الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ
(حصہ دوم)

گزشتہ شمارہ سے مکرم راشد بلوچ صاحب کے ایک تحقیقی مضمون کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جس میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ کا تفصیلی ذکرخیر کیا گیا ہے۔

٭…حضرت میاں اللہ بخش صاحبؓ بزدار نے ابتداء میں ہی حضرت مولوی ابوالحسن صاحبؓ بزدار کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ آپ 1290ھ میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے اس لیے اکثر عمر اسی کام میں گزاری مگر ہروقت ذکرالٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کی اولاد میں چارلڑکے اورایک لڑکی ہے اور سب صاحبِ اولاد ہوئے۔ آپ کاپانچواں بیٹا مولوی عبداللہ خان بلوچ مولوی فاضل ہوکر1936ءمیں فوت ہوئے جونہایت نیک لائق اور نرم طبیعت کے مالک تھے۔

حضرت میاں اللہ بخش صاحبؓ بزدار نے جب حضرت مسیح موعودؑ کا ذکرسنا تواپنے والد صاحب کو بتایا۔ انھوں نے فرمایاکہ اگرمہدی پیدا ہوگیا ہے تومَیں اُن پرایمان لے آیا ہوں۔ جلد ہی اُن کی وفات ہوگئی۔ پھر آپؓ کی ملاقات حضر ت مولوی ابوالحسن صاحبؓ بزدار سے ہوئی تو آپ نے اپنے فرقے کی مسجد کے علاوہ حضرت مولوی جندوڈا صاحبؓ کی مسجد میں بھی جانا شروع کردیا۔ آ پ کی ایک پیر صاحب کی بیعت میں تھے۔ ایک بار وہ آئے تو حضرت مولوی ابوالحسن صاحبؓ بھی بستی بزدار تشریف لائے ہوئے تھے۔ دونوں کی آپس میں بات چیت ہوئی مگرپیر صاحب نہ مانے۔ تاہم آپؓ نے وہاں سے اُٹھتے ہی تحریری بیعت کرلی اور چند ماہ بعد قادیان جاکر دستی بیعت کی توفیق پائی۔ اس سفر میں آ پ کو تین چار سو میل پیدل چلنا پڑا۔ چند دن ٹھہر کر جمعہ کے روزبیعت کرکے آپؓ واپس روانہ ہوئے۔ واپسی پرحضرت مسیح موعودؑ اور حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے آپؓ کے لیے دعا کی۔

بیعت کے بعد جب آپؓ واپس بستی بزدار تشریف لائے تو آپؓ کی بہت مخالفت ہوئی۔ عزیزواقارب نے بھی استہزاء کانشانہ بنایا اورکہتے تھے کہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے بیٹوں کی شادیاںکہاںکریں گے۔ مگرآپ فرماتے تھے کہ ہم روزبروزخداتعالیٰ کی محبت میں ترقی کرتے جارہے تھے، ہمارے دل میںسکون تھااور کسی کی جدائی کاغم نہ تھا۔ اس کے بعدحضرت اللہ بخش صاحبؓ کی بیوی اور آپ کی سوتیلی والدہ نے بھی تحریری بیعت لکھوادی۔ آپ نہایت غریب پرور تھے۔ اپنے کپڑے غرباء کودے دیتے تھے۔آپ کی والدہ پوچھتیں تو کہتے اس کوبہت ضرورت تھی۔آپ کوحدیث، قرآن اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا بہت زیادہ شوق تھا۔ کتب پڑھتے اورروتے تھے۔تمام نمازیں اور تہجد خشوع وخضوع سے اداکرتے تھے۔ نمازتہجدسے فارغ ہوکر اکثر حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام پڑھتے تو آنکھیں نم ہوجاتیں۔

دریائے سندھ کے کنارے آپ کی اراضی تھی۔ آپ کبھی کبھی وہاں جایاکرتے تھے۔ وہاں ایک کنواںتھا جس پرکچھ لکڑیاں پڑی رہتی تھیں۔ لوگ کہتے تھے یہاںبھوت ہیںکوئی نہ جاوے۔ مگر آپ نے سب لکڑیاں اٹھاکر بطور ایندھن استعمال کرلیںاوران کے وہم کودورکردیا۔

آپؓ کی وفات 7ستمبر1940ء کو قریباً 70سال کی عمر میں ہوئی اور بستی بزدار کے پرانے قبرستان میں تدفین ہوئی۔

٭…حضرت میاں اللہ دتہ صاحبؓ حضرت اقدسؑ کے عاشق تھے۔ حضورؑ کا ذکر خیر کرکے روح کو گرما دیتے تھے۔ آپ باربار قادیان تشریف لے جاتے تھے۔ فرماتے تھے سیدنا حضرت اقدسؑ کے معصوم چہرے کودیکھنے کے لئے بے قرار رہتا ہوں۔ آپؓ نے بہت لمبی عمر پائی۔خلافت ثانیہ کے دَور میں آپ کی وفات ہوئی۔

آپؓ اپنے قبول احمدیت کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: مجھ کو مولوی محمد ابوالحسن صاحب سکنہ بستی بزدار نے تبلیغ کی کہ حضرت مسیح موعودؑ ظاہر ہوگئے ہیں ان کی اس بات کو سن کر میں نے یہ خیال کیا کہ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ عیسیٰ تو آسمان پر ہیں یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ یہ زمین سے پیدا ہوکر سچا ہوجائے۔ پھر چند روز کے لئے مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور حقیقت حال کے انکشاف کے لئے دعائیں کیں تب موسم بہار ماہ چیت1901ء میں جمعرات کی رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص آواز دے رہا ہے کہ ’’اے میاں شخص مہدی آون والا ایہو اے جیہڑا آچکا‘‘ یہ آواز تین دفعہ دہرائی گئی۔ اس کے بعد صبح کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے وقت میں نے بیعت کا خط تحریر کردیا اور پھر مئی 1901ء میں خود قادیان حاضر ہوکر حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ میرے دوساتھی اَور بھی تھے۔ ہم نے وہاں ایک رات بعد از نماز عشاء دیکھا کہ آسمان میں یک دم روشنی پیدا ہوگئی جو حضرت مسیح موعودؑ کے مکان پر چھارہی تھی۔ نمازفجر پڑھنے گئے تو معلوم ہوا کہ اسی رات حضرت مسیح موعودؑکو الہام ہو اکہ نصر من اللّٰہ ……۔

جب قادیان سے واپس آنے لگے اور حضرت اقدسؑ سے اجازت طلب کی تو ساتھ ہی دعا کے لیے عرض کیا کہ لوگ اب ہماری مخالفت کریں گے۔ تب حضورؑ نے فرمایا کہ جو شخص تمہارے ساتھ بدگوئی کرے گا اس کا گلا بند ہو جائے گا۔

جب ہم خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ آئے تو راستے میں ایک عورت ملی۔ اس کو ہم نے مسیح موعود کی آمد کی خبر سنائی تو اس نے کہا کہ میں نے رات کو خواب میں دو شخص تمہاری شکلوں میں دیکھے تھے جو سبز پوشاک پہنے ہوئے تھے۔ وہ مجھے پکڑ کر رسول کریم ﷺ کے دروازے پر لے گئے۔ مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تم ہی ہو کیونکہ تمہاری شکل ان دونوں سے ملتی ہے۔اور پھر کہا میری بیعت کے لیے لکھ دو اور اگر تم نے نہ لکھا تو گواہ رہو کہ قیامت کے دن میں تمہاری دامن گیر ہوں گی۔

آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں 1901ء ماہ مئی میں قادیان پہنچا تو حضرت مسیح موعودؑ بیمار تھے۔ آپؑ نے اپنے احباب کو بلایا اور فرمایا: مَیں نے تم کو خدا اور رسول کے رستہ پر کردیا ہے اور یہی راستہ سیدھا ہے۔ زندگی کا کوئی اعتبا ر نہیں۔

1903ء یا 1904ء کا موقع ہے کہ مَیں قادیان شریف گیا۔ موقع عید کا تھا اور لنگر خانہ میں لنگر چلا اور عام و خاص کی تجویز ہونے لگی تو میری نیت میں فرق آنے لگاکہ جو مہدی موعود ہوگا وہ حکماً عدلاً ہوگا، مگر اب اس لنگر خانہ میں ریاء ہونے لگا ہے، مساوات نہیں۔ پھر صبح کو مسجد مبارک میں گیا تو حضرت مسیح موعودؑ اذان سے پہلے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا:مولوی نور الدین کہاں ہیں؟ حضرت مولوی صاحب نے عرض کی: حضور مَیں حاضر ہوں۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیرا لنگر ناخن کی پشت برابر بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ لنگرخانہ میں رات کو ریاء کیا گیا ہے اور اب جو لنگر خانہ میں کام کررہے ہیں ان کو علیحدہ کرکے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں اور ایسے شخص مقرر کیے جائیں جو نیک فطرت ہوں اور صالح ہوں۔

ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور ہم احمدی ہوچکے ہیں اور حضورؑ نے فرمایا ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھو مگر ہماری رشتہ داریاں ہیں، ہم مجبور ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ مَیں نے خدا سے خبر پا کر تم لوگوں کو سنا دیا ہے کہ یہ لوگ مُردہ ہیں۔ زندہ مُرد ہ کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔

مَیں اور اللہ بخش صاحب چار ماہ قادیان میں ٹھہرے۔

٭…حضرت حاجی فتح محمد صاحبؓ اردو اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ آپؓ بہت نیک،پاک اور تہجد گزار وجود تھے۔ حج کرنے کے لئے پیدل مکّہ گئے۔ بڑے بڑے پیر آپؓ کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے آپؓ کو عزت دیتے تھے۔ آپؓ بہت دعا گو تھے اور دعا میں بہت تاثیر تھی۔

٭…حضرت مہر خان صاحب رندؓ

٭…حضرت محمد عظیم صاحبؓ نے 1901ء میں حضرت مولانا ابوالحسن صاحبؓ کی دعوت سے احمدیت قبول کی اور اسی سال عازم قادیان ہوئے۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے عاشق صادق تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان پر اکثر تشریف لے جاتے۔ باوجود غربت کے آپؓ نے تعلیم حاصل کی۔ فارسی کے فاضل تھے اور بستی سہرانی میں قرآن پاک اور حدیث شریف کا درس دیتے تھے۔ زمیندارہ کا کام کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔

آپؓ ایک کامیاب مناظر تھے۔ ایک دفعہ آپ ایک جلسے میں تشریف لے گئے جہاں ایک مولوی حضرت اقدسؑ کے خلاف کذب بیانی کررہا تھا۔ اس پر آپؓ نے لوگوں کو مخاطب کر کے اُس کا جواب دیا تو شور پڑ گیا۔ایک مولوی نے آپؓ کو تیر مارنے کی کوشش کی لیکن نشانہ خطا ہوا اور جو اس جلسہ کا بانی مبانی تھا اس کی پگڑی میں جا کر لگا۔ پھر اُس نے ایک جوتا پھینکا جو آپؓ کے ناک پر لگا (جس کا داغ آخری عمر تک چہرے پر موجود رہا) فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے تبلیغ کی کارروائی کا یہ نشان پیش کروں گا۔

ایک دفعہ زیرتبلیغ دو بھائیوں کے اصرار پر آپؓ اُن کے ایک جلسے میں شامل ہوئے۔ وہاں بھی مولویوں نے فحش کلامی شروع کر دی۔ آپؓ نے انھیں سمجھایا کہ ایسا کرنا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے اس پر وہ لوگ اَور بگڑ گئے اور ڈنڈا لے کر آپ کو مارنے کے لیے لپکے۔آپ تو اﷲ کے فضل سے بچ گئے لیکن ان لوگوں کا آپس میں ہی جھگڑا ہوگیا۔اس پر زیرتبلیغ دونوں بھائیوں نے وہیں احمدیت قبول کرنے کا اعلان کردیا۔

1901ء میں جب آپؓ قادیان سے بیعت کرکے واپس تشریف لائے تو آپ کی بے انتہا مخالفت ہوئی۔ سات مولویوں کو لایا گیا جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ آپؓ کا نکاح ٹوٹ گیا ہے چنانچہ آپؓ کے سسر اپنی بیٹی کو لینے آگئے اور اُسے کہنے لگے کہ تمہارا شوہر چوڑھا ہو گیا ہے اس وجہ سے تمہارا اب اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں، تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ آپؓ کی بیوی نے کہا کہ یہ شخص پانچ وقت کی نمازیں پڑ ھتا ہے اور تہجدگزار ہے، میں بھی اس کے ساتھ تہجد پڑھتی ہوں۔اگر یہ بےدین ہوگیا ہے تو میں بھی بےدین ہوگئی ہوں اور مَیں آخری دم تک اپنے خاوند کے ساتھ ہی رہوں گی۔ اس پر لوگ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیے کہ یہاں مرزائی مرض آگیا ہے۔

حضرت محمد عظیم صاحب کی وفات 1946ء میں ہوئی۔ آپ کی دو بیویاں تھیں جن سے بارہ بیٹیاں اور چار بیٹے تھے۔ آپ بستی سہرانی (ڈیرہ غازی خان) میں مدفون ہیں۔

حضرت میاں محمد عظیم صاحبؓ بیان فرماتے تھے کہ مَیں نے حضورؑ سے عرض کیا کہ حضور! مَیں نے دوسری شاد ی کی ہے، دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد صالحہ عطا فرمائے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو اولاد صالحہ دے گا جو تہجد گزار ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دو لڑکے بہت مخلص عطا ہوئے۔ مَیں نے یہ بھی عرض کی کہ غیراحمدی مجھے تنگ کریں گے اس کے لیے حضور دعا فرمائیں۔ فرمایا: غیراحمدی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ حضور کی یہ دعا بھی قبول ہوئی۔ (آئندہ شمارہ میں جاری ہے)

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 26؍مئی 2014ء میں مکرم مرزا محمد افضل صاحب کی اپنے وطن کے حوالے سے کہی گئی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:

ردائیں ہیں ، حفاظت چھن گئی ہے

ہے سورج ، پر تمازت چھن گئی ہے

میری دیوار کا سایہ نہیں ہے

ہوئی تھی جو عنایت ، چھن گئی ہے

میرا ہمسایہ بھوکا سو گیا ہے

میرے دل سے ندامت چھن گئی ہے

میرے اسلاف کو جو دی گئی تھی

کہوں کس سے فراست چھن گئی ہے

یہاں دل ہو گئے ہیں بانجھ افضلؔ

یہاں لوگوں سے اُلفت چھن گئی ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button