۔ انہوں نے چودھری صاحب کو تقریر کے لیے بلایا ہوا تھا۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔چودھری صاحب نے بہت زبردست تقریر کی جس کے بعد بخاری صاحب کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وطن کو جب ضرورت پڑی تو گورنمنٹ کالج ہی کے اس فرزند کو آواز دی گئی اور اس نے ملک کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا

He should have an ovation at your hands he should remember throughout his life.

اس پر تالیاں بجنا شروع ہوئیں۔ایک منٹ، دو منٹ، تین منٹ، چار منٹ، حتّٰی کہ پانچ چھ منٹ گذر گئے اور تالیاں بجتی رہیں۔ کبھی ذرا آہستہ ہوتیں لیکن پھر تیز ہوجاتیں۔ یہ سلسلہ تقریباً دس منٹ پورے زوروشور سے جاری رہا حتّٰی کہ چودھری صاحب کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے

Now I know Mr. Principal, now I know what you meant by ovation at your hands.

ڈاکٹر اجمل بھی سامعین میں شامل تھے۔ کہنے لگےاگر میں کوشش بھی کرتا کہ اس تقریر کا کوئی لفظ مِس کردوں تو نہ کر سکتا۔ اس میں اتنی convictionتھی، اتنی certainty تھی اور اتنی logicتھی کہ .It was one word.

جب ربوہ میںپہلا جلسہ سالانہ ہونے والا تھا تو ماسٹر فضل داد فضلِ عمر ہوسٹل کے بعض طلبہ کو ساتھ لے کر جلسہ سے کچھ دن پہلے ربوہ چلے گئے تھے۔ ان کی خدمت خلق پر ڈیوٹی تھی۔جب وہ جارہے تھے تو میں نے انہیں کچھ رقم دیتے ہوئے گزارش کی کہ چونکہ میں نے بھی جلسہ پر آنا ہے لہٰذا وہ ربوہ پہنچ کر میرے لیے ایک خیمہ مختص کرادیں۔ اس وقت تک میرے والدین میں سے کوئی بھی احمدی نہیں ہوا تھا اور بہنیں بھی غیراحمدی تھیں لہٰذامیں چاہتا تھا کہ بھلے میرے والدین کمزوری صحت کی وجہ سے نہ بھی جاسکیں، میںا پنی بہنوں کو ضرور ربوہ دکھا دوں اور اسی مقصد سے میں نے ایک خیمے کی بکنگ کرائی تھی۔ تعلیم الاسلام کالج میں ہمارے رفیق کار، فیض الرحمٰن فیضی نے بھی خیمے کے لیے پیسے جمع کرائے ہوئے تھے۔ ان کا تو مجھے پتا نہیں لیکن جب میں ربوہ پہنچا تو شام کا وقت تھا۔ میں نے بہنوں کو ریلوے سٹیشن پر بٹھایا اور تاکید کی کہ جب تک میں نہ آئوں آپ نے کہیں نہیں جانا اور خود اپنے خیمے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ جب میں خیمہ گاہ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کچھ خیموں پر بعض غیر متعلقہ لوگوں نے قبضہ کررکھا ہے اور وہ خیمے خالی کرنے کوتیار نہیں۔ جن لوگوں نے فی الاصل ان خیموں کی بکنگ کروائی تھی وہ ناجائز قابضین سے یہ خیمے خالی کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور اس سلسلے میں خاصی تکرار بھی ہوئی مگر خیمے خالی نہ ہو سکے۔ میرے خیمے پر بھی کوئی اور قابض ہو چکا تھا چنانچہ منتظمین کے ساتھ میری بڑی تیز و تند گفتگو ہوئی۔ اسی اثنا میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد اتفاقاً وہاں پہنچ گئے۔ میں نے آپ سے کہا کہ ہمارا خیمہ خالی کرا کے دیں۔ وہ بھی غالباً اس وقت ذہنی دبائو میں تھے۔ فرمانے لگےکون سا خیمہ؟ آپ نے کوئی خیمہ میرے سپرد کیا تھا؟ میں نے کہامیں نے پیسے ادا کردیے تھے۔ اب اس خیمے پر کوئی اور قبضہ کیے بیٹھا ہے۔ آپ اسے خالی کرواکے دیں۔ وہ کہنے لگے میں افسر جلسہ سالانہ نہیں ہوں نہ یہاں مجھے کوئی اختیار حاصل ہے، میں کیسے خالی کروائوں؟ تھوڑی سی تلخی ہوئی تو میں نے کہا تسی رعب نہ پائو ساڈے تے۔ اسی تواڈے والد صاحب دی بیعت کیتی ہے تواڈی نئیں کیتی۔ میں اب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اس بات پر ہنس رہا ہوگا کہ دیکھنا تم ان کی بھی بیعت کرو گے چنانچہ جب آپ کا انتخاب بطور خلیفہ ہوگیا تو مرزا خورشید احمد نے یہ بات مجھے خاص طور پر یاد دلائی۔(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button