متفرق

عائلی زندگی اور تربیت اولاد (قسط سوم)

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

صحابیات حضرت مسیح موعودؑ

’’وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)یعنی نبی کریمؐ اپنی امت کے آخَرِیْنَ کا اپنی باطنی توجہات کے ذریعہ اسی طرح تزکیہ فرمائیں گے جیسا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے۔‘‘(عربی عبارت کا اردو ترجمہ از حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد 7صفحہ 244)

اللہ تعالیٰ نےحضرت مسیح موعودؑ سے وعدہ کیاکہ وہ اپنے فضل سے آپؑ کو خواتین مبارکہ یعنی نیک خواتین دے گا جو نیک نسلوں کی مائیں ہوں گی ۔اُن خواتین مبارکہ میںنمایاں نظر آنے والی بات اُن کا عملی نمونہ اور کردارتھا ۔انہوں نے اپنی عائلی زندگی کو خوبصورتی سے نبھایا۔اُن کےتقویٰ کی وجہ سے اُن کی اولادنےعظیم الشان کارنامے سرانجام دیے۔ہم ان خواتین کو بطور عظیم بیوی اورماں فخر کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں ۔

حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ

ا ن میں سرفہرست حضرت اماں جان ہیں جن کو ’’میری خدیجہ‘‘کہہ کر الہاماً پکارا گیا۔ ’’میرا شکر کر کہ تُو نے میری خدیجہ کو پایا۔ ‘‘ (تذکرہ صفحہ 29،ایڈیشن 2004ء)

خدیجہ کے لفظ میںوہ سب پوشیدہ ہےجو پہلی خدیجہ کی زندگی میں ظہور ہوا ۔عظیم نعمت اوربہت ساری برکات حاصل ہونے کی بشارت۔حضرت اماں جانؓ نے نیک کاموں کی وجہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرلی ،چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا میں تیرے اور تیری بیوی کے ساتھ ہوں ۔( ماخوذاز سیرت حضرت امّاں جانؓ از صاحبزادی امۃ الشکور صفحہ16)

حضرت اقدسؑ آپؓ سے بہت محبت کرتے ،آپؓ کی بہت عزت اور قدرکرتے تھے اور انہیں اپنے لیے مبارک وجود سمجھتے۔حضرت اماں جانؓ کو اس بات کا احساس تھابعض دفعہ بڑی محبت اور ناز سے کہا کرتیں :’’میرے آنے کے ساتھ آپ کی زندگی میں برکتوں کا دَور شروع ہو اہے۔‘‘ اس پر حضورؑ مسکرا کر جواب دیتے:’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘(سیرت حضرت امّاں جانؓ از صاحبزادی امۃ الشکور صفحہ5)

حضرت اماں جان ؓکوحضرت مسیح موعودؑ سے سچی محبت اورآپؑ کی ذات اوردعویٰ پرپختہ ایمان تھا۔جب آپؑ نے محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی توحضرت اماںجانؓ نے رو رو کر پیشگوئی کے پورا ہونے کی دعائیں کیں۔ایک دن آپؓ دعا کر رہی تھیںکہ حضرت ؑنے پوچھا کہ کیا مانگ رہی ہیں؟آپ نے یہ بات سنائی کہ یہ مانگ رہی ہوں۔آپؑ نےفرمایا:’’ سَوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے ۔‘‘آپؓ نے فرمایا:’’کچھ کیوں نا ہو مجھے اس کا پاس ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں پوری ہوجائیں۔ خواہ میں ہلاک کیوں نہ ہوجاؤں ۔‘‘( ماخوذاز سیرت حضرت سیدہ نصرت جہان بیگم صاحبہ صفحہ 219 مرتبہ شیخ محمود احمدعرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی)

اس پاکیزہ جوڑے کی آپس کی محبت اورپیار بھرے تعلق کی ایک جھلک اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک بار حضرت امّاں جان ؓنماز پڑھنے لگیں ۔آپؓ نے حضورؑ سے کہا :’’میں ہمیشہ دُعا کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے آپ سے پہلے اُٹھا لے۔‘‘یہ سُن کر حضور ؑنے فرمایا:’’اور مَیں ہمیشہ یہ دُعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور مَیں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں۔‘‘

حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پرحضرت امّاں جان ؓنے بےحد صبر کا نمونہ دکھایا۔

بچوں کوجمع کیااور فرمایا:’’بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابّا تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ گئے۔ انہوں نے آسمان پر تمہارے لیے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جوتمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔‘‘

آپؑ کے سرہانے کھڑے ہوکر فرمایا:’’تیری وجہ سے میرے گھر میں فرشتے اُترتے تھے اور خدا کلام کرتا تھا۔‘‘یہ گواہی تھی جوحضرت امّاں جان ؓنے حضرت اقدس کی سچائی کی دی۔ اس سےآپؓ کے ایمان کی مضبوطی اور حضرت اقدسؑ سے عقیدت اور محبت کا پتا چلتا ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑکی خواہش تھی کہ حج کریں لیکن حالات کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ حضرت امّاں جانؓ نے آپؑ کی وفات کے بعد آپؑ کی خواہش کو یادرکھا۔چنانچہ ایک صاحب کو اپنے پاس سے رقم دے کر حضرت اقدسؑ کی طرف سے حج کرنے بھیجا۔

آ پؓ کی عادت تھی کہ جب حضرت اقدس ؑکی یاد آتی تو قرآن شریف پڑھنا شروع کردیتیں ۔ حضور ؑکو جو کھانے پسند تھے وہ پکوا کر یا خود پکا کر لوگوں کو کھلاتیں اور فرماتیں:’’کھاؤ! یہ حضرت صاحب کو بہت پسند تھا۔‘‘(ماخوذازسیرت حضرت امّاں جانؓ، تصنیف صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ صفحہ9تا13)

آپؓ کی تربیت ہی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر آپؓ کے نوعمر بیٹے نے آپؑ کے سرہانے کھڑے ہوکر عہد کیا کہ’’چاہے سارے لوگ آپ کوچھوڑ جائیں تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا۔‘‘(ماخوذازتاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ548)

حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصراحمد صاحبؒ جن کی تربیت حضرت اماں جان نے کی نے فرمایا:’’اماں جانؓ کا اصول تھابچوں کو مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ رہنے دیتیں۔‘‘ (ماخوذازسیرت حضرت امّاں جانؓ، تصنیف صاحبزادی امۃالشکور صاحبہ صفحہ 29)آپؓ فرمایا کرتی تھیں :’’بچے پر ہمیشہ اعتبار ظاہر کرکے اس کو والدین کےاعتبار کی شرم اور لاج ڈال کر تربیت کرنا ۔ہمیشہ فرماتیں:’’ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے۔‘‘فرماتیں:’’پہلے بچے کی تربیت پر پورا زور لگاؤ دوسرے اس کا نمونہ دیکھ کر خودہی ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘ (ماخوذازتحریرات مبارکہ صفحہ320)

نیز فرماتیں :’’بچہ کو یونہی ہروقت نہ کہوسنو،مگر جب کہو تو ضرور وہ بات کرواکر چھوڑو تاکہ فرمانبرداری کی عادت پڑے۔‘‘ (سیرت وسوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم ؓصفحہ 345از سیدہ نسیم سعید صاحبہ)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button