یادِ رفتگاں

محترمہ سیدہ مریم صدیقہ بیگم صاحبہ

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

خاکسار کی عمر بمشکل 3، 4 برس کی ہوگی۔ ایک رات جب کہ چاند اپنے جوبن پر تھا میری والدہ محترمہ نےچارپائی پر لیٹے لیٹے مجھے آواز دی کہ میری ٹانگیں دباؤ۔ میری والدہ کو جوانی سے ہی گھٹنوں اور ٹانگوں میں درد کی تکلیف رہتی تھی جسے دبانے سے کچھ آرام آجاتا تھا۔چنانچہ خاکسار اپنے بچپن کے انداز میں والدہ کی ٹانگیں اور پاؤں دبانے لگ گیا۔نہ جانے وہ میرے لیے اس وقت کیا دعائیں کر رہی ہوں گی۔ اچانک مجھے کہنے لگیں کہ شمشاد میں نے تمہیں واقف زندگی بنانا ہے۔مجھے تو واقفِ زندگی کے معنی کا پتا نہیں تھا۔میں نے پوچھا اماں وہ کیا ہوتا ہے؟ کہنے لگیں کہ ہم تمہیں پڑھائیں گے، لکھائیں گے، جب تم دس جماعتیں پڑھ لو گے تو جماعت کے حوالہ کر دیں گے اور پھر حضور آپ کو جو کام کرنے کو کہیں گے وہی آپ نے کرنا ہوگا۔ یہ واقف زندگی کی مختصر جامع و مانع تعریف تھی جو میری والدہ مرحومہ نے مجھے بتائی اور پھر دعاؤں کے ساتھ ہمیشہ اپنی اس خواہش کی آبیاری کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ کے درجات بلند فرمائےجنہوں نے اس دن مجھے روحانی جنم دیا۔میں نے وقف کیااور اللہ تعالیٰ آج تک سلسلہ کی خدمت کی توفیق دے رہا ہے۔ یہ میری والدہ کی خواہش، کوشش، تربیت اور دعائیں ہیں۔الحمد للہ ثم الحمد للہ۔یہ واقعہ ہمارے گاؤں چنی گوٹھ کاہے ۔ جو ضلع بہاولپور میں واقع ہے۔

خاندانی حالات

میری والدہ کی پیدائش34-1933ءمیںانبالہ چھاؤنی میں ہوئی۔ آپ کے والد صاحب کا نام سید احمد حسن بخاری تھا جو پوسٹ ماسٹر تھے۔نہایت شریف النفس اور درویشانہ طبیعت کے مالک تھے۔غالباً 56-1955ء میں گولیکی ضلع گجرات میں وفات پائی اور پیروں کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

آپ کی والدہ یعنی میری نانی جان کا نام مخدوم النساء تھا جوانبالہ کے قریب پھوسکا نامی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں۔ گولیکی میں انہوں نے تین نسلوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا۔ بہت عبادت گزار، صوم و صلوٰۃ کی پابند، خدا رسیدہ بزرگ خاتون تھیں۔میری والدہ سیدہ مریم صدیقہ کے دو بھائی اور ایک بہن بھی تھیں۔

میری والدہ کے دادا جان کانام حضرت سید حاجی حکیم محمد ابراہیم بخاری تھا۔آپ کو اور آپ کے چھوٹے بھائی حضرت حاجی حکیم سید محمد شاہنواز بخاری صاحبؓ کو صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہونے کا شرف حاصل تھا۔ میری والدہ کی پیدائش سے پہلے ان کے آٹھ یا نو بہن بھائی بہت چھوٹی عمر وں میں وفات پاگئے تھے۔ والدہ صاحبہ اور ان کے بھائی سید خورشید بخاری صاحب مرحوم یکے بعد دیگرے دو بچے زندہ رہے۔طبعاً دادا کو ان بچوں سے بہت لگاؤ تھا اور بہت نازو نعم میں ان کی پرورش ہوئی۔

شادی اور اولاد

میری والدہ بتاتی تھیں کہ ان کی عمر کوئی 17، 18 برس ہوگی جب ان کی شادی میرے والد محترم سید شوکت علی شاہ صاحب کے ساتھ گولیکی ضلع گجرات میں ہوئی۔ حق مہر 500 روپے تھا۔ والدہ مرحومہ سے ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔

ہماری پرورش گاؤں ہی میں ہوئی۔ تھوڑے عرصہ کے لیے ہماری تعلیم کے لیے ابا جان نے احمد پور شرقیہ میں ایک چھوٹا سا کچا مکان کرایہ پر لیا۔

اس دوران میری روحانیت بڑھانے اور مجھے جامعہ میں تعلیم دلانے اوروقف کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے میری والدہ صاحبہ کی دعا ایک اور رنگ میں پوری فرمائی اور وہ اس طرح کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ 1965ء میںسندھ تشریف لے گئےتو سندھ سے واپسی کے سفر کے لیے آپؒ نے چناب ایکسپریس کے ذریعہ سفر اختیار فرمایا۔جب جماعتوں کو پتا چلتا تو ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو کر حضورؒ کی زیارت کرتیں۔ خاکسار نے اس سے قبل حضورؒ کو نہ دیکھا تھا اور نہ ہی شرف زیارت نصیب ہوا تھا۔

ہم چنی گوٹھ ضلع بہاولپور میں رہتے تھے اور چنی گوٹھ میں چناب ایکسپریس کا ایک منٹ کا سٹاپ تھا۔چنانچہ اباجان نے ارادہ کیا کہ ہم سب یہاںحضورؒ کی زیارت کریں گے لیکن پھر خیال آیا کہ ایک منٹ توکمپارٹمنٹ تلاش کرنے میں ہی گزر جائے گااس لیے سوچا کہ کسی بڑے سٹیشن پر چلے جائیں لیکن وہ بھی ناممکن سا معلوم ہوا۔ پھر ابا جان نے چنی گوٹھ کے سٹیشن ماسٹر سے بات کی کہ ہمارے خلیفہ تشریف لارہے ہیں اس لیے اگر ٹرین کچھ زیادہ وقت کے لیے رک جائے جس پرسٹیشن ماسٹر نے حامی بھر لی۔چنانچہ مقررہ تاریخ آنے پر ہماری والدہ صاحبہ نے ہم سب بہن بھائیوں کو تیار کیا نہلایا اور اچھے کپڑے پہنائے اور پیدل دو میل کا سفر طے کر کے (اپنی زمین سے اسٹیشن تک کا راستہ تقریباً 2میل بنتا ہے) ہم ریلوے سٹیشن پر پہنچے۔ سٹیشن ماسٹر صاحب نے ابا جان کو پتا کر کے بتا دیا تھا کہ فلاں نمبر ڈبہ کس جگہ ہوگا۔ چنانچہ ٹرین آئی اور ہم قریباً صحیح جگہ کھڑے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے کھڑکی سے ہمیں دیکھا اور میری والدہ صاحبہ نے حضورؒ کو ہم بچوں کا تعارف کرایا اور میرے متعلق حضورؒ کو عرض کی کہ یہ میرا بیٹا ہے اور میں اسے وقف کرنا چاہتی ہوں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بڑے پیار بھرے انداز میں اچھا کہہ کر گاڑی کی کھڑکی سے اپنا ہاتھ باہر نکال کر خاکسار کے سر پر شفقت کے ساتھ پھیرا اور خاکسار کو دعا دی۔

مرحومہ کے چند اوصاف

والدہ مرحومہ اپنے گھر بڑے ناز ونعم میں پلی بڑھی تھیں۔ جب شادی ہوئی اور پھر ادھر پارٹیشن ہوئی جس کی وجہ سے سب ہجرت کرنے والوں کو بشمول ہمارے بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ عرصہ گولیکی ضلع گجرات میں رہیں۔ اور پھر جب وہاں ہمارے دادا جان اور اباجان کا کاروبار نہ چلا تو چنی گوٹھ آکر زمین خرید ی اور وہاں آباد ہوگئے۔یہ زمین بھی آباد نہ تھی۔ بس ریگستان اور ٹیلوں کی شکل میں جگہ تھی۔ بہرکیف یہاں پر رہے۔ اور بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہماری والدہ بتاتی ہیں کہ کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا۔ حتی کہ آٹا بھی ناپید تھا۔ کچھ غربت بھی تھی۔ گندم کا دلیہ ابال ابال کر،اگر کبھی گڑ مل جاتا تو اسے ڈال لیتے ورنہ نمک ڈال کر دلیہ کھاتے تھے یا کہیں کسی گھر سے لسّی مل جاتی تو دلیہ میں ڈال لیتے۔ اور کبھی باجرہ وغیرہ مل جاتا تو اسے ابال کر پکالیتے تھے۔بس یہی غذا ہوتی تھی۔

میری والدہ صاحبہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے ہم سب بھائی بہنوں کےپرانے کپڑے یہاں تک کہ ہمارے پوتڑے بھی سنبھال کر رکھے ہوئے تھے اور ہمیں وقتاً فوقتاً صندوق کھول کر دکھاتی تھیں۔میری بہن سیدہ تنظیم النساء نے مجھے بتایا کہ والدہ کی وفات کے وقت ایک صندوق میں ہم سب بھائی بہنوں کے وہ کپڑے جو ہماری پیدائش کے بعد 4، 5 سال تک ہم نے پہنے تھے اسی طرح رکھے ہوئے تھے۔ اور میں نے بھی متعدد مرتبہ امی سے وہ کپڑے اپنے بھی اور دوسرے بھائیوں کے بھی دیکھے۔ بعض اوقات تو ہم امی سے کہتے تھے کہ آپ نے یہ کیا رکھا ہوا ہے۔ یہ بھی بھلاکوئی سنبھالنے والی چیزیں ہیں۔ امی اس کے جواب میں کہا کرتی تھیںکہ بظاہر تو یہ سنبھالنے والی چیزیں نہیں ہیں لیکن جب تم انہیں دیکھتے ہو آخر تمہارے اندر یہ چیزیں کچھ تو احساس پیدا کرتی ہیں کہ تم آخر کیا تھے؟ اور کیا ہو؟

تنگی حالات کے پیش نظر متعدد مرتبہ ابا جان کے کہنے پر انہیں اپنا زیور بھی دیا تا کہ بیچ کر گزارے کی صورت نکل آئے۔یہ سب باتیں مجھے اکثر بتایا کرتی تھیں کہ خاندان کیا ہے اور کس طرح گزارا کرنا ہوتا ہے۔

جب میں دسویں جماعت میں تھا تو مجھے چنی گوٹھ سے احمدپور شرقیہ شہر آنا ہوتا ۔ چنانچہ احمد پور شرقیہ میں ایک بازار میں ایک کنواں تھا جس سے سب لوگ پانی لیتے تھے۔ اس کنویں کے اوپر چھت ڈال کر کنویں کے مالک نے ایک کمرہ بنایا ہوا تھا۔ وہ کمرہ خاکسار کو 6 روپے کرایہ پر ملا۔ سوموار سے ہفتہ تک میں وہاں رہتا۔اس عرصہ میں میری والدہ اپنی پالتو مرغیوںکے انڈے جمع کرتی رہتی تھیں۔جب اتوار کی شام میں واپس آتا تو وہ انڈے مجھے دے دیتیں کہ انہیں بیچ کر اپنی پڑھائی، مکان اور کھانے پینے کے خرچ کا انتظام کر لیا کرو۔

میری والدہ مرحومہ قرآن شریف بہت عمدہ پڑھتی تھیں۔ آپ نے میرے اباجان کو قرآن شریف پڑھایا ۔ ابا جان اکثر گھر میں خوشی کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ مجھے تو صدیقہ نے قرآن شریف پڑھایا ہے۔

آپ کی آواز بہت اچھی تھی۔ گھر میں اکثر نظمیں اور دوسرے شعرا کی غزلیں بھی گنگناتی رہتی تھیں اور ریڈیو پر شعرا کے کلام وغیرہ بھی بڑے شوق سے سنتی تھیں۔

جمعہ کے دن امی جان پلاؤ بنایا کرتی تھیں۔ جمعہ کے دن بہت اہتمام کرتی تھیں، خود بھی اور سارے افراد خانہ کو بھی جمعہ کی طرف خاص توجہ دلاتیں۔ پہلے پہنچتیں اور خاصا لمبا وقت نوافل ادا کرتی تھیں۔ اور کہتی تھیں یہ بھی عید ہے۔ اس لیے ہر جمعہ کے دن بلاناغہ گوشت کا پلاؤ بناتیں جو بہت شوق سے کھایا جاتا۔

جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کےبعدخاکسار کی لاٹھیانوالہ ضلع فیصل آباد میں تقرری ہوئی۔ جب لاٹھیانوالہ سے تبدیل ہو کر واپس مرکز ربوہ آنے لگا تومیں احمدی اور غیر احمدی دوستوں کے ساتھ بس اڈہ کی طرف پیدل جارہا تھا۔ ابھی نصف راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ پیچھے سے ایک شخص کی آواز آرہی تھی شاہ صاحب ذرا رک جاؤ۔ میں نے مڑکر دیکھا کہ ایک شخص اپنے ایک چھوٹے بچے کے ساتھ بھاگا آرہا ہے۔جب وہ نزدیک آیا تووہ اپنے چار یا پانچ سالہ بیٹے جمیل احمد کوساتھ لیے ہوئے تھا ۔مجھے کہنے لگا کہ شاہ صاحب لو میرا بیٹا ساتھ لے جاؤ اب یہ تمہارا ہے۔ مجھے بات کی کچھ بھی سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں میں تو نہیں لے جاسکتا۔ کہنے لگا کہ یہ اب میںآپ کو دیتا ہوں اسے سلسلہ کے کاموں میں لگا لیں۔

ربوہ میں میری والدہ اور چھوٹا بھائی اور چھوٹی بہن کرایہ کے مکان میں رہتے تھے۔ میں نے گھر جا کر امی سے کہا امی اب یہ بھی بیٹا ہی ہے اس کو آپ نے رکھنا ہے اور ساری بات بتائی۔ اب اس بچے کی عمر ہی کیا تھی کہ میں اس کووقف کر دیتا یا سلسلہ کے سپرد کر دیتا۔خاکسار نے اپنی امی سے کہا کہ پہلے اس کو سکول میں پڑھاتے ہیں۔ چنانچہ اس کو سکول میں داخل کرادیا اور یہ ہمارے گھر میں بچوں کی طرح رہنے لگا۔ اس نے غالباً پانچویں تک سکول میں تعلیم حاصل کی۔ پھر خاکسار نے سوچا کہ اس کو حافظ کلاس میں داخل کرا دیتا ہوں۔ چنانچہ اس کو حافظ کلاس میں داخل کرایا گیا۔ اس کے والدین بہت خوش ہوئے اور اس طرح یہ بچہ ہمارے گھرمیں پلا بڑھا اور اس ساری جدوجہد میں میری والدہ کی کاوش ، تربیت اور حوصلہ تھا کہ کس طرح بچہ کو اپنے گھر رکھا اور اس کی تربیت کی۔ میری تو اس کے بعد کرونڈی ضلع خیرپور میں تقرری ہوگئی اور بعد ازاں گھانا میںلیکن عزیزم جمیل احمد میری والدہ کے پاس ہی رہا۔ ہمارے گھر میں میرے دیگر بھائی بہن اور ایک کزن بھی رہتی تھیں۔ سب نے اس بچے کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں جیسا سلوک کیا۔

اس وقت عزیزم جمیل احمد جرمنی میں ہوتا ہے۔میں نے اس سے امی کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ امی جان بہت نمازیں اور نوافل پڑھتی تھیں اور بہت دعا کرتی رہتی تھیں۔ میں جب کہتا کہ مجھے بخار ہے یا سر درد ہے یا طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو فوراً اپنے پاس بلاکر بٹھاتیں پیار کرتیں اور میرے منہ اور جسم پر دعا کر کے پھونکتی رہتیں۔ میں ان کی دعا سے اور ان کے دم کرنے سے پھر اللہ کے فضل سے ٹھیک بھی ہوجاتا تھا۔ یہ میں نے بہت مرتبہ آزمایا ۔وہ ایک ولی اللہ تھیں۔

ہمارا گھر ربوہ میں ہونے کی وجہ سے ہمارے کچھ کزن بھی ہمارے گھر ربوہ میں تعلیم کی خاطر رہتے تھے ان میں سے ایک ہماری چچا زاد بہن سیدہ پروین ہیں۔ تعلیم کی خاطر وہ بھی میری امی کے پاس سالہا سال رہی ہیں۔ ان سے جب میں نے امی جان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایاکہ تائی اماں (وہ میری والدہ کو تائی اماں کہتی ہیں) کو میں نے ہمیشہ نماز وقت پر پڑھتے دیکھا۔نمازیں وقت پر نہ پڑھنا ان کو انتہائی پریشان کرتا تھا۔اسی طرح وہ باوجود بیمار ہونے کےنماز تہجد بھی بڑی باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں ۔ تہجد میں بھی ناغہ نہ کرتی تھیں ۔مجھے بھی انہی سے تہجد کی عادت پڑی ہے کیونکہ سردیوں میں وہ مجھے ہی جگاتی تھیں تاکہ انہیں وضو کے لیے پانی گرم کر کے دوں۔ تائی اماں عشاء کی نماز بہت لمبی پڑھتی تھیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ میں تو جلدی سے عشاء کی نماز پڑھ لیتی تھی اور میں نے سونے سے پہلےان کے پاؤں دبانے ہوتے تھے لیکن ان کی نماز اتنی لمبی ہوجاتی تھی کہ مجھے بھی نیند آنے لگتی تھی۔ نماز جمعہ ہمیشہ مسجد اقصیٰ میں پڑھنے جاتیں اور نماز جمعہ کے بعد بہشتی مقبرہ ضرور جانا ہوتا تھا۔اسی طرح رمضان المبارک میں بھی درس سننے باقاعدگی کے ساتھ مسجد مبارک جاتی تھیں اور ہمیں بھی ساتھ لے کر جاتیں۔

٭…میں نے اپنی بڑی باجی سیدہ تنظیم النساء سےپوچھا کہ آپ کو امی جان کی کون کون سی باتیں یاد ہیں تو کہنےلگیں کہ مجھے بچپن کی یہ بات یاد ہے کہ وہ ہم تینوں بہن بھائیوں کو رات سونے سے پہلے نماز یاد کرایا کرتی تھیں۔کہنے لگیں مجھے ان کے پاس زیادہ عرصہ رہنے کا موقع نہیں ملا۔لیکن میری شادی کے بعد مجھے سسرال میں رہنے کی چھوٹی چھوٹی باتیں جو میرے بہت کام آئیں، بتاتی تھیں۔پھر میرے ایک بھانجے مصطفیٰ احمد کو جواس وقت جرمنی میں ہیں۔ میری والدہ نے اپنے پاس رکھا اور اسے قرآن کریم حفظ کرایا۔وہ جب حافظ کلاس سے واپس آتا تو روزانہ کی بنیاد پر اس سے قرآن کریم سنتی تھیںتاکہ وہ بھول نہ جائے۔

٭… میں نےسید حسن طاہر بخاری سےجو میرے ماموں سید خورشید بخاری صاحب کے صاحبزادے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بطورواقف زندگی جرمنی میں خدمات سلسلہ بجا لارہے ہیںپوچھا کہ آپ کو اپنی پھوپھو کے بارے میں کچھ یاد ہے تو انہوں نےدرج ذیل آپ کی باتیں اور خصوصیات لکھ کر بھجوائیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کا پھوپھو سے تعلق 1975ء میں شروع ہوا جب خاکسار ا پنے والد صاحب کے ساتھ گولیکی سے ربوہ شفٹ ہوا۔1991ء میں ان کی وفات تک یہ تعلق بڑھتا ہی رہا۔ اس دوران ان کی جو خوبیاں خاکسار کے دل و دماغ پر نقش ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

(1)صفائی اور طہارت و پاکیزگی کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔

(2)نمازوں کی بروقت اور بہت خشوع و خضوع اور وقت کے ساتھ ادئیگی۔ تہجد کے علاوہ نماز اشراق اور نوافل کا باقاعدگی سے اہتمام۔

(3)قرآن کریم کی باقاعدگی کے ساتھ تلاوت کے علاوہ ترتیب کے ساتھ تلاوت کے بعض مخصوص سورتوں اور حصوں کی روزانہ تلاوت۔

(4)تسبیح و تحمید، ذکر الٰہی اور استغفار میں بہت وقت گزارتی تھیں۔

(5)جب تک صحت نے اجازت دی روزے کا اہتمام کرتی تھیں بلکہ نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔

(6)نماز جمعہ باقاعدگی سے ادا کرنے جاتی تھیں۔

(7)رمضان المبارک میں درس قرآن باقاعدگی سے سننے جاتی تھیں۔

(8)اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا۔ اس غرض سے مختلف جگہوں پر رہائش اختیار کی۔

(9)واقفین زندگی کا بہت احترام اور قدر کرتی تھیں۔ اسی وجہ سے بھائی شمشاد سے سب سے زیادہ پیار تھا۔ ان کے دوستوں اور کلاس فیلوزکو بھی انہیں کی طرح عزیز رکھتی تھیں۔ خاکسار کے ساتھ بھی واقف زندگی ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک تھا۔ گھر میں کوئی بھی اچھی چیز آتی یا پکتی خاکسار کے لیے علیحدہ سے سنبھال دیتیں اور اگر ہفتے بعد بھی جامعہ سے آتا تو میرا حصہ مجھے مل جاتا۔

(10)خلافت سے بہت محبت تھی۔خاندان حضرت اقدس ؑ، بزرگانِ سلسلہ، صحابہ و صحابیات کا بہت احترام تھا اور گاہے گاہے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرتی رہتی تھیں۔

٭…میرے چھوٹے ماموں مکرم بشیر بخاری صاحب کی بیٹی عزیزہ نفیسہ بخاری نے جو آج کل اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ ملائیشیا میں مقیم ہیںامی کے بارےمیں بتایا کہ میں چھوٹی سی تھی جب پھوپھو کی وفات ہوئی۔اور جب میری امی کی وفات ہوئی تب میں 13 سال کی تھی۔ ایک دفعہ میری امی سخت بیمار تھیں(یعنی میری ممانی) وہ ہسپتال میں داخل تھیں جو راولپنڈی میں تھا۔ میری امی کا کینسر کا آپریشن تھا جو آٹھ گھنٹے لگاتار ہوا۔ پھوپھو 8 گھنٹے تک ہسپتال کے ایک کونے میں سجدہ ریز رہیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ آپریشن ہوگیا ہے تب سجدے سے سر اٹھایا۔ اور اپنے بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگیں کہ فکر نہ کرو شاہدہ ٹھیک ہوجائے گی۔اس کے بعد آپ دو سال زندہ رہیں۔وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کی وفات کے دن بھی انہوں نے صبح اٹھ کر تہجد پڑھی،سارا دن صفائی میں لگی رہیں۔ اپنے کپڑے وغیرہ دھوئے اور پھر اچانک انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ وفات پاگئیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔

٭…میری بیٹی سیدہ صبیحہ بشریٰ نے اپنی دادی جان کے حوالے سے بتایا کہ ایک خوبی ان کی یہ تھی کہ وہ کسی قسم کے ضیاع کو بالکل اچھا نہ سمجھتی تھیں۔ اگر ہمیں یا گھر میں کسی کو ڈانٹ پڑی تو اس بات پر کہ چیزیں کیوں ضائع کیں۔ مثلاً روٹی کیوں بچ گئی۔ سالن پلیٹ میں کیوں چھوڑا۔ کیوں پہلے ہی تھوڑا نہ لیا۔ پانی کے ضیاع کو تو بالکل گناہ سمجھتی تھیں۔

گھر میں بہت مہمانداری تھی اور سب کی تواضع اور مہمان نوازی بھی کرتی تھیں۔میں اور طیّبہ دونوں بہت چھوٹی تھیں مگر یہ سب کچھ دیکھتی رہتی تھیں۔آپ گھر میں بچیوں کو دبانے کے لیے کہتی تھیں۔ ہم دونوں چھوٹی ہونے کی وجہ سے دباتے تو رہتے تھے مگر ہمارے اندر اتنی طاقت نہ تھی کہ صحیح طور پر ان کو دباپاتے۔ اس دوران جب ہم آپ کے پاؤں اور ٹانگیں دباتے تو آپ ہمیں مختلف باتیں ، آداب یا خاندانی باتیں بھی ساتھ ساتھ بتاتی رہتیں جو ہمارے لیے مستقبل میں مفید ہوں۔ آپ ہم سے بہت پیار بھی کرتی تھیں اور ہماری فرمائش کو حتی الوسع پورا کرتی تھیں۔

٭… عزیزہ فوزیہ بخاری نےجو میرے بڑے ماموں سید خورشید بخاری کی بیٹی اور مکرم سید حسن طاہر بخاری کی ہمشیرہ ہیں۔ مجھے بتایا کہ پھوپھو جان جہاں بھی رہیںان کا معمول تھا کہ شام کے وقت محلے میں جاتیں، بیماروں کی تیمارداری کرتیں ، بزرگ صحابیات سے ملتیں ان کو دعا کے لیے کہتیں۔ایک اور بات یہ بتائی کہ تلاوت کرتے وقت شروع میں سورہ فاتحہ پڑھتیں پھر تلاوت والا حصہ اور آخر میں تینوں قل اور ختم قرآن والی دعا پڑھتیں۔

٭…میری چھوٹی بہن عزیزہ ناصرہ شفقت نے بتایا کہ امی جان صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ نماز کے لیے الگ لباس رکھا ہوا تھا۔

غیبت ، چغل خوری کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔ اگر ہم میں سے بھی کوئی ایسا کرتا تو فوراً ٹوک دیتی تھیں۔ خود قرآن شریف پڑھی ہوئی تھیں لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے تحریک فرمائی کہ صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پڑھیں اور سیکھیں تو جماعتی طور پر جہاں بھی قرآن کی کلاسز ہوتیں یسرنا القرآن لے کر کلاس میں جاتیں اور شامل ہوتیں۔ گھر والے کہتے بھی کہ آپ کو تو قرآن شریف پڑھنا آتا ہے پھر آپ کیوں جاتی ہیں۔ کہتیں کہ حضورؒ کا ارشاد ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں بھی ثواب ہی ہے۔ اور خلیفہ وقت کی فرمانبرداری ضروری ہے۔

پردہ کا بھی خاص خیال اور اہتمام تھا۔ ٹرین میں خواہ کتنا ہی لمبا سفر کیو ں نہ ہو کبھی برقع نہ اتارا۔اور خواہ موسم کتنا ہی گرم کیوں نہ ہو پردے میں خاص پابندی تھی۔ ہاتھ میں بس پنکھا رکھتیں تھیں ۔ گرمی لگنے پر پنکھا جھل لیتیں۔ لیکن پردے میں جھول نہ آنے دیتیں۔جس رات وفات ہوئی ہے۔ سینے میں درد تھا ایمبولینس بلائی۔جب ایمبولینس میں لٹایا گیا تو ابا جان نے اپنی چادر اوپر ڈال دی، کہنے لگیں نہیں میرا برقع ہی لے کر آؤ۔ ابا جان نے کہا کہ کوئی بات نہیں تمہارے ساتھ فوزیہ بخاری (ان کی بھتیجی) ہے۔ بار بار یہی کہتی رہیں کہ تمہارے ابا نے آج میرا پردہ خراب کر دیا ہے۔

٭…خاکسار کے بڑے بیٹے سید ممتاز احمد نے اپنی دادی جان سیدہ مریم صدیقہ کے بارے میں بتایا کہ وہ میرے لیے ایک رول ماڈل تھیں جس کو میں نے ہمیشہ ایک عظیم خاتون کی طرح دیکھا۔ اور مجھے آپ کو دیکھ کر آپ کے پاس رہ کر جہاں اُن کی بزرگی کا احساس ہوتا تھا وہاں ان کی مسکراہٹ میرے دل کو جیت لیتی تھی۔ میں نے اپنی چھوٹی عمر میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔

٭…خاکسار نے اپنی اہلیہ صفیہ سلطانہ خانم صاحبہ سے پوچھا کہ آپ کا تعلق امی کے ساتھ ایک ساس بہوکا تھا اس لحاظ سے آپ کیا بتائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں شادی ہو کر آپ کے گھر آئی تو میری عمر چھوٹی تھی مجھے تو کھانا پکانا بھی نہ آتا تھا تو امی نے مجھے ہر کام کا طریق سکھایا۔ اور اپنی بیٹیوں کی طرح میرے ساتھ ہمیشہ پیش آئیں۔آپ اتنی صفائی پسند تھیں کہ بعض اوقات تھوڑی سی بھی گندگی انہیں بہت پریشان کرتی تھی۔ اپنے کپڑوں کو خاص طور پر صاف کرتیں۔ خود دھوتی تھیں۔ جب کہ گھر میں ایک بہو، ایک بیٹی، ایک بھتیجی ، ایک بھانجی تھیں۔ اپنے کپڑے بھی کسی سے نہیں دھلواتی تھیں۔ جب تک خود نہ دھو لیں اور خود استری نہ کرلیں ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی ۔

٭…خاکسار کو اللہ کے فضل سے افریقہ میں خدمت دین کا موقع ملا۔اس دَور میں خط وکتابت کے ذریعہ رابطہ ہوتا۔ ابا جان کی طرف سے جب بھی مجھے خط ملتا تو والدہ صاحبہ کی طرف سے السلام علیکم کے علاوہ دعاؤں کا بھی بہت بڑا ذخیرہ ساتھ آتا۔

امی جان اکثربیمار رہتی تھیں۔ جسم میں دردوں کے علاوہ گھٹنوں اور ٹانگوں میں بہت درد رہتا تھا ہر وقت مالش کر کے ٹانگوں اور پاؤں پر درد کی وجہ سے کپڑے باندھے رکھتی تھیں۔لیکن جب میں8سال بعد پہلی مرتبہ افریقہ میں خدمات بجا لاکر چھٹی پر پاکستان آیا اس وقت والدہ صاحبہ ربوہ سے کراچی مجھے لینے کےلیے خود آئیں۔اسی طرح جب امریکہ کے لیے خاکسار کی تقرری ہوئی اس وقت بھی مجھے کراچی تک چھوڑنے آئیں۔اور جب بھی چھٹی پر واپس آتا کراچی لینے آتیں۔

وفات

خاکسار 1991ء میں امریکہ سے دو ماہ کی رخصت پر پاکستان آیا اس دوران ربوہ زیادہ تر امی کے پاس ہی قیام رہا۔واپسی پرحسبِ سابق ابا جان اور امی جان مجھے کراچی تک چھوڑنے آئے۔دو تین دن کراچی گیسٹ ہاؤس میں گزرے۔ میں تو امریکہ چلا آیا۔ ابا جان نے امی جان سے کہا کہ ربوہ جانے سے پہلے میں اپنی زمینوں پر چکر لگا آؤں تم بھی چنی گوٹھ ساتھ ہی چلو۔کہنے لگیں ٹھیک ہے۔ چنانچہ ابا جان امی جان کو لے کر چنی گوٹھ زمینوں پر آگئے۔ ابھی شاید ایک دو دن ہی گزرے ہوں گے تو صبح کے وقت ابا جان سے کہنے لگیں کہ ربوہ چلیں۔ابا جان نے کہا کہ ابھی ایک دو دن ہی ہوئے ہیں ابھی کام باقی ہے۔ ایک دو دن اَور ٹھہریں۔کہنے لگیں کہ نہیں بس ابھی چلیں۔ ابا نے پھر سمجھایا۔ کہنے لگیں کہ نہیں آج ہی اور ابھی ربوہ جانا ہے۔ اس وقت کوئی سواری کا انتظام بھی نہ تھا اورنہ ہی کسی گاڑی کا وقت تھا۔ ابا کہتے ہیں کہ اس معاملہ میں پہلی مرتبہ امی نے اتنا اصرار کیا کہ میرے پاس کوئی گنجائش نہ رہی کہ انکار کروں۔ خیر تیار ہوئے۔خدا تعالیٰ نےگھر سےبس سٹیشن تک جو دو میل کا سفر تھا کسی طرح سے طے کرایا جہاں سے بس میں سوارہوکر سمہ سٹہ تک آئے۔ سمہ سٹہ سے شام کو ایک پسنجر ٹرین فیصل آباد کے لیے چلتی تھی۔اس پر سوار ہوئے اور علی الصبح فیصل آباد پہنچے۔ وہاں سے بس لی اور دن کے 9، 10 بجے ربوہ گھر پہنچ گئے۔

امی جان نے ربوہ پہنچتے ہی بیٹی اور بھتیجی (ناصرہ شفقت اور فوزیہ بخاری) سے پوچھا کہ میری وصیت کا کیا بنا؟امی جان نے وصیت کر دی تھی لیکن فارم کے مکمل ہونے میں کوئی سقم رہ جاتا تھا۔ ہر دو نے یک زبان ہو کر بتایا کہ ابھی منظوری نہیں آئی بلکہ کچھ اور سقم رہ گیا ہے۔بس یہی بات ہوئی۔

آپ نےاپنے سفر سے واپس آتے ہی کپڑے وغیرہ دھوئے، نہائی دھوئیں۔ شام کو نماز اور جو کام کرنا تھا کیا۔ تھوڑی دیر بعد کہنے لگیں کہ پیٹ میں درد ہے۔ ہمسایہ میں ہی میری چھوٹی بہن کی ایک دوست ڈاکٹر ہوتی تھیں انہیں گھر بلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال لے جائیں پھر مکرم ڈاکٹر ظہیر الدین منصور احمد صاحب کو بلایا انہوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ فوراً ہسپتال لے جائیں۔ ہسپتال داخل کر لیا گیا۔ اور بس ایک دو گھنٹے ہی میں خدا کو پیاری ہوگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔یہ تاریخ 28؍اکتوبر 1991ء کی تھی۔

جنازہ کے بعد عام قبرستان میں امانتاً تدفین ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور کچھ دنوں ہی میں وصیت کی منظوری آگئی ۔آپ کی آخری خواہش یہی تھی کہ ربوہ میں بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوں۔چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی طرف سے تعزیتی فون

خاکسار کو پاکستان سے آئے ہوئے ابھی دو چار دن ہی ہوئے تھے کہ اچانک امی جان کی وفات کی ایک عزیز کے ذریعہ اطلاع ملی۔ انہوں نے تعزیت کا فون کر کے میسج چھوڑا ہوا تھا۔ خاکسار کو اس خبر پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ خاکسار نے کوشش کی کہ کسی طرح ربوہ فون ہوجائے۔ ان دنوں میں ہر گھر میں تو فون نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے کوارٹر تحریک جدید کے ساتھ ہی مکرم مرزا ممتازصاحب کا گھر یعنی کوارٹر تھا ان کے گھر فون تھا۔خاکسار نے کال بک کرائی اور فون کیا ان سے امی کا پوچھا انہوں نے کہا کہ میں آپ کے گھر سے کسی کو بلواتا ہوں۔چنانچہ ابا جان ان کے گھر آئے اور فون پر کہا انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میں تو غم کے مارے نڈھال ہوگیاکہ امی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔دعائیں کرنےوالے وجود سے ہم جدا ہوگئے۔ اور ایک دم میں امی جان کی ساری شفقتیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔میں ڈیٹن میں تھا۔ خاکسار نے محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب امیر جماعت امریکہ کو اطلاع دی۔ آپ نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ اور جماعت کو خیال رکھنے کی تاکید کی۔چنانچہ احباب جماعت گھر پر تعزیت کے لیےآنے شروع ہوئے۔اللہ تعالیٰ سب کو جزادے۔ اگلے دن اچانک فون کی گھنٹی بجی خاکسار نے فون اٹھایا تو میرے بہت ہی پیارے اور مہربان اور شفیق آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا فون تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری امی کی وفات کا علم ہوا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حضور نے ڈھارس بندھائی اور فرمایا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ آپ ابھی ان سے مل کر آئے ہو۔ پھر فرمایا کہ میں ان کا جنازہ غائب پڑھا دوں گا۔ چنانچہ حضورؒ نے امی جان کا جنازہ غائب پڑھایا۔

بے شمار لوگوں نے اور عزیزوں نے خطوط اور فون کے ذریعہ خاکسار سے تعزیت کی۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔خاکسار ہر ایک کا تہ دل سے ممنون ہے اور ان کی دعاؤں اور تعزیت کا بھی ممنون ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا سفر آخرت آسان فرمائےاور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور قرآن کریم نے جو والدین کا درجہ بیان فرمایا ہے ہمیں صحیح معنوں میں ان کی خدمت اور ان کے لیے دعاؤں کی توفیق دے۔ آمین۔ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button