یادِ رفتگاں

مکرم محمد صدیق شاکر صاحب مرحوم آف بھاٹی گیٹ لاہور

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

مکرم محمد صدیق شاکر صاحب پیدائشی احمدی تھے اور نظام وصیت میں شامل تھے۔آپ کا تعلق مجلس دہلی گیٹ سے تھا،تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک بھاٹی گیٹ کے صدر جماعت رہے اور مقامی احمدیوں کی تعلیم و تربیت میں کلیدی اور فعال کردار ادا کیا،خصوصاً چندوں کی ادائیگی میں احباب کو جگائے رکھا او ربروقت ادائیگی کی عادت کوپختہ کیا۔نیلا گنبد میں مکرم میاںیحیٰ صاحب کی سائیکلوں کی دکان پر ان کا دفتر ہوتا تھا،وہیں بیٹھے جماعتی کاموں کی مشاورت ہوتی تھی۔تیس سال تک جماعت احمدیہ لاہور کے سیکرٹری وقف جدید رہے اور سالہاسال تک لاہور کو وصولیوں میں پاکستان اور دنیا بھر میں اول پوزیشن پر رکھا۔صدیق شاکر صاحب اپنی خدمات دینیہ کے اعتبار سے لاہور کی جماعت کی پہچان تھے۔

4؍اکتوبر1996ءکے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے لاہور کے مبارک محمودصاحب پانی پتی کی وفات پر ان کا ذکر فرماتے ہوئے لاہور کے دیگر مخلصین کا ذکر بھی فرمایا تھا جن کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ کے دور میں لاہور میں کام کیا اور لاہور کے دورہ مجالس کے دوران ان کو اپنے شانہ بشانہ پایا تھا،ان میں ایک نام مکرم محمد صدیق شاکر صاحب کا بھی تھا جو اس وقت حیات تھے۔(الفضل انٹرنیشنل22؍نومبر1996ءصفحہ9)۔آپ کو 1950ء – 60ء کے عشروں میں مجلس خدام الاحمدیہ میں بہترین خدمت کی توفیق ملی،آپ معتمد مجلس بھی رہے تھے۔ 1955ء میں لاہور شدید سیلاب کی زد میں آگیا تھا اس وقت مجلس کی قیادت مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب کے ہاتھوں میں تھی،امدادی کاموں کے لیے جو سیلاب کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس میں مکرم میاں محمد یحیٰ صاحب اور مکرم صدیق شاکر صاحب بھی شامل تھے۔ مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب نائب نگران کمیٹی تھے جبکہ مکرم میاں محمد یحیٰ صاحب نگران اعلیٰ ریلیف کمیٹی تھے۔مکرم صدیق شاکر صاحب کے پاس مال کی ذمہ داری تھی۔لاہور کے سیلاب1955ء میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی غیر معمولی مساعی کی رپورٹس روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوتی رہیں جو مکرم مبارک محمود پانی پتی صاحب لکھ کر بھیجا کرتے تھے، انہی کی ایک رپورٹ کے مطابق :’’اس عارضی کیمپ کے انچارج شریف احمد صاحب اور نائب محمد صدیق شاکر اور میاں عبد القیوم تھے۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ9؍نومبر1955ء،صفحہ8)

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کےساتھ لاہور کی ضلعی مجالس کے جماعتی دوروں اور کاموں میں بہت زیادہ تعلق رہا۔مکرم شیخ ریاض محمود صاحب (سابق قائد مجلس لاہور شہر)نے ان کے بارے کہا کہ ’’مرحوم محمد صدیق شاکر صاحب کالج میں میرے کلاس فیلو اور جماعتی کاموں میں میرے ہمسفر بھی تھے۔ بڑے صاف گو،سادہ مزاج انتھک کام کرنے والے کارکن تھے۔دوستی کا لحاظ رکھے بغیرکسی کی غلطی کی فوراً نشاندہی کردیتے تھے۔مکرم شیخ ریاض صاحب کے بقول ان کے رفقائے کار میں مکرم میاں محمد یحیٰ صاحب، میاں عبد القیوم ناگی صاحب، مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب، مکرم قریشی محمود احمد صاحب معتبر اور مکرم ٹھیکیدارشریف احمد صاحب شامل تھے۔ یہ سب لاہور میں باعزت مقام رکھتے تھے،ایک دوسرے کو بھائی کہہ کر مخاطب ہوتے جس سے ان کی آپس کی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘

مکرم شاکر صاحب کی وفات پر ان کے دیرینہ ساتھی مکرم محمود احمد قریشی صاحب نے روزنامہ الفضل ربوہ میں ایک مضمون بعنوان ’’محترم محمد صدیق شاکرصاحب۔ایک مخلص خدمت گار‘‘لکھا، اس میں قریشی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آپ خدمت دین،خدمت خلق،حسن اخلاق اور حسن کارکردگی کی وجہ سے زندہ جاوید ہیں۔گو ان کی وفات کو دس سال گزر چکے ہیں مگر جب بھی جماعت احمدیہ لاہور میں کوئی اجتماع یا ہنگامی تقریب منعقد ہوتی ہے تو آنکھیں ان کو تلاش کرتی ہیں،کیونکہ وہ عموماً ہر اجتماع میں تشریف لاتے اور ضروری خدمت بجا لانے والی شخصیت تھے‘‘۔قریشی صاحب نے مزید لکھا کہ ’’ان کو صدر جماعت بھاٹی گیٹ رہنے کی سعادت قریبا ًپچیس سال سے زائد عرصہ اپنی وفات تک حاصل رہی۔ اور اس کام کو انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔اپنے حلقہ کے تمام افراد کے گھروں تک ذاتی رسائی اس قدر تھی کہ ہر خوشی غمی،چندہ وصول کرنے کے لیے وہ گھر میں جانا اپنا فرض سمجھتے تھے اور سارے حلقہ کے افراد کو ایک ہی خاندان کی طرح بنانے میں ان کا بے حد دخل تھا۔‘‘

محترم قریشی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’مرحوم اپنے اہل و عیال کے لیے نہایت شفیق، دوستوں کے لیے نہایت معین و مدد گار اور ان کی تکالیف کے وقت غمگسار اور عام احباب کے لیے مستعد خدمت گزار تھے۔ملنے والوں کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ خلافت اور سلسلہ احمدیہ کےساتھ نہایت ہی عقیدت اور وابستگی تھی‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ،25؍جون2010 صفحہ6)۔

مکرم منیر الدین شمس صاحب آف ٹاؤن شپ بتاتے ہیں کہ ’’جب مکرم عبد الحلیم طیب صاحب قائد ضلع لاہور کومجلس عاملہ میں بطور ناظم اطفال ضلع کام کرنے کا موقع ملا تو مجھے پہلی ضلعی رپورٹ تیار کرنی تھی۔مکرم چودھری منور علی صاحب نے بتایا کہ ’’وقف جدید بچگان ‘‘کی وصولی کی رپورٹ مکرم شاکر صاحب سے ملے گی اور وہ نیلا گنبد میں مکرم میاں یحیٰ صاحب کے پاس آتے ہیں۔ان سے نوٹ کرکے لکھ دینا۔ میں نیلا گنبد گیا تو میاں صاحب سے ملا اپنا تعارف کروایا اور آنے کی وجہ بتائی۔ میاں صاحب نے بتایا کہ شاکر صاحب تو اپنے سرکاری دفتر میں ہیں وہاں سے چھٹی کرکے یہاں سے ہو کر گھر جاتے ہیں۔ اگر اس وقت ملنا ہے تو وہاں چلے جاؤ،پہلی منزل پر دفتر ہے۔مجھے چونکہ ٹاؤن شپ واپس جانا تھا لہٰذ ان کے دفتر چلا گیا،وہ اچھے طریق سے ملے اور کہنے لگے کہ میں یہاں دفتر تو رپورٹ نہیں لے کر پھر رہا، تم میاں صاحب کی دکان پر چلے جاؤ میں بھی آتا ہوں وہاں لکھوادوں گا۔ میں دکان پر پہنچا تو شاکر صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔وہاں جو مکالمہ ہوا وہ بہت دلچسپ اور سمجھانے والا تھا۔ میاں صاحب خاموش طبع اپنے کام میں مگن باریک باریک گائیڈ لائن کے اندر روپے اور آنے کا حساب درج کرنے میں مصروف تھے۔شاکر صاحب نے میاں صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ دیکھو بھا(بھائی)،جی خدام اپنے کام کی رپورٹ لینےآئےہیں۔ جماعت کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ ہم سے رپورٹ مانگ رہا ہے۔خیر ایک بات بتادوں کہ خدام کے پاس نہ قلم نوٹ کرنے کے لیے ہوگی نہ ہی نوٹ بک ہوگی۔ جبکہ خادم کے لیے یہ چیزیں لازم ہونی چاہئیں۔میں نے عرض کیا کہ بندہ کے پاس دونوں چیزیں موجود ہیں۔ جس پر انہوں نے اپنے کپڑے کا تھیلا کھولا اور رپورٹ لکھوا دی اور بتایا کہ اس مرحلے میں تمام ضرورت کی چیزیں موجود ہیں،اگر تم پانی پتی صاحب کا تھیلا دیکھو تو اس میں سوئی اور دھاگا بھی موجود ہوتا ہے، آج پلاسٹک بیگ سے جان چھڑائی جا رہی ہے،اس وقت ہر آدمی کے پاس کپڑے کا تھیلا ہوا کرتا تھا اورکام کرنے والے کے پاس قلم اور نوٹ بک ضرور ہونی چاہیے یعنی ایک سپاہی کو اپنے ہتھیار ساتھ رکھنے چاہئیں‘‘۔

اسی طرح مکرم ڈاکٹر قاضی محمد برکت اللہ صاحب امریکہ روزنامہ الفضل ربوہ میں اپنے ایک مضمون بعنوان ’’صدیق شاکر صاحب چلے گئے ہیں‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’جماعت کے کاموں کا انہیں شغف ہی نہ تھا بلکہ عشق تھا ہر وقت ہمہ تن مصروف رہتے…دن رات ایک ہی کام۔جماعت کا کام۔ میرا تعلق ان سے دوستی کا رہا۔دہلی دروازہ کی بیت الذکر سے علیک سلیک شروع ہوئی۔اس وقت زمانہ خدام الاحمدیہ کا تھا۔ کبھی کبھار دور دراز حلقوں میں دوروں کے بعد اجلاس میں شامل ہوتے۔نہ ان کے پاس سواری تھی نہ میرے پاس۔ کبھی کبھی سخت تپش اور گرمی میں دوپہر کے وقت جوتیاں گھسیٹتے خدام الاحمدیہ کے کسی حلقہ کے اجلاس میں پہنچ جاتے۔بیت الذکر کے قیام کے بعد اکثر پروگرام بعد نماز جمعہ وہاں طے کرتے۔ ویسے ہمارا اڈہ نیلا گنبد میں موسیٰ اینڈ سنز کی دکانیں تھیں۔ وہیں اکٹھے ہوتے،وہیں بات چیت ہوتی۔اپنے دفتر سے بیشمار درخواستیں میرے لیے ٹائپ کردیا کرتے تھے…اللہ تعالیٰ جزادے اور درجات بلند کرے‘‘۔مکرم محمد صدیق شاکر صاحب جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے نمائندہ شوریٰ منتخب ہوتے رہے اور سب کمیٹیوں کے رکن منتخب ہوتے رہے اور دہائیوں تک مجلس عاملہ جماعت احمدیہ لاہور کے اطاعت گزار اور فعال ممبر رہے۔مکرم محمد صدیق شاکر صاحب کی وفات بوجہ شدید ہارٹ اٹیک یکم جولائی2000ءکوہوئی۔آپ کی نماز جنازہ پہلے کریم پارک راوی روڈ میں ادا کی گئی، پھر دارالذکر میں نمازمغرب کے بعد مکرم حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے پڑھائی۔ اگلے دن دو جولائی کو ربوہ میں نماز فجر کے بعد مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد مکرم مولانا اللہ بخش صادق صاحب ناظم وقف جدید ربوہ نے دعا کرائی تھی(روزنامہ الفضل ربوہ 10؍جولائی2000ء صفحہ 7)۔آپ کی اولاد میں چھ بیٹیاں اور اکلوتا بیٹا (مکرم نعیم شاکرحال مقیم کالسروئے جرمنی) یاد گار ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button