متفرق مضامین

قبولیت دعا کی گھڑیاں

(قمر داؤد کھوکھر۔ آسٹریلیا)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں بعض ان خصوصی اوقات کا ذکر جن میں اللہ تعا لیٰ اپنے بندو ں کی دعا ؤں کو قبول فرماتا ہے یا قبولیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں

انسان کی زندگی کا مقصد اس کے خالق نے اپنے کلام مجید میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔(الذاریات:57)کہ میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔اس آیت میں آنے والے لفظ لِیَعْبُدُوْنِکا ایک معنی یہ بیان کیا جاتاہے کہ لِیَعْرِفُوْنِتا کہ وہ مجھے پہچانیں۔ اس آیت کی رو سے انسانی زندگی کا مقصد اپنے خالق حقیقی کو پہچان کر اس کی عبادت اور اس سے ذاتی تعلق قائم کرنا ہے۔

اپنے خالق حقیقی یعنی اللہ تعا لیٰ سے ذاتی تعلق قائم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ دعا ہے۔ اور اس کی طرف اللہ تعا لیٰ نے خود اپنے بندوں کو ان الفاظ میں رغبت دلائی ہے کہ وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِٓیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:61)اور تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا۔ اور پھر یہ بھی اعلان کردیا کہ اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو کہہ دے کہ میں ان کے بہت قریب ہوں، جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں ا س کی دعا قبول کرتا ہوں۔(البقرہ:187)

قرآن کریم میں اللہ تعا لیٰ نے آٹھ(8) مختلف مقامات پر دعا کرنے کا حکم دیا ہے یعنی سورۃ الاعراف، 30، 56، 57، 181، سورت بنی اسرائیل111، سورۃ المومن،61،15، 66۔گویاہمارا دعا کرنا اللہ تعا لیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں ہو تا ہے۔اس تعلق میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ ’’یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دعا جو خدا تعا لیٰ کی پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے۔ اس کی فرضیّت کے چار اسباب ہیں(1)ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعا لیٰ کی طرف رجوع ہو کر تو حید پر پختگی حاصل ہو۔ کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے۔ (2) دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو۔(3) تیسرے یہ کہ اگر کسی اَور رَنگ میں عنایت الٰہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے۔(4) چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الٰہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 242)

مزید فرمایا:’’خدا تعا لیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو بےقراروں کی دعا سنتا ہے۔ جیساکہ وہ فرماتا ہے اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَا ہُ۔ (النمل:63)‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ259تا260)

دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دعا کو ہی عبادت بھی قرار دیا ہے اور دعا کو عبادت کی روح اور اس کا مغز بھی قرار دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ ایک روایت میںبیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اَلدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ کہ دعا ہی عبادت ہے۔ اور ایک دوسری روایت جو حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ: کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات فصل الثانی)

ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ لَیْسَ شَیْئٌ اَکْرَمَ عَلَی اللّٰہِ مِنَ الدُّعَاءِ: یعنی اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ بلند مرتبہ کوئی چیز نہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الدعوات فصل الثانی)

دعا کے لیے وقت اصفیٰ

اللہ تعا لیٰ نے جہاں دعا کا حکم دیا وہاں دعا کے بعض خصوصی مقامات، حالات،کیفیات اور اوقات کا بھی اشارۃً ذکر فرما دیا ہے کہ ان مقامات خاصہ اور اوقات مخصوصہ میں اگر تمہیں دعا کی تو فیق مل جاتی ہے تو میں ضرور تمہاری دعا کو سنوں گا اور اسے قبول کروں گا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبولیت دعا کے لیے چار شرائط کا ذکر فرمایا ہے یعنی : اتقاء، دل میں درد، وقت اصفیٰ اور پوری مدت دعا کی۔(ملفوظات جلد اول صفحہ 536)

حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لیے اور اپنے عزیزوں اور دوستو ں کے لیے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں۔ اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آجایا کرے مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں۔‘‘(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل مکتوب نمبر 15، بنام میر عباس علی صاحب ) حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اپنے لیے بد دعا نہ کرو اور نہ اپنی اولاد کے لیے بددعا کرو اور نہ ہی اپنے اموال و اسباب کے لیے بددعا کرواور نہ اپنے خادموں کو بد دعا دو، ایسا نہ ہو کہ جب تم اس طرح کی دعا کرو اور وہ اللہ کے نزدیک قبولیت دعا کا وقت ہو اور تمہاری دعا قبول ہو جائے۔(سنن ابو داؤد کتاب الوتربَابُ النَّہْیِ اَنْ یَّدْعُوَ الْاِنْسَانُ عَلَی اَہْلِہِ وَ مَالِہِ،حدیث نمبر1532۔مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات) اس حدیث کے آخری الفاظ سے بھی یہ معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے نزدیک کچھ اوقات ایسے ہو تے ہیں جن میں اللہ تعا لیٰ اپنے بندوں کی دعا ؤں کو قبولیت کا شرف عطا فرماتا ہے۔ وہ قبولیت کے اوقات کون سے ہیں ؟اس مضمون میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں بعض ان خصوصی اوقات کا ذکرکرنا مقصود ہے جن میں اللہ تعا لیٰ اپنے بندو ں کی دعا ؤں کو قبول فرماتا ہے یا قبولیت کے امکانات زیادہ ہو تے ہیں۔

1۔ سجدہ کے وقت

سجدہ انتہائی تذلل کا مقام ہے جہاں انسان اپنے نفس کی نفی کرتے ہو ئے اپنے مولا کے حضور اپنی پیشانی رکھ دیتا ہے۔ اس سجدہ کے وقت اور مقام کو اللہ تعا لیٰ نے اپنے قرب کا ذریعہ بھی بیان فرمایا ہے جیسے فرمایا وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ(العلق: 20)ترجمہ اپنے رب کے حضور سجدہ کر اور اس کے قریب تر ہو جا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں یہ آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہو تا ہے۔ پس اس وقت بہت دعا کیا کرو۔( صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ، مشکوٰۃ المصابیح، بابُ السُّجُوْدِ) یعنی سجدہ کی حالت میں ایک مومن بندہ اپنے رب کے قریب ہوتا ہے اور اسی حالت قرب کی وجہ سے اللہ اپنے بندہ سے راضی ہو تا ہے اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ سجدہ میں کثرت سے دعا کیاکرو تا کہ وہ قبولیت کے درجہ کو پہنچے۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ خبردار رہو! مجھے رکوع میں یا سجدہ میں قراءت قرآن سے منع کیا گیا ہے۔ بہر حال تم رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو اور سجدہ میں خوب گڑگڑا کر دعا کرو کیونکہ سجدہ میں تمہاری دعا کا قبول ہونا عین ممکن ہے۔ (سنن نسائی ؒ کِتَابُ التَّطْبِیْقِ بَابُ تَعْظِیْمِ الرَّبِّ فِیْ الرُّکُوْعِ)

2۔رات (تہجد )کے وقت

رات کا وقت رحمت خداوندی کے نزول کا وقت ہے۔ رات کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرنا ایک عظیم مجاہدہ ہے۔ انبیاءؑ، اولیاء ا ور صالحین کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ رات کو اٹھ کر اللہ کی عبادت میں وقت گزارتے تھے۔ اللہ تعا لیٰ نے سورۃ المزمل کی آیت 7میں انسانی نفس کو کچلنے کے لیے رات کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرنے کو ہی سب سے کامیاب نسخہ قرار دیا ہے۔آپﷺ نے اپنی امت کو بھی اس وقت اٹھ کر اللہ کی عبادت کرنے اور اس سے دعائیں کرنے کی بھی تلقین وترغیب فرمائی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مسلمان رات کے وقت پاک ہو نے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرتے ہوئے سو جائے اور پھر رات کو بیدار ہو نے کے بعد اللہ سے جو بھی بھلائی مانگتا ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے وہ بھلائی ضرور دیتا ہے۔ ( مشکوٰۃ المصا بیح، بَابُ مَا یَقُوْلُ اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ)حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ہر رات میں آخر تہائی رات کے وقت ہمارا بزرگ وبرتر پروردگار دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسے قبولیت بخشوں؟کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت کا طلبگار ہو اور میں اسے بخش دوں۔ ( مشکوٰۃ المصا بیح، بَابُ التَّحْرِیْضِ عَلٰی قِیَامِ اللَّیْلِ )حضرت جابر ؓ فرماتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ رات میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جو مسلمان بھی اسے پالے اور اس میں اللہ تعا لیٰ سے دنیا یا آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے ضرور پورا فرماتا ہے۔ اور قبولیت کی یہ گھڑی ہر رات میں ہو تی ہے۔ ( مشکوٰۃ المصا بیح، بَابُ التَّحْرِیْضِ عَلٰی قِیَامِ اللَّیْلِ )

حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک بار دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہﷺکس وقت کی دعا بہت زیادہ مقبول ہو تی ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:آخری تہائی رات میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (مشکوٰۃ المصا بیح، بَابُ التَّحْرِیْضِ عَلٰی قِیَامِ اللَّیْلِ )

ان تمام احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ ہر رات قبولیت دعاکی ایک ایسی مبارک گھڑی اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مقر ر ہے،اگر کوئی مومن بندہ رات کی عبادت کے لیے اٹھے اورعبادت اور دعا کے دوران وہ گھڑی اسے میسرآجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔

حضرت عمرو بن عنبسہؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پروردگار اپنے بندہ سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہو تا ہے لہٰذا اگر تم بھی اس وقت اللہ تعا لیٰ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو سکتے ہو تو ضرور ہو جاؤ۔ ( مشکوٰۃ المصا بیح، بَابُ التَّحْرِیْضِ عَلٰی قِیَامِ اللَّیْلِ )

مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کا آخری حصہ جو بالعموم تہجد کا وقت ہو تا ہے، اس لحاظ سے افضل و اشرف ہے کہ اس وقت میں اللہ تعا لیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی اپنے مومن بندہ کے قریب تر ہو تی ہے اور اللہ تعا لیٰ کی رحمت اور اس کی عنایات کا سایہ اس مومن بندہ پر ہوتا ہے جو اپنی نیند اور اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر گڑگڑاتا اور اس سے بخشش طلب کرتا ہے۔

3۔ فرض نمازوں کے بعد

حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک بار دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کس وقت کی دعا بہت زیادہ مقبول ہو تی ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایاآخری تہائی رات میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (مشکوٰۃ المصا بیح، بَابُ التَّحْرِیْضِ عَلٰی قِیَامِ اللَّیْلِ )

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، تاہم نبی کریم ﷺ سے نماز کے بعد کی بہت سی دعائیں ثابت ہیں۔ لیکن اس حدیث میں جو ذکر ہے اس دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ضروری نہیں۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے محبوب صحابی حضرت معاذ ؓ کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ضر ور کرنا اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ: کہ اے اللہ ! اپنے ذکر اور شکر کے لیے میری مدد فرما اور اپنی بہترین عبادت کرنے کی مجھے توفیق دے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الوتر بَابٌ فِی الْاِسْتِغْفَارِ) کتب احادیث میںمختلف صحابہؓ سے مروی کم و بیش 13دعائیںنبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں جو آپ ﷺ فرض نمازوں کے بعد مانگا کرتے تھے۔ امام المحدثین شمس الدین ابو عبداللہ ابن قیمؒ الجوزی( 1292ءتا1350ء) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ مجدد ساتویں صدی ہجری کے شاگرد تھے ان کے علمی پایہ اور تبحر علمی کی بنا پر بعض علماء کا خیال ہے کہ خود امام قیم ؒ بھی مجدد تھے اور امام احمد بن حنبلؒ کے مسلک پر تھے۔وہ اپنی معرکہ آرا تالیف ’’زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد‘‘میں اس معاملہ پر محاکمہ کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ‘‘ وہ دعا جو نماز کے بعد سلام پھیر کر قبلہ رخ یا مقتدیوں کی طرف منہ کر کے کرتے ہیں، اس کے متعلق نبی کریم ﷺ کی سنت سے کچھ ثابت نہیں ہے۔ نیز فجر اور عصر کی نماز کے بعد اس کی تخصیص نہ آپؐ نے خود فرمائی اور نہ آپؐ کے بعد خلفاء راشدین نے یہ تخصیص فرمائی ہے اور نہ امت کو اس کا حکم فرمایا ہے۔‘‘

’’نماز کے متعلق دیگر عام ادعیہ کا آپؐ نے اہتمام بھی کیا ہے اور حکم بھی فرمایا ہے۔ ان کا تعلق نمازی کے احوال سے ہو تا ہے کیونکہ نماز میں وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہے، جب تک وہ نماز میں رہتا ہے وہ اسی سے سر گو شی کر رہا ہے۔ اور جب وہ سلام پھیر دیتا ہے تو یہ سرگوشی منقطع ہو جاتی ہے اور اس کا قرب و حضور سامنے سے ہٹ جاتا ہے۔ ….. یہاں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ جب نمازی نماز سے فارغ ہو اور اللہ کا ذکر کرے،تہلیل کرے، تسبیح پڑھے، حمد کرے اور نماز کے بعدمشروع اذکار سے اس کی بزرگی بیان کرے تو پھر نمازی کو چاہیے کہ اس کے بعد نبی ﷺ پر درود شریف پڑھے اور پھر جو چاہے دعا کرے۔ بہتر یہ ہے کہ اس دوسری عبادت کے بعد ہی دعا مانگے نہ کہ فقط نماز کے بعد، کیونکہ جب اس نمازی نے اللہ کا ذکر کیا، حمد کی، اور اس کی ثنا بیان کی اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا تو اس کام کے بعد اس کی دعا قبول ہو گی۔( ’’زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد‘‘ از امام قیمؒ، جز اول،صفحہ 215-214، شائع کردہ نفیس اکیڈمی1990 ء)

حکم و عدل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایاکہ ’’جو لوگ نماز عربی میں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں اس کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور نہ انہیں کچھ ذوق اور شوق پیدا ہو تا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ ان کی مثال اس شخص کی ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور تخت کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی عرضی پیش کی جو کسی سے لکھوالی تھی اور بغیر سمجھنے کے طوطے کی طرح اسے پڑھ کر سلام کر کے چلا آیا اور دربار سے باہر آکر شاہی محل کے باہر کھڑے ہو کر پھر کہنے لگا کہ میری یہ عرض بھی ہے اور وہ عرض بھی ہے۔ اسے چاہیئے تھا کہ عین حضوری کے وقت اپنی تمام عرضیں پیش کرتا۔ ‘‘(ذکر حبیب صفحہ 198،197)ایک اور موقع پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایاکہ ’’ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعا لیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرا یا اور رسول اللہ ﷺ سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے آپ سے التزام ثابت نہیں ہے۔ اگر التزام ہوتا اور پھر کو ئی ترک کرتا تویہ معصیت ہو تی۔ تقاضائے وقت پرآپؐ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی۔ اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپؐ کا سارا وقت ہی دعاؤں میں گزرتا تھا۔ لیکن نماز خاص خزینہ دعاؤں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے۔ اس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اِس کو درست نہ کر لے اور اُس کی طرف توجہ نہ کرے۔ کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص ذوق اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو پھر خارج نماز میں بے شک دعائیں کرے۔ ہم منع نہیں کرتے۔ ہم تقدیم نماز کی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے۔‘‘ (الحکم 24؍اکتوبر 1902ء)حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کے شروع میں اور آپؑ کی موجودگی میں نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی تھی اس وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نماز کی امامت کرواتے تھے۔ لیکن بعد میں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ مسئلہ سمجھا بھی دیا اور اس سے روک بھی دیا تھا۔ (افتخار الحق صفحہ 495،494)اسی طرح فقہ احمدیہ کے صفحہ 114پر اس امر کی وضاحت موجود ہے کہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کا التزام اور دوام درست نہیں کبھی کبھار ایسا کرنا جائز ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں یہ طریق رائج نہیں ہے اور نہ اس پر عمل ہو تا ہے۔

4۔ جمعہ کے دن

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جسے کوئی بندہ مومن پا ئے اور اس میں اللہ تعا لیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو اللہ اس کو وہ بھلائی عطا کردیتا ہے۔ (یعنی اس گھڑی میں کی جانے والی دعا ضرور مقبول ہو تی ہے۔ ) دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ بلا شک و شبہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جسے کو ئی بندہ مومن جو نماز کے لیے کھڑا ہو پالے اور اللہ تعالیٰ سے کسی بھلائی کے لیے دعا کرے تو اللہ تعا لیٰ وہ بھلائی اسے ضرور عطا کر دیتا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ گھڑی بہت مختصر ہو تی ہے۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْجُمُعَۃِ) حضرت ابی بردہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد حضرت ابو موسیٰ ؓ سے سنا کہ انہو ں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا کہ جمعہکے دن کی ساعت قبولیت امام کے منبر پر بیٹھنے اور نماز کے پڑھے جانے کے درمیان ہے۔( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْجُمُعَۃِ)

اس حدیث میں ساعت قبولیت کو متعین شکل میں بیان فرمایا گیا ہے لیکن عمومی خیال یہی ہے کہ جمعہ کے دن آنے والی یہ خاص گھڑی اور ساعت مخفی رکھی گئی ہے۔ اور اس میں حکمت یہی ہے کہ اللہ کے مومن بندے اس ساعت کی امید میں پورے دن عبادت میں مشغول و مصروف رہیں اور جب وہ ساعت آئے تو ان کی دعا اور عبادت اس خاص وقت میں واقع ہو جو بارگاہ رب العزت میں قبولیت کا وقت ہو اور ان کے اس ساعت کا عمل اور دعا مقبول ٹھہرے۔

5۔ جمعہ کے دن بعد نماز عصر

حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن کی اس ساعت کو جس میں قبولیت دعا کی امید ہے، اسے عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْجُمُعَۃِ) حضرت ابو ہریرہ ؓ کی طویل روایت میں حضر ت عبد اللہ ابن سلام ؓ سے یہ مذکور ہے کہ جمعہ کے دن خاص قبولیت کی گھڑی نماز عصر سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کے وقت کے اندر ہو تی ہے۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْجُمُعَۃِ) ان روایات سے یہ علم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن نماز عصر کے وقت سے غروب آفتاب تک کا وقت بھی قبولیت دعا کی گھڑیوں میں سے ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اور مصروفیت نہ ہو تو اس وقت کو بھی غنیمت جان کر اس سے فائدہ اٹھانا اور اس وقت کو بھی دعائوں اور ذکر الٰہی میں صرف کرنا چاہیے۔

6۔ جمعہ کی رات

حضرت عکرمہؓ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک مجلس میں حضرت علیؓ نے قرآن کریم کے بھول جانے کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایااے ابو الحسن ! کیا میں تمہیں ایسے مفید کلمات نہ سکھاؤں کہ اللہ تعا لیٰ آپ کو فائدہ پہنچائے اور ہراس شخص کو بھی فائدہ پہنچائے جس کو آپ سکھا دیں،اور آپ کا حافظہ بھی پختہ ہو جائے۔ حضرت علیؓ نے فرمایاکیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ ضرور سکھائیں۔ پھر آپؐ نے یہ طریق بتا یا کہ جمعہ کی شب اگر آخری تہائی رات میں قیام کر سکو (یعنی نوافل پڑھ سکو ) تو ضرور کرو۔ فَاِنَّہَا سَاعَۃٌ مَّشْہُوْدَۃٌ وَالدُّعَاءُ فِیْہَا مُسْتَجَابٌکہ یہ وہ وقت ہے جس میں قبولیت دعا کی خاص گھڑی ہو تی ہے اور اس وقت میں کی جانے والی دعابارگاہ رب العزت میں قبول کی جاتی ہے۔ اور میرے بھائی حضرت یعقوب ؑ نے بھی اسی جمعہ کی رات کے انتظار میں فرمایا تھا سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ: (سورہ یوسف :99) کہ میں اپنے رب سے عنقریب استغفار کرو ں گا۔ اگر اس وقت میں قیام نہ کر سکو تو رات کے درمیانی حصہ میں قیام کرو۔ اگر ایسا بھی نہ کر سکو تو اس کے پہلے حصہ میں قیام کرنے کی کوشش کرو اور چار نوافل ادا کرو۔ اور پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو وہ دعا اور اس کا طریق سکھایا اور یہ بھی بتایا کہ تین، پانچ یا سات جمعہ تک اس طریق پر دعا کرو تو تمہاری دعا قبول ہو گی۔ اور اس ذات کی قسم جس نے مجھے بھیجا ہے کہ مومن کی دعا کبھی لو ٹتی نہیں۔ ( جامع ترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ)بنیادی بات جو مذکورہ بالا حدیث سے ملتی ہے وہ یہی ہے کہ جمعہ کی رات(یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات) بھی قبولیت دعا کی خاص رات ہو تی ہے جس میں اگر ایک مومن بندہ اٹھ کر چار نوافل پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حاجات اور مرادوں کو پیش کرتا ہے تو اس فرمان نبویؐ کے مطابق اس کی دعا کی قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

7۔روزہ کی افطاری کے وقت

حضرت عمر وابن العاص ؓ بیان فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ روزہ دار کی افطاری کے وقت قبولیت دعا کا خاص موقع ہو تا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ دعا پڑھی اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّذِیْ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ اَنْ تَغْفِرْلِیْ ذَنُوْبِیْ اے اللہ میں تجھ سے تیری اس رحمت کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہو ں جو ہر شے پر حاوی ہے کہ تو میرے گناہ بخش دے۔ (مُسْتَدْرَک لِلْحَاکِم )حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتین قسم کے آدمیوں کی دعا رد نہیں ہو تی: ایک روزہ دار جب افطار کرے، دوسرا امام عادل اور تیسرا مظلوم کی دعا۔ ان کی دعا کو اللہ بادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پروردگار فرماتا ہے مجھ کو میری عزت کی قسم میں تیری مدد کرو ں گا اگرچہ ایک مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، کِتَابُ الدَّعْوَاتِ)

8۔ اذان اور اقامت کے درمیان

اذان کا وقت بھی بارگاہ ایزدی میں قبولیت دعا کا وقت ہو تا ہے۔ اس تعلق میں نبی کریم ﷺ سے مختلف ارشادات مروی ہیں۔ جیسے اذان کے بعد کی دعا کے بارہ میںفرمایا کہ جو اذان کے الفاظ مؤذن کے ساتھ دہرائے اور میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے تو اس پر میری شفاعت واجب ہو گئی۔ اس لیے اس وقت بھی اپنے گناہو ں کی معافی اور خیر وبھلائی کے راستہ پر چلنے کی تو فیق کی زیادہ سے زیادہ دعا مانگنی چاہیے۔ حضرت انس ؓ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اذان اور تکبیر کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْاَذَانِ)اذان اور تکبیر کا وقت گو کہ مختصر ہوتا ہے لیکن اس حدیث کے مطابق یہ وقت بھی نہایت بابرکت اور با سعادت ہوتا ہے کہ اگر اس وقت میں ایک مومن بندہ اپنے رب کے حضور دست طلب پھیلاتا ہے تو اللہ تعا لیٰ اس کی مراد پوری کرتا اور اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ مؤذن توہم سے فضیلت لے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس طرح وہ کہتے ہیں تم بھی اسی طرح کہو اور جب تم یہ کہہ چکو تو اللہ سے سوال کرو تمہیں دیا جائے گا۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْاَذَانِ)حضرت سہل بن سعدؓ کی ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا فرمایا کہ کم رد کی جاتی ہیں: ایک وہ دعا جو اذان کے وقت کی جاتی ہے اور دوسری وہ دعا جو کفار کے ساتھ جنگ شروع ہو نے کے وقت کی جاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ دوسری وہ دعا جو بارش میں کھڑے ہو کر مانگی جائے۔( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْاَذَانِ )

9۔ بارش کے وقت

بارش اللہ تعا لیٰ کی رحمت ہے اور اس کی رحمت سے برستی ہے۔ روایات میں رسول اللہ ﷺ کی بارش کے وقت کی بھی دعائیں مذکور ہیں۔ حضرت سہل بن سعدؓ کی ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا فرمایا کہ کم رد کی جاتی ہیں: ایک وہ دعا جو اذان کے وقت کی جاتی ہے اور دوسری وہ دعا جو کفار کے ساتھ جنگ شروع ہو نے کے وقت کی جاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ دوسری وہ دعا جو بارش میں کھڑے ہو کر مانگی جائے۔(مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ الْاَذَانِ )

10۔ فراخی کے وقت

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی سختیوں میں دعا قبول فرمائے اسے چاہیے کہ وہ فراخی میں بہت دعا کیا کرے۔(مشکوٰۃ المصابیح،کِتَابُ الدَّعْوَاتِ )

11۔ مصیبت کے وقت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے چار مختلف مقامات پر یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعا لیٰ انسان کو پہنچنے والی کسی تکلیف یا ضرر یا مصیبت کے وقت انسان کی دعا کو ضرور قبول فرماتا ہے اور اس کی تکلیف یا مصیبت دور فرمادیتا ہے۔ (سورت یونس13، سورۃ النمل63 سورۃ الزمر 50,9 )سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہو تے ہیں۔اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ201)

’’یاد رکھو کہ خدا تعا لیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہو تا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔‘‘( تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد3 صفحہ 574)

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سورۃ النمل کی آیت63کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ اضطرار پر وہ حالت دلالت کیا کرتی ہے جب چاروںطرف کوئی پناہ کی جگہ انسان کو نظر نہ آتی ہو اور ایک طرف نظر آتی ہو۔ گویا اضطرار کی نہ صرف یہ علامت ہے کہ چارو ں طرف آ گ نظر آتی ہوبلکہ یہ بھی علامت ہے کہ ایک طرف امن نظر آتا ہو۔ اور انسان کہہ سکتا ہو کہ وہاں آگ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ وہی دعا خدا تعا لیٰ کے حضور قبول کی جاتی ہے جس کے کرتے وقت بندہ اس رنگ میں اس کے سامنے حاضر ہو تا ہے کہ اسے یقین کامل ہو تا ہے کہ سوائے خدا کے میرے لیے اور کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔‘‘

’’اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے انسانوں کو اپنی ذات کا یقین دلانے اور اپنے وجود کا علم دینے اور انہیں اپنی طرف کھینچنے کے لیے دعا کا دروازہ کھولا ہے جو ہر مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے کے لیے یکساں طور پر کھلا ہے۔ یعنی خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان ہو اگر وہ مضطر ہو کر اللہ تعا لیٰ کو پکارے تو یقینا ًاللہ تعا لیٰ اس کی دعا ؤں کو سنے گا۔ اور اس کے لیے وہ راستہ کھول دے گا جس سے اس کی مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اور اسے اطمینان قلب حاصل ہو جائے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ 417 و420 )

حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جب تم کسی مریض کے پاس یا کسی میّت کے پاس آؤ تو منہ سے خیر اوربھلائی کے کلمات نکالوکیونکہ تمہارے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب مَا یُقَالُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَہُ الْمَوْتُ)

حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ ابو سلمہؓ کی وفات پر تشریف لائے تو اُن کی آنکھیں بند کیں اور فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ بینائی بھی چلی جاتی ہے۔ یہ سن کر گھر والے رونے چلانے لگے۔پھر ان کو مخاطب کرتے ہو ئے فرمایا کہ یہ وقت دعا ئے خیرکا ہے کیونکہ فرشتے بھی اس وقت دعا پر آمین کہہ رہے ہیں۔ اور پھر آپ ﷺ نے یہ دعائیہ کلمات فرمائے اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاَبِیْ سَلَمَۃَ وَارْفَعْ دَرَجَتَہٗ فِیْ الْمَہْدِیِّیْنَ وَاخْلُفْہُ فِیْ عَقِبِہٖ فِیْ الْغَابِرِیْنَ وَاغْفِرْلَنَاوَلَہٗ یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ وَافْسَحْ لَہٗ فِیْ قَبْرِہٖ وَ نَوِّرْ لَہٗ فِیْہِ۔ اے اللہ ! ابو سلمہ کو بخش دے اور اس کا مرتبہ بلند فرما ان لو گو ں میں جو سیدھی راہ دکھائے گئے ہیں اور اس کے باقی رہنے والے پسماندگان کے لیے کارسازبن جا اور اے دونوں جہانو ں کے پروردگار ! ہمیں اور اس کو بخش دے اور اس کی قبر کشادہ کر اور اس کے لیے اس کی قبر کو منور فرمادے۔آمین (صحیح مسلم، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب مَا یُقَالُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَہُ الْمَوْتُ)

حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو سلمہؓ کی وفات پر انہیں فرمایا کہ مصیبت کے وقت : اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، پڑھیں اور یہ دعا کریںاَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا یعنی اے اللہ ! مجھے میری اس مصیبت کا اجر عطا کر اور اس کا ا چھا بدلہ عطا فرما۔ (مسند احمد بن حنبل)

حضرت ام سلمہؓ کا اصل نام ہند بنت سہیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں آنے سے قبل عبداللہ بن عبد الاسدؓ کی زوجیت میں تھیں جو ان کے چچاکے بیٹے اوررسول اللہ ﷺ کے رضاعی بھائی تھے۔ اپنے شوہر کے ساتھ ایمان لائیں اور ان ہی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے بیٹے حضرت سلمہ ؓ دوران ہجرت ہی پیدا ہوئے تھے۔ انہی کے نام سے ان کی کنیت ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ تھی۔ اورجب ہجرت مدینہ ہو ئی تو یہ گھرانہ پہلا تھا جس نے مدینہ ہجرت کی سعادت پائی۔ حضرت ابو سلمہؓ جنگ احد میں زخمی ہو گئے تھے اوربعد میں انہی زخموں کی وجہ سے 4 ہجری میں انتقال ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور نماز جنازہ میں نو تکبیرات کہیں۔ لوگوں نے نماز کے بعد ان تکبیرات کے بارہ میں پوچھا تو فرمایایہ ہزار تکبیر کے مستحق تھے۔

حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی تھیں کہ ایک روز ابو سلمہؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے تشریف لائے تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسی بات سنی ہے جس کی وجہ سے میں بہت خوش ہوا ہو ں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ مسلمان اس مصیبت کے وقت : اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا ٓاِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، پڑھ کر یہ کلمات کہے : اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَایعنی اے اللہ! مجھے میری اس مصیبت کا اجر عطا کر اور مجھے اس کے بدلہ میں بہتر خیر عطا فرما۔ تو اللہ تعا لیٰ ایسا ہی کر دیتا ہے۔

حضرت ام سلمہ ؓبیان فرماتی تھیں کہ میں نے یہ بات ابوسلمہؓ سے یاد کر لی۔ جب ابو سلمہؓ کی وفات ہو ئی تو میں نے یہ دعا اسی طرح پڑھی۔ اس کے بعد میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ابو سلمہؓ سے بہتر مجھے کون ملے گا؟ جب میری عدت پوری ہو ئی تو رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی میں اس وقت اپنی کھالو ں کو دباغت دے رہی تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ بیر کے پتو ں سے دھویا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو اجازت دی اور آپؐ کے لیے چمڑے کا گدا ڈالا جس میں کھجور کے چھلکوں کا بھراؤ تھا۔ آپؐ اس پر تشریف فرما ہوئے اور اپنے لیے مجھ سے منگنی کی۔ جب آپ ﷺ گفتگو سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کوئی عذر نہیں کہ میں آپ کی طرف راغب نہ ہو ں، لیکن میں ایک ایسی عورت ہوں جسے غیرت بہت آتی ہے مجھے یہ ڈر ہے کہ آپؐ مجھ سے کوئی چیز ناپسند کریں اور مجھے اللہ تعا لیٰ اس کی وجہ سے عذاب دے، میری عمر بھی زیادہ ہو گئی ہے اور میں بچوں والی ہو ں۔ آپؐ نے فرمایا:تم نے جو غیرت کا ذکر کیا ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے دور کر دے گا، تم نے عمر کی زیادتی کا ذکر کیا ہے تو وہ بڑھاپا مجھے بھی لگ گیا ہے، تم نے بچوں کا ذکر کیا ہے تو تیرے بال بچے میرے بال بچے ہیں۔ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ پھر میں نے رسول اللہ کی بات مان لی۔ مجھے اللہ تعا لیٰ نے اس دعا کی بدولت ابو سلمہؓ سے بہتر رسول اللہ دے دیے۔ ( مسند احمد بن حنبلؒ، طبقات ابن سعد جلد 8صفحہ 63-64،مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب مَا یُقَالُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَہُ الْمَوْتُ، جلددوم،صفحہ 73-75دارالاشاعت کراچی، 2009ء)حضرت علاءؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے وصال کا وقت قریب آیا تو حضرت فاطمہؓ رونے لگیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ رو نہیںجب میں اس دنیا سے اٹھ جاؤں تو : اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، کہنا اس لیے کہ ہر انسان کے لیے مصیبت کے وقت اس آیت کے کہہ لینے سے اس مصیبت کا عوض ملتا ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے پوچھاکیا آپؐ سے بھی یا رسول اللہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور مجھ سے بھی (کہ اگر میرا عوض نہ سہی تو ثواب اسی جیسا ہے۔ ) (طبقات ابن سعد، جلد 2صفحہ312)

12۔لیلۃ القدر

لیلۃ القدر کی فضیلت ظاہر و عیاں ہے۔ اس کے بارہ میں تو اللہ تعا لیٰ نے ایک مختصر سی سورت تھی نازل فرمائی ہے جو اس کی فضیلت کا احاطہ کرتی ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں مومن بندہ کی زبان و قلب سے نکلی ہو ئی دعا بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔حضرت انسؓ فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاجب لیلۃ القدر آتی ہے تو حضرت جبرئیل ؑ فرشتوں کی جماعت کے جِلَو میں اترتے ہیں اور ہر اس بندہ کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو کھڑا ہو ا نماز پڑھ رہا ہوتا ہے یا بیٹھے ہوئے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔( مشکوٰۃ المصابیح، بَابُ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ)

لیلۃ القدر جو رمضان کے آخری عشرہ میں واقع ہوتی ہے اس رات میں اللہ تعا لیٰ کی خاص الخاص تجلی کا ظہور ہوتا ہے جو غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رہتی ہے۔یہی وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یہی وہ شب ہے جس میں عبادت کا ثواب دوسرے اوقات کی نسبت کہیں زیادہ ہو تا ہے۔ اور یہی وہ مقدس رات ہے جس میں ایک مومن بندہ کے زبان و دل سے نکلی ہو ئی دعا بارگاہ رب العزت میں قبولیت کا شرف پاتی ہے۔اس مقدس رات میں اگر کسی بندہ مومن کو اپنے رب کے حضور عبادت کرنے، اس کی خوشنودی و رضاکی خاطرنوافل ادا کرنے اور ذکر و مناجات کی توفیق و سعادت مل جائے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہو گی۔

13۔ حالت سفر کی دعا

حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین دعا ئیں بلا شک قبو ل ہو تی ہیں ۔ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی دعا بیٹے کے خلاف۔( ترمذی،کِتَابُ الدَّعْوَاتِ)

یہاں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ جس طرح ایک بیمار انسان مجبور اور بے بس ہو تا ہے اسی طرح سفر کی حالت میں چونکہ انسان ایک منزل کی طرف گامزن ہوتا ہے اور اپنے آپ کو سفر کے حالات کے سپرد کردیتا ہے اور کسی حد تک مجبور اور بے بس یا بے بسی کی کیفیت میں ہوتا ہے اس لیے وہ وقت بھی انسان پر اضطراری کیفیت طاری کر دیتا ہے اور اگر ایک بندہ مومن اس کیفیت میں دعا کرتا ہے تو اس کی دعا کی قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسافر کی دعا بھی رد نہیں کی جاتی۔

14۔شعبان کی پندرھویں رات

حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کی درمیانی رات(پندرہ شعبان) ہوتی ہے تو اس رات کو نماز پڑھو اور دن کا روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے کے بعد آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کوئی بخشش مانگنے والاہے کہ میں اسے بخشوں، کو ئی رزق مانگنے والاہے کہ میں اسے رزق دوں، کوئی گرفتار بلا ہے کہ میں اسے عافیت دوں، ہے کو ئی، ہے کوئی؟یہاں تک کہ صبح نمودار ہو جاتی ہے(مشکوٰۃ المصابیح، باب قیام شہر رمضان، فصل الثالث)

دعا قبول ہو نے کی تین صورتیں

یہ جو احادیث میں آیا ہے کہ بندہ اس ساعت میں جو دعا کرتا ہے اللہ اسے قبول فرماتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ (1) اللہ اس کا مقصد اسی دنیا میں پورا فرمادیتا ہے۔(2) یا اس کا مقصود بعینہٖ تو اُسے حاصل نہیں ہوتا بلکہ جو اُس کے لیے بہتر ہوتا ہے اُسے اللہ تعا لیٰ اُس کے لیے میسر فرمادیتا ہے۔ اور کوئی برائی یا مصیبت اس سے دور فرما دیتا ہے۔(3) یا اللہ تعا لیٰ کسی مصلحت اور بہتری کی وجہ سے اس دعا کا اس دنیا میں تو کو ئی اثر و اجر ظاہر نہیں فرماتا بلکہ وہ دعا اس کے لیے ذخیرہ آخرت ہو جاتی ہے اور اس دعا کا اثر یا نتیجہ آخرت کے دن ثواب کی صورت میں اسے دے دیا جائے گا۔حضرت جابرؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بھی کوئی شخص دعا مانگتا ہے تو اللہ تعا لیٰ یا تو وہ چیز اسے عطا فرمادیتا ہے جو وہ مانگتا ہے یا اس کے عوض میں اس سے کسی برائی یا مصیبت و بلا کو دور کر دیتا ہے۔ جب تک کہ وہ کوئی گناہ کی چیز یا ناطہ توڑنے کی دعا نہیں مانگتا۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات)

حضرت ابو سعید خدریؓ روایت بیان فرماتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ جو بھی مسلمان دعا مانگتا ہے،ایسی دعا کہ اس میں نہ تو گناہ کی کسی چیز کی طلب ہو اور نہ ناطہ تو ڑنے کی تو اللہ تعا لیٰ اسے اس دعا کے نتیجہ میں تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور دے دیتا ہے۔ یا تو یہ کہ جلد ہی اس کا مطلوب عطا فرمادیتا ہے یا یہ کہ اس کے لیے اس دعا کو ذخیرہ آخرت بنا دیتا ہے یا یہ کہ اس دعا کے عوض اس جیسی کسی برائی کو اس سے دور کر دیتا ہے۔ صحابہ ؓ نے یہ سن کر عرض کیا اب ہم بہت زیادہ دعا کریں گے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کا فضل بہت زیادہ ہے۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات)

اللّٰہ ورسولہ اعلم بالصواب!

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button