متفرق

عائلی زندگی اور تربیت اولاد (قسط پنجم۔آخری)

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ

آپؓ حضرت اقدس ؑکی پہلی بہوبن کرآپؑ کے الہام کے مطابق خواتین مبارکہ میں شامل ہوئیں۔پانچ چھ سال کا عرصہ آپؑ کے ساتھ گزارا، جس قدر ممکن ہوتا ہر طرح خدمت کرتیں۔ میاں کے آرام کا خیال رکھنے کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت بھی کرتیںجب حضورؑ وضو کرنے لگتے تو بھاگ کر لوٹا پکڑ لیتیں تاکہ پانی ڈال سکیں۔اس کے علاوہ آپ کوحضورؑ کے پاؤں دبانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔(ماخوذ ازحضرت سیدہ محمودہ بیگم صفحہ5،ایڈیشن2008ء)

آپؓ کی نمایاں خوبی اپنے مال کی ہر طرح قربانی کرنا تھی۔جب حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تواس وقت کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہؓ کے دل میں رسولِ کریمؐ کی مدد کی تحریک کی تھی۔…اپنے دو زیور مجھے دےدئیے کہ اُن کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں۔‘‘

جب حضرت مصلح موعودؓ نے دوسری شادی کا ارادہ کیا تو آپؓ نے ایک بات کہی کہ’’میری ایک بات مان لیں آپ کے ذاتی کام سب مَیں ہی کروںگی۔‘‘بے شمار چھوٹے چھوٹے کا م خوشی اور پیار سے کرتیں تاکہ حضورؓ کو تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔کیونکہ حضوؓر جماعتی کاموں کی وجہ سے اس قدر مصروف تھے یہ ضروری تھا کہ آپؓ کے آرام کا ایسا خیال رکھا جائے کہ وقت ضائع نہ ہو۔دوسری سب بیویوں کے ساتھ بڑی بہنوں والا سلوک کیا اور سب بچوں کو اپنابچہ سمجھا۔ ہر لمحہ خلیفۂ وقت جو کہ آپ کے شوہر تھے کی رضا کی خاطر اپنے گھر اور خود کو وقف رکھا۔الغرض اس پیاری ہستی نے اتنی قربانیاں دیں تو خدا تعالیٰ نے ان کوقبول فرمایا اور آپ کی نسل میں خلافت کی صورت میں آپؓ پر انعام جاری کیے۔(ماخوذازحضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ صفحہ18,13,9،ایڈیشن2008ء)

حضرت سیدہ امۃ الحیؓ

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’آج تک میں نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں امۃ الحی کے لیے دعا نہیں کی۔‘‘حضورؓ نے دارالمسیح میں مدرسۃ الخواتین شروع کیا اور فرمایا کہ یہ امۃ الحی کی یادگار ہے۔(ماخوذ ازحضرت سیدہ امۃ الحی بیگم صاحبہ صفحہ28،ایڈیشن2008ء)

آپ کی بیٹی محترمہ امۃالرشید صاحبہ نے بتایا کہ میں ابھی بہت چھوٹی تھی نماز کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے امی نماز کے لیے اپنے ساتھ کھڑا کرتیں اور فرماتیں بسم اللہ ہی پڑھتی جاؤ،اذان دینا بھی سکھایا۔ہم سونے لگتیں تو عربی میں دعائیہ لوریاں سناتیں،درثمین کے اشعار یاد کرواکر خوش الحانی سے پڑھنے کی تلقین کرتیں۔

امی کا حکم تھا کہ بڑی عمر کی ملازمہ یا وہ خواتین جن کا ہمارے گھر آنا جانا تھا ان کا ادب کیا جائے اور نام کے ساتھ آپا کہا جائے۔ ہمیں سچ بولنے کی تلقین کرتیں، جھوٹ اُن کی نگاہ میں بزدلی اورخوف ،گناہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ہم اپنے گھروں میں بھی امی کی اجازت کے بغیر نہیں جاتے تھے۔(ما خوذ ازحضرت سیدہ امۃ الحی بیگم صاحبہؓ صفحہ22،20،ایڈیشن2008ءیوکے)

حضرت ام طاہرؓ

حضرت امۃ الحی صاحبہؓ کی وفات کے بعد جب آپؓ سے شادی ہوئی تو اُن کے بچوں کی ذمہ داری خوشی سے قبول کی۔ حضرت مصلح موعود ؓتحریر فرماتے ہیں :’’انیس سالہ کا یکدم تین بچوں کی ماں ہو جانا کوئی معمولی بات نہ تھی مگر انہوں نےخوشی سے اس بوجھ کواٹھایا اور میری اس وقت مدد کی جب ساری دنیا میں میرا کوئی مددگار نہ تھا ،…میری نظروں کے سامنے وہ نظارہ آج بھی ہے جب میں قیوم اور رشید کو مرحومہ کے پاس لایا اورانہوں نے پرنم آنکھوں سے ان کو اپنے سینہ سے لگا تے ہوئے کہا اب سےمیں تمہاری امی ہوں۔‘‘(سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (اُمّ طاہرصاحبہ)صفحہ24ایڈیشن2007ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نےاپنی عظیم ماں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایاکہ امی نصائح عام طور پر اس رنگ میں کرتی تھیں کہ دل میں اُتر جاتی تھیں اگر کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حوالہ یاد ہو تو وہ ضرور دیتی تھیں۔مثلاً ایک دفعہ ہم بہشتی مقبرہ سے دعا کر کے واپس آرہے تھے ۔راستے میں کوئی شخص گزرا جس نے نہ ہمیں سلام کیا اور نہ میں نے اُسے ۔ اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔اور فرمایا کہ آنحضرتؐ تو سب کو پہلے سلام کیا کرتے تھے ۔ پھر نصیحت کی کہ دیکھو خواہ کوئی واقف ہو یا ناواقف ہو اُسے پہلے سلام کیا کرو۔

…کھانے کے آداب کا بہت خیال رکھتی تھیں۔حرص اور خود غرضی سے شدید نفرت تھی ۔کسی کو غیبت کرتے ہوئے سن لیتیں تو سخت غصہ آتا تھا کسی بڑے کے خلاف بد تمیزی کا کلمہ بالکل برداشت نہیں تھا ۔نماز کی پابندی بہت سختی سے کرواتی تھیں ۔چندہ کی خود بھی پابند تھیں اور ہمیں بھی بچپن سے اس کی عادت ڈالی۔ ہمارے جیب خرچ کاٹ کر چندہ دیا کرتی تھیں اور ہمیں یہ بات ہمیشہ جتاتی رہتی تھیں تاکہ خوب ذہن نشین ہو جائے کہ یہ چندہ ہم خود دے رہے ہیں ۔غرباء کی ہمدردی کی بہت تلقین کرتی تھیں ۔

حضرت محمد ؐاور حضرت مسیح موعود ؑسے عشق تھا۔یہ رباعی بہت پسند تھی:

بلغ العلیٰ بکمالہ

کشف الدجی بجمالہ

حسنت جمیع خصالہ

صلوا علیہ وآلہ

..اور رات بستر پر کئی دفعہ دھیمی آواز میں ترنم کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں۔مجھے بھی مترنم آواز میں ساتھ پڑھواکر یاد کرواتی تھیں۔(ماخوذازمحسنات احمدی خواتین کی سنہری خدمات صفحہ 231تا232)

’’…میں نہیں جانتا کہ آخری وقت میںمیرا نام بھی اُن کے ذہن میں آیا تھا یا نہیں لیکن یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ اپنے آخری سانسوں میں انہیں یاد ضرور رکھوںگا۔‘‘یہ وعدہ آپؓ کے عظیم ا لشان بیٹے نے خوب یاد رکھا اور خوب نبھایا۔اپنی وفات سے چند ہفتے پہلے آپؒ نے جماعت کی غریب اور یتیم بچیوں کی شادی کے لیے ایک فنڈ جاری کیا تاکہ کوئی بھی احمدی بچی ایسی نہ ہو جس کی شادی میں اس کی غربت روک بن جائے۔اس فنڈ کو مریم شادی فنڈ کا نام دیا ۔(ماخوذازسیرت حضرت سیدہ مریم النساء (اُمّ طاہرصاحبہ)صفحہ 39تا40ایڈیشن2007ء)

حرف آخر

یہ واقعات خواتین مبارکہ کی عائلی زندگی میں ایک جنت نظیر معاشرے کے قیام کے لیے نمونہ ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ جن گھروں میںمیاں بیوی کےحقوق و فرائض کی ادائیگی ہو رہی ہو تی ہے وہاں امن اورخوشحالی کا راج ہوتا ہے۔ان کے بچے ان کوخراج تحسین پیش کرتے نظرآتے ہیں۔

خواتین مبارکہ کی اپنے جلیل القدر شوہر کے ساتھ روح کی مناسبت تھی۔ سب خدمت ِدین میں مصروف تھے یا جب ابتلاؤں کا سامنا تھا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خواتین اس سے متاثر نہیں تھیں۔ایک وفاشعار بیوی ہر قسم کے حالات میں اُن کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہے۔وہ نہ صرف اُن کو گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد کرتی ہے بلکہ اُن کے غموں کے وقت اُن کا بوجھ کم کرکے راحت کا باعث بنتی ہے۔

علاوہ ازیں ہزارہا مثالیں ایسی خواتین کی نظرآتی ہیںجنہوں نے عائلی زندگی کو خوشگوار بنانے کی خاطر نہ صرف سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بلکہ سوتیلی اولاد کے ساتھ سلوک میں بھی بہترین نمونہ پیش کیا اور ہر قسم کے حالات میں شوہر کا ساتھ دیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح ا لرابع رحمہ اللہ نے اپنی حرم حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی خوبیوں کا ذکرکرتے ہوئےفرمایا: ’’ایک وقفِ زندگی کے ساتھ بڑے صبر کے ساتھ وقت گزارا۔کبھی بوجھ نہیںڈالا نہ کسی ایسی چیز کی خواہش کی جو میں نہیں دے سکتا تھا …ہجرت کے وقت اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر دیارِغیر جانا پڑاتو یہ تمام عرصہ نہایت صبر اورراضی برضا ہوکر گزارا۔‘‘(محسنات احمدی خواتین کی سنہری خدمات صفحہ 60)

تربیت اولاد کے حوالے سےہمیں اُن قابل رشک ماؤں سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کی ذاتی کوشش کے ساتھ اللہ کا فضل ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس سے درد دل سے مانگنے اور توکل کرنے سے ہی انسان اللہ کی بارگاہ سے سب کچھ پاسکتا ہے۔ تاریخ اسلام اور جماعت احمدیہ میں اللہ کے فضل سے پاکیزگی اور صالحیت کا ایک سے بڑھ کرایک نمونہ موجود ہے جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کا بہت خیال رکھا اور خود بھی نماز روزے کی پابندی کی اور بچوں کو بچپن سے اُس کی عادت ڈالی۔

ان خواتین مبارکہ کےزہد اور تقویٰ کی بدولت ان کی اولاد نےنہ صرف دینی لحاظ سے اعلیٰ مقام حاصل کیابلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے۔ ان میں ایک حضرت حسین بی بی صاحبہ جن کے بیٹے سرمحمدظفراللہ خان صاحب شہرت کی بلندیوں پر فائز ہوئے۔ دوسری حاجرہ بیگم صاحبہ جن کے بیٹے ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی نیکی اور دعاؤں کی بدولت نوبیل انعام یافتہ کی حیثیت سے تمام دنیا میں شہرت حاصل کی ۔

ماؤں کی تربیت کے نتیجے میں اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے نوجوانوں کی ماؤں کے صبرکے نمونے بھی موجود ہیں۔

خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے پہلے شہید کی عظیم ماں نے شہادت کی خبر سن کر کہا کہ ’’بیٹےتمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کرگیا۔‘‘کہتی ہیںکہ میں نے اپنے بیٹے کو جزاک اللہ قادر جزاک اللہ کہہ کر رخصت کیا ۔(ماخوذازمرزا غلام قادراحمدصفحہ 241)

آپ فرماتی ہیں :’’قادر کے وقف سے مجھے وہ خوشی حاصل ہوئی کہ سات بادشاہیں بھی مل جاتیں تب بھی نہ ملتی، وقف کی صورت میں میری دعاؤں کا ثمر مجھے مل گیا۔‘‘

نیک بیٹا اپنی نیک ماں کو خواب سناتا ہے :میں نے حضر ت مسیح موعود ؑکو دیکھا آپؑ نے پوچھا تم کس کے بیٹے ہو ؟

جواب دیا : ’’قدسیہ کا۔‘‘ماں نے خواب سن کر کہا ’’ تم نے میرا نام اس لئے لیا کہ میں نےتمہارے وقف اور خادم دین ہونے کے لئے بےحد دعائیں کی ہیں۔‘‘(ماخوذازمرزا غلام قادراحمدصفحہ 134)

حضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’خواتین کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے۔ایک عورت کا بنیادی کردار اُس کے گھر سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ ایک بیوی اور ایک ماں کی حیثیت سے عمل کر رہی ہوتی ہے…حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو۔ اگر عورتیں اس بات کو سمجھ لیں اور خدا کا خوف کرنے لگیں اور تقویٰ کی راہوں پر چلیں تو وہ اس قابل ہوجائیں گی کہ ایک انقلاب معاشرے میں پیدا کردیں۔ ایک عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور جب خاوند گھر پر نہ ہو تو وہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت پر زیادہ توجہ دے…اللہ آپ کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنی آئندہ نسل کو سنبھالنے والی بن سکیں۔‘‘آمین(اوڑھنی والیوں کےلیے پھول جلد سوم حصہ اول صفحہ 218مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ گھانا 2004ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button