تعارف کتاب

لیکچر سیالکوٹ

(ابو سلطان)

تعارف

یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک لیکچر ہے جو 2؍نومبر 1904ء کو سیالکوٹ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے کثیر مجمع میں پڑھا گیا جو لیکچر سیالکوٹ کے نام سے موسوم ہے۔ اس لیکچر میں حضور علیہ السلام نے اسلام اور دوسرے مذاہب کا موازنہ کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور زندگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تمام مذاہب ابتدا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے۔ لیکن اسلام کے ظہور کے بعد اللہ تعالیٰ نے باقی تمام مذاہب کی نگہداشت چھوڑ دی ہے۔ جبکہ اسلام میں مجددین ومصلحین کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے چودھویں صدی میں بھی دین اسلام کی تجدید کے لیے ایک مامور کو مبعوث فرمایا ہے۔

حضور علیہ السلام نے اس لیکچر میں پہلی مرتبہ ہندوؤں کے لیے کرشن ہونے کا دعویٰ پیش فرمایا پھر آپ نے بحیثیت کرشن آریہ صاحبان کو ان کی چند بنیادی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پہلی یہ کہ وہ ارواح اور مادہ کے ذرات کو ازلی اور غیر مخلوق مانتے ہیں۔ دوسری یہ کہ آریوں کےنجات کو عارضی اور تناسخ کو دائمی قرار دیا ہے۔ آخر میں حضور علیہ السلام نے اپنے دعاوی کی صداقت کے چند دلائل بیان فرمائے ہیں۔

مضامین کا خلاصہ

اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ تحریر ہے نیز فارسی زبان کے کچھ اشعار ہیں۔ اس لیکچر کا نام اسلام ہے جو 2؍نومبر 1904ء کو بمقام سیالکوٹ ایک عظیم الشان جلسہ میں پڑھا گیا اور حضرت چوہدری مولا بخش صاحب احمدی بھٹی ضلع سیالکوٹ نے شائع کیا۔ اس کتاب کے آغاز میں حضرت مولا بخش احمدی بھٹی صاحب ساکن چونڈہ نے ایک پیش لفظ تحریر فرمایا ہے جس میں جلسہ سیالکوٹ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ اسٹیشن آمد اور لوگوں کے جم غفیر کا دیدار کے لیے جمع ہونا پھر جماعت سیالکوٹ کی مہمان نوازی کو قابل تحسین اور آفرین قرار دیا ہے۔

مذکورہ بالا کتاب ’اسلام‘ کے آغاز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جاوے تو معلوم ہو گا کہ بجز اسلام کے ہر ایک مذہب میں کوئی نہ کوئی غلطی پائی جاتی ہے۔ در حقیقت وہ تمام مذاہب ابتدا سے جھوٹے نہیں بلکہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان کی تائید چھوڑ دی ہے۔ مگر اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا اور ہر صدی پر اس باغ کی نئے سرے سے آبپاشی کی۔ یہاں تک کہ آخری زمانہ میں جو ہدایت اور ضلالت کا آخری جنگ ہے خدا نے چودھویں صدی اور الف آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پا کر پھر اپنے عہد کو یاد کیا اور دین اسلام کی تجدید فرمائی۔

مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہ ہوئی۔ اس لیے وہ سب مذہب مر گئے اور ان میں روحانیت باقی نہ رہی۔مثلاً عیسائیت کے مذہب کو دیکھو کہ وہ ابتدا میں کیسے پاک اصول پر مبنی تھا۔ لیکن حضرت مسیح کے بعد مسیحیوں کا خدا ایک اور خدا ہو گیا۔ اس نئے خدا پر ایمان لانے سے تمام سلسلہ تورات کا الٹ گیا۔ گناہوں سے حقیقی نجات اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے تمام گناہ سے پاک ہونے کا اس اقرار پر آ گیا کہ حضرت مسیح نے دنیا کو نجات دینے کے لیے خود صلیب قبول کی اور وہ خدا ہی تھے۔عیسائی مذہب میں ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ اگر حضرت مسیح خود بھی دوبارہ تشریف لے آویں تو وہ اس مذہب کو شناخت نہ کر سکیں۔ حیرت ہے کہ جن لوگوں کو تورات کے احکام کی پابندی کی سخت تاکید تھی انہوں نے یکلخت تورات کے احکام کو چھوڑ دیا۔ انجیل میں کہیں حکم نہیں کہ تورات میں تو سور حرام ہے اور میں تم پر حلال کرتا ہوں۔ تورات میں تو ختنہ کی تاکید ہے اور میں ختنے کا حکم منسوخ کرتا ہوں۔ لیکن چونکہ ضرور تھا کہ خدا ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام دنیا میں قائم کرے اس لیے عیسائیت کا بگڑنا اسلام کے ظہور کے لیے ایک علامت تھا۔

اسلام کے ظہور سے قبل ہندو مذہب بھی بگڑ چکا تھا۔ ہندوستان میں بت پرستی رائج ہو چکی تھی۔ آریہ صاحبوں کے نزدیک خدا جو اپنی صفات کے استعمال میں کسی مادہ کا محتاج نہیں وہ پیدائشِ مخلوقات میں ضرور مادہ کا محتاج ہے۔ اسی سے دوسرے فاسد عقیدے نے جنم لیا کہ تمام ذرات اور عالم اور تمام ارواح قدیم اور انادی ہیں۔ ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے کچھ دن پہلے تمام مذہب بگڑ چکے تھے اور روحانیت کھو چکے تھے۔ پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اظہار سچائی کے لیے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے، آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت پر ہے۔

درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنا یا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا۔ وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کیے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میںکچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا۔ پس بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سےآدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے۔ چونکہ آپ صفاتِ الٰہیہ کے مظہر اتم تھے اس لیے آپ کی شریعت صفاتِ جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی اور آپ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسی غرض سے ہیں۔

دعاوی بابت مجدد صدی اور مجدد الف آخر

فرمایا: یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی۔

سورۃ العصر سے تاریخ آدم

فرمایا: اور خدا نے جو سورۃ العصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔

مسیح موعود اور آدم کی مشابہتیں

1۔نبیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہو گا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اول تھا۔

2۔آدم چھٹے دن جمعہ کی اخیر ساعت میں پیدا ہوا۔ اس مشابہت سےخدا نے مسیح موعود کو ششم ہزار کے اخیر میں پیدا کیا۔

3۔ آدم جوڑا پیدا ہوا تھا اور بروز جمعہ پیدا ہوا۔ اسی طرح یہ عاجز بھی جو مسیح موعود ہے جوڑا پیدا ہوا اور بروز جمعہ پیدا ہوا۔

قیامت کی گھڑی کا علم

یہ صحیح نہیں جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں پھر آدم سے اخیر تک سات ہزار سال کیونکر مقرر کر دئے جاتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں صحیح طور پر فکر نہیں کیا۔ جو کہا گیا کہ قیامت کی گھڑی کا کسی کو علم نہیں اس سے یہ مطلب نہیں کہ کسی وجہ سے بھی علم نہیں۔ اگر یہی بات ہے تو پھر آثار قیامت جو قرآن کریم اور احادیث صحیح میں کہے گئے ہیں وہ بھی قابل قبول نہ ہوں گے۔خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں زمین پر بکثرت نہریں جاری ہوں گی، کتابیں بہت شائع ہوں گی، اونٹ بے کار ہو جائیں گے، سو اس زمانہ میں یہ باتیں پوری ہو گئی ہیں۔ اونٹوں کی جگہ ریل کے ذریعہ تجارت شروع ہو گئی۔ سو شریعت کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت کا وقوع ہر ایک پہلو سے پوشیدہ ہے۔ پس مطلب یہ ہے کہ اس خاص گھڑی کی کسی کو خبر نہیں۔ خدا قادر ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد صدیاں اور بھی زیادہ کر دے کیونکہ کسر شمار میں نہیں آتی۔ جیساکہ حمل کے دن بعض وقت کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں۔ دیکھو اکثر بچے جو دنیا میں پیدا ہوتے ہیں وہ اکثر نو مہینے اور دس دن کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس گھڑی کی کس کو خبر ہے کہ کب دردِ زہ شروع ہو گا۔ اس طرح دنیا کے خاتمے پر گو اب ہزار سال باقی ہے لیکن اس گھڑی کی کسی کو بھی خبر نہیں جب قیامت قائم ہو جائے گی۔

مسیح موعود کو امت میں سے پیدا کرنے کی ضرورت

اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے زمانہ نبوت کے اول اور آخر کے لحاظ سے حضرت موسیٰ سے مشابہ ہوں گے۔ سو مشابہت یہ ہوئی کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے فرعون اور اس کے لشکر پر فتح دی تھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم کو آخر کار ابو جہل پر اور اس کے لشکر پر فتح دی۔ اور آخری زمانہ کی مشابہت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملت موسوی کے آخری زمانہ میں ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جو جہاد کا مخالف تھا اور وہ حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی پر ظاہر ہوا تھا۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آخری زمانہ میں مسیح ابن مریم کے رنگ میں اور صفت میں اس راقم کو مبعوث فرمایا ہے۔

احادیث صحیحہ میں ذکر تھا کہ آخری زمانہ میں اکثر حصہ مسلمانوں کا یہودیوں سے مشابہت پیدا کر لے گااور سورۃالفاتحہ میں بھی اس طرف اشارہ تھا۔ کیونکہ اس میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ اے خدا ہمیں ایسے یہودی بننے سے محفوظ رکھ جو حضرت عیسیٰ کے وقت میں تھے اور یہ عادت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو کوئی حکم دیتا ہے یا ان کو کوئی دعا سکھاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بعض لوگ ان میں سے اس گناہ کے مرتکب ہوں گے جس سے ان کو منع کیا گیا ہے۔ اس آیت میں یہ پیش گوئی ہے کہ امت محمدیہ کے زمانہ میں بھی اس امت میں سے مسیح موعود ظاہر ہوگااور بعض مسلمان اس کی مخالفت کر کے ان یہودیوں سے مشابہت پیدا کر لیں گے۔ اور یہ بات جائے اعتراض نہیں کہ آنے والا مسیح اگر اسی امت میں سےتھا تو اس کا نام احادیث میں عیسی کیوں رکھا گیا؟ کیونکہ عادت اللہ اسی طرح ہےکہ بعض کو بعض کا نام دیا جاتا ہے۔ جیساکہ احادیث میں ابو جہل کا نام فرعون اورحضرت نوح کا نام آدم ثانی اور یوحنا کا نام ایلیا رکھا گیا۔

پرخلوص دعا کرنے والوں کو مبارک باد

فرمایا: مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتےکیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لیے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے۔… کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا ۔وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہی نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھلائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔

غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔اُس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہےاور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ضل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے روح کا جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لیے ہو جاتی ہے۔اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے تئیں بکلی کھو دیتی ہے۔یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے۔ سنت اللہ بابت نبی رسول اور محدث خدا کی قدیم سے یہ سنت جاری ہے کہ وہ پہلے اپنے فضل عظیم سے جس کو چاہتا ہے اس پر روح القدوس ڈالتا ہے۔ صدق و ثبات بخشتا ہے اور بہت سے نشانوں سے اس کی معرفت کو قوی کر دیتا ہے ۔یہاں تک کہ وہ سچ مچ اس کی راہ میں جان دینے کو تیار ہوتا ہے،ایسے شخص میں ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بنی نوع کی ہمدردی اور اصلاح کا بھی ایک ایساعشق کاتعلق ہوتا ہےجو ان کی مستعد تبائع کو اپنی طرف کھینچتا ہے ایسے لوگوں کو اصطلاح اسلام میں نبی اور رسول اور محدث کہتے ہیں۔وہ خدا کے پاک مکالمات اور مخاطبات سے مشرف ہوتے ہیںاور خوارک ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیںاور اکثر دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیںاور اپنی دعاؤں میں خدا تعالیٰ سے بکثرت جواب پاتے ہیں۔

مذہب کی اصل غرض

فرمایا: مذہب کی اصل غرض یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہر ایک بدی سے پاک کر کے اس لائق بنا دے کہ اس کی روح ہر وقت خدا تعالیٰ کے آستانہ پر رہے اور یقین اور محبت اور معرفت اور صدق اور وفا سے بھر جائے۔اور اس میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہو جائے تو اسی دنیا میں بہشتی زندگی اس کو حاصل ہو۔لیکن ایسے عقیدوں سے حقیقی نیکی کب اور کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ صرف خون مسیح پر ایمان لاؤ اور پھر اپنے دلوں میں سمجھ لو کہ گناہوں سے پاک ہو گئے ہویہ کس قسم کا پاک ہونا ہے۔جس میں تزکیہ نفس کی کچھ بھی ضرورت نہیں حقیقی پاکی تین چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک تدبیر اور مجاہدہ۔ جہاں تک ممکن ہو گندی زندگی سے باہر آنے کے لیے کوشش کرے۔دوسری دعا کہ ہر وقت جناب الٰہی میں نالاں رہے۔تیسراصحبت کاملین اور صالحین ہے۔ غرض یہ تین طریق ہی گناہوں سے نجات پانے کے ہیں۔ کامل مومن بننے کے لیے دو شربت پینا ضروری ہیں۔ پہلا شربت گناہ کی محبت ٹھنڈی ہونے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت کافوری رکھا ہے۔دوسرا شربت خدا کی محبت دل میں بھرنے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت زنجبیلیرکھا ہے۔

الوہیت مسیح

فرمایا: مسیح صاحبان بڑی کوشش سے اپنے مذہب کی اشاعت دنیا میں کر رہے ہیں ان کی حالت آریہ صاحبوں سے زیادہ قابل افسوس ہے کیونکہ محض زبردستی اور تحکم کے طور پر حضرت مسیح کو خدا بنایا جاتا ہے۔ ان میں کوئی بھی ایک ایسی خاص طاقت ثابت نہیں ہوئی جو دوسرے نبیوں میں پائی نہ جائے بلکہ بعض دوسرے نبی معجزہ نمائی میں ان سے بڑھ کر تھے۔ اور ان کی کمزوریاں گواہی دے رہی ہیں کہ وہ محض انسان تھے۔ فرمایا: میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میری وحی اور الہام میں ان سے بڑھ کر کلمات ہیں۔ …جو کچھ انہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ الفاظ شفاعت کی حد سے بڑھتے نہیں۔ سو نبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے؟حضرت موسیٰؑ کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑکتے ہوئے عذاب سے نجات پا گئے۔…میں خود اس میں صاحب تجربہ ہوں میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مسائل اور امراض میں مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پا گئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button