یادِ رفتگاں

میری پیاری بڑی پھوپھو جان امۃ اللطیف خورشید صاحبہ

(مبشرہ شکور بنت عبدالباسط شاہد۔ لندن)

یہ دُنیا فانی ہےجو آیا ہے اس نے جانا بھی ہے مگر کچھ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں ان کی خوشبوہمیشہ آ پ کے ساتھ رہتی ہے۔ ایسی ہستیوں میں سے ایک میری بڑی پھو پھو جان تھیں پتلی دبلی اور اپنے نام کی طرح لطیف اور نازک۔ جماعت کے کام کرنے والی،خلیفہ وقت کی اطاعت کرنے والی اور حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی عزت کرنے والی نیک سیرت خاتون تھیں۔ قلم پکڑا ہے توسوچ میں پڑگئی ہوں کہ کہاں سے شروع کروں۔

قیام پاکستان کے وقت گو کہ ابھی چھوٹی عمرکی ہی تھیں مگر قادیان سے چلنے والے قافلوں کی لسٹوں کو محترم میر داؤد احمد صاحب کے زیرنگرانی چیک کرنا اور لاہور جس کیمپ میں عورتیں ٹھہریں اس کی نگرانی کا کام آپ نے میری دادی اماں کے ساتھ مل کر کیا ۔یہ سب کام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کے زیر سرپرستی ہوتا۔ میرے ابوجان اکثر حضور کو پیغام پہنچاتے اور پھوپھو کے معاون و مددگار ہوتے۔ یہ بات میں نے پھوپھو جان اور اپنے ابوجان سے سنی ہوئی ہےکہ خدا نے ان کو جماعت کی طویل خدمت کرنے کا موقع عطا فرمایا جس میں تاریخ لجنہ اماءاللہ سر فہرست ہے۔

میرا بچپن ساتھ والے گھر میں گزرا۔ ہمارے تین گھر اکٹھے تھے۔ دادی اماں اور پھوپھوجان ہم سب کے گھر ساتھ ساتھ تھے۔ اور سب کے ساتھ رابطہ کے لیے اندر سے ہی دروازہ بھی تھا۔ اس طرح ہم سب کے ساتھ آ سانی سے میل ملاقات کر سکتے تھے۔ کبھی کبھارہم کھانا لے کر بڑی پھوپھوجان کے ہاں چلے جاتے اور مل کرکھاتے۔ میری دادی اماں اور باقی کزن بھی ہوتے۔ جن دنوں میں دادا جان قادیان سے آتے (گوکہ وہ کم عرصہ تھا) کلو جمیعا کا بہت مزا آتا۔ اور کبھی یہ کلو جمیعا ہمارے گھر پر ہوتا۔ الحمد للہ

چونکہ والد صاحب مولانا عبدالباسط شاہد نے ایک لمبا عرصہ افریقہ میں بطور مبلغ خدمات سر انجام دیں۔ اس لحاظ سے جیسے ہم ربوہ میں اکٹھے رہے وہ ایک قابل رشک وقت تھا۔ بڑی پھوپھو بھی تھیں اور ہمسائے بھی۔ یہاں اپنے پھوپھا جان شیخ خورشید صاحب مرحوم کا بھی ذکر خیر کروں گی۔ بہت تحمل مزاج اور نیک سیرت انسان تھے۔ انہوں نے بھی باہر کے کاموں میں امی جان اور ہم بچوں کی مدد کی۔ مجھے ان کے ساتھ ایک بار سائیکل پر بیٹھ کر ہسپتال سر کی چوٹ پر دوا لگوانے جانا یاد ہے۔ گرمیوں میں اکثر گھر کے آگے چھڑکاؤ کرتے تو ہمارے گھر کے سامنے بھی کر دیا کرتے۔ پاکستان اور انڈیا کی جنگ کے وقت ایک بڑی سی خندق دادی اماں کے صحن میں کھودی گئی۔ جہاں سائرن سنتے ہی بھاگ کر جانا ہوتا تھا۔ ہم اپنی ا می جان کے ساتھ چھوٹے بچے تھے تو پھو پھو جان اپنے بڑے بچوں کو بھیجتیں تا کہ اس مشکل وقت میں ہماری امی جان کی مدد ہو جائےاور وقت پر ہم محفوظ جگہ پہنچ جائیں۔

اسی جنگ کی ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے گھر کا نقشہ اور پھوپھوجان کے گھرکا نقشہ بھی ایک ہی تھا اور جنگ کے دنوں میں جو کمرے بلیک آؤٹ کےلیےاستعمال کیے وہ بھی آگے پیچھے کے تھے درمیانی دیوار سے ایک اینٹ نکالی گئی تھی جہاں سے پھوپھو جان ہمیں خبریں سناتیں اور خطرے کا الارم ہوتے ہی میری اُمی جان کو آواز دیتیں۔ اس طرح وہ ہمیں یہ احساس نہ ہونے دیتیں کہ ہمارے پاس ریڈیو نہیں ہے یا پھرہم با خبر نہیں۔ کھانے پکانے میں میری امی جان استاد سمجھی جاتیں مگر پھر بھی پھوپھو جان کی چند ڈشیں میں آج بھی یاد کرتی ہوں۔ ان میں گڑ والے چاول، گوشت، پلاؤ،خشخاش کا سالن قابل ذکر ہیں۔ پھوپھو کے گھر سے روزانہ صبح ایک آوازآتی جو کہ فریش مصالحہ پیسنے کی ہوتی جو کونڈی ڈنڈا کی مدد سے ہوتا یا پھر سل وٹے کی مدد سے یہ آوازیں آج بھی کانوں میں آتی ہیںاور ایک خوبصورت سی صبح کا احساس دلاتی ہیں۔

ایک سب سے زیادہ قابل رشک بات یہ ہے کہ ان کے صحن کو صبح اور شام ہمیشہ قاعدہ اور قرآن کریم پڑھنے والے بچوں سے بھرا دیکھا۔ جب کسی بچے کی آمین ہوتی تو ہم بہن بھائی بھی مدعو ہوتے اور ہمیں عید کا دن محسوس ہوتا۔ بعض اوقات پھوپھو جان خاندان حضرت مسیح موعود ؑکی خواتین مبارکہ کو بھی مدعو کرتیں جن میں حضرت چھوٹی آپا،مہر آپا اور خاندان کی معزز ممبرات بھی شامل ہوتیں۔ تقاریب نہایت سادہ ہوتیں سب بچوں میں مٹھائی تقسیم کرتیں۔

چھوٹی عید پر ہمیں ان کی عیدی کا انتظار ہوتا جو کہ عید کی نماز سے گھر آنے پرملتی۔ نہایت پیار اور سادگی سے ایک ٹرے میں سجی ہوئی چند چیزیں جو یاد ہیں ان میں لڑکیوں کے لیے بالوں کے کلپ ہیرٔ پنزاور ربن ہوتے لڑکوں کے لیے چھوٹے بال یا کی رنگ ہوتےیا کوئی اور چھوٹا کھلونا ہوتا بعد میں یہ عیدیاں5روپے کے نئے نوٹ میں بدل گئیں۔ بظاہر یہ چھوٹی چیزیں ہیں لیکن ان سے ہمیں سادگی سلیقہ مندی میں گندھا ہوا پھوپھوجان کا پیار ملتا۔میں نے خود یہ مشاہدہ کیا کہ اکثران کے ہاں غریب لڑکیاں آتیں کچھ کام کرنے والی یا کسی کے والدین ان کو پڑھنے کےلیے بھیجتے۔ آپ ان کی ذمہ داری بڑے احسن طریق سے ادا کرتیں ان کی ضرورت کا خیال کرتیں بلکہ کئی بچیوں کی شادیاں بھی کروائیں۔ اور سب سے اب تک تعلق بھی رکھا۔ ایسے نیکی کے کام خاموشی سے کرتیں۔ اللہ ان کو بہترین جزا عطا فرمائے آمین۔

میں اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ 2003ءمیں کینیڈا گئی وہ بہت خوش ہوئیں ہماری فیملی کے لیے کرائے کی جگہ کا انتظام کروایا اور گھر کی روزمرہ کی ضرورت کا بھی خیال رکھا۔ ہم حیران ہوتے کہ انہوں نے ہمارے پوچھنے سے پہلے یہ سب کیسے کردیا… نیاگرافال کی پہلی سیر کا بھی انہوں نے پروگرام بنایا ۔ ایک بہت بڑا قافلہ تھا ہماری گاڑی کے علاوہ پانچ گاڑیاں اور تھیں جن میں ان کے بچے، بہو ئیں، پوتے، پوتیاں، بیٹی اور ان کی فیملی شامل تھے۔ گھر کا بنا ہوا زردہ، پلاؤ لوازمات کے ساتھ۔ پہلے پڑاؤ میں کھانا کھایا اور پھر سیر کا خوب مزا لیا۔ مجھے میرے میاں کواور بچوں کوہمیشہ پیار دیا۔ ان کو مل کر ہمیشہ ایسا لگا کہ میری دادی اماں کا پیار بھی ہمیں مل رہا ہے۔ یہ سب ابھی بھی نم آنکھوں سے لکھ رہی ہوں اور دل سے ان کے لیے دعا گو ہوں۔ ایک زبردست منتظمہ تھیں، جو کہ خدا نے ان کو ایک خاص ملکہ بخشا ہوا تھا۔ ہم جب ویسے بھی ملنے گئے یا جلسہ پر کینیڈا گئے تو یہ ہی دیکھا کہ بچوں کی ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں اور سب اپنا کام وقت پر کر رہے ہیں کس نے مہمان کو رسیو کرنا ہے اور کس نے کھانے کا وقت سنبھالنا ہے اور اس طرح سب کام بآسانی ہو جاتے۔

2002ءمیں پھو پھو اور پھوپھا جان کا انگلینڈ آنا ہوا وہ لیسٹر ابوجان امی جان کو بھی ملنے گئے اور پھر میں اور میرے میاں ان کو اور امی جان اور ابو جان کو چیلٹنھم گلاسٹرشائراپنے گھر لے آئے۔ سیریں بھی کیں، پیار بھی لیا اور دعائیں بھی لیں۔ اُن دنوں ہمارے دو بچے یونیورسٹی میں تھے اور دوبچے ہائی سکول میں تھے اُن کو بھی اپنے پیار بھرے انداز میں نصیحتیں کیں جو بچے آج بھی یاد کرتے ہیں۔

ابوجان نے خاص طور پرلاک ڈاون میں اس بات کا بہت اہتمام کیا کہ روزانہ پھوپھوجان سے حال احوال پوچھتے اس طرح دونوں بہن بھائی خوش رہتے۔ اباجان کی ایک زبردست صفت ہے کہ جو ہم نے ہمیشہ ان کو اپنی بہنوں اور بھائیوں سے پیار کا سلوک کرتے دیکھا اور بدلے میں ان کے بہن بھائیوں نے بھی سب سے پیار محبت کا سلوک کیا الحمدللہ۔

میں ابو جان سے روزانہ پوچھتی کہ کونسی پھوپھو جان سے بات ہوئی ہے۔ جس پھو پھو سے بھی ابو جان کی بات ہوتی تو خوشی سے بہن کا نام لے کر بتاتے کہ آج میری اُس بہن سے بات ہوئی ہے۔ دسمبر میں پھوپھوجان کچھ ہفتہ کے لیے اپنے چھوٹے بیٹے کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔ وہاں سے بھی ہمارا رابطہ قائم رہا اور بہت خوشی سے بات کر تی رہیں۔ باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگیں آج نئے سال میں کوئی نئی بات بتاؤ۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنے ایک بیٹے کے حضور سے وقف زندگی کی اجازت ملنے کا ابھی ذکر نہیں کیا جو کہ چند ہفتہ پہلے پتا لگا تھا۔

میں نے ان کو سارا واقعہ سنایا کہ جن صاحب نے آکر بتایا انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حضور ایداللہ تعالیٰ نے یہ بھی پیغام بھیجا ہے کہ آصف نعیم شکور سے کہیں کہ وہ اپنے نانا جان کا وہ انٹرویو ضرور سنے جو چند سال پہلے انہوں نے جرمنی میں دیا جس انٹرویومیں انہوں نے وقف زندگی کا مطلب بتایا۔ پھوپھو جان یہ بات سن کر اتنی خوش ہوئیں کہ میرا دل چاہا کہ کاش میں اپنی آنکھوں سے ان کی یہ خوشی دیکھ سکتی اوران کے ساتھ لگ کر خود بھی پیار لیتی اور بیٹا بھی پیار لیتا۔

میری آخری اور مفصل بات اپنی پھوپھو جان سے 9؍جنوری کو ہوئی اور 19؍جنوری 2022ء کو اُن کی وفات ہو گئی۔ اِ نا للّٰہ وَ اِنا الیہ راجعون پھوپھو جان کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کا بھی سنتیں کہ جماعت کی خدمت کی ہے تو بہت خوشی کااظہار کر تیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو اور ہمیں بھی ان کی نیکیوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button