متفرق مضامین

چودھری محمد علی صاحب (نمبر14)

(‘ابن طاہر’)

شہر بِیتی نہ پوچھئے مُضطر یہ کہانی ہے دِلخراش بہت

(گذشتہ سے پیوستہ) چودھری محمد علی نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں یہ داستان بھی سنائی ہے۔ مجھے امید ہے آپ بھی یہ داستان سننا چاہیں گے۔ آپ فرماتے ہیں’’قیامِ پاکستان کے پُرآشوب ایام کے دوران میں قادیان میں تھا چنانچہ میں ان حالات واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ اپنی کم مائیگی کے باوجود مجھے ان مشکل دنوں میں بھی جماعت کی کچھ نہ کچھ خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ ان کربناک ایام کی تفصیل کے لیے تو کئی کتابیں درکار ہیں تاہم مجھے جو جو باتیں یاد آئیں گی میں سناتا جائوں گا۔ ضروری نہیں کہ یہ واقعات زمانی اعتبار سے ترتیب میں ہوں لیکن ان میں کوئی مبالغہ یا خدانخواستہ غلط بیانی نہیں ہوگی۔ سچ پوچھیں تو میرے نزدیک الفاظ اس پریشانی کی عکاسی کر ہی نہیں سکتے جن سے ہم سب دوچار تھے۔ یہ تو اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے احمدیوں کے جان و مال کی حفاظت فرمائی اور گنتی کے ان جاں نثاروںکو چھوڑتے ہوئے جنہیں حفاظتِ مرکز کے لیے قادیان میں ہی رکنے کی ہدایت کی گئی تھی باقی سب احمدی بخیروعافیت پاکستان پہنچ گئے۔

اُس زمانے کی جو باتیں اِس وقت میرے ذہن میں آرہی ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہم قادیان کی خبریں روز کے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو لاہور بھیجا کرتے تھے۔ یہ خبریں ٹائپ ہوکر جاتی تھیں لیکن مجھے علم نہیں کہ وہاں پہنچائی کیسے جاتی تھیں۔ اُن ہی دنوں کی بات ہے ایک بار ہمارا جہاز آیا اور اُس نے اوپر سے اخبارات کے دو بنڈل پھینکے۔ ان میں سے ایک زمیندار اخبار کا بنڈل تھا اور دوسرا الفضل کا۔ نیچے پہنچنے تک ان میں سے ایک بنڈل کھل گیااور اخبار دُور دُور تک بکھر گئے۔ ہم نے اُن مہاجرین سے جنہوں نے وہاں پناہ لے رکھی تھی یہ اخبار اکٹھا کرنے کو کہا۔ ڈیوٹی پر موجود انڈین آرمی نے ہوا میں اُڑتے ہوئے اخبار دیکھ لیے تھے چنانچہ اسی وقت فوجی موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے سیڑھیوں کے راستے کالج کی دوسری منزل پر جانے کی کوشش کی۔ وہاں مسعود دہلوی کے بھائی، مولود احمد ڈیوٹی پر کھڑے تھے۔ انہوں نے فوجیوں کو روک لیا اور بتایا کہ ’’صاحب ‘‘کی اجازت کے بغیر انہیں اوپر جانے نہیں دیا جائے گا۔ فوجیوں کو زیادہ دیر تک روکے رکھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی لیکن اس تکرار میں ہمیں کچھ وقت مل گیا اور ہم نے اخبارات اور وہاں موجود کاغذات ادھر ادھر کردیے۔ میں اور عطاء الرحمٰنٰ غنی اوپر بیٹھے تھے۔وہاں ایک ٹائپ رائٹر بھی پڑا تھا لیکن یہ وہ ٹائپ رائٹر نہ تھا جس پر ہم خبریں ٹائپ کر کے بھیجا کرتے تھے۔ جو فوجی افسر اوپر آیا وہ ہمارا دفتر دیکھ کر بہت سیخ پا ہوا۔ کہنے لگا کہ ہم نے یہاں پر جاسوسی کا اڈا بنا رکھا ہے،وہ ہم سے نمٹ لے گا اور یوں کردے گا اور وُوں کردے گا لیکن خدا کا شکر ہے بات تیز و تند فقروں سے آگے نہیں بڑھی۔ بعد میں ہم نے یہ دفتر شہر میں شفٹ کر دیا۔

شاید اسی روز کا واقعہ ہے کہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، امیرمقامی سے ملاقات کے لیے گیا۔ان کے پاس ایک فوجی افسر جو غالباً کیپٹن تھا آیا ہوا تھا۔ دونوں مسجدِمبارک میں کھڑے تھے اور جہاں تک میرا تاثر ہے حضرت مرزا بشیر احمد اسے انگریزی میں ڈانٹ پلا رہے تھے کہ تم ہوتے کون ہو؟ تم کس کی اجازت سے کالج میں داخل ہوئے ہو؟ تمہیں پتا ہے کالج میں داخل ہونے کے لیے اجازت چاہیے؟ میں ابھی نہرو سے رابطہ کرتا ہوں۔ یہ کیا تماشا ہے؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟ہم نہیں ہونے دیں گے یہ سب کچھ۔ کیپٹن یہ ساری باتیں سنتا رہا مگر اس نے کسی منفی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔

اچھا بات سے بات نکلتی ہے۔ جب محلے خالی ہوگئے تو محلہ دارالانوار میں مولانا عبدالرحیم درد کے گھر تین چار احمدی لڑکے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک میاں چھاموتھا اور دوسرا لطیف۔باقی لڑکوں کا مجھے علم نہیں کہ کون کون تھے۔ ممکن ہے درد صاحب کا کوئی بیٹا بھی وہاں ہو۔ ان لڑکوں میں سے کسی نے نہ جانے کیوں اچانک ایک فائر کردیا۔ قادیان کا تھانیدار ہزارہ سنگھ اس وقت اتفاقاً اسی علاقہ میں گشت پر تھا۔ اُس نے فائر کی آواز سنی تو موقعہ پر پہنچ گیا۔ چودھری ظفراللہ خان کی کوٹھی میں ملٹری نے ڈیرہ لگا رکھا تھا۔ اس نے وہاں سے بھی آدمی بلوا لیے۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے ان میں سے ایک لڑکا بھاگ کر قصرِخلافت پہنچا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ میاں صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میں خود جاکر صورتِ حال کا جائزہ لوں اور ضروری اقدامات کروں۔ میں فوراً چلا گیا۔ اس وقت خوف تو آتا ہی نہیں تھا۔ عمومی فضا ہی ایسی بنی ہوئی تھی کہ کسی میں کوئی ڈر،خوف نہیں تھا۔ میں وہاں پہنچا تو فوجی میاں چھامو کے کیمرہ کا اگلا حصہ الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ وائرلیس ہے اور ہم اس کے ذریعہ خبریں باہر بھیجتے ہیں۔ میں نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ کیمرہ ہے، وائرلیس سیٹ نہیں ہے اور اگر وہ چاہیں تو اس میں سے تصویریں نکال کر کیمرہ ہمیں واپس کردیں۔ میری یہ بات انہیں پسند نہیں آئی چنانچہ ایک فوجی نے مجھے بندوق کا بٹ مارا جس کے بعد وہ مجھے قادیان سے ذرا باہر میک ورکس کے قریب کسی جگہ لے گئے جہاں ان کا کمانڈنگ آفیسر جو غالباً میجر تھا بیٹھتا تھا۔ مرہٹہ تھا۔ انگریزی اچھی بول لیتا تھا۔ اس کے سامنے میری پیشی ہوئی۔ میں نے اسے بتایا کہ آپ کے لوگ کیمرہ کو وائرلیس سیٹ کہہ رہے ہیں۔ وہ مان گیا کہ واقعۃًیہ وائرلیس سیٹ نہیں ہے چنانچہ میں نے اسے کہا کہ آپ اس میں سے تصویریں نکال کر کیمرہ ہمیں واپس کردیں۔ اس نے کہا ٹھیک ہے، نکال لیں گے اور کیمرہ قابو کر لیا۔یہ کیمرہ ہمیں بعد میں واپس نہیں ملا۔

باتیں ہوتی رہیں۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ اگر ہمارے پاس وائرلیس نہیں ہے تو یہاں کی خبریں باہر کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ ان ہی دنوں تعلیم الاسلام کالج پر حملہ ہو اتھا۔ محلے بھی خالی ہوگئے تھے۔ کچھ احمدی کالج کے صحن میں جمع تھے اور باقی اس عمارت میں جو تحریک جدید کا بورڈنگ ہائوس کہلاتی تھی۔ دونوں کاآپس میں کوئی رابطہ نہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے پاس وائرلیس نہیں ہے اور ہم نے خود کسی کو نہیں بتایا تو قادیان پر حملے کی خبر ریڈیو پاکستان سے کیسے نشر ہو گئی ہے لہٰذا میں مان ہی نہیں سکتا کہ آپ کے پاس وائرلیس نہیں ہے۔ میں نے کہا ہم لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ ایک وائرلیس سیٹ کا تو مجھے پتا ہے اور میں آپ کو بتا بھی سکتا ہوں کہ کس جگہ پڑا ہے۔ آپ خود چیک کرلیںکہ وہ کام کر رہا ہے یا نہیں۔ میں نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک ڈبہ بند جہاز پڑا ہے۔ اس کے اندر وائرلیس سیٹ ہے لیکن غیرفعّال ہے۔ اس جہاز کا اِنسٹرکشنل پلان موجود ہے۔ آپ خود سمجھدار ہیں۔ اگر اس میں وائرلیس سیٹ کا ذکر موجود ہے تو آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ ہاں! ہمارے پاس ایک وائرلیس سیٹ ایسا ہے جسے آپ نہیں پہچان سکتے۔ کہنے لگاوہ کون سا؟ میں نے کہا آپ سے زیادہ بہتر اور کون جانتا ہوگا کہ ہمارا ٹیلیفون کاٹ دیا گیا ہے لہٰذا ہم آپس میں رابطہ نہیں کرسکتے لیکن ہم سارا دن ٹیلیفون کان کو لگا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ ہم آپریٹر کو پیسے دیتے ہیں اور ہمارے ساتھ اس کا وعدہ ہے کہ وہ دن یا رات کے دوران کسی بھی وقت ہماری بات کرادیا کرے گا۔ وہ ہمیں ٹائم نہیں بتاتا تھا لیکن کہتا تھا کہ ہم ڈیوٹی پر رہا کریں چنانچہ اِدھر بھی ایک آدمی بیٹھا رہتا تھا اور اُدھر بھی ایک آدمی فون پر موجود رہتا تھا۔ ایک دن اچانک گھنٹی بجی۔

Hello! Hello! Who is speaking?

This is DC Gurdaspur. Who is speaking at the other end?

Mirza Muzaffar Ahmad, DC Sialkot speaking.

اب مرزا مظفراحمد، ڈی سی سیالکوٹ ڈی سی گورداسپور سے پوچھ رہے ہیں کہ قادیان کا کیا حال ہے اور وہ بتارہا ہے کہ حالات بالکل ٹھیک ہیں۔ مرزا مظفر احمد پوچھتے ہیںآپ نے خود جاکر دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتا ہےنہیں۔ میں خود تو نہیں گیا۔ میں نے اپنے سپرنٹنڈنٹ پولیس یا پتا نہیں کس کو بھیجا تھا۔ یہ اس کی رپورٹ ہے۔ مرزا مظفر احمد اسے کہہ رہے ہیں نہیں آپ خود جاکر دیکھیں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سید عبدالحئی منصوری والے جو اِدھر بیٹھے ساری بات سن رہے تھے انہوںنے بیچ میں دخل اندازی کرتے ہوئے کہا میاں صاحب! یہ سب جھوٹ ہے۔ مرزا مظفر احمد عبدالحئی کی بات سن کر ڈپٹی کمشنر، گورداسپور سے کہتے ہیںسن رہے ہیں نا آپ؟ مہربانی کرکے آپ خو د قادیان جائیں اور تحقیق کر کے مجھے بتائیں۔ اب سوچنے والی بات ہے کہ سیالکوٹ سے گورداسپور کال ہو رہی ہے لیکن قادیان میں سنی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہمارا خدا کے ساتھ تعلق ہی تھا جس کی وجہ سے یہ معجزے رونما ہورہے تھے۔

جب حالات بہت خراب ہوگئے اور پیغام رسانی کے سارے سلسلے منقطع ہوگئے تو ہم ضرورت پڑنے پر اس کام کے لیے اطفال کو استعمال کرنے لگے۔ ایک بار ہم نے ایک طفل کو ایک چِٹ دے کر بھیجا کہ فلاں آدمی کو پہنچا آئے۔ اس نے یہ چِٹ تہ کر کے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی کہ کسی سپاہی نے اسے راستہ میں روک لیا۔ اس طِفل کو کسی نے یہ نہیں سمجھایا تھا کہ کوئی ناگہانی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو اس نے اس چِٹ کا کیا کرنا ہے یعنی اس نے چِٹ پھاڑ دینی ہے، پھینک دینی ہے یا کچھ اور کرنا ہے۔ سپاہی نے اسے دھمکایا کہ تم پیغام رسانی کررہے ہو، بتائو کیا لے کر جا رہے ہو؟ وہ اس کی تلاشی لینے لگا تو اُس نے جھٹ چِٹ منہ میں ڈال کر اندر نگل لی۔سپاہی ہکّا بکّا ہوکر اس کا منہ تکنے لگا۔

میں اس واقعہ کو ہمیشہ مرزا خورشید احمدکی طرف منسوب کرتا رہا ہوں لیکن آج ہی اس کی درستی ہوئی ہے کہ یہ مرزا خورشید احمد نہیںبلکہ کوئی اور بچہ تھا۔

جب ہم ہوسٹل میں محصور ہوگئے تو سوچا کہ حالات بہت گھمبیر ہیں اپنے امیر کا انتخاب کرلینا چاہیے چنانچہ کیپٹن شیرولی امیر اور مولانا ابوالعطا جالندھری ان کے نائب منتخب ہوئے۔

ہوسٹل میں اتنے پناہ گزین تھے کہ ان کی پانی کی ضرورت پوری ہونا بھی مشکل ہوگئی۔ پورے احاطے میں صرف ایک نلکا تھا اور اس میں سے ایک شخص کو پانی کا صرف ایک پیالہ بھرنے کی اجازت تھی۔پانی لینے والوں کی ایک قطار لگ جاتی تھی لیکن چونکہ لوگ بہت زیادہ تھے لہٰذا قطار جلیبی کی طرح بَل دار ہوتی۔ وہ اپنا پیالہ بھر کر نکلتے جاتے لیکن چیختے بھی جاتے کہ یہ پانی ان کی ضرورت کے لیے کافی نہیں ہے مگر مزید پانی مل نہیں سکتا تھا۔ حوائجِ ضروریہ سے فراغت کے لیے مناسب انتظام نہ تھا۔ اُس زمانے میں زمین دوز ٹائلٹس کا رواج نہیں تھا۔ اوپن ٹائلٹس ہوتے تھے اور وہ گند سے بھر چکے تھے۔ کچھ نوجوانوں نے اوپر سے پانی کی بالٹیاں پھینک کر اس کی صفائی کرنا چاہی لیکن اسی دوران کہیں سے ایک گولی آئی۔ گولی بالٹی کو لگی لیکن خدا کا شکر ہے نوجوان محفوظ رہے۔ ان حالات میں کسی نے دوبارہ صفائی کی کوشش ہی نہیں کی۔

ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لیے کچھ بندوقیں تو ضرور تھیں لیکن گولیاں نہ تھیں۔ زمانۂ امن میں حفاظت کے نقطۂ نگاہ سے گولیاں ایک مکان میں الگ سے رکھوادی گئی تھیں لیکن وہ مکان دُور تھا اور اب وہاں جانا ممکن نہ رہا تھا لہٰذا گولیاں لے کر آنا امرِمحال نظر آتا تھا۔ ایک دوست نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بظاہر ناممکن کام کو ممکن کردیا۔ ان کا نام تھا نوراحمد لیکن ان کے ڈیل ڈول کی وجہ سے لوگ انہیں نوراحمد جِن کہتے تھے۔ وہ فرقان فورس میں کمپنی کمانڈر بھی رہے۔ عجیب چیز تھے وہ۔ گولیوں کی شدید ضرورت تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کون جاکر وہاں سے لائے۔ رضاکار مانگے گئے تو انہوں نے اپنا نام پیش کردیا اور امیر صاحب کی منظوری سے وہ اپنے اس اہم لیکن انتہائی نازک مشن پر روانہ ہوگئے۔ ان کے پاس ایک پستول تھا۔ وہ بغیر پوچھے اس گھر کے اندر داخل ہوگئے۔ مکان اب ایک ہندو خاندان کے پاس تھا لیکن اس وقت صرف خاتونِ خانہ اور ایک چھوٹا بچہ گھر پر تھا۔ نوراحمد جِن نے بچے کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا اور ماں سے کہا کہ خبردار بولنا نہیں، کوئی کدال ہے تو لائو۔ اس نے کہا کدال تو ہمارے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا جا کر کہیں سے لے آئو لیکن اگر کسی کو میرے بارے میں بتایا تو تمہارے بچے کی خیر نہیں۔ وہ بے چاری ممتا کی ماری باہر گئی اور کدال لے آئی۔ بچہ انہوں نے پاس بٹھا لیا،پستول ساتھ رکھ لی اور زمین کھود کر بکس باہر نکال لیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اسے اٹھایا کیسے جائے۔ باہر سپاہی پھر رہے تھے۔ نوراحمد نے اس عورت سے کہا کہ کوئی ٹرنک لے کر آئو۔ وہ بے چاری ٹرنک لے آئی۔ انہوں نے اس میں گولیاں رکھیں۔ وزنی ہونے کی وجہ سے ٹرنک ان سے اکیلے اٹھایا نہیں جارہا تھا۔ انہوں نے عورت سے کہا کہ میرے سر پر رکھوائو۔ اس نے سر پر رکھوا دیا۔ بچہ انہوں نے بغل میں لیا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے اپنی چادر ٹرنک پر ڈالی۔ اس بے چاری نے اس معاملہ میں بھی ان کی مدد کی۔ وہ بچہ بغل میں اور ٹرنک سر پر رکھ کر چل پڑے۔ ساتھ ساتھ وہ عورت چلتی رہی۔ جب ہوسٹل کے گیٹ پر پہنچ گئے تو بچہ اسے پکڑادیا، اس سے اپنی بدتمیزی کی معافی مانگی اور اسے جانے کی اجازت دے دی۔

اسی زمانے کی بات ہے مردُولاسارا بائی جو معروف اِنڈیپینڈینس اَیکٹیوِسٹ اور سیاستدان تھیں قادیان آئیں۔ ڈپٹی کمشنر اور کچھ سیاسی لوگ بھی ہمراہ تھے۔

میں مردُولا سارابائی کے سامنے پیش ہوگیا اور کہا میڈم! اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ عرض کروں۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں! کیوں نہیں۔ میں نے کہا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ قادیان میں حالات پُرامن ہیں اور یہاں کسی کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن واقعۃً یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس کا ایک ثبوت آپ کے سامنے موجود ہے۔

اس وقت میرا سرننگا تھا، جوتا پھٹا ہوا تھا، پینٹ میل کچیل سے اَٹی پڑی تھی اور قمیص خستہ حال تھی۔ میں نے کہا میری طرف دیکھیں، میں گورنمنٹ کالج، لاہور کا اولڈ بوائے ہوں لیکن کیا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ میں وہاں کا پڑھا ہوا ہوں؟ انہوں نے میرا حلیہ دیکھا اور کہاہاں! تم میں گورنمنٹ کالج والی تو کوئی بات نظر نہیں آ رہی۔ میں نے کہا میں تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرر ہوں لیکن کیا میں آپ کو لیکچرر نظر آتا ہوں؟ میں نے اپنا یہ حلیہ آپ کی آمد کا سن کر نہیں بنایا۔ مجھے تو علم ہی نہ تھا کہ آپ تشریف لا رہی ہیں۔ میرا یہ حلیہ حالات نے بنا دیا ہے۔ مردُولا سارابائی نے اپنے ساتھیوں کو بہت ڈانٹا اور کہا دفع ہوجائو، پرے جاکر کھڑے ہو جائو۔ وہ سب پرے ہوگئے۔ ان کا کوئی سرکاری سٹیٹس نہیں تھا لیکن انہوں نے سرکاری عہدیداروں کو دھتکار دیا۔ ہم نے ان کو بتایا کہ دیکھئے یہاں کیا ہو رہا ہے! ہم یہاں یوں گِھرے بیٹھے ہیں۔ بہرحال انہوں نے ہمارے ساتھ حسنِ سلوک کیا۔

اب ہجرت کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لیکن یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ کب اور کیسے جائیں۔ حضرت مولانا عبدالرحیم نیّرنے استخارہ کیا تو انہیں الہام ہوا ’’ مَن میں مت گھبرائو احمد۔ چنتا تنی نہ لائو احمد۔ دوار کا ناتھ آئیں گے۔‘‘انہوں نے اس الہام کی یہ توجیہ کی کہ ان شاء اللہ ہم جہاں بھی جانا چاہیں گے بحفاظت پہنچ جائیں گے۔

قادیان پر حملہ ہوا تو اس رات ریڈیو پاکستان نے اچانک اپنی خبریں روک کر کہاحضرات! اب ایک اعلان سن لیجئے۔ حضرت امام جماعت احمدیہ کا پیغام جماعتِ قادیان کے نام۔ مجھے اب تک یاد ہے یہ خبریں شکیل احمد پڑھ رہا تھا۔ وہ خبریں بڑی لَے سے پڑھتا تھا اور اس کے بعد کوئی اس انداز میں خبریں نہیں پڑھ سکا۔حضور نے اپنے پیغام میں کہا تھاہمیں علم ہوا ہے کہ آپ پر حملہ ہوگیا ہے اور آپ دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ہمارا آپ کو پیغام یہ ہے کہ جب تک مسلمان فوج آپ کو لینے کے لیے نہ آئے آپ نے کسی صورت قادیان نہیں چھوڑنا۔

اس سے ایک دو روز پہلے کی بات ہوگی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے یاد فرمایا۔ کہنے لگے کہ آپ کی طرف سے جو رپورٹیں آتی ہیں میں آگے بھجوادیتا ہوں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں، ہم قادیان میں یہ کریں گے اور وہ کریں گے لیکن کیا آپ کو پتا ہے (یہ کہتے ہوئے میاں صاحب کی آواز بھرّاگئی) کہ ہم نے قادیان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں نے کہانہیں، مجھے تو اس بات کا علم نہیں۔

جب قادیان میں فوج آگئی تو حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد نے مجھے کہا کہ اب ملٹری آ گئی ہے۔ ان سے پوچھو کہ کیا ہم ان کے لیے کچھ کمروں اور میز کرسیوں کا انتظام کردیں۔ وہ صوبیدار تھا یا شاید کچھ اور۔معلوم ہوتا ہے حساس آدمی تھا۔ کہنے لگا ہم قادیان کا نام سنتے تھے۔ اب آکر دیکھا ہے۔ آپ کی تو بادشاہی لُٹ گئی ہے۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم آپ سے دفتروں یا میزوں کرسیوں کا مطالبہ کرتے پھریں۔

میں قادیان سے روانہ ہونے والے آخری سے پہلے قافلہ میں جو بلوچ رجمنٹ کے ایک دستہ کی حفاظت میں لاہور پہنچا تھا شامل تھا لیکن اس سے پہلے کہ میں اس سفر کے کچھ حالات بیان کروں یہ عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ قافلے کی روانگی سے پہلے جب لاہور سے آمدہ ڈاک کھولی گئی تو اس میں مرزا منور احمد کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایک خط تھا۔ حضور نے تحریر فرمایا تھا کہ میں نے ناصر کو دو خط لکھے ہیں لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ممکن ہے جواب دیا ہو لیکن مجھ تک نہ پہنچا ہو۔ اب میں تمہیں لکھ رہا ہوں کہ پروفیسر محمد علی کو فوراً لاہور بھجوا دو۔ اسے لاہور نہ بھیجنا سلسلے کے مفاد سے غداری ہے۔ میاں صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں یہ خط پڑھ لوں۔ میں نے خط پڑھا۔ کہنے لگےآپ فوراً لاہور روانہ ہوجائیں۔ میں نے کہا میاں صاحب مجھے اتنی تو مہلت دیںکہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر دعا کرلوں۔ میرے ساتھ دو تین آدمی گئے۔ ہم نے وہاں دعا کی۔ واپس آئے تو قافلہ روانہ ہوگیا۔

آپ کو بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر محمد عبداللہ جو میاں بشیر احمد، پاسپورٹ آفیسر، کوئٹہ کے والدِبزرگوار اور ہمارے کالج کے میڈیکل آفیسر تھے بکثرت ہمارے پاس آتے رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے دو چیزیں تحفۃً دے رکھی تھیں۔ ان میں سے ایک تو جاپانیوں کی سمورائی سورڈ (samurai sword) تھی جو انہیں کسی جرمن فوجی افسر نے ازراہِ محبت تحفۃً پیش کی تھی اور دوسرا ایک پستول۔ سمورائی سورڈ کی حیثیت تو ایک ڈیکوریشن پِیس سے بڑھ کر نہ تھی لیکن پستول اصل تھا تاہم اسے کبھی چلانے کا موقع نہ آیا تھا۔ میں یہ دونوں چیزیں ساتھ اٹھائے پھر رہا تھا اور مجھے یہ فیصلہ کرنے میں دقّت پیش آ رہی تھی کہ میں ان کا کیا کروں۔ فیصلہ ہوا کہ انہیں یہیں چھوڑ دیا جائے چنانچہ میں نے یہ دونوں چیزیں وہیں چھوڑ دیں۔

میری بے سروسامانی دیکھ کر مرزا مجید احمد نے اپنی ایک شلوار مجھے دے دی اور صوفی محمد ابراہیم جو بعد میں تعلیم الاسلام ہائی سکول، ربوہ کے ہیڈماسٹر رہے کے ایک بیٹے نے جس کا نام حمید یا شاید ناصر تھا اور ہماری واٹر پولو ٹیم کا ممبر تھا مجھے اپنا کرتہ دے دیا۔ یہ کرتہ مجھے تنگ اور چھوٹا تھا چنانچہ وہ شلوار کے نیفے سے بھی اونچا رہتا تھا۔ میں اسے پہن کر بہت شرمندگی محسوس کرتا تھا چنانچہ مرزا منور احمد نے مجھے ایک اچکن مہیا کردی۔ سرخ رنگ کی بڑی خوبصورت اچکن تھی۔اس میں سفید دھاریاں تھیں۔ حیدر آباد دکن کی سلی ہوئی تھی اور اس پر بڑے بڑے تکونے بٹن لگے ہوئے تھے تاہم مجھے یہ بہت کھلی تھی چنانچہ اگر میں بٹن بند کرتا تو میرا جسم اچکن کے اندر ہلتا ہوا نظر آتا تھا اور اگر بٹن نہ بند کرتا تو بے پردگی سی ہوتی تھی۔ اب صرف سر ننگا رہ گیا تھا چنانچہ کیپٹن شیرولی نے اپنی بندھی بندھائی لُنگی مجھے دے دی۔

جب میں قادیان سے روانہ ہورہا تھا تو کچھ مسوّدات اور تبرکات اس تاکید کے ساتھ میرے حوالہ کیے گئے کہ میں اپنی جان سے زیادہ ان کی حفاظت کروں گا اور لاہور پہنچ کر حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کے حوالہ کردوں گا۔

مجھے یاد ہے فوجی ڈاج کوجس میں مجھے جگہ ملی نصراللہ نامی ایک افسر چلا رہے تھے جن کے متعلق بعد میں پتا چلا کہ احمدی تھے۔

امرتسر کے راستے میں آنے والی نہر لاشوں سے َاٹی پڑی تھی۔ ہمارے فوجی ہمیں بٹالے سے تو نکال کر لے گئے لیکن امرتسر میں ہمیں روک لیا گیا۔ ہندوستانی فوجی ہماری تلاشی لینا چاہتے تھے لیکن ہمیں ہدایت تھی کہ ہم نے تلاشی نہیں دینی چنانچہ ہم نے کہا کہ ہم کسی صورت میں تلاشی نہیں دیں گے۔ وہ ہمیں خالصہ کالج، امرتسر میں اپنی پوسٹ پر لے گئے۔ نصراللہ اس موقع پر ڈٹ گئے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اگر آپ بہت ہی ضد کرتے ہیں تو ہم تلاشی دے دیں گے لیکن یاد رکھیں آج کے بعد پاکستان سے آپ کا بھی کوئی قافلہ بغیر تلاشی کے نہیں آنے دیا جائے گا۔ وہ سکھ ان کی بات سمجھ گیا اور کہنے لگاٹھیک ہے جائو چنانچہ ہم لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔

مجھے یاد ہے ہمارا قافلہ جودھامل بلڈنگ اور رتن باغ کی درمیانی سڑک پر آکر رکا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ اب میں اپنا سامان ہاتھ میں پکڑے برلبِ سڑک بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ جب تک حضورکے پرائیویٹ سیکرٹری نہیں آجاتے میں یہاں سے نہیں اٹھوں گا۔ کچھ انتظار کے بعد میاں محمد یوسف(۱۸) آگئے۔ بڑے بزرگ آدمی تھے۔ انہوں نے مجھ سے تبرکات والی پیٹی وصول پالی تو مجھے اطمینان ہوا۔ پتا نہیں پیٹی میں کیا تھا لیکن بہرحال میں نے انہیں دے دی۔ میری کسی ڈائری میں اب تک ان کے دستخط موجود ہوں گے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button