حضرت مصلح موعود ؓ

وقف زندگی کی نئی تحریک جماعت کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے (قسط نمبر2۔آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۳؍جنوری۱۹۵۸ء)

(گذشتہ سے پیوستہ)خداتعالیٰ کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ سارے احمدی ایک ہی ملک میں پائے جائیں بلکہ وہ جہاں چاہتا ہے احمدیت کو پھیلا دیتا ہے۔ پہلے مغربی پاکستان نے احمدیت کی طرف توجہ دی تو خداتعالیٰ نے مغربی پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کو بڑھا دیا۔ پھر ایسٹ پاکستان نے اس طرف توجہ کی تو خداتعالیٰ نے وہاں ایک بہت بڑی تعداد احمدیوں کی پیدا کر دی۔ پھر اس نے احمدیت کو سیرالیون، غانا، نائیجیریا، ٹرینیڈاڈ، برٹش گی آنا، فرنچ گی آنا، ڈچ گی آنا، یُو۔ایس۔اے، ویسٹ اور ایسٹ افریقہ اور دوسرے علاقوں میں پھیلانا شروع کر دیا۔ ان سارے علاقوں کی احمدی آبادی کو ملا لیا جائے تو غالباً وہ مغربی پاکستان کی احمدی آبادی سے کم نہیں ہو گی۔ پھر بیرونی ممالک میں تو بیس تیس سال سے تبلیغ ہو رہی ہے اور یہاں ستّر سال سے تبلیغ ہو رہی ہے اور پھر جتنے مبلغ اِس ملک کو ملے ہیں دوسرے ممالک کو نہیں ملے۔

مثلاً حافظ روشن علی صاحب تھے، مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں اور پھر اَور بہت سے مبلغ ہیں جن کے نام اِس وقت ذہن میں نہیں آ رہے یہ سب اِسی ملک میں تبلیغ کرتے رہے۔ پرانے زمانہ میں قاضی امیرحسین صاحب تھے، مولوی سیدسرورشاہ صاحب تھے، مولوی برہان الدین صاحب تھے اور شیخ غلام احمدصاحب تھے۔ یہ لوگ باہر جاتے تھے اور تبلیغِ احمدیت کرتے تھے۔ پھر پروفیسر عبدالقادر صاحب کے چچا مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری تھے۔ ان کی تعلیم صرف مڈل تک تھی مگر انگریزی زبان میں انہیں اتنی مہارت تھی کہ ایک دفعہ مدراس میں ان کا لیکچر ہوا تو گورنر ان کا لیکچر سننے کے لیے آیا اور بعد میں اس گورنر نے کہا کہ ہم بھی اتنی اچھی انگریزی نہیں بول سکتے جتنی اچھی انگریزی مولوی صاحب نے بولی ہے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’تائیدِحق‘‘بھی لکھی ہے جو نہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے۔ میں نے ایک دفعہ اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو میں اُس وقت تک سویا نہیں جب تک کہ میں نے اس ساری کتاب کو ختم نہ کر لیا۔ مولوی صاحب شروع شروع میں ایمان لائے۔ پھر احمدیت کی تبلیغ کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں پھرتے رہے۔ ان کی تعلیم معمولی تھی مگر ذاتی مطالعہ سے انہوں نے اپنی لیاقت بڑھا لی تھی۔ اِسی طرح دوسرے لوگ بھی ذاتی مطالعہ سے اپنی قابلیت بڑھا سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہمت ہو۔ جب ہمت گر جاتی ہے تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر کوئی تھوڑا سا کام کرنے والا آدمی بھی ہو تو میں نے دیکھا ہے کہ وہ دوسروں سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی بی۔اے، بی۔ٹی ہوتے ہیں مگر جب ان کے سپرد کوئی کام کیا جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا، ہماری طبیعت کا اس کام سے کوئی لگاؤ نہیں لیکن مولوی حسن علی صاحب صرف مڈل پاس تھے اور انہوں نے وہ کام کیا جو آجکل کے بی۔اے، بی۔ٹی بھی نہیں کر سکتے۔ اُن کا یہ کہنا کہ فلاں کام ہم سے نہیں ہو سکتا یا ہماری طبیعت اس طرف راغب نہیں محض دھوکا اور فریب ہوتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے باوجود ہم اپنی طبیعت کو اس طرف راغب کرنا نہیں چاہتے۔ یہ اصل فقرہ ہے جو انہیں کہنا چاہیے لیکن وہ یہ فقرہ نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس طرف لگاؤ ہی نہیں حالانکہ خداتعالیٰ تو کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کو اعلیٰ قوتیں دے کر بھیجا ہے اور اسے احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِىْٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التین :5) اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس طرف لگاؤ نہیں تو یہ محض بہانہ ہوتا ہے۔ دراصل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ ہم فلاں کام نہیں کرتے تو دوسرے ناراض ہوں گے۔ اس لیے وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس سے لگاؤ نہیں۔

پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے اندر روحانیت پیدا کرو اور تقویٰ پیدا کرو۔بھلا یہ تو دیکھو کہ اب تو صدرانجمن احمدیہ یا تحریک جدید کچھ نہ کچھ دیتی ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوٰی کیا تھا تو اُن کے پاس کونسا روپیہ تھا۔ جب خداتعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ اُٹھ اور دنیا سے کہہ کہ میں مسیح موعود ہوں تو آپ کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا پھر بھی آپ کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو کہنا شروع کر دیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور اس کی پہلی جزا آپ کو یہ ملی کہ آپ کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے پتھر پڑنے شروع ہوئے لیکن آپ پھر بھی کام کرتے رہے اور کبھی بھی خداتعالیٰ سے یہ نہ کہا کہ اے ﷲ! تُو نے مجھے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ کھڑا تو تُو نے مجھے مسیح موعود بنا کر کیا تھا اور یہاں یہ صورتِ حال ہے کہ چاروں طرف سے پتھر پڑ رہے ہیں۔…میں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لوگ اپنا وسیع کاروبار چھوڑ کر قادیان آ گئے تھے اور وہاں پر کسی نہ کسی طرح اپنی روٹی کما لیتے تھے اور گزارہ کر لیتے تھے۔ جو مال دار لوگ اُس زمانہ میں آئے اُن کا بھی یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے سب مال لُٹا دیئے۔ مثلاً سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی تھے۔ ان کی تجارت بڑی وسیع تھی۔ مگر انہوں نے اپنا سارا روپیہ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دے دیا۔ بعد میں جب وہ دیوالیہ ہو گئے تو ان کے ایک دوست سیٹھ لال جی تھے اور وہ بھی بہت بڑے تاجر تھے۔ سیٹھ صاحب نے انہیں تحریک کی کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دعا کرایا کریں اس میں بڑی برکت ہو تی ہے۔ اور پھر کہا میں آپؑ کو ماہوار نذرانہ کے طور پر ایک بڑی رقم بھجوایا کرتا تھا آپ بھی انہیں نذرانہ بھجوایا کریں۔ چنانچہ انہوں نے ساڑھے تین سَو روپیہ ماہوار بھجوانا شروع کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں روحانیت پائی جاتی تھی ورنہ وہ سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی کو کہہ دیتے کہ آپ نے دعا کراکے کیا لیا؟ آپ کا تو پہلا کاروبار بھی نہ رہا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ انہیں جو برکتیں ملی ہیں وہ روحانی ہیں اور اُن کو بھی روحانی برکتیں ہی ملیں گی۔ اس لیے انہوں نے سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی کی نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دیا۔

پھر ہمارے ایک دوست چودھری رستم علی صاحب تھے۔ پہلے وہ سپاہی تھے۔ پھر کانسٹیبل ہو گئے۔ پھر سب انسپکٹر بنے۔ پھر پراسیکیوٹنگ(PROSECUTING) انسپکٹر بنے۔ اُس وقت تنخواہیں بہت تھوڑی تھیں۔ آجکل تو ایک سپاہی کو مہنگائی الاؤنس وغیرہ ملا کر قریباً ساٹھ روپیہ ماہوار مل جاتے ہیں لیکن اُن دنوں سپاہی کو غالباً گیارہ روپے، تھانیدار کو چالیس روپے اور انسپکٹر کو پچھتّر یا سَوروپے ملتے تھے اور پراسیکیوٹنگ(PROSECUTING)افسر کو سَو سے کچھ زیادہ ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھجوا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہیں یکدم آرڈر آ گیا کہ ان کو عہدہ میں ترقی دی جاتی ہے اور تنخواہ اتنی بڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کی تنخواہ میں جو بڑھوتی ہوئی وہ ساری کی ساری وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے حضرت صاحب کو جو خط لکھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔ میں نے پڑھ کر بتایا کہ یہ خط چودھری رستم علی صاحب کا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ میں سَوروپیہ تو پہلے ہی بھیجا کرتا تھا لیکن اب میری تنخواہ میں اسّی روپے کی ترقی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض حضور کی دعاؤں کے طفیل ہوئی ہے اور آپ کے لیے ہوئی ہے اس لیے اب میں آپ کو ایک سَواَسّی روپے ماہوار بھیجا کروں گا۔ میں اس بڑھوتی کا مستحق نہیں ہوں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میں پہلی تنخواہ کا بھی مستحق نہیں تھا۔ وہ بھی اﷲ تعالیٰ مجھے آپ کی خاطر ہی دے رہا ہے۔

اب دیکھو اﷲ تعالیٰ نے سلسلہ کو جو مالدار دیئے تھے وہ بھی کیسی کیسی قربانیاں کرتے تھے اور پھر اُن قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کو دیکھ لو اﷲ تعالیٰ اُن پر ر حم کرے۔ بیشک آخر میں اُن میں بگاڑ پیدا ہوا لیکن شروع شروع میں وہ پشاور میں نہایت کامیاب وکیل تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایک مقدمہ ہوا تو آپ نے خواجہ صاحب کو لکھا کہ اِس اِس طرح ایک مقدمہ ہے جس میں ایک احمدی وکیل کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اِس پر آپ اپنی کامیاب وکالت چھوڑ کر پشاور سے گورداسپور آگئے۔ گوایک بات ضرور ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ آخر شاید گرے بھی اِسی کی وجہ سے تھے اور وہ یہ کہ جب ان پر تنگی آتی تھی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روپیہ مانگ لیا کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں شاید یہی کمزوری بعد میں ان کی خرابی کی وجہ ہوئی۔ ورنہ انہوں نے بھی بہت قربانی کی تھی۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں ان کی قربانی اپنے سب ساتھیوں سے زیادہ تھی۔

مولوی محمدعلی صاحب کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بڑی قربانی کی۔ انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور کی پروفیسری چھوڑی تھی اور اُس وقت پروفیسری کی تنخواہ اَسّی نوّے روپے ماہوار ہوا کرتی تھی اور انہوں نے قادیان آکر انجمن سے بیس روپیہ ماہوار تنخواہ لی لیکن حقیقت میں ان کو بیس نہیں بلکہ ایک سَو بیس روپیہ ماہوار تنخواہ ملا کرتی تھی۔ بیس روپے انجمن کی طرف سے ملتے تھے اور ایک سَو روپے ماہوار ان کے لیے نواب صاحب انجمن کو دیا کرتے تھے۔ غرض مولوی محمدعلی صاحب نے تو قادیان جا کر فائدہ اُٹھا لیا لیکن خواجہ صاحب نے اپنی کامیاب وکالت چھوڑ دی۔ انہوں نے مولوی محمد علی صاحب جیسا فائدہ نہیں اُٹھایا۔ ہاں!اگر کبھی ضرورت ہوتی تو حضرت صاحب سے کچھ مانگ لیا کرتے تھے۔ مولوی محمد علی صاحب نے قادیان آ کر تنخواہ لی اور پھر اسے بڑھاتے چلے گئے۔ شیخ رحمت اﷲ صاحب ان کی تائید کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ان کی تنخواہ بہت تھوڑی ہے اس لیے ان کی تنخواہ بڑھانی چاہیے۔ ایک دفعہ میں نے کہا مولوی صدردین صاحب کی تنخواہ بھی بڑھانی چاہیے تو مولوی محمد علی صاحب کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور کہنے لگے آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں نے کوئی قربانی نہیں کی۔ میں نے کہا یہ بات نہیں بلکہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مولوی صدر دین صاحب نے بھی تو قربانی کی ہے ان کی تنخواہ بھی بڑھانی چاہیے۔

تو یاد رکھو! آنے والے آئیں گے اور انہیں رزق بھی خداتعالیٰ دے گا۔ مگر پہلے آنے والوں کے لیے بہت برکت ہو گی۔ جو پہلے آئیں گے اُن کے لیے جنت کے دروازے پہلے کھولے جائیں گے اور جو بعد میں آئیں گے ان کے لیے جنت کے دروازے بھی بعد میں کھولے جائیں گے۔

(الفضل۱۱؍جنوری۱۹۵۸ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button