متفرق

پنجاب کی سوغات ساگ

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

موسمِ سرما کا آغاز ہے ۔ سوشل میڈیا پر ساگ کی افادیت اور موسمِ سرما میں روزانہ کھانے سے متعلق مثبت و منفی پوسٹس دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ بر صغیر پاک و ہند خصوصاً پنجاب میں سردی کے موسم میں ساگ کا پکنا ایک اہم روایت، رواج بلکہ ضروریات زندگی میں سے ایک ہے۔ موسم کے اعتبار سے اس سبزی کا پکنا جہاں نہایت مفید ہے وہاں انسانی جسم کی ضرورت بھی ہے۔ مکئی کی روٹی پر سرسوں کا ساگ اور اس پر تازہ مکھن ملکِ پنجاب کی اہم سوغات ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ساگ شوق سے تناول فرمایا کرتے تھے اور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی انفرادی یا روزمرہ کی مہمان نوازی کا اہم جزو مکئی کی روٹی اور ساگ بھی تھا۔حضورؑ خود بھی ساگ شوق سے تناول فرماتے بلکہ اگر کوئی اچھا بنا کر بھجواتا تو اسے یاد بھی رکھتے۔ ذیل میں اس ضمن میں چند روایات پیش ہیں۔

ساگ روٹی تناول فرما لیتے

محترمہ مائی بھولی ۔مائی جیواں عرف ملا قادرآباد تحریر کرتی ہیں کہ ایک دن حضور علیہ السلام سیر کو آئے تو دیکھا راستہ جو پہلے خراب تھا۔ نیا بنا ہوا ہے ۔آپؑ نے فرمایا ۔ ’’یہ کس نے بنایا ہے ؟‘‘ہم نے کہا حضورؑ آپ کی اسامیوں نے۔ آپ بہت خوش ہوئے اور ہنسے۔ ایک بار حضورؑ تشریف لائے تو میں نئی کنک(گندم) بھنا کر لے گئی۔آپ نے اپنے ساتھ جو تھے ان کو بانٹ دی ۔ خود بھی چکھی اور خوش ہوئے ۔جب حضورؑ سیر کو آیا کرتے تو ہماری کچی مسجد میں آکر نماز اشراق پڑھتے۔ ہم لوگ ساگ روٹی پیش کرتے تو حضور علیہ السلام کبھی بُرا نہ مناتے اور نہ ہی کراہت کرتے۔(سیرت المہدی روایت نمبر 1318)

سرسوں کا ساگ

میاں چراغ الدین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان سے روایت ہے کہ حضور سرسوں کے ساگ کو بہت پسند فرمایا کرتے تھے اور ہمیشہ گھی والا کھانا کھایا کرتے تھے۔ کبھی تیل سے بنی ہوئی چیز حضور نہ کھاتے۔( رجسٹر روایات نمبر 4 غیر مطبوعہ )

صرف سرسوں کا ساگ

شیخ زین العابدین صاحب برادر شیخ حافظ حامد علی صاحب ولد شیخ فتح محمد صاحب تہہ غلام نبی ضلع گورداسپور سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب ہمارے گاؤں تہہ غلام نبی تشریف لے گئے اور ہم نے کافی کھانے تیار کئے مگر حضور نے صرف سرسوں کے ساگ کے ساتھ روٹی کھائی پھر ہمیشہ حافظ حامد علی کو یاد دلاتے رہے کہ آپ کی والدہ بہت اعلیٰ ساگ پکاتی ہیں۔( رجسٹر روایات نمبر11 غیر مطبوعہ )

ناشتے میں ساگ

حضرت ڈاکٹر میر اسماعیل صاحب تحریر کرتے ہیں کہ’’بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے ۔اور پھر انگلی کا سرا شوربہ میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے تا کہ لقمہ نمکین ہو جاوے۔ پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکی کی روٹی کھایا کرتے تھے ۔اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یاصرف لسّی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی لگا کر کھا لیا کرتے تھے۔آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوّت حاصل کرنے کے لئے ہواکرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے۔بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں توکھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہ ہواکہ کیا پکا تھااور ہم نے کیا کھایا۔ ‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر 447)

سرسوں کا ساگ اور گوشت

حضرت حافظ نور محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری عادت تھی کہ جب ہم حضرت صاحب کو قادیان ملنے آتے، تو ہمیشہ اپنے ساتھ کبھی گنّے یا گُڑ کی روڑی ضرور لایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپؑ نے فرمایا۔ ہمارے لئے سرسوں کا ساگ بھیجنا۔ وہ گوشت میں ڈال کر عمدہ پکتا ہے۔ ہم نے وہ ساگ فیض اللہ چک سے بھیج دیا۔(سیرت المہدی روایت نمبر 593)

سرسوں کے ساگ کی افادیت

ساگ کی افادیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ’’سرسوں کا ساگ کھانا بہت مفید ہے ۔ اور یہ انسان کے لیے ایسا ہے ۔ جیسا کہ ماں کا دودھ پی لیا۔‘‘(علم طبِ مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 9)

ساگ کا پانی

حضرت مصلح موعود ؓنےبچپن میں اپنی کمزور صحت کے حوالے سے فرمایا :’’بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 44-45)

سرسوں کاساگ کھانے کے فوائد کے حوالے سے الفضل انٹرنیشنل کا یہ مضمون ملاحظہ ہو۔

https://www.alfazl.com /2021/03/17/28140/

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button