متفرق مضامین

چودھری محمد علی صاحب (نمبر15)

(‘ابن طاہر’)

جب انسانوں کے دن بدلے تو انسانوں پہ کیاگزری

جیسا کہ گذشتہ اقساط میں ذکر ہوچکا ہے قیامِ پاکستان کے بعد چودھری محمد علی تو قادیان سے لاہور منتقل ہوگئے اور تعلیم الاسلام کالج میں اپنا سلسلۂ ملازمت جاری رکھا تاہم آپ کے والدین ایک پُرخطر سفر کے بعد بمشکل اپنی جان بچا کر تحصیل زِیرہ سے کچاگوجرہ منتقل ہوئے۔ قرینِ قیاس ہے کہ انہوں نے بھارت میں چھوڑی ہوئی اپنی زرعی اراضی کے عوض یہاں کچھ زمین الاٹ کرالی اور پھر یہیں کے ہورہے۔ اس لحاظ سے کچاگوجرہ کے ساتھ چودھری محمد علی کی دلچسپی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ وہاں آپ کے والدین کے علاوہ ایک بھائی اور تین بہنیں مقیم تھیں اور والدین کی زرعی زمین بھی تھی لہٰذا لاہور ہو یا ربوہ، ساری زندگی آپ کاکچاگوجرہ آنا جانا لگا رہا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچاگوجرہ ہے کہاں؟

اس حوالہ سے عبدالباسط بٹ جو خواجہ عبدالکریم خالد درویش کے صاحبزادے اور گوجرہ کے پشتینی باشندے ہیں کا بیان جو آگے نقل کیا جا رہا ہے دلچسپی سے پڑھا جانے کے لائق ہے۔ یاد رہے کہ موصوف آج کل شیخوپورہ میںمقیم ہیں لیکن گوجرہ کے ساتھ گہری نسبت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اوائل جوانی کا سارا زمانہ اسی شہر میں گذارا اور یہیں بی ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔ ان کا تعلق ایک مخلص احمدی خاندان سے ہے اور وہ چودھری محمد علی اور اُن کے خاندان سے بھی تعلقاتِ قربت رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں’’چودھری صاحب کے والدین اور بھائی بہنوں کی رہائش گوجرہ شہر سے ملحقہ گائوں، ۳۶۵۔ج ب کچاگوجرہ میں تھی۔ کسی وقت کچا گوجرہ گوجرہ شہر سے الگ کوئی بستی ہوتی ہوگی لیکن جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے یہ گائوں شہر کا ہی ایک حصہ شمار ہوتا ہے۔یہاں سے ایک راستہ پینسرہ سے ہوتا ہوا فیصل آباد چلا جاتا ہے جب کہ دوسرا راستہ موچی والا سے ہوتا ہوا جھنگ جاتا ہے۔ چودھری صاحب کی زرعی اراضی چک نمبر۲۹۶ ج ب جفاپور میں تھی جس کا نام اب مصطفیٰ آباد رکھ دیا گیا ہے۔ اس گائوں کی نمبرداری بھی ان ہی کے پاس تھی اور ان کا زمیندارہ بھی اسی دیہہ میں تھا۔

سکول کے زمانہ کے میرے ایک غیرازجماعت سائنس ٹیچر بشیر احمد یہاں رہتے تھے اور میں میٹرک میں ان سے سائنس پڑھنے اُن کے گھر جاتا رہا ہوں اس لیے ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اس گائوں کے اکثر باسی ارائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا ذریعۂ معاش سبزی کی کاشت تھا جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ شہر سے نزدیک ہونے کے سبب انہیں سبزی منڈی تک پہنچنا آسان تھا۔ اب تو حالات بدل گئے ہیں لیکن اُس زمانہ میں کچاگوجرہ کے اکثر گھر کچے تھے مگر چودھری صاحب کی رہائش گاہ پختہ تھی۔ چھوٹی آبادی تھی لیکن بازار کُھلے کُھلے تھے۔

چودھری صاحب اپنی گوناگوں جماعتی مصروفیات کی وجہ سے گائوں میں زیادہ نہ آجا سکتے تھے۔ اس وجہ سے ان کا گائوں کے لوگوں سے رابطہ کم تھا چنانچہ ان کے چھوٹے بھائی ظفر علی جو زمیندارہ امور پر دسترس رکھتے تھے تمام معاملات سنبھالتے اور اپنی نمبرداری چلاتے۔ میں اپنے ذاتی علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے اپنا وقت انتہائی نیکی اور شرافت سے گذارا اور کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے بلکہ ہمیشہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں کوشاں رہے۔موصوف نے چودھری محمد علی کے انتقال سے چند ماہ پہلے وفات پائی۔

چودھری محمد علی کی تین ہمشیرگان تھیں۔ سب سے بڑی ہمشیرہ کا نام زینب بی بی تھا اور ان کی شادی چودھری عبدالمجید سے ہوئی تھی۔ اب نہ زینب بی بی بقیدِحیات ہیں نہ ان کے شوہر۔ ہاں! ان کے ایک صاحبزادے، محمد اقبال جو گورنمنٹ ڈگری کالج، گوجرہ سے بطور ڈی پی ای ریٹائرڈ ہوئے زندہ ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک چودھری صاحب کی باقی دوہمشیرگان زندہ تھیں۔ غلام جنت بڑی تھیں اور رحمت بی بی چھوٹی۔ دونوں چودھری ظفر علی کے پاس ہی قیام پذیر تھیں۔ اب جنت بی بی کا بھی انتقال ہوچکا ہے اور وہ ربوہ میں دفن ہیں۔‘‘

یہ تو تھا مختصر طور پر ذکر کچاگوجرہ کا۔ اب میں اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا لاہور میں تعلیم الاسلام کالج کے قیام کے بارے میں چودھری محمد علی کی یادداشتیں۔

لاہور میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام

وہ حالات جن میں جماعت احمدیہ کو اپنا دائمی مرکز چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنا پڑی تھی ان میں سے کچھ پچھلے باب میں بیان کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان پہنچ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی نے عارضی طور پر لاہور کو اپنا مرکز قرار دیا اور یہیں صدرانجمن احمدیہ پاکستان نے کام شروع کیا۔ انتہائی مخدوش حالات کے باوجود تمام جماعتی ادارے جو قادیان میں کام کررہے تھے یہاں بھی قائم کردیے گئے۔ تعلیم الاسلام کالج ان میں سے ایک تھا۔

اگرچہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے قادیان سے چودھری محمد علی کی روانگی کے وقت انہیں تاکید کی تھی کہ وہ حضور کو کالج کا قیام حالات کی بہتری تک مؤخر کرنے کا مشورہ دیں مگر حضور نے یہ مشورہ قابلِ قبول نہیں سمجھا اور ہدایت فرمائی کہ بغیر وقت ضائع کیے جہاں بھی جگہ ملتی ہے کالج کھول دیا جائے۔ اس ہدایت کی تعمیل میں جودھامل بلڈنگ کے قریب ہی ایک اور بلڈنگ جو جماعتی تصرف میں تھی کے سامنے تعلیم الاسلام کالج کا بورڈ نصب کرکے اس کا افتتاح کردیا گیا۔

حضور کے اس حکم کی تعمیل تو فوراً ہوگئی لیکن کالج کے لیے مناسب عمارت کی تلاش آسان بات نہ تھی۔ کچھ عرصہ تو یہ کالج کینال بینک پر ایک متروکہ اصطبل میں کام کرتا رہا لیکن پھر ڈی اے وی کالج کی عمارت اسے الاٹ ہوگئی۔ فسادات کے دوران یہ عمارت کھنڈر بن چکی تھی، اس کے دروازے اور کھڑکیاں نہ جانے کون اکھیڑ کر لے گیا تھا اور اس کی لائبریری کتابوں سے خالی اور اس کی لیبارٹریاں سائنسی سازوسامان سے عاری ہوچکی تھیں چنانچہ جماعت نے بڑی محنت کے ساتھ زرِکثیرصرف کرکے اسے قابلِ استعمال حالت میں تبدیل کیا اور کالج یہاں منتقل ہوگیا۔صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کے الفاظ میں ’’۴۸۔۱۹۴۷ء کو ہم بے سروسامانی کا سال کہہ سکتے ہیں اور جن نوجوانوں نے اپنے کالج کے اس نازک ترین دور کو ہمت اور بشاشت سے گزارا وہ یقیناً قابلِ قدر ہیں۔ خاصی تگ و دو و ناظم تعلیماتِ عامہ پنجاب کے ہمدردانہ رویّہ کے نتیجہ میں… کالج کی آبادکاری کے لیے ڈی اے وی کالج کے کھنڈرات پر ہمیں قبضہ ملا۔ ان عمارتوں کو غیرمسلم پناہ گزین کلّی طور پر تباہ و برباد کرچکے تھے۔ دروازوں کے تختے اور چوکھٹے، روشندان، الماریاں وغیرہ ہر قسم کا فرنیچر غائب تھا۔ عمل گاہوں میں ٹوٹی ہوئی شیشیوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کے سوا کچھ موجود نہ تھا۔ پانی اور گیس کے نل ٹوٹے ہوئے پڑے تھے۔ تیس چالیس ہزار کتابوں پر مشتمل مشہور کتب خانے کی اب ایک جلد بھی باقی نہ تھی۔ یہ وہ کھنڈر تھے جن میں مئی ۱۹۴۸ء میں ہم آباد ہوئے اور ہماری فوری توجہ ان ضروری اور ناگزیر مرمتوں کی طرف منعطف ہوئی چنانچہ شروع میں گیس پلانٹ کو درست کروایا گیا اور شعبۂ کیمیا کے لیے ضروری سامان خرید کر کیمیا کے عملی تجربے اپنے کالج میں ہی شروع کروادیے گئے۔ طبعیات کے لیے ہمیں ایم اے او کالج سے انتظام کرنا پڑا جن کے برادرانہ سلوک کے ہم ہمیشہ ممنون رہیں گے۔ چونکہ ابھی اصل ہوسٹل پر قبضہ نہ ملا تھا اس لیے کالج کے ہی ایک حصہ کو مرمت کروا کے عارضی طور پر یہ ہوسٹل بنادیا گیا جس میں اندازاً پچاس پچپن طلبہ کی گنجائش تھی جو وقتی طور پر کافی سمجھی گئی گو عملاً طلبہ اس سے بہت زیادہ آگئے جس کے نتیجہ میں ایک ایک کمرہ میں آٹھ آٹھ طلبہ کو رہنا پڑا۔‘‘(روزنامہ الفضل۵؍اپریل۱۹۵۰ء)

چودھری محمد علی نے اپنے انٹرویوز میں اس تگ و دو کی کچھ تفصیل بیان کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دن کتنے مشکل اور کربناک تھے۔ ایسے میں کالج کا قیام ایک معجزہ سے کم نہ تھا اور اس کا سہرا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بعد صاحبزادہ مرزاناصر احمد اور کالج کے اساتذہ بشمول چودھری محمد علی کے سر ہے۔ آئیے یہ تفصیل ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’میں جب قادیان سے روانہ ہو رہا تھا تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے مجھے تاکیداً حضور کو اپنا یہ پیغام پہنچانے کا ارشاد فرمایا کہ جب تک جماعت تقسیم کے صدمے سے سنبھل نہیں جاتی لاہور میں کالج شروع نہ کیا جائے۔ آپ نے بڑے اصرار سے فرمایا کہ میں آپ کا نام نہ لوں بلکہ کہوں کہ پرنسپل صاحب نے یہ پیغام دیا ہے۔ میں نے وعدہ کرلیا کہ حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔

اُن دنوں بھی کالج کمیٹی کے صدر حضرت مرزا بشیر احمدؓ ہی تھے جب کہ ممبران میں مولانا عبدالرحیم دردؓ اور ملک غلام فرید شامل تھے۔ ناظرتعلیم بلحاظ عہدہ اس کے ممبر تھے۔ ڈاکٹر قاضی عبدالحق کو وقتی طور پر کالج کا قائم مقام پرنسپل مقرر کیا گیا تھا۔ میرے لاہور پہنچنے کے اگلے ہی روز کمیٹی کا اجلاس تھا۔ جب میں اندر داخل ہونے لگا تو ڈاکٹر عبدالحق نے اپنی فائل مجھے پکڑا دی۔ درد صاحب فرمانے لگے کہ آپ میٹنگ شروع ہوتے ہی حضور کو بتا دیں کہ آپ نے کالج کے پرنسپل کا چارج سنبھال لیا ہے اور ڈاکٹر عبدالحق سے فائل وصول کرلی ہے اور اگر حضور دریافت فرمائیں کہ اب تک کیا کام ہوا ہے تو اپنے جواب سے حضور کو خوامخواہ پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کہا جیسے آپ چاہتے ہیں ان شاء اللہ ویسے ہی ہوگا۔ میری باری آئی تو حضور نے دریافت فرمایا اب تک کیا کام ہوا ہے؟ میں نے عرض کی حضور! میں نے ابھی دروازے میں داخل ہوتے ہوئے چارج لیا ہے۔ آپ یہ بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ میں نے کہاحضور! میں پرنسپل صاحب کی ایک درخواست آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ کیا کہتے ہیں پرنسپل صاحب؟ آپ نے دریافت فرمایا۔ میں نے کہا ان کی التجا ہے کہ جب تک جماعت اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو جائے کالج نہ شروع کیا جائے۔ آپ خاموش ہوگئے۔ ملک غلام فرید بولے کہ حضور! میرا بھی یہی خیال ہے۔ حضرت مولوی محمد دینؓ نے ان کی تائید کی۔دردصاحب نے آہستہ سے کہاخیال تو میرا بھی یہی ہے۔ حضور خاموش رہے۔ اب حضرت مرزا بشیر احمدؓ کی باری تھی۔ میاں صاحب نے ڈرتے ڈرتے کہا میرا خیال ہے یہ بالکل درست مشورہ ہے۔ بس جیسے دھماکہ ہوتا ہے نا، میرا خیال ہے پوری جودھامل بلڈنگ میں حضور کی آواز سنائی دی ہوگی۔ آپ فرمانے لگے آپ لوگ کالج کے لیے پیسوں کی فکر نہ کریں۔ یہ کالج چلے گا اور آج سے ہی چلے گا۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا یہ کالج آج سے شروع ہوجانا چاہیے اور اس کے لیے پورے پاکستان میں جہاں بھی جگہ ملتی ہے اسے وہاں شروع کردیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالحق نے کہا حضور! ہم ڈی اے وی کالج والی عمارت کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ فرمایالکھو، لکھتے کیوں نہیں لیکن آپ کو صرف کھنڈرات ہی ملیں گے۔ خیر میٹنگ ختم ہوئی تو میں نے کسی سے کچھ رقم ادھار لی، لوہے کی ایک چادر خریدی اور اس پر پینٹر سے جلی حروف میں تعلیم الاسلام کالج کا نام لکھوایا۔ جودھامل بلڈنگ کے ساتھ ہی ایک بلڈنگ تھی جو اَب ان شاء اللہ خان بلڈنگ کہلاتی ہے۔ انجمن کے سارے دفاتر اس بلڈنگ کے گرائونڈ فلور پر کام کررہے تھے۔ ہم نے یہ بورڈ اس بلڈنگ کے سامنے ٹکا دیا اور عبدالرحمٰن جنید ہاشمی کو وہاں بٹھا دیا۔ جنید ہاشمی میاں صاحب کے کلاس فیلو اور دوست تھے اور کالج سپرنٹنڈنٹ ہو اکرتے تھے۔ ساتھ ہی الفضل میں اعلان شائع کرادیا کہ لاہور میں تعلیم الاسلام کالج نے کام شروع کردیا ہے۔

جہاں تک تعلیم الاسلام کالج کے لیے عمارت کی تلاش کا تعلق ہے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہندوئوں اور سکھوں کے ترکِ وطن کی وجہ سے اُس وقت لاہور میں جو بڑی عمارتیں خالی پڑی تھیں ان میں سے ایک سکھ نیشنل کالج کی عمارت بھی تھی۔ اس کالج کے فائونڈر پرنسپل سردار نرنجن سنگھ تھے جو مشہور اکالی لیڈر، ماسٹر تاراسنگھ کے چھوٹے بھائی تھے۔ اس سے پہلے سردار نرنجن سنگھ خالصہ کالج، امرتسر میں پڑھاتے تھے تاہم ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں انہوں نے اپنے کالج کی انتظامیہ کی منشا کے خلاف ووٹ دیا تھا جس کی پاداش میں انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

ان کی برطرفی کے ساتھ میری ایک ذاتی یاد بھی وابستہ ہے۔ ہوا دراصل یوں کہ اس موقع پر لاہور میں ایک ہڑتال ہوئی جس میں میں نے بھی حصہ لیا تھا۔ پربودھ چندرہمارے لیڈر تھے۔ مجھے یاد ہے سارے لڑکے خالصہ کالج کے باہر سڑک پر لیٹ گئے تھے۔ گرمی کا موسم تھا اور وہاں پانی کا ایک ہی نلکا تھا۔ پولیس نے اس کی ہتّھی اتار لی۔ پیاس کے مارے ہڑتالیوں کا بُراحال تھا اور ان کی خواہش تھی کہ کوئی بہانہ مل جائے تو وہ ہڑتال ختم کردیں۔ انہوں نے مین روڈ بند کی تو پولیس نے ٹریفک بحال رکھنے کے لیے ایک اور راستہ نکال لیا۔ یہ راستہ کچا تھا چنانچہ گاڑیاں گزرتیں توساری گرد اُن پر پڑتی۔یہ ایک عجیب و غریب صورتِ حال تھی۔ پولیس ہڑتالیوں کا مذاق اڑا رہی تھی اور ہڑتالی منّتیں کررہے تھے کہ لاٹھی چارج کرو تو ہماری کچھ فیس سیوِنگ ہو جائے اور ہم اس اذیّت سے نجات پا سکیں۔

اب میں اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے عرض کروں گا کہ ہم نے پاکستان آتے ہی کوشش شروع کردی تھی کہ ہمیں کسی طرح سکھ نیشنل کالج کی عمارت مل جائے تاہم جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ سردار نرنجن سنگھ نے تعلیم الاسلام کالج قادیان کی عمارت دیے جانے کا مطالبہ داغ دیا ہے تو ہم فوراً سکھ نیشنل کالج پہنچ گئے اور کچھ دن وہاں ڈیرا جمائے رکھا۔ مجھے یاد ہے ماسٹر فضل دادتانگے پر ہمارے لیے کھانا لایا کرتے تھے لیکن جلدہی ہم نے محسوس کرلیا کہ یہ جگہ شہر سے بہت دور ہے اور طلبہ کا یہاں پہنچنا آسان نہیں۔ حضور کی رہائش بھی یہاں سے بہت فاصلے پر تھی اور آپ سے رابطہ میں دقّت ہو سکتی تھی چنانچہ بالآخر ہم نے یہ عمارت چھوڑدی۔ بعد میں موجودہ انجینئرنگ یونیورسٹی نے اس پر قبضہ کرلیا۔

کالج کے لیے موزوں عمارت کی تلاش جاری تھی کہ محکمہ بحالیات نے کینال پارک میں ایک نہایت بوسیدہ عمارت جو شاید ڈیری فارم یا اصطبل کے طور پر استعمال ہوتی رہی تھی ہمیں الاٹ کردی۔ ہم ضرورت مند تھے چنانچہ ہم نے اسی روز اس کا قبضہ لے لیا۔ جگہ بہت چھوٹی تھی۔ اس میں قابلِ استعمال کمرے صرف دو ہی تھے۔ ایک کمرے کا سائز تو مناسب تھا لیکن دوسرابہت چھوٹا تھا۔ بڑے کمرے میں کلاسز ہونے لگیں اور چھوٹے کمرے کو دفتر بنا لیا گیا۔ ہماری بے سروسامانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دفتر کا کُل فرنیچر سرکنڈے کے ایک ٹوٹے ہوئے فیروزپوری مُوڑھے پر مشتمل تھا جس پر جنید ہاشمی بیٹھا کرتے تھے۔

بڑا کمرہ ہی ہمارا کلاس روم تھا، وہیں ہم نمازیں ادا کرتے تھے اور رات کے وقت وہی ہمارا ہوسٹل بن جاتا تھا۔ جب کالج کھلنے کی خبر پھیل گئی تو احمدی طلبہ آنا شروع ہوگئے حالانکہ لاہور میں ایک سے بڑھ کر ایک کالج موجود تھا۔ سٹاف بھی آگیا۔ ایف سی کالج کے ہندو اور سکھ اساتذہ بھاگ کر ہندوستان جا چکے تھے لہٰذا ان کے پاس سٹاف نہیں تھا۔ ہمارے پاس لیبارٹریز نہیں تھیں چنانچہ دونوں کالجوں کے طلبہ ایف سی کالج میں اکٹھے پڑھنے لگے۔ طے یہ ہوا کہ ہمارے اساتذہ ایف سی کالج کے طلبہ کو پڑھایا کریں گے اور ہمارے لڑکے ان کی لیبارٹریز میں تجربات کرلیا کریں گے چنانچہ عملاً سائنس کی مشترکہ کلاسز وہیں ہونے لگیں۔خدا کے فضل سے ایف سی کالج کے طلبہ ہمارے اساتذہ سے بے حد متاثر تھے اور آہستہ آہستہ وہ ان سے اس حد تک مانوس ہوگئے کہ کالج ربوہ منتقل ہونے کے بعد بھی ان میں سے بعض ہمارے اساتذہ کے پاس آیا کرتے تھے۔ وہ درّے میں اترتے، سیدھے کالج جاتے، میاں عطاءالرحمٰن سے ملتے اور چیزیں سمجھنے کے بعد واپس لاہور چلے جاتے۔

ہم نے ہوسٹل کے طلبہ کے لیے کچھ عرصہ کھانے کا انتظام ایف سی کالج کے ساتھ ٹھیکہ پر کیے رکھا۔

جب حالات نے پلٹا کھایا تو کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑے لتے، ہر چیز کا قحط پڑ گیا۔ ہم اور ہمارے طلبہ اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے ایک بار میں چھت کے اوپر کلاس لے رہا تھا تو میں نے نوٹ کیا کہ منصورسیال (جس کا ذکر پانگی کے سفر کے حوالے سے ایک سے زیادہ بار آچکا ہے) موجود نہیں ہے۔ میں نے کسی لڑکے کو بھیجا کہ معلوم کرو وہ کلاس میں کیوں نہیں آیا۔ اس لڑکے نے آکر بتایا کہ وہ نیچے لحاف لے کر لیٹا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ میں اوپر نہیں آسکتا، اگر آپ لوگ آنا چاہیں تو نیچے آجائیں۔لڑکوں نے اس بات کو منصور کی بے ادبی پر محمول کیا اور شور مچانے لگے کہ وہ ا پنے آپ کو طرّم خان سمجھتا ہے، اسے اس کی سزا ملنی چاہیے لیکن میں نے کہا چلو نیچے چلے جاتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ اس کا مسئلہ کیا ہے۔ تب پتا چلا کہ اس کے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہے جو اُس نے دھو کر سکھانے کے لیے پھیلا رکھا ہے او روہ خود ننگا رضائی میں گُھسا ہوا ہے۔

ہماری کلاسیں چٹائی پر ہوتی تھیں

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

کے مصداق استاد شاگرد سبھی اسی چٹائی پر بیٹھتے تھے۔ ایک بار حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے ہمارا کالج وِزِٹ کیا تو وہ یہ نظّارہ دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے الفضل میں ایک بہت حوصلہ افزا نوٹ شائع کیا اور اس بات کو بے حد سراہا کہ مشکلات کے باوجود تعلیم الاسلام کالج میں پڑھائی زوروشور سے جاری ہے۔ آپ نے یہ ذکر بھی فرمایا کہ کالج کا ماحول دیکھ کر آپ کو قرونِ اُولیٰ کے وہ مسجد مکاتب یاد آگئے ہیں جن میں چٹائیوں پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے بعض افراد نے علمی میدان میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ دنیا آج بھی انہیں یاد کرتی ہے۔

میں ان دنوں سنت نگر میں رہتا تھا اور وہاں سے پیدل کینال پارک جایا کرتا تھا۔ سائیکل تک تو تھی نہیں پاس اور اومنی بسیں ابھی تک چلنا نہیں شروع ہوئی تھیں۔ اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے کہ تانگہ لے لیتا لیکن جوانی تھی اس لیے تمام تر خجل خواری کے باوجود زیادہ تکلیف نہیں ہوتی تھی۔

اسی زمانہ کی بات ہے ہم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ لڑکے ایک قطار کی صورت میں حضور کے سامنے سے گزرتے رہے اور میں حضور کوہر ایک کا نام بتاتا رہا۔ ملاقات ختم ہوئی توفرمایا کل پھر آئیں۔ ہم اگلے دن پھرحاضر ہوگئے۔

اُن دنوں پینٹ ایک معیوب لباس سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے ایک استاد تھے چودھری محمد صفدر چوہان۔ انہوں نے پہلے روز پینٹ پہن رکھی تھی۔ جب ہماری حضور کے ساتھ دوبارہ ملاقات ہونے والی تھی تو بھی وہ پینٹ ہی پہنے ہوئے تھے البتہ میرے کہنے پر انہوں نے قمیص باہر نکال رکھی تھی۔ حضور کی نظر بہت گہری تھی اور وہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی نوٹ کرلیا کرتے تھے۔ فرمانے لگے کل تو آپ نے کوئی اور لباس پہنا ہوا تھا!

چونکہ کینال پارک کی یہ عمارت ہماری ضروریات کی مکتفی نہ تھی لہٰذا ہم نے ڈی اے وی کالج کی الاٹمنٹ کے لیے درخواست دے رکھی تھی اور افسرانِ مجاز نے ہماری مدد کا وعدہ بھی کر رکھا تھا۔یہ ایک وسیع و عریض عمارت تھی۔ کالج کے دو بڑے بڑے ہوسٹلز تھے جن میں قریباً ایک ہزار طلبہ کی گنجائش تھی۔ اپنی اصل شکل میں اس کی لیبارٹریز بہت بڑی تھیں۔ بیالوجی کی لیبارٹری میں ہاتھی کا ڈھانچہ تک موجود تھا۔ اسی طرح فزکس اور کیمسٹری کی لیبارٹریز بھی بہت اعلیٰ پایہ کی تھیں۔ لائبریری بہت سی نایاب کتابوں سے مزیّن تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس عمارت میں بہت دنوں تک ہندوئوں سکھوں کا کیمپ رہا تھا چنانچہ انہوں نے لیبارٹریز کا قیمتی سامان اور اکثر کتابیں اٹھا کر ہندوستان بھیج دی تھیں۔ اور تواور اس عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں تک نکالی جا چکی تھیں۔ اندریں حالات ہمارا ایک وفد راجہ غضنفرعلی خان وزیر مہاجرین و بحالیات سے ملا۔ ہم نے انہیں بتایاکہ ہمیں ڈی اے وی کالج کی عمارت الاٹ تو ہوئی ہے لیکن اس کی لائبریری اور لیبارٹری مکمل طور پر لُٹ چکی ہیں اور سچ پوچھیں تو دیواروں کے علاوہ اس میں کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے جب کہ بدقسمتی سے ہم اپنی ساری چیزیں انڈیا چھوڑ آئے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کو کتابوں کی پڑی ہوئی ہے اور لوگ لُٹے ُپٹے پھررہے ہیں۔ ہماری کوئی شنوائی نہ ہوئی چنانچہ ہم اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے۔ اس زمانہ میں ایم ایم احمد محکمہ بحالیات کے کمشنر تھے۔ ہم ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ سے سفارش کروانے نہیں آئے، آپ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہماری جو مدد کرسکتے ہیں کردیں۔ انہوں نے ہماری کچھ راہنمائی تو کی تاہم عملاً ہمیں اس حوالے سے کوئی خاص کامیابی نہ حاصل ہو سکی اور ہمیں وہی عمارت قبول کرنا پڑی جس کے دروازے اور کھڑکیاں تک اتار لی گئی تھیں، جس کی لیبارٹریاں کھنڈر بن چکی تھیں اور جس کی لائبریری اب کتابوں کے بغیر تھی۔ لائبریری کے چاروں طرف گیلری تھی۔ ہم نے بعض ضروری تبدیلیاں کر کے گیلری کو کمروں کی شکل دے دی اور ان کمروں کو ہوسٹل کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ کالج کے ایک یا دو کمرے بھی ہوسٹل کے لیے رکھ لیے۔ کچن اور ٹک شاپ بھی کالج ہی کی عمارت میں بنا لی۔ یہ اطمینان بخش صورتِ حال تو نہ تھی لیکن ہمارا گذارا ہونے لگا۔‘‘

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button